سانحہ مشرقی پاکستان کے چند ماہ بعد تک ملک میں مارشل لاء نافذ رہا. بھٹو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور دستور ساز اسمبلی کے سربراہ تھے. پاکستان کے نوے ہزار فوجی اورمغربی پاکستان کا تیرہ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ بھارت کے قبضے میں تھا. انھی معاملات کے حل کیلئے انیس سو بہتر میں بھٹو نے بھارت سے شملہ معاہدہ کیا. انہوں نے مذاکرات کے ذریعے بھارت سے تیرہ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ واپس لے لیا. اب مسئلہ تھا نوے ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی کا. بھٹو نے چین کے ذریعے اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کا راستہ روکا. انہوں نے بھارت سے مذاکرات کیے کہ اگرانڈیا پاکستانی قیدی رہا کر دے تو چین اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کا راستہ نہیں روکے گا. یہ دباؤ کام کر گیا اور پاکستان کے نوے ہزار قیدی رہا ہو کر وطن واپس آ گئے
اکہتر کی جنگ میں امریکہ نے چونکہ پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی تھی اس لیے پاکستان نےامریکہ سے کیے گئے
سیٹو اور سینٹو کے معاہدے توڑ دئیے. لیکن پاکستان کو طاقتور عالمی اتحادی تو چاہیے تھے. اس کے لیے بھٹو نے اسلامی ممالک کا اتحاد بنانا شروع کیا. انیس سو چوہتر میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی. اسی برس پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا اور دونوں ممالک کے تعلقات کا ایک نیا آغاز ہو گیا. بھٹو کی سب سے بڑی کامیابی پاکستان کا متفقہ آئین تیار کرنا تھا. اس آئین میں وزیراعظم کے اختیارات بڑھا دیئے گئے اور بھٹو نئے پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے. بھٹو دور کا ایک اوراہم واقعہ یہ تھا کہ انہوں نے ایوب دور اور اس سے پہلے لگنے والی صنعتوں اور اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا. جس کا عملی نتیجہ اچھا نہیں رہا اور صنعتیں تباہ ہونے لگیں. صنعتیں بہتر کرنے کے لیے بھٹو نے روس سے تعلقات بہتر بنائے اور مدد طلب کی. پاکستان اسٹیل ملز بھی بھٹو دور میں بنائی گئی جبکہ ایوب دور میں شروع ہونے والا تربیلا ڈیم بھی اس دور میں مکمل ہوا. آئین کی تیاری کے بعد بھٹو کا دوسرا سب سے بڑا کارنامہ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا تھا. ان کا نعرہ ۔۔۔گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم ضروربنائیں گے۔۔۔ عوام میں بہت مقبول ہوا. تاہم اسلامی ممالک کا بلاک بنانے کی کوششوں اور ایٹمی پروگرام کی وجہ سے امریکہ بھٹو کےخلاف سرگرم ہو گیا. امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی دے ڈالی اپنے دور اقتدار کے آخری سال بھٹو سے ایک تاریخی غلطی ہوئی. عام انتخابات انیس سو اٹھہتر میں ہونا تھے لیکن بھٹو کو اس کے مشیروں نے بتایا کہ اگر وہ ایک سال پہلے انتخابات کروا دیں تو ان کی جیت یقینی ہے. اس طرح وہ مزید پانچ سال حکومت کر سکیں گے. بھٹو کے مقابلے میں اپوزیشن کا مشترکہ اتحاد پی این اے میدان میں آیا. بھٹو نے واضح طور پر میدان مار لیا اور ایک سو پچپن نشستیں جیت لیں. اپوزیشن کے ہاتھ صرف چھتیس سیٹیں آئیں. پیپلز پارٹی جیت تو گئی لیکن انتخابات پر دھاندلی کا الزام لگ گیا. پی این اے دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئی. یہ سیاسی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے مذہبی رنگ میں رنگ گئی. اور وہ تحریک جو دھاندلی کے خلاف شروع ہوئی تھی تحریک نظام مصطفی میں تبدیل ہو گئی. اس تحریک کے نتیجے میں نظام مصطفیٰ تو نہ آیا لیکن ضیا الحق آ گیا. ’’مسٹر بھٹو کی حکومت ختم ہوچکی ہے، سارے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا ہے‘‘. ’’قوی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں، صوبائی گورنر اور وزیر ہٹا دیے گئے ہیں‘‘
بھٹو ضیاالحق پر بہت اعتبار کرتے تھے. بالکل اسی طرح جیسے ایوب بھٹو پر اور سکندر مرزا ایوب خان پر اعتبار کرتے تھے. تاریخ کا ستم دیکھئے کہ ضیا نے بھٹو کو، بھٹو نے ایوب کو اور ایوب نے سکندر مرزا کو دھوکا دیا. سچ ہے طاقت کے کھیل میں اخلاقیات نام کا کوئی ہتھیار نہیں ہوتا. ضیاء نےمارشل لا نافذ کرتے ہوئے بھٹو کو گرفتار کر لیا. بھٹو کو رضا قصوری کے قتل کے ایک بہت کمزور مقدمے میں سزائے موت سنا دی گئی. رضا قصوری، مشرف کے قریبی ساتھی احمد رضا قصوری کے والد تھے. چار اپریل انیس سو اناسی کو بھٹو کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا. ظلم کی انتہا یہ تھی کہ پھانسی سے قبل آخری ملاقات میں بیٹی کو باپ کے گلے بھی نہیں لگنے دیا گیا. اور پھانسی کے بعد کسی رشتے دار کو آخری دیدار تک نہیں کرنے دیا گیا
لیکن آج حال یہ ہے کہ بھٹو کی عدالتی موت کو عدالتی قتل سمجھا جاتا ہے