انیس سو پچپن میں جب گورنر جنرل غلام محمد رخصت ہوئے تو بیوروکریسی نے ملکی نظام پراپنی گرفت مضبوط کرلی تھی. فوجی مداخلت بھی پورے عروج پرتھی. میجرجنرل ریٹائرڈ اسکندرمرزا جو بیوروکریٹ بھی رہ چکے تھے گورنرجنرل بن گئے. یوں عملی طور پرحکومت فوجی اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں چلی گئی. اسکندرمرزا طویل عرصے تک حکومت کرنے کے خواہش مند تھے. انہیں لگتا تھا کہ اگر وہ اپنے دوست آرمی چیف جنرل ایوب خان کو اقتدار میں شریک کر لیں تو ان کی خواہش پوری ہو سکتی ہے. سو انھوں نے ایسا ہی کیا تاریخ کے ریکارڈ کو درست رکھنے کے لیے آپ کو بتاتے چلیں کہ اسکندر مرزا، میر جعفر کے پڑپوتے تھے. وہی میر جعفر جس نے بنگال میں انگریزوں کو راستہ دینے کیلئے نواب سراج الدولہ سے غداری کی تھی. سکندر مرزا کا دور پاکستان کی جمہوریت کے لیے جگ ہنسائی کا دور تھا. اسکندر مرزا نے صرف تین سال میں پانچ وزرائے اعظم کی چھُٹی کروا کے وزارت عظمیٰ کی کرسی کو ایک مذاق بنا دیا. کہتے ہیں کہ اس پر بھارتی وزیراعظم نہرو نے کہا تھا کہ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی تیزی سے پاکستان میں وزیراعظم بدلتے ہیں. اسکندر مرزا کا پہلا شکار وزیراعظم محمد علی بوگرہ تھے. جنھیں ہٹا کرایک بیوروکریٹ چودھری محمد علی کو وزیراعظم بنایا گیا. لیکن یہ ساتھ بھی ایک سال سے زیادہ نہ چل سکا اور انیس سو چھپن میں انہیں بھی گھربھیج دیا گیا. چوہدری محمد علی کی جگہ حسین شہید سہروردی کو وزیراعظم بنایا گیا. لیکن جب حسین شہید سہروردی نے اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو اسکندر مرزا نے انہیں بھی اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا. سہروردی کی جگہ ابراہیم اسماعیل چندریگر جنہیں آئی آئی چندریگر بھی کہا جاتا ہے، وزیراعظم بنے. لیکن صرف دو ماہ بعد انہیں بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا
ان کی جگہ ملک فیروز خان نون پاکستان کے ساتویں وزیراعظم بنے. اور یہ پہلے وزیراعظم تھے جن کا تعلق پنجاب سے تھا. اس سے پہلے جتنے بھی وزرائے اعظم یا گورنر جنرل آئے ان میں قائداعظم کو چھوڑ کر باقی سب مشرقی پاکستان سے تھے یا مہاجر تھے. وزیراعظم فیروز خاں نون نے گوادر کی بندرگاہ پاکستان میں شامل کیا. یہ بندرگاہ برطانوی دور میں عرب سلطنت اومان کو دی گئی تھی. ملک فیروزخان نون نے اومان کو ایک کروڑ ڈالر کی رقم ادا کی اور گوادر کو
پاکستان میں شامل کر لیا. کہتے ہیں کہ نواب اکبربگٹی نے مذاکرات میں اہم کردارادا کیا تھا
جن وزرائے اعظموں کو اسکندر مرزا اپنی تفریح طبع کے لیے آئے روز فارغ کر رہے تھے. انھی میں سے ایک چودھری محمد علی تھے جنہوں نے جاتے جاتے بھی پاکستان کا 1956 کا آئین ہیں مکمل کر دیا. پاکستان کے اسی پہلے آئین کے تحت اسکندر مرزا گورنر جنرل سے پاکستان کے پہلے صدر بنے. اور پاکستان اسی آئین کے تحت ملکہ برطانیہ کے تسلط سے پوری طرح نکل کر ایک آزاد اور خود مختارملک بن گیا. ادھر آئین بنا ادھر ملک میں انتخابات کا ماحول پیدا ہو گیا. یہ بات پاکستان کے لیے خوشی کا باعث تھی لیکن اسکندر مرزا اور جنرل ایوب کے لیے یہ بڑے دکھ کی بات تھی. مرزا اور ایوب دونوں جانتے تھے کہ اگر انہوں نے الیکشن سے پہلے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو آج کے بعد وہ پاکستان میں
اقتدار کے مزے کبھی نہیں اٹھا سکیں گے۔ کیونکہ ایوب خان ریٹائر ہونے والے تھے اور سکندر مرزا نئی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے قابل نہیں تھے ایسے میں انہوں نے وہی کیا جو خوفزدہ آمر کیا کرتے ہیں. سات اکتوبر انیس سو اٹھاون کو اسکندر مرزا نے حکومت برطرف اور آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کا اعلان کر دیا. سکندر مرزا باوردی فوجی نہیں تھے. اس لیے تاریخ کا یہ ریکارڈ درست رہنا چاہیے کہ پاکستان میں پہلا ملک گیر مارشل لا فوج نے نہیں بلکہ بنگال سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹ صدر نے لگایا. انہوں نے اپنی سازشوں کے طاقتور ساتھی جنرل ایوب کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا. جنرل ایوب نے جب دیکھا کہ اسکندر مرزا کا اقتدار اور مارشل لا تو انھی کے سہارے قائم ہے. تو انھوں نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے بے دخل کر کے جلا وطن کردیا. ایوب خان نے قوم سے خطاب کیا، ملک گیر مارشل لا کا باقاعدہ اعلان کیا اور یوں پاکستان میں جمہوریت کی جگہ میرے عزیز ہم وطنو کی شروعات ہو گئی. شجاع نواز نے اپنی کتاب کراس سورڈز میں لکھا ہے کہ جنرل ایوب کو پاکستان پر مسلط کرنے والے بھی اسکندر مرزا تھے. کیونکہ جب پاکستان میں انگریز جنرل کی جگہ مقامی جنرل کو آرمی چیف بنانے کی بات چل رہی تھی. تو اسکندر مرزا وزیراعظم لیاقت علی خان کے سیکرٹری دفاع تھے. انھوں نے ہی وزیراعظم کو قائل کیا کہ جونئیر موسٹ جنرل ایوب خان کو پرموشن دے کر آرمی چیف بنایا جائے. شاید یہی وجہ تھی کہ اسکندر مرزا سمجھتے تھے جنرل ایوب ان کے احسانات تلے دبے رہیں گے. لیکن وہ یہ بھول گئے کہ طاقت کی جنگ میں اخلاق نامی کوئی ہتھیار نہیں ہوتا. اسکندرمرزا کی بدقسمتی دیکھئے کہ کبھی وہ پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک تھے. ہر چند ماہ بعد اپنے موڈ کے مطابق وزیراعظم تبدیل کر دیتے تھے
اور پھر یوں ہوا کہ جلاوطنی کے بعد انھیں وطن کی مٹی بھی نصیب نہ ہوئی. اسکندر مرزا نے انیس سو انہتر میں لندن میں وفات پائی اور ایران کے دارلحکومت تہران میں دفن ہوئے. جب تک زندہ رہے انھیں ملکہ برطانیہ سے وظیفہ ملتا رہا کیونکہ وہ اسی کے وفادار تھے. اب پاکستان میں اسکندر مرزا کا نہیں جنرل ایوب کا دور شروع ہو چکا تھا۔