WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.53.17

دجال کے باریں میں مکمل معلومات

دجال کا نام اور اس کا معنی

یہودی اپنے اس نجات دہندہ کا آخری معلوم نام مائل ریو بل یا کھمبل بتاتے ہیں جو ہماری اسلامی اصطلاح میں ” طاغوت اور بتوں کا نام ہے۔ اور اس کا لقب ان کے ہاں مسیحا یا مسیا ہے۔

دجال کا اصل نام معلوم نہیں … احادیث میں آیا جو نہیں … یہ اپنے لقب سے مشہور ہے۔ ہمارے ہاں اس کا لقب دجال مشہور ہے اور یہ لفظ اس کی پہچان اور علامت بن گیا ہے۔

دجال کا مادہ “،د،ج ،ل” ہے۔ دجال کا لفظ فعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ دجال کا معنی ہے ڈھانپ لینا، پیٹ لینا۔ دجال اس لیے کہا گیا کیونکہ اس نے حق کو باطل سے ڈھانپ دیا ہے یا اس لیے کہ اس نے اپنے جھوٹ ملمع سازی اور تیس کے ذریعے سے اپنے کفر کولوگوں سے چھپا لیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ چونکہ وہ اپنی فوجوں سے زمین کو ڈھانپ لے گا ، اس لیے اسے دجال کہا گیا ہے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہی دجال اکبر بہت بڑے بڑے فتنوں والا ہے جو ان فتنوں کے ذریعے سے اپنے کفر کو ملمع سازی کے ساتھ پیش کرے گا اور اللہ کے بندوں کو شکوک و شبہات میں ڈال دے گا۔

“دجال” عربی زبان میں جعلساز ملمع ساز اور فریب کار کو بھی کہتے ہیں۔ جل”کسی نقلی چیز پر سونے کا پانی چڑھانے کو کہتے ہیں۔ دجال کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جھوٹ اور فریب اس کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف ہوگا۔ وہ ظاہر کچھ کرے گا اندر کچھ ہوگا۔ اس کے تمام دعوے منصوبے، سرگرمیاں اور پروگرام ایک ہی محور کے گرد گردش کریں گے اور وہ ہے : دجل اور فریب۔ اس کے ہر فعل پر دھوکا دہی اور غلط بیانی کا سایہ ہو گا۔ اس کی کوئی چیز، کوئی عمل کوئی قول ، اس شیطانی عادت کے اثر سے خالی نہ ہوگا۔

دجال اکبر کا نام مسیح کیوں رکھا گیا؟ اس کے بارے میں بہت سارے اقوال ہیں مگر سب سے زیادہ واضح قول یہ ہے کہ دجال کو مسیح کہنے کی وجہ یہ ہے اس کی ایک آنکھ اور ابرو نہیں ہے۔ ابن فارس کہتے ہیں مسیح وہ ہے جس کے چہرے کے دوحصوں میں سے ایک حصہ مٹا ہوا ہو، اس میں نہ آنکھ ہو اور نہ ہی ابرو ۔ اس لیے دجال کو مسیح کہا گیا ہے۔ پھر انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے: “وَأَنَّ الدَّجَّالَ مَمْسُوحُ العَيْنِ، عَلَيْهَا ظَفَرَةٌ غَلِيظَةٌ ” ” بلاشبه دجال مٹی ہوئی آنکھ والا ہے جس پر ایک غلیظ بعد آسانا خونہ (پھلی ) ہے۔“

دجال کون ہے

(1) سامری جادوگر :

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کو گمراہ کر کے شرک میں مبتلا کرنے والا سامری در حقیقت دجال تھا۔ دجال کو عالم اشیاء میں تصرف کا جو بھر پور اختیار دیا گیا ہے اس کے تحت سونے سے بنائے گئے بچھڑے کو متحرک، جاندار اور آواز لگانے والا بنا دینا کچھ بھی بعید نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے اتنا ز بر دست جرم سرزد ہونے کے باوجود ا سے جانے دیا اور جو بنی اسرائیل اس کے ورغلانے پر شرک میں مبتلا ہوئے تھے، ان کی تو یہ یہ طے ہوئی کہ ان کو قتل کیا جائے۔ آپ نے سامری سے فرمایا: “وإن لك موعدا لن تخلفه ” بے شک تیرے لیے ایک وقت مقرر ہے جس سے تو آگے پیچھے نہ ہو سکے گا۔ یہ اس لیے کہ سامری کو اگر اس وقت قتل کیا جاتا تو وہ نہ مرتا دجال جو مسیح کا ذب ہے، کی موت تو حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھ لکھی ہوئی ہے جو مسیح صادق ہیں۔ جب سامری سے کہا گیا: “فاذهب ، فان لك في الحيوةان تقول لامساس ” ” چلا جاء تیری یہ سزا ہے کہ زندگی بھر کہے گا مجھے نہ چھوڑا تو دجال المسمی بہ سامری مجروح حالت میں وہاں سے غائب ہو گیا اور اب کہیں روپوش ہے۔

دجال کا شخصی خاکہ

(3) امریکا:

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ امریکا دجال ہے۔ کیونکہ دجال کی ایک آنکھ ہوگی اور امریکا کی بھی ایک آنکھ ہے۔ اس کی مادیت کی آنکھ کھلی جبکہ روحانیت کی آنکھ چوپٹ ہے۔ وہ مسلمانوں کو ایک آنکھ سے اور غیر مسلموں کو دوسری سے دیکھتا ہے۔ اس کو اپنے فائدے کی چیز نظر آتی ہے، دوسرے کے نقصان سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ اس کی کرنسی پر ایک آنکھ بنی ہوئی ہے. دجالی آنکھ جو شیطانی تکون کے اوپر پر اسرار علامات کے بیچ میں ہے۔ اس کی سرزمین پر دجالی تہذیب جنم لے چکی ہے۔ پروان چڑھ رہی ہے اور مادی طاقتوں پر غیر معمولی اقتدار کی بدولت وہ نیوورلڈ آرڈر کے ذریعے دنیا میں دجالی نظام بر پا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ایک صدر ( جو جوتا کھا کر رخصت ہوا) کا بیان ریکارڈ پر ہے: ” مجھے خدا کی طرف سے براہ راست ہدایات ملتی ہیں۔ یہ تو دعوائے نبوت کے مترادف ہے اور دجال پہلے ایسا ہی دھوئی کرے گا۔ صدر صاحب موصوف یہ بھی فرما چکے ہیں: “ہم تمہیں پھروں کے دور میں بھیج دیں گے۔ یہ فرعونی لہجہ تو دعوائے خدائی کے ہم معنی ہے اور دجال آخر میں خدائی کا دعوی کرے گا۔ دجالیت در اصل جھوٹی خدائی کا دوسرا نام ہے وغیرہ وغیرہ۔

FB_IMG_1699447004924

صلح حد بیبیه (ذوالقعده )کا مکمل واقعہ

مسلمانوں کو مکہ چھوڑے ہوئے 4 برس ہونے والے تھے۔ وہ مسجد الحرام اور بیت اللہ کی زیارت کو ترس گئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوشدید اشتیاق تھاکہ اللہ کے گھر کا طواف کیا جائے اور مناسک ادا کیے جائیں۔

انہی دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں خود کو صحابہ کے ہمراہ مسجد الحرام میں داخل ہوتے اور مناسک کی تعمیل کرتے دیکھا۔ یہ اشار تھا کہ دلی آرمان پورے ہونے کو ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ محسوس کر چکے تھے کہ قریش مسلسل جنگوں کی وجہ سے کمزور پڑ چکے تھے، اس لیے یہ امید تھی کہ وہ آپ کو عمرے کی اجازت دے دیں گے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یکم ذو القعدہ سن ۲ ہجری میں چودہ سو صحابہ کرام کے ساتھ احرام باندھ کر عمرے کے ارادے سے مکہ روانہ ہو گئے ۔ قربانی کے جانور بھی ساتھ تھے ۔ عرب کے لوگ کسی ایسے قافلے پر حملہ نہیں کرتے تھے جس کے ساتھ قربانی کے جانور ہوں۔ یہ مہینہ مدنی تقویم میں ذوالقعدہ اور مکی تقویم میں رجب تھا قریش سمیت تمام اہل عرب کے نزدیک ان دنوں جنگ حرام تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان تھا کہ جنگ کی نوبت نہیں آئے گی لیکن قریش کو آپ کے آنے کی اطلاع ہوئی تو وہ بھڑک اٹھے، انہوں نے آپ کو روکنے کے لیے خلاف دستور جنگ کی تیاری شروع کر دی اور راستے میں ایک سلح جتھہ تعینات کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا تو فرمایا: ” قریش پر افسوس ہے، انہیں جنگوں نے نگل لیا، ان کا کیا بگڑ جائے گا اگر وہمجھے میرے حال پر چھوڑ دیں اور باقی عربوں کو ان کے حال پر

قریش سے مذاکرات :

اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام شاہراہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے راستے سے آگے بڑھے اور مکہ کے مضافات میں حدیبیہ پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقامی باشندے بُدیل بن ورقاء کو یہ پیغام دے کر قریش کی طرف بھیجا کہ ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے، ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے

قریش نے اس پیغام پر ذرا بھی غور نہ کیا۔ انہوں نے ایک جہان دیدہ شخص غروہ بن مسعود ثقفی کو سفیر بنا کر بھیجا ۔ تا کہ ڈرا دھمکا کرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس بھیج کر دیا جائے۔ تقریباً چھ سال کی طویل مدت میں یہ پہلا موقع تھا کہ قریش نے تلوار کی جگہ سفارت اور گفت و شنید کی راہ اختیار کی تھی۔ یہ اس بات کا عملی اعلان تھا کہ اسلام اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ہے ۔”غروہ بن مسعود نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر قریش کی منشاء کے مطابق کئی سخت باتیں کہیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کامعقول موقف سننے، آپ کا عزم و استقلال محسوس کرنے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے مثال عقیدت دیکھنے کے بعد اس نے جان لیا کہ مسلمان دینے والے لوگ نہیں۔ چنانچہ واپس آکر کہا: میں نے قیصر و کسری جیسےاحبت بادشاہوں کی بھی ایسی عزت و توقیر ہوتے نہیں دیکھی جیسی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عزت ان کے ساتھی کرتے ہیں ۔ 20

بیعت رضوان

اس دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ کر کے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر قریش کی طرف بھیج دیا۔ انہوں نے آپ کام کا موقف دوبارہ بڑی وضاحت کے ساتھ قریش کے رئیسوں کے سامنے پیش کر دیا۔ واپسی کے موقع پر قریش نے انہیں پیش کش کی کہ آپ چاہیں تو طواف کر لیں ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بولا : ” جب تک رسول اللہ علیہ وسلم کو طواف کی اجازت نہ ملے گی میں بھی طواف نہیں کروں گا ۔ اس پر قریش کے سردار گڑ گئے اور انہیں نظر بند کر دیا۔ ادھر حضرت عثان رضی اللہ عنہ کی واپسی میں تاخیر ہوئی تو مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بہت غم زدہ ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب تک صلح و صفائی کی راہ تلاش کر رہے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خون اتنا قیمتی تھا کہ اسے معاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ایک بول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور صحابہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے بدلے موت کی بیعت لی۔ سب نے دل وجان سے آمادگی ظاہر کی کہ عثمان رضی اللہ عنہ خون کا بدلہ لینے کے لیے ہم آخری سانس تک لڑیں گے۔

ہر قسم اسلامی پوسٹ اور تاریخ کے لیےAlkhroof.com ویزٹ کریں شکریہ

FB_IMG_1699604311087

عزوہ بدر کا مکمل واقعہ

حضرت عبداللہ بن جحش ان کے سریے میں پہلی بار ایساہوا تھا کہ قریش کے خلاف تلوار چلی اور ان کا آدمی مارا گیا۔ اس سے قریش کے رؤسا کو اپنی قوم میں اشتعال پھیلانے کا جو موقع ملا انہوں نے اسے ضائع نہ کیا اورمسلمانوں کے خلاف بڑے پیانے پر جنگ کی تیاری شروع کردی، جنگ کے لیے سب سے اہم چیز عسگری اخراجات تھے۔ قریش نے اپناسارا سرمایہ دے کر ابو سفیان کی قیادت میں ایک بڑا تجارتی قافلہ شام کی طرف روانہ کیا تاکہ اس کے منافع سے سامان جنگ تیارکیاجائے۔

قافلہ جاتے ہوئے مسلمانوں کی دسترس سے بچ کر نکل گیا تھا۔ واپسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخبر اس کی گھات میں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بروقت اطلاع مل گئی اور آپ ۸/ رمضان المبارک سن ۲ ہجری کو مہاجرین و انصار کے ان حضرات کو جوفوری طور پر میسر آسکے ساتھ لے کر اس قافلے کے لیے فوراً روانہ ہوئے

بچوں کا شوق جہاد

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے نکلے تو مدینہ سے ایک میل دور بر عقبہ کے پاس پڑاؤ ڈالا سب کو دیکھا بھالا۔ آپ کو ان میں کچھ کم عمرلڑکےکے نظر آئے جو جہاد کے ذوق و شوق میں ساتھ نکل آئے تھے۔ آپ نے انہیں واپس جانے کا حکم فرمایا۔ ان بچوں میں اسامہ بن زید، رافع بن حدیج ، براء بن عازب، زید بن ارقم اور زید بن ثابت رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل تھے۔ انہی میں سولہ سال کے عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی تھے جو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی تھے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہونے سے چھپتے پھر رہے تھے، ان کے بھائی سعد رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو پوچھا: “کیا ہوا؟ کہنے لگے: ڈرتا ہوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ لی تو چھوٹا سمجھ کر واپس نہ کردیں، میں اللہ کے راستے میں نکلنا چاہتا ہوں، شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت عطا فرما دے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا۔ آپ نے حسب معمول انہیں بھی واپس جانے کا حکم دیا جسے سن کر وہ رونے لگے ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جذبہ دیکھ کر اس مہم میں شرکت کی اجازت دے دی۔ مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی لشکر میں گھوڑے صرف دو اور اونٹ ستر تھے۔ ایک، ایک اونٹ پر تین، تین افراد باری باری سوار ہوتے ۔

قافلے کی جگہ مکہ کے لشکر سے سامنا:

ادھر قریشی قافلے کے سردار ابوسفیان بن حرب کو مسلمانوں کی آمد کی خبر ہوگئی تھی، اس لئے وہ عام راستہ چھوڑ کرسمندر کے کنارے کنارے قافلے کو تیزی سے لے چلے اور ساتھ ہی ایک سوار کو مکہ کی طرف دوڑایا تاکہ قریش مددکو پہنچیں اور اپنے تجارتی قافلے کی حفاظت کریں۔ قریش پہلے ہی مدینہ پرحملے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے اس خبر کا مکہ میں پہنچناتھا کہ فورا نوسو پچاس مسلح افراد کا ایک لشکر جن میں دوسوگھڑسوار اور سات سو اونٹ سوار تھے، مقابلے کے لیے نکل کھڑا ہوا لشکر میں قریش کے بڑے بڑے سردار شریک تھے۔ چھ سو افرادزرہ پوش تھے ۔

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع پہنچی کہ تجارتی قافلہ بیچ کر نکل گیا ہے اور قریش کا مسلح لشکر مقابلے کے لیے آیا چاہتا ہےتو آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دوسرے مہاجرین نے اپنی جان نچھاور کرنے کا عزم ظاہر کیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کا جذبہ دیکھنا چاہتے تھے۔ انصار آپ کو اس وعدے پر لائے تھے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کریں گے جس کا مفہوم مدینہ کی حدود میں تحفظ فراہم کرنا تھا۔ کھلے لفظوں میں یہ معاہدہ نہیں تھا کہ اگر مدینہ سے باہر قریش سے جنگ ہوئی تو انصار اس وقت بھی مدد کے پابند ہوں گے، اس لیے آپ انصار کی رائے کے منتظر رہے۔ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ آپ کی منشا سمجھ گئے اور اٹھ کر کہنے لگے۔

آپ شاید ہماری رائے جانا چاہتے ہیں۔ اللہ کے رسول ! آپ جس سے چاہیں صلح کریں، جس سے چاہیں لڑیں۔ ہم آپ پر ایمان لاچکےہیں۔ اللہ کی قسم! آپ فرمائیں تو ہم سمندر میں کود پڑیں۔

ایک اور انصاری حضرت مقداد رضی اللہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ہم بنی اسرائیلی نہیں جنہوں نے موسی علیہ السلام کو کہ دیا تھاکہ جاؤ تم اورتمہارا خدالڑو۔ نہیں، ہم تو آپکے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے لڑیں گے ۔

قریش کا لشکر بدر کی طرف بڑھ رہا تھا جو مدینہ سے ۷ میل (۱۲۰ کلومیٹر ) جنوب میں ایک وادی ہے۔ مسلمان بھی اس طرف روانہ ہو گئے۔ لشکر اسلام کا جنگی پرچم سفید رنگ کا تھا جو حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے تھاما ہوا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے دو سیاہ رنگ کے جھنڈے تھے، ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا حضرت سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس

یہاں قریش کے بعض غلام جو پانی کی تلاش میں نکلے تھے مسلمانوں کے ہاتھ میں آگے ۔ وہ ان کو مار پیٹ کر قریش کی تعدادوغیرہ معلوم کرنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ آپ نے خودان سے تفتیش شروع کی اور پوچھا قریش روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟ کہنے لگے : “نو “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑ دیا اورصحابہ سے فرمایا: ” دشمن کی تعداد نوسوسے ایک ہزار کے درمیان ہے ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست اور ذہانت تھی، عام طور پر ایک اونٹ نوے سے سو آدمیوں کو کافی ہوجا تا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نور حساب لگا لیا کہ قریش کتنی تعداد میں ہو سکتے ہیں، جو بالکل درست تھا، وہ نوسو پچاس تھے۔

قریش کا لشکر میدان میں داخل ہونا

قریش کا لشکر پیش قدمی کرتا ہوا میدان بدر کے دوسرے سرے تک پہنچ گیا جہاں پانی قریب تھا۔ مسلمانوں نے پہلے میدان کے اس کنارے ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا تھا جہاں سے پانی کئی میل دور تھا مگر پھر ایک صحابی حضرت خباب بن منذر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے چشمے کی طرف بڑھ کر اس کے قریب خیمے لگائے ، ساتھ ہی اللہ تعالی نے بارش نازل فرمادی جس سے مسلمان خوب سیراب ہو گئے یہاں کی ریتیلی زمین پختہ ہوگئی۔ یہی بارش قریش کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ؟ کیوں کہ ان کے پڑاؤ میں کیچڑا اور پھسلن پیدا ہوگئی۔

جمعہ 17رمضان ۲ ہجری (۲۵ مئی ۶۲۲ ) کا سورج طلوع ہوا تو قریش اپنی جنگی تیاری مکمل کر چکے تھے۔ ادھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی صفیں درست کر رہے تھے، حضرت سعد بن معاذرضی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک ٹیلے پر جور کی شاخوں اور چوں سے ایک سائبان بنادیا گیا تاکہ آپ وہاں تشریف رکھیں اور پورے میدان جنگ کا معائنہ کر کے احکامات دیتے رہیں۔ پیچھے تیز رفتار سواریاں بھی رکھی گئیں کہ خدانخواستہ شکست ہو جائے تو مدینہ کیطرف بچ نکلنے کی صورت باقی رہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ مقرر ہوئے ۔

صبح سویرے قریش کا لشکر سامنے آ گیا اور کچھ فاصلہ چھوڑ کر صف آرا ہوا۔ یہ اسلام اور کفر کا پہلا اور فیصلہ کن معرکہ تھا، ایک طرف تین سو تیرہ مسلمان تھے جن کا سامان جنگ بھی کم تھا۔ دوسری طرف تین گنا کفار بہترین اسلحے کے ساتھ موجود تھے۔ اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گڑ گڑا کر اللہ سے دعائیں کر رہے تھے ، آپ فرما رہے تھے: “اے اللہ! اگرآج مومنوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر تا قیامت روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بے تابی سے دعا فرما رہے تھے کہ آپ کی چادر شانہ مبارک سے بار بار سرک جاتی تھی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ چادر درست کرتے اور تسلی دیتے اللہ کے رسول ! آپ اپنے رب سے خوب مانگ چکے، اس نے آپ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ ضرور پوراہوگا ، اللہ آپ کی ضرور مدد کرے گا اور آپ کو فتح مند فرمائے گا۔

دو صحابیوں کے لیے خوشخبری

دو صحابی عین اس وقت لڑائی میں شرکت کے لیے پہنچے مسلمانوں کو بڑی مسرت ہوئی ، کیوں کہ اس وقت مسلمانوں کو اپنی عددی کمی کا شدت سے احساس ہورہاتھا، ایسے میں اگر ایک شخص بھی مزید پہنچ جاتا تو غنیمت تھا ، مگر آنے والوں سے رحمت عالم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم شہید ہو ۔“

All islamic post ke leya Alkhroof.com visit kro

FB_IMG_1699533988158

اصحاب صفہ اسلام کا پہلا مدرسہ

قرآن مجید کا نزول مسلسل جاری تھا اور مدینہ کی نئی اسلامی ریاست کے ماحول کے مناسب آیات نازل ہوئی جارہی تھیں جن میں احکام کا تناسب مکی سورتوں سے بہت زیادہ تھا۔ مہاجرین میں سے بہت سے افراد ایسے نادار تھے کہ اب تک ان کے گھر بار اور معاش کا کوئی انتظام نہیں ہو سکا تھا۔ ان کو مسجد نبوی کے جنوبی گوشے میں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرے کے قریب تھا، ایک چبوترے پر جگہ دے دی گئی تھی جسے صفہ کہا جا تا تھا۔ یہ لوگ جو اصحاب صفہ کے نام سے مشہور ہوئے ، دن بھر وہیں رہے، قرآن کریم کی آیات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنتے اور انہیں یاد کرتے ۔ رات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے لیے ان دیگر صحابہ کے ساتھ بھیج دیا کرتے تھے جو اپنی معاش کا انتظام کر چکےتھے۔ صفہ کے بعض فقراء کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے ساتھ گھر لے جایا کرتے تھے۔

ظہر، عصر اور عشاء میں چار رکعات کی فرضیت۔ اذان کی مشروعیت:

اب تک ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نماز میں دو دورکعت پڑھی جاتی تھیں۔ مدینہ میں آنے کے کچھ دنوں بعد دو، دو کی جگہ چار چار رکعات فرض کر دی گئیں ۔

میثاق مدینہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوط خطوط پر استوار کرنے اور اسے اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے حتی الامکان انتظامات فرمانا چاہتے تھے ، چنانچہ آپ نے مدینہ، اس کے اطراف میں بسنے والے قبائل اور یہود سے ایک معاہدہ کر لیا جو قانون کی بالا دستی ظلم وزیادتی کے خلاف یکجہتی، بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں اتحاد، مذہبی معاملات میں آزادی، ایک دوسرے کے احترام، باہم مکر و فریب سے اجتناب، معاشرے کے کمزور اور نادار افراد کی امداد اور سابقہ اچھی روایات کی برقراری کی یقین دہانی پر مشتمل تھا۔ اس معاہدے کو میثاق مدینہ” کہا جاتا ہے جودنیا کی پہلی اسلامی ریاست کا شہری دستور تھا۔ اس معاہدے کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار کےعلاوہ مدینہ میں آبادتمام قوتوں کو ایک صف میں متحد کردیا تھا معاہدے

FB_IMG_1699453572758

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آمد

شہر مدینہ کے لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے روانگی کی اطلاع مل چکی تھی ۔ غالباً انہیں یہ بھی علم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات سے صبح تک سفر اور دو پہر کو آرام کرتے ہوئے آرہے ہیں۔) اس لیے وہ روزانہ فجر ادا کرتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں شہر کے باہر آتے اور دور دور تک نظریں دوڑاتے ۔ جب گرمی زیادہ ہو جاتی تو واپس لوٹ جاتے ۔

قبا میں تشریف آوری

آخر ایک دن جب کہ سورج خاصا بلند ہو چکا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یثرب کی نواحی بستی قبا کے قریب پہنچ گئے۔ مدینہ کے لوگ اس وقت حسب معمول انتظار کے بعد گھروں کو واپس جا رہے تھے کہ اس دوران مدینہ کے ایک یہودی نے جو اپنے قلعے پر چڑھ کر صحرا کا نظارہ کر رہا تھا، دیکھا کہ بہت دور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی سفید کپڑوں میں ملبوس چلے آرہے ہیں، تپتی ریت پر سراب میں ان کا عکس جھلک رہا ہے۔ یہودی بے ساختہ پکارنے لگا:اہل عرب تمہاری خوش بختی آگئی جس کے تم منتظر تھے۔“

یہ سنتے ہی انصار نے عربوں کی استقبالیہ رسم کے مطابق ہتھیار سنبھالے اور دیوانہ وار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے دوڑ پڑے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استقبالیہ جلوس کے درمیان چلتے رہے یہاں تک کہ قبا میں بنو عمرو بن عوف کی بستی تک پہنچ کر ( جہاں اکثر مہاجرین قیام کرتے تھے ) کھلے میدان میں رک گئے اور خاموشی سے بیٹھ گئے ۔ حضرت ابوبکر ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زحمت سے بچانے کے لیے خود کھڑے ہو کر لوگوں سے ملنے لگے ۔ جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے نہیں دیکھا تھا ، وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو آ کر سلام کرنے لگے۔ اس دوران سورج عین سر پر آ گیا اور گرمی نا قابل برداشت ہوگئی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر اٹھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پر سایہ کر دیا ۔ اب سب لوگوں کو پتاچل گیا کہ مخدوم کون ہے اور خادم کون ۔ یہ واقعہ پیر ۸ ربیع الاول ( ۲۰ ستمبر622 ) کا ہے

مسجد قبا کی تاسیس:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرو بن عوف کے ہاں ٹھہرے، وہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو آج بھی مسجد قبا کے نام سے مشہورہے۔ یہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازیں ادا فرماتے رہے۔ یہ دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمیر کردہ پہلی مسجد تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی رکھوائی ہوئی امانتیں واپس کرنے کی ذمہ داری سونپ کر آئے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ تین دن میں یہ کام انجام دے کر روانہ ہوئے اور یہیں قیامیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آملے۔

مدینہ منورہ میں والہانہ استقبال:

قا میں چار دن قیام کر کے جمعہ ۱۲ ربیع الاول (۲۴ ستمبر ) کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی سمت روانہ ہوئے۔ راستے میں جمعہ کی نماز بنی سالم بن عوف کے محلے کی مسجد میں ادا فرمائی ۔ یہ اس سرزمین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نماز جمعہ تھی۔ای شام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ میں داخل ہوئے تو لوگ راستوں ، گلیوں اور مکانات کی چھتوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدارکرنے کے لیے جمع تھے۔ ہر طرف نعرے لگ رہے تھے:

اللهُ أَكْبَر ، جَاءَ مُحَمَّد، اللهُ أَكْبَر ، جَاءَ رَسُولُ الله ،

معصوم بچیاں مسرت سے سرشار ہو کر یہ اشعار پڑھا رہی تھیں

قافلوں کو رخصت کرنے والی گھائی کی اوٹ سے چودھویں کا چاند نکلا

ہم پر شکر ادا کر نالازم رہے گا جب تک اللہ کو پکارنے والا کوئی فرد باقی رہے۔

ے وہ رسول ! جو ہماری طرف بھیجے گئے آپ ایسادین لائے ہیں جس کی ہر حال میں پیروی کی جائے گی ۔

FB_IMG_1699174909920

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر ہجرت (12ربیع الاول1ہجری)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے ابھی تک ہجرت کا حکم نہیں ملا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے پر رکے ہوئے تھے، ان کی یہی تمنا تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کی معیت نصیب ہو جائے ۔ انہوں نے سفر کے لیے دو اونٹنیاں لے لیں اور چار ماہ تک انہیں ببول کے پتے کھلا کر پالتے رہے۔

صحابہ مکہ سے روانہ ہوتے رہے۔ عثمان بن عفان، عبد الرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص، زبیر بن عوام طلحہ بن عبد الله، زید بن خطاب ، حمزہ بن عبد المطلب اور زید بن حارث رضی اللہ عنہ سمیت رفتہ رفتہ بھی ہجرت کر گئے ۔ صرف چند ایسے بے کس مسلمان پیچھے رہ گئے جو کفار کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے اور ہجرت سے بالکل عاجز تھے

قاتلانہ حملے کی سازش:

قریش کو مسلمانوں کی ہجرت سے یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ وہ ایک مرکز بنانے کے بعد مکہ کے لیے خطرہ بن جائیں گے، چنانچہ عمائد مکہ نے دارالندوہ میں مجلس مشاورت منعقد کی تاکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسا آخری اور قطعی فیصلہ کیا جائے کہ یہ نیادین مزید پھیلنے نہ پائے۔ مجلس میں ہر خاندان کے رئیس مثلا: امیہ بن خلف ، ابوسفیان، ابوجہل ، نظر بن حارث وغیرہ موجود تھے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کردیا جائے۔ کسی نے کہا کہ جلا وطن کر دینا کافی ہے۔

ابو جہل اور شیطان کا راۓ

ابو جبل کی رائے یہ تھی کہ قتل کر دیا جائے۔ اہل مجلس نے اس کو ترجیح دی مگرمسئلہ یہ تھا کہ قبائل کی معاشرت میں ہر فرد کی جان پورے قبیلے کی امانت تصور کی جاتی تھی۔ خدشہ تھا کہ اس صورت میں بنو ہاشم اور بنوعبد مناف کی تمام شاخیں یک جاکر بدلہ لینے پر تر آئیں گی اور مکہ میں خانہ جنگی چھڑ جائے گی ۔ آخر طویل بحث کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ ہر خاندان کی ایک ایک فرد چن لیا جائے اور ان کی جمعیت آج رات بیت نبوی کا محاصرہ کرے اور مشترکہ طور پر قاتلانہ حملہ کرے۔

ہجرت کا حکم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر پر

اسی دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ کی طرف سے فی الفور ہجرت کا حکم مل گیا۔ قریش کے کئی لوگوں نے اس قدر دشمنی کے باوجوداپنی قیمتی امانتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھوانے کا معمول ترک نہیں کیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امانتیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیں کہ ان کے مالکوں کو پہنچا کر بعد میں وہ بھی یثرب آجا ئیں۔

سفر ہجرت کی حکمت عملی

چونکہ یثرب تک سیدھا جانے میں پورا خطرہ تھا کہ قریش تعاقب کر کے پکڑ لیتے اس لیے بہت سوچ سمجھ کر نکلنے کی تقدیر کی گئی، جس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ اور آزاد کردہ غلام عامر بن فہیر رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شریک کر لیا گیا۔ عبدالرحمن بن ابی بکر ابھی اسلام نہیں لائے تھے ۔ انہیں بے خبر رکھا گیا۔ طے یہ ہوا کہ دونوں حضرات مکہ کے باہر غار ثور میں چھپ جائیں گے، تین راتیں وہاں چھپ کر گزاریں گے۔ اس دوران اہل مکہ کی خبریں لانے کا کام عبداللہ بن ابی بکر کریں گے، تیسرے دن جبکہ قریش تھک ہار کر بیٹھ چکے ہوں گے، اونٹوں پر سوار ہو کر ایک غیر معروف راستے سے منزل مقصود کا سفر کیا جائے گا۔ غیر معروف راستے میں بھٹکنے سے حفاظت کے لیے عبداللہ بن ازیقط نامی ایک پیشہ ور راہ نما کو اجرت پر ساتھ لینا بھی طے تھا جو مشرک ہونے کے باوجود پیشہ ورانہ راز داری میں پکا تھا۔

اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اونٹنیوں پر سوار ہو کر مکہ سے نکلے، ایک ٹیلے پر چڑھ کر آپ نے اس مقدس شہر کو مخاطب کر کے کہا: “اے مکہ ! اللہ کی قسم! تو زمین کا بہترین شہر اور اللہ کو سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اگرمجھے نکالانہ جاتا تومیں تجھ سے ہرگز نہ نکتا۔ یہ واقعہ جمعہ28 صفر ( مدنی) یکم ہجری (۱۰ستمبر 622 ء) کا ہے

غار ثور میں روپوشی اور قریش کی بھاگ دوڑ :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تو سیدھے غار ثور پہنچے اور اونٹنیاں عبد اللہ بن اریقط کے حوالے کر دیں۔ اس سے طے کر لیا گیا تھا کہ تیسری شب وہ سواریاں غار کے پاس لے آئے گا۔ طےشدہ ترتیب کے مطابق اس دوران عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ جو نہایت چالاک لڑکے تھے، شام کو اہل مکہ کی بھاگ دوڑ اور مشوروں کی خبریں غار لاتے اور رات غار میں گزارتے۔ عامر بن فہیر رضی اللہ عنہ و ساردن بکریاں چراتے اور عشاء کے بعد غار میں آکر بکریوں کا دودھ پیش کرتے ۔ قریش نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوشہر میں نہ پا کر ہر راستے پر آپ کی تلاش شروع کر دی تھی ۔ ان مقدس ہستیوں کو قتل یا گرفتار کرنے والے کے لیے سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ اس خطیر انعام کی حرص میں درجنوں لوگ اس مہم پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ایک موقع پر کھوج لگانے والے کچھ لوگ غار ثور کے دہانے تک آگئے ،تب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بے چینی نا قابل بیان تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جان کا خوف انہیں لرزائے دے رہا تھا۔ وہ سرگوشی میں بولے : یارسول اللہ! اگر یہ لوگ اپنے پیروں کی طرف جھانک کر دیکھ لیں تو ہم نظر آجائیں گے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پورے اطمینان سے بولے : اے ابو بکر گھبراو نہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“ قریش اتنے قریب پہنچ کر بھی نا کام واپس لوٹ گئے ۔

غار ثور سے دار ہجرت کی سمت

تین راتوں کی روپوشی کے بعد رات کے آخری پہر حضور ملی ای ایم او حضرت ابوبکر بنایا ہے مارے نکلے۔ دونوںاونٹنیاں سواری کے لیے تیار تھیں۔ رہبر عبد اللہ بن اُر فقط بھی آگیا تھا اور عامربن بیرونی نوید بھی۔ اب چار افراد کا یہقافلہ ایک پیچیدہ راستے سے جو معروف شاہراہ کی بہ نسبت ساحل سے قریب تھا، پیر یکم ربیع الاول (۱۳ نمبر ۶۲۲ ء ) کواپنی منزل کی سمت روانہ ہوا۔ رات اور اگلے دن دو پہر تک سفر تیزی سے جاری رہا۔ گرمی کی شدت تھی۔ دور دور تک آدم تھانہ آدم زاد ۔ گرمی اور تھکن کی وجہ سے ظہر کے وقت یہ حضرات سایہ تلاش کرنے لگے ۔ آخر ایک اونچی چٹان نظر آئی جس کا کچھ سایہ تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے زمین کو ہموار کر کے اس پر اپنی چادر بچھائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ آرام فرمائیے ۔”

FB_IMG_1697388361663

بیت المقدس کی تاریخ

بیت المقدس یا القدس یا یروشلم یہ بہت پرانا شہر ہے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بیت المقدس اور مسجد اقصی دونوں ایک ہی عمارت کے دو نام ہیں، یہ غلام فہمی ان تصویروں کے ذریعے پھیلی ہے جن میں شہر اقبۃ الصخرۃ نظر آتا ہے اور جس کے برابر میں لکھا رہتا ہے بیت المقدس، حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس ایک قدیم شہر کا نام ہے جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے، اور جس کے صحن میں دل کش قربتہ الصخرہ موجود ہے، اور وہ بھی بہت محترم ہے، اس کے علاوہ بھی وہاں مسجدیں اور قبے ہیں، انبیاء کرام کی قبریں ہیں ، اور دوسری یادگاریں ہیں۔

بیت المقدس کی نام کا واقعہ

یروشلم جزیرۃ العرب کے اس خطہ کو کہا جاتا ہے جو موریہ میہون ، اکرا اور بزلیتہا نامی چار پہاڑیوں کے درمیان آباد ہے، اس کی بنیاد مملکت سالم کے بادشاہ ملک صدق نے رکھی تھی، جس ملک میں یہ شہر آباد ہے اسے اس زمانہ میں یہود یہ کنعان اور شام کہا جاتا تھا مکمل ایک صدی کے بعد جب اس شہر پر یہودی قابض ہوئے تو انھوں نے اس کا نام یا یوں رکھ دیا، پھر مرور زمانہ کے ساتھ یو سالم ہوا، اور اخیر میں یروشلم ہو گیا، اس شہر کو القدس یا بیت المقدس کہا جاتا ہے، یہ شہر اگر چہ مسلمان، عیسائی اور یہودی آسمانی مذاہب کی حامل تینوں بڑی قوموں کے یہاں مقدس ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ بیت المقدس اور مسجد اقصی تاریخ کے تمام ادوار میں اہل اسلام ہی کی ملکیت رہی، بیت المقدس کے تعلق سے عیسائیوں اور یہودیوں کا حق تسلیم کرنا سراسر غلط ہے، اس شہر کی ابتدائی تاریخ کا سرسری جائزہ اس حقیقت کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہودی القدس یا فلسطین کے اصل باشندے نہیں ہیں ، بیت المقدس کے اصل باشندے ہونے کا یہودی دعوی محض مغالطہ ہے، قدیم تاریخی مآخذ سے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے کے اصل باشندے کنعانی عرب تھے، طوفان نوح کے بعد جو قو میں سامی اقوام سے مشہور ہوئیں ان کا اولین مسکن جزیرۃ العرب تھا، جس کی سرحدیں مشرق میں خلیج عقبہ اور فلسطین تک اور شمال مشرق میں نہر فرات تک پھیلی ہوئی ہیں، علامہ سید سلیمان ندوی کے مطابق اکثر قابل لحاظ یورپی مورخین نے اس کی تائید کی ہے، یہود کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ القدس میں جس کی تعمیر کنعانیوں نے کی تھی، تقریباً ۱۳۰۰ برس قبل مسیح داخل ہوئے ، اور ۲۰۰ سال کی طویل کشمکش کے بعد اس پر قابض ہوئے ، اس لحاظ سے القدس یا یروشلم کے اصل باشندے یہودی نہیں کنعانی تھے، القدس یا فلسطین میں یہودیوں کی آمد قیقی باشندوں کے طور پر نہیں؛ بلکہ نامین کے طور پر ہوئی، اصل باشندوں کا قتل عام کر کے اس علاقہ پرر سیبودی قابض ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے ذریعہ بنی اسرائیل کو نبوت و بادشاہت عطا فرمائی تھی ان پیغمبروں کے ذریعہ ان کی متحدہ ریاست قائم ہوئی لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد یہودی نہ صرف آپسی خانہ جنگی کاشکار ہوئے ؛ بلکہ اپنے پیغمبروں کی تعلیم سے دوری اور خدا کی نافرمانی کے سبب وہ متعدد مرتبہ عذاب الہی سے دو چار ہوئے، یہودیو سلطنت کے پانچویں سال شاہ مصر سیق نے القدس پر چڑھائی کی تھی، چنانچہ کتاب سلاطین میں لکھا ہے: “رجیعام بادشاہ کے پانچویں سال شاہ مصر سیق نے یروشلم پر چڑھائی کردی، اور اس نے خداوند کے گھر کے خزانوں اور شاہی محل کے خزانوں کو لے لیا اس کے بعد تقریباً ۰ ۷۴ ق م میں آشوریوں نے میہود کو فلسطین سے بے دخل کر دیا، پھر بخت نصر کا حملہ ہوا جس میں توریت ضائع ہوگئی ، اور بہت سے یہودی مارے گئے، اور کچھ کو باہل لے جا کر قید کیا گیا، بخت نصر کے حملہ کے بعد پھر ایرانیوں کے ذریعہ کچھ عرصہ کے لیے فلسطین ہی میں انھیں آباد ہونے کا موقع ملا مگر زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یونانی اور رومی ان پر قبر ابی بن کر ٹوٹ پڑے، اور انھیں فلسطین سے بے دخل کر دیا المیلس رومی کے حملہ میں لاکھوں میں یہودی قتل کر دئے گئے، اور بیکل مقدس کو جلا دیا گیا ، اس حادثہ کے ۶۵ سال بعد قیصر کے عہد میں پانچویں مرتبہ یہودیوں نے بغاوت کی مگر انھیں شکست سے دو چار ہونا پڑا، قیصر نے نہ صرف یہودیوں پر بدترین ظلم کیا؛ بلکہ بیل کو تباہ کر کے اس پر ہل چلوا دیا، اور وہاں ایک مندر تعمیر کروایا، اسی زمانہ میں یروشلم کا نام ایلیاء رکھ دیا گیا، قیصر کے حملہ میں تقریبا پانچ لاکھ یہودی مارے گئے ، اس سے قبل بخت نصر کے حملہ میں ہیکل سلیمانی کو میں بو کر دیا گیا تھا، اور طویل عرصہ تک میبودی جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے، ایرانی دور اقتدار میں جب پھر سے یہودی جنوبی فلسطین میں آباد ہوئے تو دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی گئی ، اس مرتبہ یہودی ۴۰۰ سال سے زیادہ نہیں تک سکے، رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی پاداش میں جب انھیں دوبارہ جلا وطن کردیا گیا تو جنوبی فلسطین میں عرب قبائل اسی طرح آباد ہوئے جس طرح وہ ۸۰۰ سال پہلے شمالی فلسطین میں آباد تھے۔

اس پوری تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ یہودی فلسطین اور بیت المقدس کے اصل باشندے نہیں تھے، اور ارض فلسطین پر ان کا دعوی کسی طرح درست نہیں، شمالی فلسطین میں یہودیوں کی مدت اقامت ۴۰۰ سال اور جنوبی فلسطین میں ۸۰۰ سال سے زیادہ نہیں: جب کہ یہودیوں کے برخلاف عرب قبائل شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں ۲۰۰۰ سال سے آباد ہیں، پھر لاھ میں حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کرلیا، اور وہاں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا، اموی خلیفہ عبدالملک کے زمانہ میں یہاں مسجد اقصی اور قبۃ الصخرۃ کی عالی شان تعمیر ہوئی ، فتح بیت المقدس کے ۴۶۲ سال بعد ! میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر بیت المقدس پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا جس میں ستر ہزار مسلمان شہید کر دئے گئے لیکن ۸۸ سال بعد ے لاء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس پھر فتح ہو کر مسلمانوں کے زیر نگوں آ گیا ، ۱۲۲۸ء سے ۱۲۳۴ ء تک اس مقدس شہر کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھین لیا گیا ، اس طرح ایک سو سال کے علاوہ ے ا ء سے ۱۹۱۷ء تک یہ مبارک شہر مسلمانوں ہی کے قبضہ میں رہا، بالآخرے 191 ء میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے علاقے برطانیہ کے زیر قبضہ آ گئے ، اور یہیں سے فلسطین اور بیت المقدس کے خلاف سازشوں کا جال بنا جانے لگا، برطانیہ نے ۲ نومبر ۱۹۱۷ء میں یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے بالفور معاہدہ کہا جاتا ہے، اس معاہدہ میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے ایک یہودی نمائندہ کے نام اپنی ایک تحریر کے ذریعہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن بنانے کی اجازت دے دی، برطانیہ کا یہ معاہدہ بدترین خیانت تھی، ۱۹۳۵ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین میں یہودی حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ایک حصہ پر یہودیوں کو اپنی حکومت بنانے کی قانونی اجازت دے دی، ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کیا، بالآخر ۱۹۳۸ میں ارض فلسطین پر اسرائیل کی شکل میں ایک ناجائز مملکت وجود میں آگئی ، خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ عبدالحمید ثانی پر جب مغربی ملکوں نے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کے لیے دباؤ ڈالا توعثمانی خلیفہ نے صاف الفاظ میں کہا کہ سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا؛ کیوں کہ فلسطین میرا نہیں امت کا ہے، اور امت نے اس سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنا خون بہایا ہے1923ء سے ۱۹۲۷ء تک القدس شہر مسلمانوں کے ملک اُردن ہی کا ایک حصہ رہا ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطین دیگر علاقوں کے ساتھ القدس شہر پر بھی اسرائیل قابض ہوا؛ اگر چہ اسرائیل طاقت کے زور پر القدس پر قابض ہوا، لیکن اس سے القدس قانونی طور پر اسرائیل کا حصہ ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو سکتا ہے؛ اس لیے کہ جس وقت برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سر پرستی میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا، اس وقت یہ بات طے کر دی گئی تھی کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہوگا ,

FB_IMG_1697388361663

مسجد اقصیٰ کی موجودہ حالات

مسجد اقصی کی فضیلت

مسجد اقصی عام مساجد سے بہت بلند اور اونچی شان رکھتی ہے، اس کے دامن میں بےبہا برکتیں اور سعادتیں رکھ دی گئی ہیں، اہل ایمان کے دلوں میں اس مسجد کی بڑی وقعت اور محبت رچی بسی ہوئی ہے، قرآن وسنت میں اس مسجد کی اور اس علاقے کی جہاں یہ مسجد واقع ہے اس کی فضیلت پر کئی دلائل اور ارشادات موجود ہیں جنھیں پڑھ کر ایک مخلص مومن کے دل میں اس مسجد کی خاص عقیدت اور محبت دل میں اتر جاتی ہے۔

مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ ہے کہ یہ مسجد جس سرزمین پر واقع ہے اللہ تعالی نے اس سر زمین کو مبارک قرار دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد

سبحان الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام الى المسجد الاقصى الذي باركنا حوله.

ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کومسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی جس کے ارد گر دہم نے برکت رکھی: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کومسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی جس کے ارد گر دہم نے برکت رکھی ہے

بعض اہلِ علم کے قول

بعض اہل علم فرماتے ہیں: اگر اس مسجد کے لیے اس قرآنی فضیلت کے علاوہ اور کوئی فضیلت نہ ہوتی تب بھی یہی ایک فضیلت اس کی عظمت و بزرگی اور شان کے لیے کافی تھی

جس ملک میں مسجد اقصی واقع ہے وہاں حق تعالیٰ نے بہت کی ظاہری اور باطنی برکات رکھی ہیں ، مادی حیثیت سے چشمے، نہریں، غلے، پھل اور میووں کی افراط اور روحانی اعتبار سے دیکھا جائے تو کتنے انبیاء ورول علیہم السلام کا مسکن و مدفن اور ان کے فیوض وانوار کا سر چشمہ رہا ہے۔

مسجد اقصیٰ کی ایک اور بڑی فضیلت

مسجد اقصی کی ایک یہ فضیلت بھی قابل ذکر ہے کہ جس وقت اللہ تعالی نے خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم اعز از معراج کی صورت میں عطا فرمایا، جو ایک عظیم معجزہ بھی ہے، توسفر میں ایک اہم منزل وہ پڑاؤ تھا جو آپ نے مسجد اقصی میں فرمایا، پھر یہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ کو آسمان کی بلندیوں کی طرف لیجایا گیا۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں۔ نبی کریم صلی ہے کہ یہ فرماتے ہیں : “میرے پاس براق لایا گیا، یہ ایک سفید رنگت کی لمبی سواری تھی ، گدھے سے کچھ بڑی اور خچر سے کچھ چھوٹی ، اس کا ایک قدم انتہائے نظر کی مسافت پر پڑتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میں اُس پر سوار ہوا، یہاں تک کہ میں بیت المقدس پہنچ گیا ، وہاں پہنچ کر اس سواری کو اس حلقے سے باندھ دیا جس حلقے سے دیگر انبیاء کرام علیہم السلام (اپنی سواریاں ) باندھتے ہیں، پھر میں مسجد میں داخل ہوا، اس میں دورکعت اداء کیں ، پھر باہر نکل آیا ، حضرت جبرئیل علیہ السلام دودھ اور شراب کا ایک الگ الگ برتن میرے پاس لائے ، میں نے ان میں سے دودھ والا برتن لے کیا، اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے فطرت کے عین مطابق چیز کو پسند فرمایا ہے۔ اس کے بعد وہ ہمیں آسمان کیطرف لے کر چل پڑے ۔ (مسلم : ۱۶۲)

مسجد اقصیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے سفر پر وہاں تشریف لے گئے ساریے انبیاء کرام وہاں جمع تھے سب کی امامت فرمائی ، شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں لے جانے میں یہ بھی اشارہ ہوگا کہ جو کمالات انبیائے بنی اسرائل وغیرہ پر تقسیم ہوئے تھے، آپ کی ذات مقدسہ میں وہ سب جمع کر دیئے گئے، جونعمتیں بنی اسرائیل پر مبذول ہوئی تھیں، اُن پر اب بنی اسماعیل کو قبضہ دلایا جانے والا ہے، کعبہ اور بیت المقدس دونوں کے انوار و برکات کی حامل ایک ہی امت ہونے والی ہے۔ (تفسیر عثمانی )

مکہ اور مدینہ منورہ کے بعد یہ مقدس ترین مقام ہے، بیت المقدس کی سرزمین حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن رہی ہے، جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے اسی سرزمین کی طرف ہجرت فرمائی حضرت داؤد علیہ السلام نے اسی سرزمین کو جائے سکونت کے طور پر اپنایا، اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا، حضرت سلیمان علیہ السلام اسی جگہ سے ساری دنیا پر حکومت کرتے تھے ، حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے، اس شہر میں حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سرزمین کے تعلق سے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ تم اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ، يُقَومِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَلَا تَرتَدُّوا عَلى أدْبَارِكُم فَتَنْقَلِبُوا الخَسِرِينَ (المائدة: ٢١) اے میری قوم! تم اس پاک زمین میں داخل ہو، جس کو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، اور اپنی پیٹھیں نہ پھیرلو، ورنہ نقصان اٹھاؤ گے

قصۂ جالوت و طالوت کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے، بیت المقدس میں پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر ۵۰۰ گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے، یہ وہ مقام ہے جس کی زیارت کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تلقین فرمائی ہے، یہی وہ سرزمین ہے جہاں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے ، حضرت عیسی علیہ السلام کو جب ان کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تعالی نے اس شہر سے انھیں آسمان پر اٹھالیا۔ قیامت کے قریب حضرت عیسی علیہ السلام کا زمین پر نزول بھی اسی مقدس سرزمین پر ہوگا، اسی شہر کے مقام لد پر حضرت عیسی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے ، ینزل عیسی بن مریم ، عند المنارة البيضاء شرق دمشق فیدر که عند بابالد فيقتله (ابو داؤد: ۳۳۲۱)فلسطین ارض محشر ہے، جیسا کہ روایت میں ہے: الشام أرض المحشر والمنشر (صحيح الجامع الصغير : ٣٤٢٦) اسی زمین سے یا جوج و ماجوج کے فساد کا آغاز ہوگا۔

FB_IMG_1698140720290

سفر معراج کا واقعہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کا واقعہ

اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا منفرد اعزاز عطا فرمایا جس سے کبھی کسی انسان کو نہیں نوازا گیا۔ یہ سفر معراج کا شرف تھا جس میں اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انعامات واکرامات کی بارش کر دی گئ

معراج کا پہلا مرحلہ مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ تک

حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں سورہے تھے کہ فرشتوں کے سردار جبرئیل علیہ السلام کا آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ان کے ساتھ گھوڑے سے ملتا جلتا ایک پردار جانور تھا جسے “براق“ کہا جاتا تھا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر سوار کرایا اور ہم رکاب ہو کر آپ کو مسجد الحرام سے شام کی طرف لے چلے۔ براق کی رفتارکا یہ عالم تھا کہ جہاں نگاہ پہنچتی وہیں قدم جا پڑتا۔ سفر کا یہ پہلا مرحلہ جسے “اسراء” کہا جاتا ہے، بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ پر ختم ہوا جہاں حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسی علیہ السلام تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ان سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کی اور یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امام الانبیا ہو نے کا عملی مظاہرہ ہوا۔ یہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا، جسے “معراج کہا جاتا ہے۔

سفر معراج کا دوسرا مرحلہ مسجد اقصیٰ سے آسمان تک

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جیرائیل علیہ السلام کے ساتھ آسمان کی بلندیوں پر پہنچے۔ یکے بعد دیگرے آپ نے ساتوں آسمانوں کی سیر کی۔ ہر آسمان کے دروازے پر فرشتوں نے آپ کا خیر مقدم کیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت عیسی و حضرت یحییٰ علیہ اسلام، تیسرے پر حضرت یوسف ، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام ، چھٹے پر حضرت موسی علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقاتیں ہوئیں۔ حضرت ابراہیم علینہ بیت المعمور کے دروازے کے سامنے بیٹھے تھے جو کعبتہ اللہ کے عین اوپر واقع ہے، روزانہ ستر ہزار نئے فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ اور اس میں نافرمانوں کو دیے جانے والے مختلف عذابوں کا مشاہدہ کر لیا گیا ، اسی طرح جنت اور اس کی نعمتیں بھی دکھائی گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سدرة المنتہی تک پہنچے جو عرش الہی کے نیچے بیری کا ایک مقدس درخت ہے جس پر فرشتوں کا ہجوم رہتا ہے۔ آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی خاص بارگاہ میں پہنچے اوراللہ تعالی کا ویسا دیدار کیا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت مسلمہ کے لیے پچاس فرض نمازوں کا تحفہ دیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمی کی درخواست پیش کی ، آخر کم کرتے کرتے اللہ تعالیٰ نے فقط پانچ نمازیں فرض باقی رہنے دیں اور ثواب پوری پچاس نمازوں کے برابر عطا فرمانے کی خوش خبری دی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کے بعد پورے احترام کے ساتھ آپ کے بستر پر پہنچایا گیا۔ اس دنیا میں تب تک اتناتھوڑا سا وقت گزرا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ابھی تک گرم تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج کہ واقعہ کا ذکر اور مشرکین کے مزاق

صبح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعے کا ذکر کیا تو مشرکین نے حسب عادت مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ ابو جہلل نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو طعنہ دیتے ہوئے کہا: ” تمہارا ساتھی کہتا ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس اور آسمانوں کی سیر کر آیا ہے، کیا تم اسے بھی سچ مانتے ہو؟

سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بلا تامل کہا: ہاں ! میں ان کی بات کو بہر حال بی مانتا ہوں۔“ غرض مسلمانوں نے اس واقعے کی تصدیق کی اور اللہ پر ان کا ایمان مزید مضبوط ہو گیا۔ پانچ نمازوں کے اہتمام نے اللہ سے ان کے تعلق اور قرب میں اضافہ کر دیا۔ معراج کا یہ واقعہ حالت بیداری اور ہوش کا ہے خواب نہیں۔ اگر خواب ہوتا تو اسے ایک معجزہ اور عجیب واقعے کے طور پر بیان نہ کیا جاتا، نہ مشرکین اس کا مذاق اڑاتے ، کیوں کہ خواب میں تو آدمی کچھ بھی دیکھ سکتا ہے

معراج کی واقعہ کی حقیقت

ہر قسم اسلامی تاریخ کے لیےAlkhroof.com پر کلک کریں شکریہ

FB_IMG_1698465275103

سفر طائف کا دردناک واقعہ

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کا مکمل واقعہ

ابوطالب کے انتقال کے بعد کافروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر طرح کی ایذاء رسانیوں کا کھلا موقع مل گیا،چنانچہ ان کی مخالفت ، دشمنی اور سرکشی روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا مگر اسے بھی جھٹلا دیا۔ ایسے یں حضور اکرم نا لی یا قریش کے ہاں اسلام کی آبیاری کے آثار نہ پا کر یہ سوچنے پرمجبور ہو گئے کہ اسلام کی حفاظت اور اشاعت کے لیے کی اور شہر کو مرکز بنایا جائے ، جہاں کے لوگ اسلام کے نام لیوا اور اللہ کے پرستار ہوں۔

طائف کے سفر

مکہ سے ۷۵ میل ( ۱۲۰ کلومیٹر ) دور طائف میں قبیلہ ثقیف افرادی لحاظ سے بہت مضبوط تھا، یہاں اکثر خوشحال اور فارغ البال لوگ آباد تھے۔ قریش کے مال دار لوگوں نے بھی یہاں جائیدادیں خرید رکھی تھیں ۔ طائف کے باہر ان کے باغ تھے جہاں یہ لوگ گرمیوں میں آرام اور تفریح کے لیے ٹھہرتے تھے۔ طائف سے کچھ فاصلے پر قبیلہ بنوسعد آباد تھا، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رضاعی ماں حضرت حلیمہ کا دودھ پیا تھا اور بچپن گزارا تھا۔ اس لیے امید تھی کہ یہاں کے لوگ آپ کو رضاعی رشتہ دار مانتے ہوئے اکرام کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات دھیان سے سنیں گے۔ اگر یہ لوگ مشرف بہ اسلام ہو جاتے تو مسلمانوں کو بہت سے مصائب سے نجات مل جاتی اور دین کے پھیلنے کے لیے ایک مرکز میسر آجاتاہے۔ آخر کار اوار شوال 10نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امید میں لے کر طائف کی طرف روانہ ہوئے ،آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ساتھ تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف میں قیام

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں دس دن گزار کر لوگوں کو عمومی اور خصوصی دونوں طرح دعوت دی ۔ آپ طائف کے بازار میں کھڑے ہو کر قرآن کی آیات سناتے اور لوگوں کو اپنی نصرت و حمایت کی طرف متوجہ کرتے رہے۔عبدالرحمن بن خالد عدوانی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ وہ بتاتے تھے:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ثقیف کے شہر طائف کے ) مشرقی گوشے میں اپنی لاٹھی یا کمان پر سہارا لگائے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس اس لیے تشریف لائے تھے تاکہ ان سے مدد حاصل کریں۔ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ طارق کی تلاوت کرتے سنا۔ میں اس وقت مشرک تھا مگر میں نے یہ سورت یاد کر لی۔ بنو ثقیف کے سرداروں) نے مجھے بلوایا اور پوچھا تم نے اس شخص سے کیا سنا ہے؟ میں نے انہیں سورۂ طارق سنادی۔ بنو ثقیف (کے سرداروں) کے پاس قریشی لوگ بھی تھے جنہوں نے کہا: ”ہم اپنے اس آدمی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اگر ہم سمجھتے کہ وہ حق بات کہہ رہا ہے تو ہم اسے سب سے پہلے قبول کر لیتے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تین سرداروں سے ملاقات اور بات چھیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی دعوت کے ساتھ خصوصی ملاقاتیں بھی کیں۔ طائف میں بنو ثقیف کے بڑے سردار تین بھائی عہد یا لیل مسعود اور حبیب تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گفتگوکی اور انہں اللہ کے دین کی طرف بلایا اور اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی مدد نصرت کی ترغیب دی، مگر ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ دین کی دعوت کو قبول نہ کیا بلکہ عرب کی رواجی مہمان نوازی کے تقاضے بھی پس پشت ڈال دیے اور بہت تلخ جواب دیے، ان میں سے ایک نے کہا: ” تو ایک بے دین آدمی ہے جو کعبے کا غلاف اوڑھ کر آیا ہے۔“دوسرا بولا : اللہ کو تمہارے سوا اور کوئی نہ ملا جس کو رسول بنا کر بھیجتا۔“تیسرے نے کہا: میں تم سے بات ہی کرنا نہیں چاہتا؛ کیوں کہ اگرتم واقعی نبی ہو تو انکار کر دینا مصیبت سے خالی نہیں اور اگر جھوٹے ہو تو میں جھوٹے شخص سے بات کرنا نہیں چاہتا ۔“ سرداروں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ آپ وہاں قیام فرمالیں۔ نا امید ہو کر حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں سے بات چیت کرنے کا ارادہ فرمایا مگر کسی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دھیان نہ دیا بلکہ بڑی بد تمیزی سے کہا کہ ہمارے شہرسے فورا نکلو اور جہاں مرضی ہو چلے جاؤ۔

طائف سے واپسی اور ظلم کے انتہا

رسول اللہ صل اللہ جب جانے لگے تو ان بد بختوں نے شہر کے اوباش لڑکوں کو مذاق اُڑانے اور پتھر مارنے کے لیے آپ کے پیچھے دوڑا دیا۔ پتھروں کی بارش سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے ، تکلیف کی شدت سے آپ بار بار بیٹھ جاتے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بازوؤں سے پکڑ پکڑ کر اُٹھاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جونہی چلنے کے لیے قدم اٹھاتے ، وہ پھر سنگ باری کرتے ۔ طائف کی سرزمین پر کائنات کے مقدس ترین انسان کا خون اتنا بہا کہ دونوں جوتے خون سے رنگین ہو گئے۔حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو آپ کے ساتھ تھے ، انہیں اتنے پتھر لگے کہ ان کا سر پھٹ گیا۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح مار کھاتے شہر کی حدود سے نکل آئے ۔ ایک باغ نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں داخل ہو گئے ۔ تب ان لوگوں نے پیچھا چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کے سائے میں جا بیٹھے اور انتہائی بے بسی کے عالم میں دکھے ہوئے دل کے ساتھ اپنے مولا سے یہ دعا مانگی:الہی تجھی سے اپنی کمزوری اور بے کسی اور لوگوں میں ذلت اور رسوائی کی فریاد کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین تو ہی کمزوروں کا رب ہے، تو ہی میرا پروردگار ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے، کسی اجنبی پرائے کے جو مجھے دیکھ کر منہ بناتا اور تیوری چڑھاتا ہے یا کسی دشمن کے حوالے کرتا ہے جس کو تو نے مجھ پر مسلط کر دیا۔ اے اللہ ! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی چیز کی پروا نہیں۔ مجھے بس تیری حفاظت کافی ہے، میں تیرے چہرے کے اس نور کے طفیل جس سے تمام تاریکیاں روشن ہو جاتی ہیں اور جس سے دنیا اور آخرت کے سارے کام کیا سنور جاتے ہیں، اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ پر تیرا غصب نازل ہو یا تو مجھ سے ناراض ہو۔ تیری ناراضی اس وقت تک دور کرنا ضروری ہے جب تک تو راضی نہ ہو جائے ۔ نہ تیرے سوا کوئی طاقت ہے نہ قوت ۔

اللہ تعالیٰ کے شان جوش میں آنا

ایسی مضطرب دعا پر اللہ تعالی کی شان کریم کو جوش کیوں نہ آتا۔ فورا حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا گیا۔ انہوں نے کر عرض کیا: اللہ نے آپ کی قوم کی وہ گفتگو سنی ہے جو انہوں نے آپ سے کی ۔ اب وہ فرشتہ جو پہاڑوں کےانتظامات پر مامور ہے، حاضر خدمت ہے، آپ اسے جو چاہیں حکم دیں ۔اب پہاڑوں کے فرشتے نے سلام کر کے عرض کیا:ارشاد ہوتو دونوں جانب کے پہاڑوں کو ملا دوں؟ جس سے یہ قوم درمیان میں کچلی جائے۔

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے امت پر رحم

مگر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رحم وکرم کا پیکر تھے، جواب میں فرمایا: میں توقع رکھتا ہوں کہ اگر یہ لوگ مسلمان نہ ہوئے ان کی اولاد میں سے ایسے انسان پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے ۔“

صلی اللہ علیہ وسلم

ہر قسم اسلامی تاریخ کے لیےAlkhroof.com ویزٹ کریں شکریہ