FB_IMG_1696348668475

روم اور فارس کی جنگ اور فتح ہونے کا مکمل واقعہ

روم و فارس کی جنگ اور قرآن کی پیش گوئی:

روم اور فارس کے مابین گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں فارس نے رومیوں کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کیا۔ مشرکین جو مسلمانوں کو دبا کر پہلے ہی مغرور ہورہے تھے، مزید اترانے لگے کیوں کہ عقیدے کے لحاظ سے وہ خود کو فارس کے مشرکین سے اور مسلمانوں کو رومی اہل کتاب سے قریب تر سمجھتے تھے۔ چنانچہ وہ تکبر میں آکر کہنے لگے کہ جس طرح ہمارے فارسی بھائیوں نے رومی اہل کتاب کو کچل ڈالا ہے ، اسی طرح ہم تمہیں ختم کر دیں گے۔ مشرکین کی اس لن ترانی کے جواب میں سورہ روم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں خبر دی گئی کہ رومی شکست کھانے کے باوجود چند سالوں میں دوبارہ فتح یاب ہوں گے

مشرکین نے مذاق اڑایا کہ ایسی زبر دست شکست کے بعد رومی دوبارہ کیسے غالب آ سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے شرط لگالی کہ اگر پانچ سال کے اندر رومی فتح یاب نہ ہوئے تو تم جیتے ورنہ ہم ۔ ہارنے والے پر جیتنے والے کو دینے کے لیے ہرجانہ بھی طے کر لیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شرط کا پتا چلا تو قرآن مجید کے الفاظ بضع سنين ” کے پیش نظر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کوشرط میں پانچ سال کی جگہ نو سال کی ترمیم کرانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ سات سال بعد قرآن کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور رومیوں نے اہل فارس کو عبرت ناک شکست دے ڈالی

حضرت ابو بکر صدیق ہی کی حبشہ کی طرف ہجرت اور راستے سے واپسی (۹ نبوی ):

بنو ہاشم کے محصور ہونے کے بعد حالات سخت ترین ہو گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ مسلمانوں کا اب دنیا میں کوئی سہارا نہیں ہے۔ ان حالات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، جیسے کوہ استقامت بھی حبشہ کی طرف ہجرت پر مجبور ہو گئے ۔

صحیح بخاری کا قول

یہ واقعہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس طرح مروی ہے: جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین پر عمل پیرا دیکھا۔ کوئی دن ایسانہ گزرتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام ہمارے ہاں تشریف نہ لاتے ہوں۔ جب مسلمان تکالیف میں مبتلا کیے گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حبشہ ہجرت کا ارادہ کیا۔ وہ مکہ سے نکل کر حبشہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب برک عماد میں پہنچے ( جومکہ سے پانچ منازل سمندر کی سمت واقع ہے) تو انہیں قبیلہ قارہ کا سردار ابن دغنہ ملا

ابن دعنہ نے ان سے پوچھا: ابوبکر ! کہاں کا ارادہ ہے؟“ انہوں نے فرمایا: ” مجھے میری قوم نے نکال دیا ہے۔ میں نے سوچا کہ زمین میں سفر کر کے اپنے رب کی عبادت کروں۔“

ابن دعنہ نے کہا: ابوبکر تم جیسا آدمی نہ نکل سکتا ہے، نہ نکالا جاسکتا ہے۔ تم مفلسوں کے لیے کماتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، معاشرے کے نادار لوگوں کی کفالت کرتے ہو۔ مہمان کی خاطر مدارات کرتے ہو۔ سچائی کے کاموں میں مدد کرتے ہو۔ میں تمہیں پناہ دیتا ہوں ۔ واپس چلو اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کرو ۔“ پس ابن دعنہ روانہ ہوا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مکہ) آگیا۔ وہاں ابن رعنہ قریش کے سرداروں کے پاس گیا اور ان سے کہا: ” ابوبکر جیسا آدمی نہ نکل سکتا ہے، نہ نکالا جاسکتا ہے۔ کیا تم ایسے آدمی کو نکالتے ہو جو مفلسوں کے لیے کماتا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے، معاشرے کے نادار لوگوں کی کفالت کرتا ہے۔ مہمان کی خاطر مدارات کرتا ہے۔ سچائی کے کاموں میں مدد کرتا ہے ۔

قریش نے ابن دغنہ کی پناہ کو مان لیا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے امان قبول کی اور ابن دغنہ سے کہا : ” ابوبکر سے کہو کہ اپنے رب کی عبادت گھر میں کریں۔ اسی میں نماز ادا کر میں اور جو جی چاہے پڑھیں ۔ لیکن اپنی تلاوت سے ہمیں تنگ نہ کریں۔ آواز بلند نہ کریں کیوں کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہمارے بیوی بچے فتنے میں نہ پڑ جائیں۔ ابن دغنہ نے یہ باتیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہ دیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ کچھ عرصے تک ان شرائط پر قائم رہے۔ اپنے گھر ہی میں عبادت کرتے رہے۔ اپنی نماز میں بلند آواز سے قرات نہیں کرتے تھے۔ نہ ہی اپنے گھر کے سوا کہیں تلاوت کرتے تھے۔ پھر ایک دن ان کے جی میں آئی تو اپنے گھر کے باہر میدان میں ایک مسجد بنالی۔ اس میں نماز پڑھنے لگے۔ قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی۔مشرکین کی عورتیں اور بچے ان کے پاس جمع ہو جاتے تھے ۔ وہ ان کی قرآت کو پسند کرتے اور انہیں دیکھاکرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت رونے والے آدمی تھے۔ جب وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو اپنے آنسو نہ روک پاتے ۔ قریشی زعماء اس سے گھبرائے اور ابن دغنہ کو بلوایا۔ جب وہ ان کے پاس آیا تو بولے: ہم نے ابو بکر کواس شرط پر پناہ دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں کریں گے مگر وہ اس حد سے باہر نکل گئے ۔ گھر کے باہر مسجد بنالی۔ نماز اور قرآت علانیہ شروع کر دی ۔ ہمیں ڈر ہے کہ اس طرح ہمارے بیوی بچے فتنے میں پڑ جائیں گے۔ تم ان کے پاس جاؤ، اگر وہ مان جائیں کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کریں گے تو ٹھیک۔ اور اگر وہ اعلانیہ عبادت پر اصرار کریں تو انہیں کہو کہ وہ تمہاری پناہ لوٹا ہیں۔ کیوں کہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کی تو ہین کریں۔ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ علانیہ عبادت کو باقی نہیں رہنے دیں گے۔“ابن ردغنہ ابوبکر رضی اللہ عنہجکے پاس آیا اور کہنے لگا:تمہیں معلوم ہے کہ میں نے کس شرط پر تم سے معاہدہ کیا تھا۔ اگر تم اس پر کار بند رہتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ میری امان واپس کردو کہ میں نہیں چاہتا کہ عرب میں شہرت ہو کہ میں نے ایک شخص کو امان دی لیکن میری امان ضائع کر دی گئی ۔” حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ” میں تمہاری پناہ واپس کرتا ہوں اور اللہ کی امان پر راضی ہوں ۔

لا حول ولا قوۃ الا بالا

ہر قسم اسلامی پوسٹ کے لئےAlkhroof.com ویزٹ کریں شکریہ

FB_IMG_1695732057063

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہ اسلام کا واقعہ

جب حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے (ذوالحجہ ۵ نبوی):

حضور صلی اللہ علیہ وسلم قریش کی اس قدر دشمنی اور ایذارسانی کے باوجود ان کے ایسے افراد کی ہدایت کی خصوصیت سے آرزو رکھتے تھے جن میں حق شناسی صداقت کے لیے قربانی اور قیادت کی غیر معمولی صلاحیتیں نظر آتی تھیں، چاہے وہ ابھی اسلام کے کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہو اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی طور پر کتنی ہی تکلیف کیوں نہ پہنچ رہی ہو۔

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت ظرفی اور کشادہ دلی تھی کہ آپ ایسے افراد کی ہدایت کے لیے بھی اللہ تعالی سے دعائیں کیا کرتے تھے۔ قریش کے دو آدمیوں میں آپ کو غیر معمولی قائدانہ اوصاف نظر آتے تھے۔ ایک حد درجہ ضدی اور عیار شخص عمر و بن ہشام (ابو جہل) تھا، جو آئے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نت نئے منصوبے بناتا تھا۔ دوسری شخص انتائی بہادر اور جرارتھی۔ یہ اٹھائیس سالہ جیالے نو جوان عمر بن خطاب تھے۔ دلیری وسپہ گری میں بے مثال اور ہمت و بے باکی میں یکتا تھے۔ ایک دو واقعات ایسے پیش آچکے تھے جن سے ان کا دل کسی نہ کسی حد تک اسلام کی سچائی کو محسوس کر چکا تھا۔

سن کامیابی کی بات

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانیہ تبلیغ شروع کرنے سے چند دن پہلے وہ حرم کے صحن میں سورہے تھے کہ کسی شخص نے آکر ایک بت کے سامنے جانور قربان کیا۔ اتنے میں ایک نہایت زور دار آواز سنائی دی، کوئی کہ رہاتھا۔ ” يَا جَلِيحٍ أَمْرٌ نَجِيح . رَجُلٌ فَصِيحٍ ، يَقُولُ: لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ ” (اے جلیح سن کا میابی کی بات۔ ایک فصیح و بلیغ آدمی کہتا ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ) حضرت عمر کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ آواز لگانے والے کو تلاش کرتے رہے مگر ناکام رہے۔ اس کے چند ہی دنوں بعد مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا چرچا ہوا۔

حضرت عمر چھپ کر تلاوت نبوی سنتے ہیں

ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجدالحرام میں نماز اداکرتے ہوئے سورۃ الحاقہ کی تلاوت فرمارہے تھے حضرت عمر چھپ کر سنے لگے۔ قرآن مجید کے صوتی و معنوی حسن نے ان کے دل کو موہ لیا، دل میں کہنے لگے: یہ واقعی شاعر ہیں۔

اتنے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت تلاوت کی

وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيْلاً مَّا تُؤْمِنُون (یہ کسی شاعر کا کلام نہیں تم بہت کم ایمان لاتے ہو۔ ) حضرت عمر حیران ہوئے کہ میرے دل کی بات انہیں کیسے پتا چل گئی۔ سوچنے لگے : یہ تو جادو گر ہیں ۔ اتنے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی آیت تلاوت کی: وَمَا هُوَبِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُون . یہ کسی جادوگر کا کلام نہیں تم بہت ک نصیحت پکڑتے ہوں ) حضرت عمر کے دل میں اسلام کی صداقت کا بیج اسی دن پڑ گیا تھا۔جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو قریش میں بڑی بے چینی پھیل گئی ۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح اسلام کو ایک دم حرف غلط کی طرح مٹادیں۔ ادھر جمعرات کی شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا کر رہے تھے:

یا اللہ ! اسلام کو عمر و بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے قوت عطا فرما۔“

ادھر قریش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے پر آمادہ ہور ہے تھے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو مسلمان ہوئے ابھی تین دن ہوئے تھے کہ ابو جہل کے بھڑ کانے پر قریش کے جوش انتظام کو ٹھنڈا کرنے کا بیڑا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اٹھایا، انہوں نے تلوار سنبھالی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کے ارادے سے چل پڑے راستے میں ہیم بن عبداللہ الحمام والی مل گئے جو خفیہ طور پر مسلمان ہو چکے تھے، ان کے تیور دیکھ کر پوچھا: ” عمر ! کہاں کا ارادہ ہے؟”

بولے: “محمد کے پیچھے جارہا ہوں جو قریش کے دانش مندوں کو بے وقوف قرار دیتا ہے، ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اور ہماری جمعیت کی مخالفت کرتا ہے۔“ حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا: ” غمر بہت غلط کام کرنے جا رہے ہو اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرو گے تو بنو ہاشم اور بنوزہرہ کے لوگ تمہیں کہاں چھوڑیں گے !مگر حضرت عمر اپنے ارادے پر اڑے رہے۔ معاملہ زیادہ سنگین ہوتا دیکھ کر نعیم رضی اللہ عنہ نے ذہن بدلنے کے لیے ان کی غیرت پر چوٹ کی اور کہا: ” عمر پہلے اپنے گھر کی خبر لو تمہاری بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید مسلمان ہو چکے ہیں

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب بہن کے دروازے پر پہنچے تو اندر سے قرآن مجید پڑھنے پڑھانے کی آواز آرہی تھی۔ یہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ تھے جو گھر والوں کو قرآن مجید پڑھا رہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ زور سے دروازے پر دستک دی۔بہن نے پوچھا: ” کون؟ جواب دیا: “عمر”یہ سنتے ہی سب گھبرا گئے ۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو جلدی سے ایک کو ٹھری میں چھپا دیا۔ پھر فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا نے دروازہ کھولا۔ عمر نے اندر داخل ہوتے ہی بہن اور بہنوئی سے پوچھا: ” تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟“دونوں بولے: “ہم تو آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔“ عمر نے گرج کر کہا : ” مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ بے دین ہو چکے ہو۔“

سعید بن زید رضی اللہ عنہ بولے: ” عمر بتاؤ اگر حق تمہارے دین کی بجائے دوسرے دین میں ملے تو کیا کریں؟ یہ سنتے ہی عمر حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ پر پل پڑے، انہیں نیچے گرا کر بری طرح مارا، ان کی بہن فاطمہ بنت خطاب میں نہا نے انہیں اپنے شوہر سے ہٹانے کی کوشش کی تو انہیں اتنے زور کا طمانچہ مارا کہ ان کا منہ خون سے بھر گیا۔

فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا روتے ہوئے بولیں : ” خطاب کے بیٹے تم جو جی چاہے کر لومگر میں تو اسلام لا چکی ہوں، گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں ۔“ بہن کے یہ جملے سن کر اور اسے لہولہان دیکھ کر حضرت عمر کا دل پسیجنے لگا۔ غصّہ اتر گیا اور وہ وہیں چارپائی پڑ ڈھےکر پوچھنے لگے : لا ؤ، دکھاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے ؟“

بہن نے کہا: “تم ناپاک ہو، جبکہ اس کتاب کو صرف پاک صاف لوگ ہاتھ لگا سکتے ہیں، پہلے غسل کرو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے غسل کیا تو جسم کی کثافت کے ساتھ دل کا میل کچیل بھی بہہ گیا۔ اب بہن نے وحی کے اوراق سامنے لا کر رکھے۔ یہ ” سورۃ طہ” کی آیات تھیں جو انہی دنوں نازل ہوئی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ آیات پڑھتے گئے اور دل میں ایمان کی روشنی اترتی گئی ۔ آخر بے تاب ہو کر بولے : ‘مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو ” اُن کی آواز سن کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ جو اب تک کوٹھری میں چھپے تھے، باہر نکل آئے اور بولے:

عمر ا مبارک ہو، جمعرات کی شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی تھی کہ الہی عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام کے ذریعے اسلام کو عزت دے۔ لگتا ہے وہ دعا تمہارے حق میں قبول ہو گئی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ سیدھے صفا پہاڑ کے دامن میں حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لگ بگ ان چالیس صحابہ کرام کے ساتھ جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی ، ساری دنیا میں اللہ کے دین کو زمہ کرنے کی فکر میں مشغول تھے۔ ان میں حضرت ابوبکر ، حضرت علی اور حضرت حمزہ نمایاں تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہ دربار حضور میں حاضری اور اسلام

حضرت عمر رضی اللہ نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک صحابی نے جھانک کر دیکھا اور بتایا کہ عمر تلوار سمیت کھڑے ہیں۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ” آنے دو۔ اگر نیک ارادہ ہو تو بہتر ۔ ورنہ ہم اسے اس کی تلوار سے قتل کر دیں گے ۔“ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کھڑے ہو گئے اور انہیں جھنجھوڑ کر کہا: “اے عمر! کیا تم اللہ کی طرف سے ذلت اور عذاب آنے سے پہلے باز نہیں آؤ گے؟” پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ یہ عمر بن خطاب ہے۔ الہی ! اس کے ذریعے دین کو عزت دے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اب رہا نہ گیا، بولے : ”میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔“یہ سن کر سب مسلمانوں نے اتنی زور سے تکبیر کا نعرہ بلند کیا کہ مکہ کی ہر گلی میں آواز گونج گئی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہ کھلم کھلا اسلام کی تبلیغ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام لاتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اب کھلم کھلا اسلام کی تبلیغ کیجیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اگلی صبح مسجد الحرام میں جا کر کفار کے سامنے اپنے اسلام کا برملا اعلان کیا ۔ کفار ان پر جھپٹ پڑے۔ یہ اکیلے ان سے لڑتے رہے۔ دیر تک جھگڑا ہوتارہا۔ آخر کفار مایوس ہو کر پیچھے ہٹ گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہونے کے اسلام لانے کی خبر سے پورے مکہ میں کھلبلی مچ گئی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ” عمر بن خطاب کا اسلام لانا اسلام کی فتح تھی۔ ہم ان کے اسلام لانے سے پہلے کعبے کے پاس آزادانہ نماز تک نہیں پڑھ سکتے تھے۔ جب وہ اسلام لائے تو انہوں نے قریش سے لڑائی کی اور کعبہ کے پاس نماز ادا کی۔ ان کے ساتھ ہم نے بھی نماز ادا کی ۔

سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم

Alkhroof.com

FB_IMG_1696348644777

توحید کی دعوت

حج کی موقع پر دعوت سرگرمی

موسم حج قریب آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امیدیں بڑھ گئیں، کیوں کہ دور دراز کے لوگوں کو وحی کی دعوت دینے کا اس سے بہت موقع کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔ ادھر قریش کے سردار بڑے فکر مند تھے، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے اور آپ کی دعوت کو لوگوں کے نزدیک غیر مؤثر بنانے کے لیے طرح طرح کی باتیں پھیلائی ہوئی تھیں۔ آپ کو (نعوذ اللہ) بے دین، مجنون اور شاعر مشہور کر رکھا تھا مگران تمام حربوں کے باوجود اکاڈ کالوگ مسلمان ہوتے جارہے تھے ۔ یہ دیکھ کر قریش کے سردار با ہم مل بیٹھے، اُن کے نامور سردار ولید بن مغیرہ نے کہا:اج کا زمانہ آرہا ہے۔ عرب کے مختلف قبائل یہاں آئیں گے جن کے کانوں میں یہ بات پڑ چکی ہے، لہذا اس شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک ہی بات طے کر کے کہو۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری باتیں آپس میں ٹکرائیں ۔” خاصے غور و خوض کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی مضبوط الزام سمجھ نہ آیا تو ولید نے کہا: سب سے زیادہ معقول بات یہ ہے کہ تم کہہ دو کی جادوگر ہے، اس نے جادو کے زور سے بھائی کو بھائی سے ، شوہر کو بیوی سے اور خاندان والوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے۔”

چنانچہ لوگ یہ بات طے کر کے حاجیوں کے قافلوں کے مختلف راستوں میں بیٹھ گئے اور اس الزام کو مشہور کرنےگے۔ یہ نبوت کا چوتھا سال تھا

سوق عکاظ میں دعوتِ اسلام (شوال ۴ نبوی ):

عرب میں ماہ شوال سے ذوالحجہ کے آخر تک بڑی چہل پہل ، گرم جوشی اور ہل چل کے دن ہوتے تھے۔ قافلوں کے چلنے اور ٹہر نے ہر طرف عید کا سماں ہوتا۔ انہی دنوں میں عربوں کے مشہور میلے اور بازار لگا کرتے تھے۔ سب سے بڑا بازار عکاظ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ” کے مقام پر لگتا تھا۔ یہ مکہ سے تین دن کی پیدل مسافت تھی۔ عازمین حج اور تاجروں کے قافلے پورا ماہ شوال یہاں گزارتے ۔ ذوالقعدہ میں انسانوں کا یہ سیلاب مکہ کا رخ کرتا اور ذی مجنہ میں ذوالقعدہ کے بیںس دن اس طرح گزارتا کہ جنگل میں منگل ہو جاتا۔ یکم ذوالجہ کو یہ رونقیں مکہ سے پانچ میل ( ۸ کلومیٹر ) دور جلی کباب کے دامن ” ذی الحجاز میں منتقل ہو جاتیں جو عرفات سے تین میل ( پونے پانچ کلو میٹر دور ہے۔ آٹھ دن تک یہاں میلے کا سماں رہتا۔ 9 ذو الچے کو لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مناسک حج ادا کر نے عرفات روانہ ہو جاتے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے ان اجتماعات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے اور ان کے ذریعے تھوڑے وقت میں دور دراز کے قبائل تک اپنی بات پہنچانے کا فیصلہ کر لیا، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شوال سن4 ھجریی میں تین دن کا سفر کر کے مکہ سے سوق غکاظ تشریف لے گئے اور مختلف قبائل کے سامنے دین کی دعوت رکھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالمجاز کے بازار میں آئے اور یہاں بھی اسی کوشش میں دن رات مصروف رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ابو لہب بھی آپ کے تعاقب میں رہا۔ حضور ملی یا تم ان بازاروں اور میلوں کے مختلف حلقوں میں تشریف لے جاتے اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: لو گو کہو لا إله إلا الله (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ) تم کامیاب ہو جاؤ گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آپ کا چچا ابولہب پکتا آتا، اس کی بھیگی آنکھوں میں نفرت کی چنگاریاں ہوتیں اور اس کے سرخ گال غصے سے تمتمار ہے ہوتے ۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی پھینکا اور چلاتا ” ارے لوگو! دیکھنا کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے نہ ہٹادے۔ یہ چاہتا ہے کہ تم لات اور عزی کی عبادت چھوڑ دو۔” حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف توجہ دیے بغیر اپنا پیغام سناتے جاتے

ضیماد ازدی کا قبول اسلام

مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی سرگرمیاں جاری تھیں اور قریش کی عداوت بھی۔ اسی زمانے میں قبیلہ ازد کے ضماد نامی ایک صاحب مکہ پہنچے ۔ مشرکین نے اس خدشے سے کہ کہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر نہ ہو جائیں، انہیں باور کرایا کہ حضور ( نعوذ باللہ) مجنون ہیں۔ ضماء کو جھاڑ پھونک کا بڑا تجربہ تھا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور کہا: میرے ہاتھ پر اللہ نے بہت سے لوگوں کو شفا دی ہے۔ آپ کہیں تو آپ پر بھی دم کردوں۔”

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” إِنَّ الحَمدَ لِله نَحْمَدُهُ وَ نَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ ، وَاشْهَدُ أن لا إله إلا الله وحدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَآنُ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ

بلاشبہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ جسے اللہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندےاور رسول ہیں۔)

ضماد نے دم بخود ہوکر یہ کلمات سنے ، یقین نہ آیا کہ کوئی ایسے کام بھی سنا سکتا ہے۔ بے ساختہ کہا: ” پھر سنائیے۔” حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کلمات دوبارہ سہ بارہ دہرا دیے۔ ضماد نے کہا: میں نے کاہنوں، جادوگروں اور شاعروں کا کلام سنا ہے مگر اس جیسے جملے کبھی نہیں سنے ۔یہ تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں ۔

ضماد نے اسلام قبول کرلیا اور اپنی قوم کی طرف سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر کے واپس ہوئے

مشرکین کے قرآن کی تاثیر کا اعتراف

ہرطرح کی مخالفت کے باوجود قرآن کی تاثیر کا مشرکین کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ بلکہ الٹا ان کے بڑے بڑے سردار جو شعروسحن کا اچھا ذوق رکھتے تھے قرآن کے صوتی اثرات اور اس کی ادبی لطافت سے محفوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ ابو جہل، ابوسفیان اور اخنس بن شریق رات کو اس وقت چھپ چھپ کرآتے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تلاوت فرما رہے ہوتے۔صبح صادق تک وہ گم سم یہ آواز سنتے رہتے ۔ پو پھوٹتے ہی واپس ہوتے ۔ اگر کسی موڑ پر باہم مل جاتے تو ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہوئے کہتے : ” آئندہ ایسا مت کرنا۔ اگر قوم کے نادان لوگوں کو پتا چل گیا تو نامعلوم اس کا کیا اثر لیں گے ۔ مگر اگلی شب پھر ایسا ہوتا۔ جب کئی دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا تو ایک دن اخنس بن شریق لاٹھی اٹھا کر ابو جہل کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا: “بتا ہی دو کہ محمد سے جو تلاوت سنی اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟” ابو جہل کہنے لگا: “ہم اور بنو ہاشم عزت و شرف کی ہر چیز میں مقابلہ کرتے آئے ہیں۔ جب ہم ہر چیز میں برابر نکلے تو وہ کہنے لگے ہیں کہ ہمارے پاس نبی بھی ہے جس پر وحی آتی ہے۔ اللہ کی قسم ! ہم یہ بات کبھی نہیں مانیں گے ۔

قریش کے سردار ولید بن مغیرہ نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام اللہ سناتو اس پر رقت طاری ہوگئی۔ واپس آیا تو ابو جہل نے اس کی بدلی ہوئی حالت دیکھ کر اسے طعنے دیے اور اصرار کیا کہ وہ کوئی ایسی بات کہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ قرآن کا منکر ہے۔ ولید نے کہا: ” میں کیا کہوں؟ تم جانتے ہو کہ شعر، رزمیہ کلام اور قصائد کو مجھ سے زیادہ جانے والا کوئی نہیں۔اللہ کی قسم وہ کلام ان میں سے کسی سے بھی مشابہ نہیں۔ اس میں عجیب مٹھاس ہے۔ وہ ایسا کلام ہے جو سب پر غالب ہے، اس پر کوئی غالب نہیں ۔ وہ دوسرے کاموں کو زیروزبر کر دیتا ہے۔“

ابو جہل نے کہا: تمہیں ایسا کچھ تو کہناہی پڑے گا جس سے تمہاری قوم خوش ہو جائے ۔”ولید نے سوچ بچار کرکے کہا: اسے جادو کہنا چاہیے ۔ مگر نضر بن حارث نے جسے لوگ شیطان کہہ کر یاد کرتے تھے، اس حربے کو بھی فضول قرار دیا۔ وہ قرآن کی تاثیر کو عرب کے روایتی دین کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا۔ ایک دن اس نے برملا کہا: قریش کے لوگو! اللہ کی قسم تمہیں ایسے مسئلہ سے سابقہ پڑا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ۔ تم جانتے ہو کہ محمد تمہارے خاندان کا ایک لڑکا تھا جو پلا بڑھا۔ وہ تمہارا سب سے محبوب فرد اور سب سے زیادہ سچیبات کرنے والا اور سب سے زیادہ امانت دار تھا۔ اب جب وہ ادھیڑ عمر ہوگیا اور یہ نیا پیغام لایا تو تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہے اللہ کی قسم وہ جادو گر نہیں ، کیوں کہ ہم جادوگروں اور ان کی جھاڑ پھونک کو جانتے ہیں۔ کبھی تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہیں۔ اللہ کی قسم وہ کاہن نہیں، کاہنوں اور ان کی حالت کو بھی ہم خوب دیکھ چکے ہیں۔ کبھی تم کہتے ہو کہ وہ مجنون ہیں۔ اللہ کی قسم وہ مجنون نہیں۔ ہم جنون ، اس کی اقسام اور اس کے اثرات کو اچھی طرح جانتے ہیں قریش کے لوگو اپنا انجام اچھی طرح دیکھ لو ۔ واقعی تم پر ہی بڑی آفت آ پڑی ہے۔

عتبہ بن ربیعہ سے گفتگو

ایک دن قریش نے اپنے نہایت زیرک سردار عتبہ بن ربیعہ کو خوب سمجھا سمجھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس نے آتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ بہتر ہیں یا آپ کے آبا و اجداد؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاموش دیکھ کروہ کہنے لگا اگر وہ بہتر ہیں تو سوچو کہ وہ انہی معبودوں کو پوجتے تھے جنہیں تم غلط کہتے ہو۔ اگر تم بہتر ہو، تو ٹھیک ہے، اپنا موقف سناؤ۔ ہم سنیں گے ۔ ہمارے نزدیک تو تم سے زیادہ نقصان دہ آدمی ہماری قوم میں کوئی پیدا نہیں ہوا جس نے ہماری اجتماعیت کو منتشر کر دیا اور عربوں میں ہمیں بدنام کر دیا۔ مشہور ہوگیا ہے کہ قریش میں ایک جادو گر ہے۔ قریش میں ایک کا ہن ہے۔ اب تو بس اتنی ہی کسر رہ گی ہے کہ ہم تلوار میں لے کر ایک دوسرے پر پل پڑیں اور فنا ہو جائیں۔ بھائی ! اگر تمہیں کوئی عورت چاہیے تو ہم دس عورتوں سے تمہارا نکاح کرا دیتے ہیں۔ اگر دولت چاہے تو ہم تمہارے لیے اتنامال جمع کر دیں گے کہ سارے قریش سے زیادہ مال دار ہو جاؤ گے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے یہ سب سنتے رہے ۔ جب وہ چپ ہو گیا تو فرمایا ” تم نے جو کہنا تھا کہ چکے ؟ اس نے کہا: ہاں ۔ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرما ئیں: حم تنزيل مِنَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ كتب فصلت ایتہ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يُعْلَمُونَ بَشِيرًا ونَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ) یہ کلام رحمن ورحیم کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں صاف صاف بیان کی جاتی ہیں، ایسا قرآن ہے جو عربی میں ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ہے جو دانش مند ہیں۔ بشارت دینے والا ، ڈرانے والا ہے۔ پھر بھی اکثر لوگوں نے روگردانی کی ، پھر وہ سنتے ہی نہیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت کرتے جا رہے تھے اور عقبہ ہاتھوں پر سہارا لگائے زمین پر بیٹھے سنتا جارہا تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچے فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ انْذَرْتُكُمْ صَعِقَةٌ مِثْلَ صَعِقَةٍ عَادٍ وثَمُودَ * پھر بھی اگر یہ لوگ منہ موڑیں تو کہ دو میں نے تمہیں ایسی کڑک سے خبر دار کر دیا ہے جیسی کڑک عادو ثمود پر آئی تھی۔ “

عتبہ یہ آیت سن کر یک دم کھڑا ہوگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےمنہ پر ہاتھ رکھا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر مزید تلاوت سے روکا۔ کلام پاک کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ گھر میں محبوس ہوکر بیٹھ گیا۔ آخر دوسرے مشرکین نے آکر خیریت پوچھی۔ اس نے سارا واقعہ سنایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر ہاتھ رکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا : ” تم جانتے ہو محمد جوبھی کہتے ہیں وہ سچ ہی ثابت ہوتا ہے۔ مجھے تو اس وقت عاداور ثمود جیسی کڑک کے سوا کچھ سمجھ نہیں آیا۔مجھے لگا کہ کہیں تم پرواقعی عذاب نازل نہ ہو جائے۔“ پر کہنے لگا اللہ کی قسم محمد نے جو سنایا وہ نہ تو جادو تھا نہ شعراور نہ کوئی جنتر منتر تم میری ایک بات مان لو۔ پھر چاہے میری کوئی بات نہ مانا۔ اس شخص کو اسکے حال پر چھوڑ دو۔وہ جو کہ رہاہے اس کا چر چا ضرورہوگا اگر یوں نے اس پر قابو پالیا تو تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اور اگر وہ عربوں پر غالب آ گیا تو اس کی نفع تمہاری فتح شار ہوگی۔ اس کی عزت میں تمہاری عزت ہوگی ۔”عمائد قریش یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ محمد کی زبان کا جادو تم پر بھی چل گیا ہے۔

طفیل بن عمر ودوسی کا قبول اسلام:

یہی دور تھا جب یمینی قبیلے دوس کے ایک شریف اور عاقل مخص طفیل بن عمرو کی مکہ آمد ہوئی۔ مشرکین مکہ نے اپنے معمول کے مطابق انہیں خبر دار کیا کہ یہاں ایک شخص نیا دین لے کر اٹھا ہے جو باپ اور بیٹے، بھائی اور بھائی اور بیوی اور شوہر میں پھوٹ ڈال چکا ہے، ڈر ہے کہ کہیں تم بھی اس کے اسیر نہ ہو جاؤ، پس اس کی بات نہ سنتا۔

طفیل بن عمرو نے پریشان ہو کر کانوں میں روئی ٹھونس لی مگر ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے قریب نماز ادا کرتے دیکھا تو قریب چلے گئے ۔ تلاوت کی آواز کانوں میں پڑی گئی ۔ کلام اللہ کی حلاوت اور اعجاز نے انہیں دم بخور د کردیا۔ خود سے کہنے لگے: ” میں شاعر اور ذہین آدمی ہوں ۔ بات کی اچھائی برائی کو جانچ سکتا ہوں۔ اس آدمی کی بات سننے میں کیا حرج ہے۔ اگر اچھی ہوئی تو ٹھیک ورنہ مسترد کر دوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو طفیل بن عمرو نے ملاقات کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کا پیغام سنا اور وہیں مشرف بہ اسلام ہو گئے ۔ یمن واپس جا کر پہلے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ والد اور بیوی نے فوراً اسلام قبول کر لیا پھر قوم میں تبلیغ شروع کی مگر قوم آمادہ نہ ہوئی آخر کچھ مدت بعد دوبارہ مکہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ ا قبیلہ دوس سرکش ہے، اس نے( اسلام لانے سے انکار کر دیا ہے۔ آپ اس کے خلاف بد دعا کیجئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: یا اللہ قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور انہیں لے آ ۔

alkhroof.com

FB_IMG_1698465275103

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم وستم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دین میں تکلیفیں

ظلم و ستم کی ان تمام تر کاروائیوں کے باوجود اہل ایمان اپنے دین پر ثابت قدم رہے تو قریش کے سرداروں کا غصہ مزید بڑھ گیا۔ اب انہوں نے نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کو زبانی تکالیف کے ساتھ جسمانی طور پر اذیتیں دینے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا، انہوں نے شہر کے اوباشوں کے ذمے یہ کام لگا دیا کہ جہاں کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں ، آپ کو تنگ کریں، آپ پر آوازیں کہیں، آپ کو شاعر، جادو گر اور مجنون کہیں اور تکلیفیں پہنچا ئیں، چنانچہ یہ سلسلہ پورے زور وشور سے شروع ہوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان حرکتوں سے دل گیر ہوئے ، در دول حد سے بڑھ جاتا تو تسلی کے لیے وحی نازل ہو جاتی۔

غلاموں کہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین

ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو دن بھر ایسی ہی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اور تو اور مکہ کے غلاموں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلم کھلا تو ہین کی اور آپ کو جھٹلایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت رنجیدہ ہوکر گھر تشریف لائے اور چادر اوڑھ کر لیٹ گئے تب وحی نازل ہوئی اور یا ایھالمُدثر کہ کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا حوصلہ بڑھایا گیا۔ اور اکثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کی طعن و تشنیع کے جواب میں خاموش ہی ر ہتے مگر کبھی کبھی صبر کا پیمانہ جھلک جاتا تو آپ انہیں بتا دیتے کہ وہ اپنے لیے خود ہلاکت کا سامان تیار کر رہے ہیں۔

طواف کے دوران کفار کی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر تشدد

ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا طواف کر رہے تھے، اس وقت مکہ کے سردار کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے۔ آپ طواف کرتے کرتے جب بھی ان کے پاس سے گزرتے وہ آپ کا مذاق اڑاتے ۔ آخر تیسرے چکر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس رک گئے اور فرمایا: ” قریش کے لوگ اللہ کی قسم تم باز نہ آؤ گے جب تک کہ تم پر اللہ کا عذاب نازل نہ ہو۔سن لو میں تمہارے لیے ہلاکت کی خبر لے کر آیا ہوں۔یہ سن کر سب کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے اور انہیں سانپ سونگھ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمارہے تھے ” الہا اپنے دین کو یقین غالب کرےگا

مگر اگلے دن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم طواف کرنے آئے تو ان لوگوں نے آپ کو گھیر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے۔ عقبہ بن ابی معیط بد بخت نے آپ کی چادر آپ کے گلے میں ڈال کر اس طرح بل دے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دم گھٹنے لگا اور آپ گھٹنوں کے بل بیٹھے گئے۔ خوش قسمتی سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ موقع پر پہنچ گئے۔ انہوں نے عقبہ بن ابی معیط کو دھکا دے کر ہٹایا اور فرمایا اتقتلونَ رَجُلًا أَن يَقُولُ رَبِّي الله کیا تم ایک شخص کو صرف اتنی سی بات پر قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ؟)یہ سن کر مشرکین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تینوں پر پل پڑے، اتنا مارا کہ ان کا سر پھٹ گیا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اولاد نرینہ کی وفات اور مشرکین کے طعنے

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرایک اور بہت بڑی آزمائش آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے صاحبزادے قاسم جو آپ کی بعثت سے پہلے پیدا ہوئے تھے اور اب اتنے بڑے ہو چکے تھے کہ گھوڑے پر سوار ہو جاتے تھے، اللہ کو پیارے ہو گئے۔ کچھ دنوں بعد آپ کے دوسرے صاحبزادے عبداللہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولاو کوئی نہ رہی۔ اولادکی جدائی کا غم ہی کچھ کم جگر سوز نہ تھا کہ مشرکین نے اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزید دل آزاری کا ذریعہ بنا لیا اب وہ کہتے پھرتے تھے کہ محمد ” ابتر ہو گئے ہیں، یعنی ان کی اولا نرینہ ختم ہوچکی ہے، آئندہ ان کی نسل ہوگی نہ کوئی نام ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم علی یلم کوتسلی کے لیے سورۃ الکوثر نازل فرمائی اور یہ اعلان فرمایا: وان شائِكَ هُوَ الابتر” یقیناً آپ کے دشمن ہی بے نام ونشان ہو جا ئیں گے ۔

Alkroof.com

FB_IMG_1698140720290

صحابہ کرام پر ظلم وستم

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر جبر وستم

قریش کے سرداروں نے جب یہ دیکھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دین تبلیغ سے نہ رکتے ہیں، نہ ابو طالب ان کی سر پرستی چھوڑتے ہیں تو مزید طیش میں آگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بنو ہاشم میں ذاتی وجاہت اور پھر ابوطالب جیسے ہر دل عزیز اور قابل احترام بزرگ کو وہ نظر انداز نہیں کر سکتے تھے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہاتھ اٹھانا آسان نہ تھا مگر عام مسلمان جن میں زیادہ تر غریب لوگ تھے، اب ان کے طیش اور انتقام کا نشانہ بننے لگے۔ قریش کا ہر سردار اپنے اپنے قبیلے کے ان لوگوں کو تختہ مشق بنانے لگا جو اسلام لے آئے تھے۔ جو لوگ غریب تھے اور بے یارو مددگار بھی انہوں نے سب سے زیادہ دکھ سہے

حباب بن الارث اور حضرت بلال رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکلیفیں

خباب بن الارث رضی اللہ عنہ کو انگاروں پر لٹایا گیا، جس سے ان کی کمر با لکل جھلس گئی ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ امیہ بن خلف کے غلام تھے، وہ انہیں صحرا کی تپتی دھوپ میں لٹا کر سیے پر بھاری پتھر رکھ دیا۔ کہتا کہ محمدمد کا انکار کردو اور لات و عزی کی پرستش کرو ورنہ اسی حالت میں تمہارا دم نکل جائے گا۔ کبھی لوہے کی زرہ پہنا کر تیز دھوپ میں بٹھا دیتا۔ وہ اس تکلیف میں بھی کہتے: ” أحدًا أحدا (وہ ایک، وہ ایک ہے ) کبھی ان کے گلے میں رسی ڈال کر شریر لڑکوں کو حکم دیتا کہ پورے شہر میں گھسیٹتے پھریں

عمار بن یاسر اور اس کی خاندان کے تکلیفیں

عمار بن یاسر، ان کے والد یا سراور والدہ سمیہ کا مکہ میں کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ قریش کے سرداران تینوں کو پکڑ کر صحرا میں لاتے اور بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس حال میں دیکھتے تو فرماتے: یا سر کے گھرانے والو! صبر کرتے رہو۔ تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔

حضرت یاسر رضی اللہ عنہ جو معمر اور کمزور تھے، اس مسلسل تشدد کی تاب نہ لا کر ایک دن فوت ہو گئے۔ پھر ان کی اہلیہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل ملعون نے بدترین اذیت دیتے ہوئے برچھی کا وار کر کے شہید کر ڈالا ۔ یہ اسلام کی پہلی شہید خاتون کہلا ئیں ۔ اسی طرح حضرت صہیب رضی اللہ عنہ جو عبداللہ بن جرمان کے آزاد کردہ غلام اور نسلی لحاظ سےعجھی تھے، زدو کوب کا نشانہ بنتے رہے۔ انہیں اتنا مارا جاتا کہ بے ہوش ہو جاتے

قریش کے مظالم اتنے بڑھے کہ شریف، مال دار اور معزز مسلمان بھی ان کی زیادتیوں سے نہ بچ سکے ۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے کس کر باندھ دیا کہ جب تک اسلام نہ چھوڑو گے آزاد نہیں کردوں گا مگر وہ دین حق پر ڈٹے رہے۔

حضرت مصعب بن عمیر کا واقعہ

حضرت مصعب بن عمیر مکہ کے بڑے مال دار ہو نہار اور ناز و نعمت میں پلے ہوئے نو جوان تھے۔ انہیں گھر والوں نے ایک کوٹھری میں بند کر دیا اور ایک طویل مدت تک وہ قید ہی میں رہے

حضرت ابوبکرصدیق پر مظالم

سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ کے انتہائی معزز لوگوں میں سے تھے، اسی طرح حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بھی شرفاء میں شامل تھے مگر جب دونوں اسلام لائے تو قریش کے سردار نوفل بن خویلد نے دونوں کو پکڑ کرایک ہی رسی سے باندھ دیا اور بڑی ایذا رسانی کے بعد چھوڑا ۔ تب سے یہ دونوں قرینین ( دو پکے ساتھی ) کہلانے لگے

حضرت صدیق اکبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جان سے زیادہ عزیز:

ایک دن سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سر عام اسلام کی دعوت دینا شروع کی تو مشرکین آپے سے باہر ہو کر اُن پر جھپٹ پڑے اور مارمار کر بے ہوش کر دیا۔ عتبہ بن ربیعہ اپنے موٹے تلے والے پرانے جوتوں سے ان کے چہرے پر ٹھوکریں مارتا رہا۔ چہرہ اتنازخمی ہوگیا کہ پہچان مشکل ہوگئی۔ ان کے رشتے دار نیم مردہ حالت میں انہیں اٹھا کرنے لئے گئے ، سب کو یقین تھا کہ وہ زندہ نہیں بچیں گے مگر اللہ نے ان کی زندگی باقی رکھی تھی ۔ شام کے قریب انہیں ہوش آیا تو پہلا جملہ منہ سے یہ انکا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو خیریت سے ہیں ناں؟ جب بتایا گیا کہ بخیریت ہیں تو کہنے لگے:

میں جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھ نہیں لیتا، کچھ کھاؤں پیوں گا نہیں۔”

آخر کار ان کی والدہ ام الخیر اور ایک رشتہ دار خاتون ام جمیل رات کا اندھیرا پھیلنے کے بعد انہیں سہارا دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عزیز ترین دوست کی یہ حالت دیکھ کر اپنے آنسو نہ روک سکے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو بھی روتے رہے۔ اُن کی والدہ ابھی تک اسلام نہیں لائی تھیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی درخواست پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ہدایت کے لیے دعا کی۔ دعا کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ ام الخیر رضی اللہ عنہا اس وقت ایمان لے آئیں۔ یہ اس دن کی دعوت و تبلیغ اور ظلم وستم پر صبر کرنے کا نقد صلہ تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ساتھیوں کے خیال رکھنا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے بہت خیال رکھتے تھے اور ان کو ہمیشہ جنت کے باریں میں ذکر فرماتے اور صبر کے تلقین فرماتے

Alkhroof.com

FB_IMG_1698140688377

امانت نبوت سپرد ہوئ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت کا واقعہ

عمر کے چالیسویں سال کو پہنچ کرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سوچ اور فکر گہری ہوتی چلی گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے کہ تمام دنیا ہلاکت اور بر بادی کے راستے پر جارہی ہے اور اگر اس کی سمت درست کرنے کی کوئی موثر کوشش نہ کی گئی تو بنی نوع انسان کا انجام بہت ہی برا ہو گا۔ اس تشویش کے علاوہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک عجیب سی مہم بے چینی محسوس کیا کرتے تھے۔ گزشتہ سات برس سے آپ کو گاہے گاہے فرشتوں کی آواز میں سنائی دے رہی تھیں اور غیبی انوارات کا مشاہدہ ہورہاتھا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تصور تک نہ تھا کہ اللہ تعالی آپ کو آخری رسول کا منصب عطا کرنے والا ہے۔

اس کیفیت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی پسند بنادیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹیوں اور بیابانوں میں وقت گزارنے لگے۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر سچے خواب دکھائی دیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی وادیوں سے گزرتے ہوئے درختوں اور پتھروں سے آواز سنائی دیتی : السلام علیکم یار سول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ کر دیکھتے تو کوئی پکارنے والا نظر نہ آتا۔

جنات کی سیر آسمانی پر پابندی

سے پہلے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوتا ، وحی کی حفاظت کے انتظامات مکمل کر لیے گئے۔ پہلے جنات اور شیاطین آسمان کے قریب جا کر فرشتوں کو ملنے والے احکام اور خبروں کی کچھ سن گن لے لیا کرتے تھے۔ یہ خبریں وہ آکر اپنے کاہنوں اور جادو گروں کو سناتے تھے اور وہ ایک سچ میں دس جھوٹ ملا کر لوگوں پر اپنی فرضی غیب دانی کی دھاک بٹھایا کرتے تھے ۔ آخری کتاب قرآن مجید کے نزول سے پہلے جنات کے آسمان کے قریب آنے اور سن گن لینے پر پہرے لگا دیے گئے۔ اگر کوئی جن پہلے کی طرح اُدھر کا رخ کرتا تو شہاب ثاقب اس کا تعاقب کرتے

اس سے پہلے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوتا ، وحی کی حفاظت کے انتظامات مکمل کر لیے گئے۔ پہلے جنات اور شیاطین آسمان کے قریب جا کر فرشتوں کو ملنے والے احکام اور خبروں کی کچھ سن گن لے لیا کرتے تھے۔ یہ خبریں وہ آکر اپنے کاہنوں اور جادو گروں کو سناتے تھے اور وہ ایک سچ میں دس جھوٹ ملا کر لوگوں پر اپنی فرضی غیب دانی کی دھاک بٹھایا کرتے تھے ۔ آخری کتاب الہی کے نزول سے پہلے جنات کے آسمان کے قریب آنے اور سن گن لینے پر پہرے لگا دیے گئے۔ اگر کوئی جن پہلے کی طرح اُدھر کا رخ کرتا تو شہاب ثاقب اس کا تعاقب کرتے۔

اسی صورتحال سے جنات کو بھی اندازہ ہو گیا کہ عن قریب کوئی بہت بڑا واقعہ ہونے والا ہے۔ ایک کا ہن کا بیان ہے (جو بعد میں مشرف بہ اسلام ہوا ) کہ میرے پاس ایک چڑیل آیا کرتی تھی۔ ایک دن وہ گھبرائی ہوئی نمودار ہوئی اور کہنے گلی اَلَمْ تَرَ الجِنَّ وَإِبْلَاسَهَا. وَيَاسَهَا مِنْ بَعْدِ اِنْكَاسِهَا ، وَلْحُوْقَهَا بِالْقِلَاصِ وَأَحْلَاسِهَا کیا تو نے نہیں دیکھا جنات اور ان کی حیرانی کو، ان کی مایوسی اور افتادگی کو ان کے اونٹنیوں کی پشت سے چھٹے کو ۔ گویا ان تکوینی تغییرات نے جنات کو بھی احساس دلا دیا تھا کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور قریب ہے۔ جس طرح باران رحمت سے قبل ہوا تھم جاتی ہے، اسی طرح نزول وحی سے پہلے یوں لگتا تھا جیسے کائنات دم سادھے کھڑی ہو۔

پہلی وحی

نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے دور غار کو اپنی گوشہ نشینی کےلیے پسند کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرکا چالیسواں سال تھا جب ایک دین یکا یک ایک فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ظاہر ہوا۔ یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو اللہ کے حکم سے آخری رسالت اور ساری دنیا کی راہ نمائی کا فریضہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپنے آئے تھے۔ انہوں نے آتے ہی اپنا تعارف کرایا اور کہا: “اے محمد! میں جبرئیل ہوں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔“

پہلی وحی سورۃ العلق کی

پھر فرشتے نے آپ کے سامنے سورۃ العلق‘ کی ابتدائی آیات تلاوت کیں: إِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ إِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ، عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ

ترجمہ پڑھیے اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ بنایا ، جس نے انسان کو بنایا خون کے لوتھڑے سے، پڑھیے اور آپ کا پروردگار بڑا مہربان ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، اورانسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا

دنیا میں علم و قلم کا تصور :

غرض وہ یورپ جو صدیوں بعد علوم اور تحقیق کی امامت کا دعوے دار بنا اس وقت علم تحریر اور قلم سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتا تھا۔ ایسے میں عرب جیسے تاریک گوشے میں نور کی پہلی کرن کا و (اقرا)، (علم) کی اور بِالْقَلَم کے جیسے تصورات لے کر ابھرنا تاریخ عالم کا ایک عجوبہ ہی تو تھا۔ بلاشبہ یہ ایک ایسے انقلاب کی تمہید تھا جو انسانی معاشرےکی اصلاح کے لیے پڑھنے تعلیم دینے اور قلم کی طاقت سے کام لینے کا پوری طرح قائل تھا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دانشمندی

جب فرشتے ہے یہ پیغام سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہنچے تو خوف و ہیبت اور ایک بے حد گراں ذمہ داری کے اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک کانپ رہا تھا۔ آپ کو لگتا تھا کہ کہیں اس کام کی فکر اور بوجھ سے جان ہی نہ نکل جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہنچتے ہی اپنی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے کہا:مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو! مجھے اپنی جان جاتی محسوس ہو رہی ہے۔” اہلیہ کے دریافت کرنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا ماجرا سنایا ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک تجربہ کار اور دانش مند خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر نام دار کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے آپ کو تسلی دی اور کہا: اللہ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ آپ رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں ، امانت دار ہیں، دوسروں کے کام آتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں، سچائی کے راستے میں آنے والی مصیبتوں میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔“ پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو گزشتہ آسمانی کتب کا مطالعہ کرتےرہتے تھے تا کہ ان سے اس سلسلے میں مشورہ اور راہ نمائی کی جائے۔

ورقہ ابن نوفل کہ پیشگوئی

انہوں نے یہ واقعہ سنتے ہی کہا: اللہ کی قسم تم اس امت کے نبی ہو ۔ یہ وہی فرشتہ تھا جو حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔ دیکھنا ایک وقت آئے گا کہ تمہاری قوم تمہیں جھٹلا کر تنگ کر کے اس شہر سے نکال دے گی ۔“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بڑے حیران ہوئے کہ قریش جو مجھے صادق و امین کہتے ہیں، میرے ساتھ یہ سلوک بھی کر سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے پوچھا: یہ لوگ مجھے نکالیں گے ؟ ورقہ نے کہا: ” ہاں جب بھی کوئی نبی ایسا پیغام لے کر آیا ہے، اس کی قوم نے اس سے دشمنی کی ، اگر میری زندگی میں وہ وقت آیا تو میں آپ کی ضرور مدد کروں گا۔

وحی میں وقفہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اضطراب:

اس واقعے کے بعد ایک مدت تک فرشتہ دوبارہ وحی لے کر نہیں آیا۔ اس دوران حضور صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم پریشانی اور اضطراب کے عالم میں مکہ کی وادیوں اور پہاڑیوں میں گھومتے رہتے کسی پل چین نہ آتا۔ خدا آپ سے کیا چاہتا ہے؟ یہ عظیم ذمہ داری کس طرح نبھانی ہے؟ کچھ معلوم نہ تھا۔ اس حیرت تشویش کی حالت میں کبھی کبھی ایک غیبی آواز آئی: ”بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ تب آپ کو کچھ تسلی ملتی۔ آخر کار یہ آیات نازل ہوئیں: يَأَيُّهَا الْمُدَّثرُه قُمْ فَانْذِرُه وَرَبَّكَ فَكَبِّرُه

اے چادر اوڑھنے والے ! اٹھو اور خبر دار کرو اور اپنے رب

کی بڑائی بیان کرو ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خفیہ دعوت

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دین کی دعوت دینے کا واضح حکم تھا۔ اب آپ کو کام کا لائحہ عمل مل گیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلا تاخیر دعوت کا عظیم فریضہ انجام دینے کا آغاز کردیا اور ابتداء اپنے گھر اور اپنی اہلیہ سے کی۔ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سب سے پہلے اس سچے دین کو قبول کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس وقت دس سال کے تھے، فورا اسلام لے آئے ۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی بلاترد مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ یہ تینوں تو گھر کے افراد تھے۔

باہر ملنے جلنے والوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست سید نا ابو بکر بن ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہا۔ بالغ مردوں میں وہ پہلےمسلمان تھے۔ وہ خود بھی ایک معزز حیثیت کے مالک تھے، اس لیے انہوں نے اپنے واقف کاروں کو اسلام کی دعوت دینا شروع کردی۔

دعوت اسلام کیا تھی

اسلام کی یہ ابتدائی دعوت صرف لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کے اقرار پرمشتمل تھی۔ توحید ورسالت وہ بنیادی پیغام تھا جس سے اس عظیم دعوت کی ابتدا ہوئی۔ لا الہ الا الہ کا مطلب تھا: ” کا ئنات کی تمام چیزوں کا خالق اللہ ہے، تمام امور کا مالک اللہ ہے، کامیابی اور ناکامی، بیماری اور شفاء، زندگی اور موت ہر چیز اس کے قبضے میں ہے۔ سب کچھ اس کے حکم سے ہوتا ہے۔ اس کے حکم اور اجازت کے بغیر مخلوق کچھ نہیں کر سکتی۔ بتوں اور ان سے منسوب دیوی، دیوتاؤں کے پاس کوئی اختیار نہیں ۔ سب کچھ کرنے والی با اختیا ر ذات صرف اللہ کی ہے، اس لیے عبادت بھی اسی کی ہونی چاہیے۔“

محمد رسول اللّٰہ کے مطلب

محمد رسول اللہ کا مطلب تھا: محمد اللہ کے آخری رسول ہیں، ان کی بتائی ہوئی تمام باتوں پر اعتماد کرنا ضروری ہے۔ انہی کی پیروی میں دنیاو آخرت کی کامیابی ہے اور ان کی تعلیمات کی مخالفت میں دونوں جہانوں کا خسارہ ہے ۔“

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دعوت

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت سے عثمان بن عفان، زبیر بن العوام، عبدالرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص اور طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہماجیسے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد ایمان لائے ۔ دعوت میں کسی قبیلے یا خاندان کی تخصیص نہیں تھی بلکہ ہر اس شخص کو دعوت دی جارہی تھی جس میں حق کو قبول کرنے کے آثار نظر آتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں ابو عبیدہ بن جراح، ارقم بن ابی الارقم عبيدة بن الحارث ، عثمان بن مظعون اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما جیسے قریشی جوان اسلام لائے وہاں اس خفیہ پیغام کی آواز مکہ کے کمز ور اور مفلس لوگوں اور غلاموں تک بھی جا پہنچی۔

امیہ بن خلف کے حبشی غلام بلال بن رباح رضی اللہ عنہ انہوں نے کلمہ پڑھ لیا۔ خباب بن الا رث رضی اللہ عنہ جو ایک مال دار عورت کے غلام تھے اور لو ہا کا کام کرتے تھے، اسلام لے آئے۔ صہیب رومی رضی اللہ عنہ جو غیرملکی نو جوان تھے، حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ یاسر کا گھرانہ جو انتہائی تنگ دست تھا ، شروع میں ہی مسلمان ہو گیا، اس میں حضرت یا سر، ان کی اہلیہ سمیہ اور ان کے بیٹے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لڑکے تھے اور عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتے تھے، ایک بار جنگل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آمنا سامنا ہو گیا اور دعوت توحید سنتے ہی کلمہ پڑھ لیا۔

قرآن مجید کا مسلسل نزول کلک

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی یہ تھی کہ متشدداور متعصب لوگ چاہے قریبی رشتہ دارہی کیوں نہ ہوں، انہیں دعوت کی سن گن بھی نہ ملنے پائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل علم اور مشرف بہ اسلام ہونے والے تمام لوگ اس احتیاط کو پوری طری ملحوظ رکھتے تھے، چونکہ ابو لہب چچاہونے کے باوجود متعصب اور متشدد مزاج مشرک تھا، اس لیے اسے بھی لاعلم رکھا گیا۔ اس سے . حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تدبر، دانش اور منصوبہ بندی کی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ابو طالب کا واقعہ

بنو ہاشم کے بڑوں میں سے صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب ، اس دعوت سے آگاہ تھے مگر انہیں بھی یہ علم یوں ہوا تھا کہ انہوں نے اتفاقیہ طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم م اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک گھاٹی میں چھپ کر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ ایمان نہ لانے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حامی، راز دار اور سر پرست تھے۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے پر کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ اپنے دوسرے بیٹے جعفر کو بھی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دس سال بڑے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ گوشوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ یوں جعفر بن ابی طالب السابقون الاولون ( ابتداء میں اسلام لانے والوں) میں شمار ہوئے۔

قریش کے سردار دعوت سے خبردار ہونا

آہستہ آہستہ قریش کے کئی سرداروں کوتو حید کے اس پیغام کا پتا چل گیا جوان کے بتوں کی مخالفت پرمشتمل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیکی کی دعوت یوں چپکے چپکے جاری تھی کہ کوئی اشتعال کا موقع پیدانہیں ہورہا تھا مسلم اور شرک کہیں بھی آمنے سامنے تن کر کھڑے نہ ہوتے تھے۔ سرداران قریش کے خاموش رہنے کا ایک سب بنو ہاشم کا احترام بھی تھا۔ اس کے علاوہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھانے کے باوجود وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ پیغام چند کمز ور لوگوں تک محدود رہے گا اور پھر خود بخو دمٹ جائے گا۔ غالباً انہوں نے اس دعوت کو زمانہ جاہلیت کے امیہ بن ابی ملت اور زید بن عمر و بن نفیل جیسے مشاہیر کی مذہبی سوچ پر محمول کیا تھا جو الہیات پر گفتگو کیا کرتے تھے اور ایک معبود کے قائل تھے۔ مگر اسلام کی دعوت ان سابقہ مصلحین کی خیال آرائیوں کی بہ نسبت بے پناہ طاقت رکھتی تھی۔

حق کا پہلا نعرہ حضرت ابوذر غفاری

مکہ کعبتہ اللہ کی وجہ سے مرجع خلائق تھا جہاں بیرونی زائرین کی آمد ورفت رہتی تھی ۔ ان مسافروں کو بھی حسب موقع دعوت دینے کا کام شروع کر دیا گیا۔ ان کے ذریعے اسلام کی خبر بہت جلد دور دراز کے علاقوں تک پہنچ گئی اور حق کی تلاش میں سرگرداں اکاڈ کا لوگ مکہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نام سے ملنے لگے ۔ سرداران مکہ پہلی بار چونکے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی نئے لوگوں سے ملنے میں بہت احتیاط کرنے لگے۔ انہی دنوں ڈاکوؤں کے قبیلے غفار کے ایک نوجوان ابوذر غفاری نے جو بت پرستی سے بے زار تھے، اپنے بھائی سے ایک نئے نبی اور نئے دین کی خبر سنی۔ وہ سیدھا مکہ پہنچے۔ انہیں معلوم تھا کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے جوان سے ملاقات کرنا مصیبت مول لینے کے مترادف ہے، لہذا وہ مسجد الحرام میں ٹھہر کر منتظر رہے کہ کسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو جائے۔ آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا حال احوال پوچھا اور انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملایا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ” کہاں کے ہو؟“بولے غفار کا ۔” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر حیرت و مسرت سے اپنی پیشانی تھام لی۔

ابوذر غفاری اسلام لے آئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کو خفیہ رکھنے کی تاکید کی مگر واپس جانے سے پہلے انہوں نے مسجد الحرام کا رخ کیا اور اہل مکہ کے بھرے مجمع میں کھل کر کلمہ توحید بلند کیا۔

یہ حق کا پہلا والہانہ نعرہ تھاجسے قریش بالکل برداشت نہ کر سکے اور اس درویش بے نوا پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت عباس یہ دیکھ کر تیزی سے لپکے اور یہ کہہ کر لوگوں کو پیچھے ہٹایا

تین سال تک دعوت کا خفیہ سلسلہ جاری رہا۔ حضرت ارقم بن ابی الا رقم بیا رضی اللہ عنہ کا مکان جو صفا پہاڑی کے دامن میں واقع تھا، اس عظیم جدو جہد کا پہلا مرکز تھا۔

Alkhroof.com

islamic history ke leya ye wabsite visit krey shukreya

FB_IMG_1696348668475

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ پیدائش

کائنات کی صبح صادق

آخر وہ گھڑی بالکل قریب آگئی جس کا کائنات کے ذرے ذرے کو انتظار تھا۔ ایک دن قریش کے سردار عبد المطلب بن ہاشم کو صبح سویرے اطلاع ملی کہ اللہ نے انہیں ایک ہونے سے نوازا ہے۔ یہ ربیع الاول کا مہینہ تھا جبکہ خالص قمری تقویم کے لحاظ سے یہ ماہ رمضان تھا۔ تاریخ کے بارے میں اختلاف ہے۔8.9.10 اور 12 کے اقوال مشہور ہیں

عبد المطلب وہ دوڑے ہوئے آئے ۔ اپنی بہو آمنہ بنت وہب کے پہلو میں ایک چاند سا حسین بچہ دیکھا تو ان کا دل شفقت و محبت سے لبریز ہو گیا۔ چھ ماہ پہلے ان کے سب سے چھوٹے بیٹے عبد اللہ کا انتقال ہو گیا تھا، یہ بچہ اسی عبداللہ کی نشانی تھا۔ عبد المطلب بچے کو گود میں لے کر کعبہ میں داخل ہوئے۔ اللہ کی حمد وثنا بیان کی ، اس بچے کا نام سوچنے لگے تو ان کے ذہن میں ایک بالکل نیا نام “محمد” آپا جواس سے پہلے عربوں میں کسی نے نہیں رکھا تھا۔ اللہ تعالی نے یہ منفرد نام اپنے آخری رسول کے لیے محفوظ کیا ہوا تھا جو عین وقت پر عبد المطلب کے دل میں ڈال دیا گیا

آخری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرہ نسب

اس آخری نبی کا شجرہ نسب یوں ہوا: محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن کریمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ سلسلہ نسب حضرت اسماعیل علیہ السلام تک

عدنان کے بعد کئی واسطوں سے حضور نبی کریم علی ای نیم کاسلسلہ نسب حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جاملتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے اور برگزیدہ نبی تھے ۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن

پاکیزہ بچپن: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو شروع شروع میں چند دن ان کے چا چا ابولہب کی باندی تویہ نے دودھ پلایا۔ اس دوران عبد المطلب اپنے یتیم پوتے کے لیے کسی دودھ پلانے والی کو تلاش کر رہے تھے۔ عربوں میں یہ رواج تھا کہ شیر خوار بچوں کو پرورش کے لیے دیہات کی دائیوں کے حوالے کر دیتے تھے تا کہ انہیں کھلی اور صاف آب و ہوا میسر آئے اور اُن کے جسم و جان کی اچھی نشو نما ہو۔ اس کے علاوہ دیہاتیوں کی زبان بھی فصیح اور خاص ہوتی تھی، جسے سیکھ کر بچے بھی ابتدا ہی سے خوش گفتار بن جاتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ رضاعی ماں کے ساتھ پرورش

طائف کے قریب آباد : وسعد اپنی فصاحت و بلاغت کے باعث مشہور تھے۔ اس لیے مکہ کے شرفاء ان کی دایوں کی خدمات حاصل کرنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ انہی دنوں اس قبیلے کی چند دریاں بچے گود لینے کے لیے مکہ آئیں مگر کسی دائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گو نہ لیا تھا ؟ کیوں کہ یہ خشک سالی کا زمانہ تھا اوران لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ٹھیک ٹھاک معاوضہ چاہیے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ایام میں یتیم دیکھ کرکسی دائی کو اس گھر سے معقول معاوضہ ملنے کی توقع نہ ہوئی۔ دالوں کے اس قافلے میں حلیمہ سعدیہ نامی ایک نیک خاتون بھی تھیں۔ انہیں کسی گھرسے کوئی بچہ نہ ملا۔ آخر وہ حضرت آمنہ کے گھر میں داخل ہوئیں، اس یتیم بچے کو دیکھتے ہی اس کی محبت ان کے دل میں پیوست ہوگئی، وہ زیادہ اجرت کا خیال کیے بغیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے سے لگائے اپنے ساتھ لے آئیں۔ ان کو گود لیتے ہی حلیمہ سعدیہ کو ہر طرف برکت ہی برکت نظر آنے لگی۔ لاغر جانور توانا ہو گئے ، بد حالی خوشحالی میں بدل گئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نشود نما عام بچوں سے مختلف ہوئی، جب عمر مبارک دو برس ہوئی تو حلیمہ سعدیہ نے دودھ چھڑا دیا۔ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے رضاعی بہن بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے جنگل میں جانے لگے۔ اس دوران ایک دن اچانک دوفرشتے نازل ہوئے جنہوں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک چیرا اور آپ کے دل سے سیاہ لوتھڑے جیسی کوئی چیز نکال کر پھینک دی اور دل کو ایمان و حکمت سے بھر کر واپس رکھ دیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر سینہ چیرے جانے کا کوئی نشان تک نہ رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چار سال کی عمر تک بنوسعد میں رہے۔ اس کے بعد حلیمہ سعدیہ نے آپ کو والدہ کے سپرد کر دیا۔ قبیلہ بنو سعد میں گزرے ان دنوں کی سادہ و جفا کش زندگی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت نشو ونما اور تربیت پر بہت عمدہ اثرات ڈالے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعدمیں کبھی کبھارصحابہ کرام سے فرماتے تھے: میں تم سب سے زیادہ خالص عرب ہوں اور میں نے بنو سعد کے قبیلے میں دودھ پیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کے ساتھ یثرب کا سفر

مکہ واپس آنے کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چھ سال ہوئی تو والدہ محترمہ آپ کو لے کر یثرب روانہ ہوئیں تا کہ اپنے شوہر کی قبر پر جائیں اور بچے کو اس کے والد کے ننھیالیوں سے ملائیں۔ ان کی حبشی باندی بر کہ (ام ایمن ) بھی اس سفر میں ہم راہ تھیں، جنہیں عبداللہ نے میراث میں چھوڑا تھا۔ یثرب میں حضرت آمنہ نے اپنے شوہر کے نھیال ہو یار میں کچھ دن گزارے۔ یہاں بن عدی بن نجار کا تالاب بھی تھا جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرا کی سکھی ۔

حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور عبد المطلب کے پرورش

واپسی کے سفر میں حضرت آمنہ ابواء کے مقام پر پہنچی تھیں کہ اچانک ان کا آخری وقت آگیا اور دیکھتے ہی دیکھتےدور دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ یہ ویران غیر آباد مقام مکہ اور یثرب دونوں کے بیچوں بیچ تھا۔ چاروں طرف پہاڑ تھے جن کے درمیان ایک ٹیلے پر حضرت آمنہ کی تدفین کی گئی عبداللہ کا یتیم، چھ سال کی عمر میں ماں کے سہارے سے بھی محروم ہو گیا اور وہ بھی اس کسمپری کے عالم میں کہ دور دور تک کوئی عزیز یارشتہ دارنہ تھا جس پر ہاتھ رکھا اورسینے سے لگا کر تسلی دیتا۔ یاللہ تعالی کی طرف سے غیر معمولی شخصیات کی تربیت کے وہ مراحل ہوتے ہیں جو بھٹی کا کام کر کے استعداد کے سونے کو کندن بناتے ہیں۔ حضور علیہ السلام علم کی باندی یہ کہ (اُم ایمن جو غالباً اس وقت خود سولہ سترہ برس سے زیادہ کی نہ تھیں) بڑی مشکل سے آپ علیہ سلم کو ساتھ مکہ لائیں۔ عبد المطلب نے اپنے ڈر یتیم کو پوری طرح اپنی آغوش شفقت میں لے لیا۔ وہ ایک آن پوتے کو اپنی نظروں سے دور نہ ہونے دیتے تھے۔ جب کہنے کے سایے میں اُن کے لیے وہ رئیسانہ قالین بچھایا جاتا جس پر کسی اور کو بیٹھنے کی اجازت نہ تھی تب بھی وہ اپنے ہونہار پوتے کو ساتھ بٹھاتے ۔حضور علیہ السلام سات سال کے تھے جب عبد المطلب کچھ دنوں کے لیے آپ کو چھوڑ کر یمن گئے تاکہ وہاں کے نئے حاکم سیف بن ذی ایوان کو مبارک باد دیں جس نے یمن سے حبشیوں کا اقتدار ختم کر کے عربوں کو دوبارہ عروج بخشا تھا۔ اس سفر کے سوا عبد المطلب نے ہمیشہ یتیم پوتے کو دل سے لگا کر رکھا۔

عبد المطلب کے وفات کے بعد

مگر والہانہ شفقت کے یہ دن باد صبا کی طرح گزر گئے اور ایک دن عبد المطلب بھی دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ اس وقت حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عمر ۸ سال دو ماہ دس دن تھی۔ جاتے جاتے عبدالمطلب اپنے بیٹے ابو طالب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھ بھال کی وصیت کر گئے اور وہی آپ کے سر پرست بنے۔۔اس سال عرب کے مشہور تھی اور قبیلہ بنی طے کے سردار حاتم طائی کا انتقال ہوا تھا اور یہی سال فارس کے سب سےنامور بادشاہ نوشیروان کی وفات کا ہے۔

اقبال مند لڑکپن :

عموماً لڑکپن کا زمانہ شوخی اور شرارت کے عروج کا ہوتا ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایام شروع سے نہایت شریف ، باوقار اور حیادار تھے۔ حضور عالم عرب کی معاشرتی برائیوں سے ذرا بھی متاثر نہ ہوئے۔ شرکیہ رسومات ، شراب نوشی اور گانے بجانے سے کوسوں دور رہے۔ سچائی ، امانت داری، ہمدردی، تواضع ، مروت اور رحم دلی کی صفات حضور نئی ہی ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ بے حدد ہیں، معاملہ فہم، بہادر اور چاق و چوبند بھی تھے۔

شام کی سفر اور راہب کے گاہی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بارہ سال تھی جب آپ اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ کے شام کے تجارتی سفر پر نکلے۔ اس قافلے نے شام کے سرحدی شہر بھرٹی میں شاہراہ کے کنارے پڑاؤ ڈالا جہاں بحیرا نامی ایک راہب کی خانقاہ تھی۔ 0 بحیرا راہب کبھی اپنی خانقاہ سے باہر نہیں نکلتا تھا، مگر اس دن وہ باہر آیا اور مجمعے کو چیرتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچا۔ پھران کا ہاتھ تھام کر کہنے لگا: یہ سیدالعالمین ہیں ۔ یہ رب العالمین کے رسول ہیں۔ یہ رحمتہ للعالمین ہیں ۔ قریش کے کچھ بوڑھوں نے کہا: “تمہیں کیسے معلوم؟ کہنے لگا: ” جب تم گھاٹی سے نیچے اتر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ کوئی درخت ا پھر ایسا نہیں جو تعظیما جھک نہ رہاہو۔ ایسا فقط نبی کے لیے ہوتا ہے۔ میں اسے مہر نبوت کی وجہ سے پہچانتا ہوں جو اس کے کندھوں کے درمیان ہے۔”

حضور نام کی عمر بارہ سال تھی جب آپ اپنے بچا ابو طالب کے ساتھ کے شام کے تجارتی سفر پر نکلے۔ اس قافلے نے شام کے سرحدی شہر بھرٹی میں شاہراہ کے کنارے پڑاؤ ڈالا جہاں بحیرا نامی ایک راہب کی خانقاہ تھی۔ 0 بحیرا کبھی اپنی خانقاہ سے باہر نہیں نکلتا تھا، مگر اس دن وہ باہر آیا اور مجھے کو چیرتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچا۔ پھران کا ہاتھ تھام کر کہنے لگا: یہ سیدالعالمین ہیں ۔ یہ رب العالمین کے رسول ہیں۔ یہ رحمتہ للعالمین ہیں ۔ قریش کے کچھ بوڑھوں نے کہا: “تمہیں کیسے معلوم؟ کہنے لگا: ” جب تم گھاٹی سے نیچے اتر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ کوئی درخت یا پھر ایسا نہیں جو تعظیما جھک نہ رہا

ہو۔ ایسا فقط نبی کے لیے ہوتا ہے۔ میں اسے مہر نبوت کی وجہ سے پہچانتا ہوں جو اس کے کندھوں کے درمیان ہے۔”راہب نے قافلے کی ضیافت کی اور ابو طالب کو قسم دی کہ اس لڑکے کو شام نہ لے جائیں؛ کیوں کہ اگر رومیوں نےاس مقام نبوت کی وجہ سے پہچان لیا تو قتل کردیں گے۔ آخر ابو طالب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے ساتھ واپس مکہ بھیجا

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے جنگ میں شرکت

حضور صلی اللہ علیہ وسلم دس سال کے تھے جب مکہ کے مضافات میں اڑائیوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جنہیں حروب فجارکہاجاتا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی لڑائی نجار اول بنو کنانہ اور ہوازن کے درمیان ہوئی۔ دوسری جنگ قریش اور ہوازن کے مابین لڑی گئی۔ تیسری میں ہوازن اور بنو نصر بن معاویہ آمنے سامنے آئے۔ چوتھی لڑائی جسے نجار رابع اور نجار یہ اض کہا جاتا ہے، گزشتہ تمام جنگوں سے زیادہ سخت تھی جوقریش اور قبیلہ بنو قیس کے درمیان بر پا ہوئی۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پندرہ سال کی تھی ۔ معرکے کے دن قریش کے تقریباً تمام ہوشیار مرد میدان میں صف بند تھے لڑکوں کو بھی مددگار کے طور پر طلب کیا گیا تھا۔ نبی اکرم منی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کے ہمراہ میدان جنگ میں پہنچ گئے جو تیر اندازی پر مقرر تھے۔ اس جنگ میں بنو ہاشم کے سردار زبیر بن عبد المطلب تھے۔ قریش کی قیادت بنو امیہ کا سردار حرب بن امیہ کر رہا تھا۔ لڑائی شروع ہوئی تو دشمنوں نے قریش پر پورا دباؤ ڈال دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اپنی کمانوں سے تیر چلا رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دشمن کے چلائے ہوئے تیر لال کر پکڑا رہے تھے تا کہ تیروں کی کمی نہ ہونے پائے۔ دن کے ابتدائی حصے میں بنوتیس کا پلہ بھاری تھا مگر سورج ڈھلنے کے بعد قریش نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور بنو قیس شکست کھا کر پسپا ہو گئے۔ یہ حضور علیہ السلام کے لیے کسی جنگ میں شرکت کا پہلا تجربہ تھا۔ 0

جنوبی عرب پر فارس کے تسلط

اس سال جنوبی عرب میں ایک انقلاب آیا۔ یمن کا محب وطن عرب حاکم سیف بن ذی یزن پندرہ سالہ حکومت کے بعد فوت ہو گیا، چونکہ یہ حکومت کسری کی عسکری مدد کے طفیل تھی ، اس لیے سیف کے مرتے ہی کسرئی نے یمن کو براہ راست اپنے قبضے میں لے لیا اور وہاں اپنے فارسی النسل گورنروں اور افسروں کا تقرر کر دیا ۔ اس طرح جزیرۃ العرب کا جنوب ایک بار پھر بری طرح غیر ملکی استبداد میں جکڑ اگیا۔ 0

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رزق حلال کے لیے محنت

جوان ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہِ و سلم نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے روزگار تلاش کرنے کی فکر کی۔ بنو ہاشم تا جر پیشہ تھے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سرمایہ نہیں تھا، اس لیے آپ نے اجرت کے بدلے لوگوں کی بکریاں چرانے کا کام شروع کیا۔ بنو سعد میں بچپن گزارنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے اس کام کا تجربہ تھا۔بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچاز بیر کے ساتھ تجارت کا تجربہ حاصل کیا اوران کے ساتھ یمن کا ایک سفر بھی کیا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل رشک جوانی اور شادی

سرمایہ نہ ہونے کے باعث حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کا سرمایہ تجارت میں لگا کر نفع میں شریک ہونے لگے۔ عمر مبارک پچیس سال کی تھی جب اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مال و دولت کے لحاظ سے غنی کر دینے کا انتظام فرمایا۔ قریش کی ایک مال دار اور شریف بیوہ خدیجہ بنت خویلد قابل اعتماد افراد کو سرمایہ دے کر تجارت میں لگوائیں اور حاصل ہونے والے نفع سے انہیں معقول معاوضہ دیتیں ۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شرافت ، دیانت اور دوسری خوبیوں کا علم ہوا تو بڑے اصرار سے آپ کو اپنا سرمایہ دے کر تجارت کے لیے شام بھیج دیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت داری اور خوش اسلوبی کی وجہ سے اس تجارت میں بے حد نفع ہوا۔ساتھ ہی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مزید خوبیوں کا علم بھی ہوا وہ آپ کے کردار سے اتی متاثر ہوئیں کہ آپ کونکاح کا پیغام بھیج دیا۔ اس سے پہلے وہ بڑے بڑے شریف اور رئیس لوگوں کی طرف سے رشتے کے پیغام مسترد کر چکی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب نے نکاح پڑھایا۔ اس وقت آپ کی عمر پچیس برس کی تھی ، جبکہ حضرت خدیجہ چالیس سال کی تھیں۔

Alkhroof.com

islamic book ke leya es whatsapp number pe masg krskte hai. 00923170487219

FB_IMG_1698465275103

حضرت آدم علیہ السلام کے پیدائش

حضرت آدم علیہ السلام کے تخلیق

حضرت آدم علی سلام:حضرت آدم علی کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا۔ یہ پہلے انسان کی تخلیق تھی، اس کی بناوٹ میں خالق کائنات نے ان جدتوں اور صناعیوں سے کام لیا جو اس سے پہلے کسی مخلوق کی پیدائش میں استعمال نہیں کی گئی تھیں۔ اس نئے وجود میں سوچنے، سمجھنے ، جذبات کا اظہار کرنے ، مسائل کو مجھنے اور گردو پیش کے وسائل کو کام میں لانے کی صلاحیتیں باقی تمام مخلوقات سے زیادہ تھیں۔ یہ قمی اور تخریب دونوں میں غیر معمولی نتائج اور اثرات دکھا سکتا تھا۔ اللہ . تعالی نے اسے نہ فرشتوں کی طرح اطاعت پر مجبو بنایا تھا، نہ جنات کی طرح شر سے مغلوب، بلکہ اسے خیر اور شر دونوں کی قوت دی تھی۔ فرشتوں نے انسان کی ساخت سے اس کی کارکردگی کی صلاحیتوں کا اندازہ لگالیا، انہیں یہ بھی یاد تھا کہ اس سے قبل زمین پر آباد جنات کتنا فساد چاچکے ہیں، اس لیے انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں نیاز مندانہ عرض کیا کہ اس کی جگہ حمد وثنا اور عبادت کے لیے ہم حاضر ہیں۔ اللہ نے فرمایا: إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ.میں جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ۔انسان کو نیکی اور بدی دونوں کی قو تیں اس لیے دی جارہی تھیں کہ اللہ دنیا کی تجربہ گاہ میں اسے آزمانا چاہتا تھا۔ اگر وہ بدی کی طاقت رکھتے ہوئے اللہ سے ڈر کے بدی سے باز رہے گا اور نیکی کی صلاحیت کو استعمال کرے گا تو کامیاب رہے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ کو بھلا کر بدی کی صلاحیت استعمال کرے گا، نیکی کی قوت کو ترک کرے گا تو نا کام رہے گا۔ یہ راز اس وقت فرشتوں کو سمجھ نہیں آسکتا تھا۔

آدم علیہ السلام کے پیدائش اور فرشتوں کی سجدہ

حضرت آدم علیم کو پیدا کر کے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے انہیں تعظیمی سجدہ کرایا تا کہ ساری دنیا پر انسان کی عظمت کا سکہ بیٹھ جائے ۔ حضرت آدم علینے کی رفاقت کے لیے انسان کی صنف نازک کو بھی پیدا کیا گیا، اس کی ابتدا حضرت حوالہ علیہا سے ہوئی ۔ دونوں کو مہمانی کے لیے جنت میں بھیج دیا گیا۔ دنیا کے پہلے مرد اور عورت نے جنت میں تھوڑا ہی عرصہ گزارا مگر اس مختصری زندگی کا آرام وسکون انسانی روح کی گہرائیوں میں ایسا جذب ہوا کہ بعد میں آنے والا ہر انسان اپنے اندر جنت جیسی کسی جگہ میں جاننے کی زبر دست خواہش محسوس کرتارہا ہے، جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں، رنج و غم اور تکلیف کا نام ونشان نہ ہو، جہاں ہر خواہش پوری ہو اور ہر نعمت میسر ہو۔ اللہ پر ایمان رکھنے والوں نے رسولوں کی معرفت یہ جان لیا کہ اُن کی اصل منزل جنت ہے، اس لیے وہ نیک اعمال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے تا کہ اپنی منزل کی طرف لوٹ سکیں۔ اللہ اور رسولوں پر ایمان نہ رکھنے والوں نے جنت کو ایک خیالی چیز سمجھ کراس کا انکار کیا مگر وہ اپنی فطرت میں موجود جنت کی خواہش سے خود کو آزاد نہ کر سکے۔ اس لیے دنیا کے محدود وسائل کی چھین جھپٹ میں منہمک ہو گئے تا کہ اس فانی زندگی میں جنت کے مزے لے سکیں۔ اس کش مکش سے دنیا فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن گئی۔

شیطان لوگوں کو گمراہ کرنا

تخلیق آدم علیہ السلام سے اب تک انسانوں کو گمراہ کرنے میں سب سے بڑا دخل شیطان کا رہا ہے۔ شیطانوں کا سردار ابلیس جنات کی نسل سے ہے۔ حضرت آدم عین سے پہلے یہ فرشتوں کا ہم نشین اور بارگاہ الہی کا مقرب رکن تھا۔ حضرت آدم علینے کا مرتبہ اپنے سے بلند ہوتے دیکھ کر وہ نفرت اور حسد کی آگ میں بُری طرح جلنے لگا۔ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا؛ کیوں کہ وہ خود کو حضرت آدم علیے اسے بہتر سمجھتا تھا، وہ بھی صرف اس لیے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کابدن مٹی کاہے۔ اس گستاخی پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی بارگاہ سے دھتکار دیا۔ شیطان ڈھیٹ تھا، معافی بھی نہ مانگی۔ ہاں اللہ تعالیٰ سے مہلت طلب کر لی کہ میں قیامت تک آدم اور اس کی اولاد کو گمراہ کر سکوں۔ اللہ نے اجازت دے دی۔ حضرت آدم علینے اور اُن کی اولاد کی آزمائش صحیح معنوں میں تو تب ہی ہو سکتی تھی جب وہ شیطان کے اثرات سے بچ کر دکھا ئیں اور خود کو اپنے خالق و مالک سے وابستہ کیسے رہیں، اس لیے شیطان کو انسان کے بہکاوے کی مہلت بھی دے دی گئی اور صلاحیت بھی۔

شیطان حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ پختہ دشمنی

شیطان کی حضرت آدم علی سے دشمنی پختہ تر ہوگئی۔ اب اس نے حضرت آدم علیے کام کو بھی اللہ کے ہاں مجرم بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی صلاحیت دی تھی کہ وہ دوسروں کے ذہن اور خیالات میں دخل اندازی کر سکتا تھا۔ اس نے اس صلاحیت سے کام لے کر پہلے حضرت حوا اور پھر حضرت آدم علینے کا کو ایک ایسے درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کر لیا جس کا استعمال حضرت آدم علینے کے لیے ممنوع تھا۔ جب آدم و حوا نے پھل استعمال کیا تو اللہ کی طرف سے جنت سے اخراج کا حکم آگیا۔ جنت کا لباس چھین لیا گیا۔ دونوں نے جنت کے درختوں کے چنوں سے ستر چھپا کر اپنی فطری شرم و حیا کی لاج رکھی۔ جلد ہی دونوں کو زمین پر اُتار دیا گیا۔ اس موقع پر انسان اور شیطان کافرق ظاہر ہوا۔ حضرت آدم و حوا نے گڑ گڑا کر اللہ سے اپنی لغزش کی معافی مانگی ، جبکہ شیطان اپنی سرکشی پر ڈٹا رہا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں متنبہ فرمایا کہ اب شیطان ہمیشہ تمہاری اولاد کا دشمن رہےگا، اس سے ہوشیار رہنا۔ یہ بھی بتایا کہ نسل انسانی کی رہنمائی اور اسے شیطان کے اثرات سے بچانے کے لیے آسمانیہدایت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ جو اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ آخرت میں بے خوف و خطر ہوگا۔ جو اسے ٹھکرائے گاوہ سخت عذاب کا حق دار ٹھہرے گا

حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے کا مقصد

چونکہ حضرت آدم علین) کی پیدائش اور دنیا میں اُن کی آمد کا قصہ انسان کو اس کی اصل منزل، مقصد اور حیثیت سے آگاہ کرتا ہے، اس لیے قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اس واقعے کو بہت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ 0 معلوم ہوا کہ دنیا میں انسان کی آمد کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول ، اس کی توحید تک رسائی ، اس کے در پر جھکنے، اس کے احکام ماننے اور شیطان کے جال سے بچنے کی آزمائشیں مقصود تھیں ۔ یہی راز تھا جس کے لیے حضرت آدم علی کو پیدا کیا گیا، دنیا میں بھیجا گیا اور اُن کی نسل کو چلایا گیا۔

حضرت آدم علیہ السلام کے وفات تک نسل کے تعداد

حضرت آدم علینے کا کی وفات تک ان کی نسل کے افراد کی تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ ہو چکی تھی ۔ 0 یہاں ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پیدائش آدم میے کا کا یہ قصہ جو قر آن مجید و احادیث مبارکہ میں بیان ہوا اور اس کی تائید تو رات اور انجیل اپنی موجودہ تحریف شدہ حالت میں بھی کرتی ہیں ) اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ تمام انسان حضرت آدم علی کی اولاد ہیں، سب ایک باپ کے بیٹے اور انسان ہونے کے ناطے بھائی بھائی ہیں۔ اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ڈارون کا نظریہ ارتقاء اور انسان کے بندر کی نسل سے ہونے کا مفروضہ نری گپ ہے جو تمام آسمانی مذاہب کے برعکس اور تاریخ سے متصادم ہونے کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی بالکل خلاف ہے۔ اگر قدیم زمانے کے بندر ارتقاء کرتے کرتے انسان بن سکتے تھے تو دور حاضر کے بندر، بندر ہی کیوں رہے، انسان کیوں نہیں بنے ؟ انسان ہزاروں برس میں کوئی اور مخلوق کیوں نہیں بن گیا؟ بنی شیر کیوں نہ بن پائی اور گدھا آج تک گھوڑے میں کیوں تبدیل نہ ہوا؟

حضرت آدم علیا دنیا میں آئے تو یہاں جنت جیسی نعمتیں اور آسائشیں نہ تھیں، پھر بھی یہ دنیا انسان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی تھی ۔ کھانے پینے بستر پوشی اور رہنے سہنے کے وسائل یہاں میسر تھے۔ خالق کا ئنات نے اس پہلے انسان کو اُن وسائل کے استعمال کی تربیت بھی دے دی۔ حضرت جبرئیل علی گندم کے دانے لے کر آئے اور حضرت آدم علی نے انہیں زمین میں کاشت کر کے اناج حاصل کیا ، اسے ہیں اور گوندھ کر روٹی تیار کی ۔ 0 جنت سے نکالے جاتے وقت حضرت آدم و حوا نے درخت کے چوں سے ستر پوشی کی تھی۔ دنیا میں اس کا مستقل انتظام اس طرح کیا کہ دنے کے بالوں سے اونی کپڑا بنا گیا، اس سے حضرت آدم علیے کام کا جسد اور حضرت حوا کا کرتا اوراوڑھنی تیار ہوئے ۔

حضرت آدم علیہ السلام اور حوا بی بی کہ اولاد میں نکاح کا سلسلہ

حضرت آدم علیہ السلام اور حوا کی اولاد ہوئی تو ان میں نکاح کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں اولاد آدم کی افزائش ہوئی۔دور حاضر میں مغربی محققین نے جہاں انسانی تہذیب و تمدن کو لاکھوں سال قدیم بتایا ہے اور وہاں یہ دعوی بھی کیاہے کہ شروع میں انسان جانوروں کی طرح بر ہنہ پھرتا تھا، کچا گوشت چیا تا تھا، نکاح کا کوئی تصور نہ تھا، مردوزن کسی رسماور قید کے بغیر شہوت پوری کیا کرتے تھے۔ ہزاروں برس بعد وہ کھانے پکانے ، پہنے اور نکاح کا عادی بنا۔ یہ دعوے محض قیاس کی پیداوار ہیں، تاریخ ان کی تردید کرتی ہے

Alkhroof.com

00923170487219

FB_IMG_1698140700597

تاریخ اُمَّتِ مسلمہ تاریخ ماقبل از اسلام از تخلیق آدم علیه تا رفع عیسی علی

یہ دنیا کسی بنی(دنیا کی تخلیق)

دنیا کی حقیقت

یہ دنیا اتنی ہی عجیب ہے جتنی ہماری یہ زندگی اور جسم وجان ۔ ہم گوشت پوست کا ایک جسم ہیں جو سوچتا، ہوتا اور حرکت کرتا ہے، جس میں اک چھوٹا سا دل ہماری پیدائش سے لے کر آج تک کسی وقفے کے بغیر دھڑکتا چلا آرہا ہے، جس میں ہزاروں میل لمبی بال جیسی باریک شریا نہیں ایک ایک خلیے کو خون فراہم کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ ہمارے یہ وجود سو برس پہلے یقینا نہیں تھے اور سو برس بعد یقینا نہیں ہوں گے ۔ پس جس طرح ہم فانی ہیں ، اس طرح یہ دنیا بھی ایک عارضی مقام ہے جو ہمیشہ تھا، نہ رہے گا، مگر اس عارضی مقام کو بھی کس قدر بالغ حکمتوں، عجیب نزاکتوں اور بھر پور انتظامات کے ساتھ بنایا گیا ہے، جتنا سوچنے اور تحقیق کیجئے عقل دنگ ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ سوال پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اُبھرتارہتا ہے کہ آخر یہ دنیا کس نے بنائی اور اس کا مقصد کیا ہے؟

دنیا کس نے بنائی اور اس دنیا کا مقصد

جو لوگ ان سوالات کے جوابات کے لیے وحی کی رہنمائی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور غیب پر یقین کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ ہمیشہ اس بارے میں شکوک وشبہات ہی کا شکار رہے ہیں اور کوئی بھی تحقیق انہیں یہ معمہ حل کر کے نہیں دے سکتی۔ ہاں جو بندے خالق کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، رسولوں کی حیثیت تسلیم کرتے ہیں اور آسمانی تعلیم کی ضرورت کو مانتے ہیں، ان کے لیے یہ سوالات بھی معما نہیں رہے؟ کیوں کہ ہر نبی کی ابتدائی تعلیمات اِن سوالات کے جوابات دیتی ہیں۔ یہ دنیا ایک اللہ نے بنائی ہے، وہی خالق کا ئنات ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ، اس کو کسی نے پنہیں بنایا، اس کی کوئی اولاد نہیں۔ وہ سب کچھ جانتا ہے، ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے، اس نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے، اس دنیا کو آزمائش کی جگہ بنایا ہے، کامیاب لوگوں کے لیے انعام کے طور پر جنت تیار کی ہے اور نا کام لوگوں کو سزادینے کے لیے جہنم کو شعلہ زن کیا۔ یہ ہیں موت وحیات کے اسرار کے متعلق وہ حقائق جو گزشتہ کتب آسمانی میں بھی موجود تھے اور اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ چیزیں عقائد سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کو جانے بغیر انسان کی بے چین روح کبھی مطمئن نہیں ہوسکتی، اس لئے انہیں وحی الہی نے خود کھول کھول کر بیان کیا ہے

کچھ ایسے سوالات بھی ہیں جن کا محرک معلومات کا شوق اور آگہی کا ولولہ ہے۔ انسان کا ذوق تجسس اسے آمادہ کرتا ہے کہ وہ ان باتوں کا پتا چلائے کہ ان کے آباؤ اجداد کون تھے، کیسے تھے؟ ان سے پہلے کون لوگ آباد تھے، دنیا کب سے آباد چلی آرہی ہے، اس پر کون کون سی تو میں آئیں؟ ان کی تہند میں کیا تھیں؟ رہن سہن کیسا تھا؟ یہ سوالات تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سے بعض کے جوابات اللہ کی کتابوں اور رسولوں کے کلام میں مختصراًمل جاتے ہیں۔ ماضی کا شعور انسان کی نظریاتی ، روحانی علمی اور عملی تربیت کے لیے بہت مفید ہے، اس لیے وحی اور رسولوں کے کلام میں ہمیں ماضی کے متعلق بہت سے حقائق مل جاتے ہیں مگر وحی اور رسالت کا اصل مقصد انسانوں کی ہدایت ہے نہ کہ گزشتہ لوگوں کے حالات جمع کرنا۔ اس لیے ماضی کے تفصیلی حالات جانے کے لیے ہمیں اس علم کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جس میں ہر دور کے اہم حالات کو مرتب کیا جاتا ہے، یہی علم علم تاریخ کہلاتا ہے۔ علمائے تاریخ کے مطابق: ” تاریخ وہ علم ہے جس میں گزشتہ قوموں ،حکومتوں ہلکوں اور غیر معمولی شخصیتوں کے حالات کو زمانے کے لحاظ سے ترتیب وار جمع کیا جاتا ہے

دنیا کب بنی

یہ قضیہ شروع سے متنازعہ چلا آ رہا ہے کہ دنیا کب بنی اور نسل انسانی کا وجود کب سے کب سے ہوا؟ ۔ دور حاضر کے ماہرین ارضیات تو زمین کے وجود کو کروڑوں سال اور انسانی وجود کوئی کھوں سال پہلے قرار دیتے ہیں مگر یہ صرف ایک قیاس ہے جس کی کوئی تاریخی روایت تائید نہیں کرتی۔ بر صغیر کے نامور مورخ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ریاللہ نے دنیا کی ابتدائے متعلق اہل علم کے اختلاف کا نہ کر کرتے ہوئے اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ ابتدائے آفرینش چھ ہزار سال پہلےہوئی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ لکھتے ہیں:اس مسئلے کا آخری فیصلہ مشکل ہے، اس لیے کہ ہمارے پاس علم کے وسائل بہت کم ہیں اور اس حقیقت کےآخری فیصلے کے لیے ناکافی ۔ نیز آثار قدیمہ سے بھی اس کا کوئی یقینی فیصلہ نہیں ہو سکتا ۔ البتہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اقوام عالم میں چینی ، ہندی اور مصری سب سے قدیم قومیں ہیں اور مؤرخین فرنگی کا یہ دعوی ہے کہ سطح زمین پران اقوام کا وجود تقریبا چھ اور دس ہزار سال کے درمیان ثابت ہے۔ نیز یہ امر بھی مسلم (تسلیم شدہ) ہے کہ باوجودزبر دست تحقیقات کے کسی قوم کے حالات و واقعات کی تاریخ کا پتا سات ہزار سال سے پہلے نہیں ملتا ،حافظ ابن عساکر رہانے نے اس بارے میں متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ انہوں نے محمد بن الحق سے نقل کیا ہے کہ حضرت آدم علی نے کام سے حضرت نوح ملانے کا تک ایک ہزار دو سو برس، حضرت نوح عالے سے حضرت ابراہیم ملانے تکایک ہزار بیالیس برس حضرت ابراہیم علینے کا سے حضرت موسیٰ ایک کا تک پانچ سو پینسٹھ برس، حضرت موسی علیت ام سےحضرت داؤ د میرے کلام تک پانچ سو بہتر برس، حضرت داؤد میں کام سے حضرت عیسی علیے کام تک تیرہ سو چھپن برس اور حضرت عیسی علیہ السلام سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک چھ سو برس گزرے ہیں۔ اس طرح حضرت آدم علی) کی وفات سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پانچ ہزار سال بنتے ہیں۔ چونکہ حضرت آدم علیہ السلام نے دنیا میں نو سو ساٹھ سال گزارے ہیں، انہیں شمار کیا جائے تو حضرت آدم علینا کی دنیا میں آمد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت تک چھ ہزار دوسو پچانوے سال بنتے ہیں ۔

Alkhroof.com

share this post

islamic hostrey book ke leya es number par masg krey 00923170587219

FB_IMG_1700453659934

علم تاریخ کی اہمیت قرآن مجید کی نظر میں:

تاریخ کی اہمیت قرآن مجید سے ثابت ہے۔ اللہ کے کلام نے گزشتہ پیغمبروں کی تاریخ کو بڑے موجز، بلیغ اور پر اثر انداز میں بیان کیا ہے تا کہ حق کے ماننے والوں کو حوصلہ ملے اور منکرین انجام سے خبر دار ہو جائیں۔ فرمایا: وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَانُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ اور پیغمبروں کے وہ سب حالات جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں، ان سے ہم تمہارے دل کو مضبوط رکھتے ہیں۔“

قرآن مجید میں تاریخ کی واقعات

قرآن مجید کی درجنوں سورتیں اہم ماضیہ کے قصوں کو بیان کرتی ہیں تاکہ ان کے انجام بد سے عبرت پکڑی جائے۔ لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ) ” بے شک ان لوگوں کے قصوں میں عقل والوں کے لیے عبرت کا سامان ہے۔“ قرآن مجید تاریخ کی کتاب نہیں، نوشتہ ہدایت ہے۔ قرآن پاک تاریخ سے اسی انداز میں بحث کرتا ہے جس سے لوگوں کو ہدایت ملے اور ان کا تعلق اپنے خالق سے جڑ جائے۔

تاریخ کی اہمیت احادیث کی روشنی میں

احادیث سے بھی تاریخ کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ حضور نبی اکرم علی ایم نے گزشتہ قوموں اور انبیائے سابقین کے کئی واقعات بیان کیے ہیں جو ذخیرہ احادیث میں موجود ہیں۔ ان کو بیان کرنے کا مقصد وہی ہے جو قرآن مجید کا ہے ۔ یعنی عبرت و نصیحت ۔ صحابہ کرام نے حضور اکرم نیا نہ نام کے اقوال و افعال کے علاوہ اس مبارک دور کے تاریخی واقعات، غزوات اور دیگر حالات کو اسی لیے روایت کیا تا کہ قیامت تک آنے والے لوگ ان سے نور ہدایت حاصل کریں۔ حضرات تابعین اور حدیث شریف کے رواۃ نے بھی سیرت النبی اور سیرت صحابہ کو اسی نیت سے محفوظ رکھا۔ سیرت اور صحابہ کرام کے دور کے حالات کا ایک بڑا ذخیرہ ہمیں حدیث کی کتب سے ملتا ہے۔ حدیث اگر چہ تاریخ کا مجموعہ نہیں ہے مگر اس میں ضمناً تاریخ کے بہت سے واقعات کو لیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ کا یہ حصہ جو کتب حدیث میں ہے صحت و ثقاہت کے لحاظ سے تمام مآخذ تاریخ پر فوقیت رکھتا ہے۔ حدیث کے ذخیرے میں تاریخی واقعات کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ علم تاریخ کی اہمیت حضورنبی اکرم علی علیم، صحابہ کرام اور خیر القرون کے اصحاب علم و دانش کے نزدیک مسلم تھی۔

تاریخ کا حکم فقہاء کے نزدیک

ہرفن اور علم کی طرح تاریخ کے بھی دو پہلو ہیں: ایک مفید، دوسرا مضر۔ پھر مفید پہلوؤں میں سے بعض بہت اہم اور بعض کم اہم ہیں۔ اسی طرح مضر پہلوؤں میں سے بعض کم مضر اور بعض زیادہ مضر بلکہ مہلک ہیں۔ اللہ تعالٰی فقہائے اسلام کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے جس طرح زندگی کے ہر ہر پہلو کا شرعی حکم قرآن وحدیث سے مستقبط تواعد کی رو سے واضح کیا ہے ، اسی طرح علوم کے بارے میں بھی انہوں نے جائز وناجائز کی تشریح کر دی۔ علم تاریخ کے بارے میں فقہائے اسلام کی رائے یہ ہے:تاریخ کے بعض ابواب کا علم حاصل کرنا فرض عین ہے، بعض کا فرض کفایہ ہے، بعض کا واجب ہے، بعض کا مندوب (بہتر ) ہے، بعض کا مباح (جائز) ہے بعض کا مکروہ ہے۔ بعض بعض کا حرام ہے۔سیرت نبویہ کا اس قدر علم کہ مسلمانوں کو اپنے پیغمبر ما این نام کا تعارف ہو جائے ، فرض عین ہے۔ایسے واقعات کا جاننا جن پر اعتقادی و فقہی مسائل اور مسلمانوں کے مصالح موقوف ہوں ، واجب ہے۔ اس لیے اُمت کے ایک طبقے پر اس قدر علم تاریخ سیکھنا فرض کفایہ ہے۔ اعتقادی اور عملی مسائل کا علم تاریخ پر منحصر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے اعتقادی و عملی مسائل احادیث سے ماخوذ ہیں جن کے رواۃ اور ناقلین کے احوال کا پتا اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک تاریخ سے واقفیت نہ ہو۔ اسی طرح کسی حدیث کا متصل السند ہونا، ناسخ و منسوخ کا علم ہونا، نیز نسب اور وراثت کے بہت سے مسئلے تاریخ پر موقوف ہیں۔ اس لیے تاریخ کے ایسے حصے کا علم فرض کفایہ ہوا ۔ علامہ قاری والے نے ابوالحسین فارس کا قول نقل کیا ہے کہ سیرت نبویہ کو یاد رکھنا علاء اور عارفین کے لیے واجب ہے۔صحابہ کرام، اولیاء اور اچھے لوگوں کے حالات کا علم حاصل کرنا جس سے نیکی کی طرف رغبت ہو، مندوب ہے۔بادشاہوں، وزیروں، شہزادوں، شاعروں، ادیبوں اور دوسرے لوگوں کے حالات و واقعات کا جاننا ( جن سےدین میں کوئی نقصان نہ ہو، دنیوی لحاظ سے فائدہ ہو ) مباح ہے۔ ایسے فضول واقعات کو پڑھنا جن میں کوئی دینی یاد نیوی نفع نہیں ہے، مکروہ ہے۔ عاشقی و معشوقی کے قصے، اخلاق سے گری ہوئی حکایات اور فاسق و فاجر لوگوں کے ایسے واقعات پڑھنا جن سے اعتقادی یا ملی خرابیوں میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو، یا جن سے برائیوں کو تحریک ملتی ہو، حرام ہے ۔ کسی خاص ضرورت کے بغیر صحابہ کرام کے مشاجرات کا مطالعہ یا مذاکرہ مکروہ ہے ؟ کیوں کہ اس میں کوئی دنیوی فائدہ ہے نہ اخروی بلکہ ان حضرات کے ادب و احترام میں کمی آنے کا امکان ہے۔ اگر عقیدے میں خلل کا خطرہ .ہو تو یہ حرام ہے۔ البتہ صحابہ کے خلاف اہل باطل کے پروپیگنڈے کا جواب جانے اور دوسروں کو حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے اس موضوع کا مطالعہ اور اس پر مباحثہ جائز بلکہ ضرورت کے وقت واجب ہو جاتا ہے۔ اہل علم کے نزدیک تاریخ کی اہمیت:علم تاریخ کا اہل علم کے ہاں کیا مقام رہا ہے؟ اور اس علم کے کیا کیا فوائد ہیں؟ ذیل میں ہم اس کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں: امام علی بن مدینی روانہ فرماتے ہیں: حدیث کا مطلب سمجھنا نصف علم ہے اور شخصیات کی پہچان نصف علم ہے۔ 0 ۱ حضرت مولانائس الحق افغانی روشن نے تحریر کیا ہے کہ دنیوی ترقی کے لیے چارا مور نہایت ضروری ہیں: ماضی سے ارتباط ، وحدت فکر و عمل، فراہمی اسباب قوت ، جہد مسلسل ۔ 0اگر آپ غور کریں تو ترقی کے لیے بنیاد بننے والے ان چاروں امور کے لیے تاریخ کا مطالعہ نہایت اہم ہے۔ یہ چاروں امور بالترتیب ایک دوسرے پر موقوف ہیں۔ تاریخ ان کی پہلی کڑی ہے، اس لیے اپنی تاریخ سے لاعلم رہ کر ان چاروں امور کو وجود میں لا ناکسی طرح ممکن نہیں۔

مطالعہ تاریخ کی فوائد

مطالعہ تاریخ کے بے شمار فوائد ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں : تاریخ ہمیں حالات کی بصیرت عطا کرتی ہے۔ کسی در پیش واقعے کا صحیح تجزیہ کرنے اور کسی تازہ صورتحال میں درست فیصلہ کرنے کے قابل بناتی ہے؛ کیوں کہ تاریخ پڑھنے والا ماضی میں بیتنے والے ایسے بہت سے حالات سے واقف ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی صورتحال کو کبھی ناممکن یا عجیب نہیں سمجھتا بلکہ ماضی میں اس کی کوئی مثال فورا اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر ایک تاریخ دان یہ کہاوت دہرا کر اپنا حوصلہ برقرار رکھتا ہے کہ: ما اشبه اللَّيل البارحة “لبی رات بھی گزشتہ شب جیسی ہے۔ اہلِ یورپ ایسے مواقع پر کہتے ہیں: ” تاریخ خود کو ہراتی ہے۔“ ا تاریخ انسان کو تجربہ کار بناتی ہے۔ ایک سالار ایک عام سپاہی سے اس لیے اعلیٰ نہیں کہ اس میں طاقت اور پھرتی زیادہ ہے۔ طاقت میں بہت سے عام سپاہی سالار سے فائق ہوتے ہیں۔ بنیادی فرق تجربے اور قوت فیصلہ کا ہوتا ہے۔ تاریخ ماضی کے تجربات سے آگاہ کر کے انسان کو چند گھنٹوں میں صدیوں کے تجربات سے روشناس کراتی

03170487219

تاریخ اسلام کتاب حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں شکریہ

Alkhroof.com