قرآن مجید کا نزول مسلسل جاری تھا اور مدینہ کی نئی اسلامی ریاست کے ماحول کے مناسب آیات نازل ہوئی جارہی تھیں جن میں احکام کا تناسب مکی سورتوں سے بہت زیادہ تھا۔ مہاجرین میں سے بہت سے افراد ایسے نادار تھے کہ اب تک ان کے گھر بار اور معاش کا کوئی انتظام نہیں ہو سکا تھا۔ ان کو مسجد نبوی کے جنوبی گوشے میں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرے کے قریب تھا، ایک چبوترے پر جگہ دے دی گئی تھی جسے صفہ کہا جا تا تھا۔ یہ لوگ جو اصحاب صفہ کے نام سے مشہور ہوئے ، دن بھر وہیں رہے، قرآن کریم کی آیات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنتے اور انہیں یاد کرتے ۔ رات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے لیے ان دیگر صحابہ کے ساتھ بھیج دیا کرتے تھے جو اپنی معاش کا انتظام کر چکےتھے۔ صفہ کے بعض فقراء کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے ساتھ گھر لے جایا کرتے تھے۔
ظہر، عصر اور عشاء میں چار رکعات کی فرضیت۔ اذان کی مشروعیت:
اب تک ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نماز میں دو دورکعت پڑھی جاتی تھیں۔ مدینہ میں آنے کے کچھ دنوں بعد دو، دو کی جگہ چار چار رکعات فرض کر دی گئیں ۔
میثاق مدینہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوط خطوط پر استوار کرنے اور اسے اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے حتی الامکان انتظامات فرمانا چاہتے تھے ، چنانچہ آپ نے مدینہ، اس کے اطراف میں بسنے والے قبائل اور یہود سے ایک معاہدہ کر لیا جو قانون کی بالا دستی ظلم وزیادتی کے خلاف یکجہتی، بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں اتحاد، مذہبی معاملات میں آزادی، ایک دوسرے کے احترام، باہم مکر و فریب سے اجتناب، معاشرے کے کمزور اور نادار افراد کی امداد اور سابقہ اچھی روایات کی برقراری کی یقین دہانی پر مشتمل تھا۔ اس معاہدے کو میثاق مدینہ” کہا جاتا ہے جودنیا کی پہلی اسلامی ریاست کا شہری دستور تھا۔ اس معاہدے کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار کےعلاوہ مدینہ میں آبادتمام قوتوں کو ایک صف میں متحد کردیا تھا معاہدے