ضیاالحق کے پورے دور پر سوویت روس کے ایک خفیہ آپریشن کی گہری چھاپ رہی ہے. اس آپریشن کو اسٹارم ٹرپل تھری کہا جاتا ہے. 27دسمبر 1979 کو روسی کمانڈوز نے افغان صدر حفیظ اللہ امین کوان کے محل میں قتل کر دیا. اور افغانستان پر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر دی. صرف تینتالیس منٹ پر مشتمل اس آپریشن نے افغان جنگ کی بنیاد رکھی. وہ جنگ جو دس سال تک انسانی المیوں کوجنم دیتی رہی اور ساڑھے بارہ لاکھ پچاس ہزار انسان اس کا ایندھن بن گئے. اس جنگ میں ایک سپرپاور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور دنیا میں امریکہ واحد سپر پاور کےطور پر ابھرا. سوویت روس اور افغانستان میں ہونے والی یہ تبدیلیاں جنرل ضیا الحق بہت غور سے دیکھ رہے تھے. وہ سمجھتے تھے کہ سوویت روس دراصل افغانستان سے ہوتا ہوا پاکستان کے راستے گوادر کی بندرگاہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے. تاکہ گرم پانیوں تک رسائی حاصل کر سکے. اس دور میں بھارت اور روس جنگی اتحادی تھے. اس لیے جنرل ضیا کو یہ بھی خطرہ تھا کہ افغانستان میں روس اور بھارت کی حامی حکومت پاکستان کے لیے مستقل خطرہ ہو گی. اس وقت امریکہ کا بھی یہی مفاد تھا کہ روس کو افغانستان میں روکا اور جنگ میں الجھا کر کمزور کیا جائے. چنانچہ امریکہ نے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنایا اور سعودی عرب کی مدد سے مجاہدین تیار کرنا شروع کر دئیے
امریکہ اور سعودی عرب اس جنگ کیلئے مالی وسائل فراہم کر رہے تھے. جبکہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک سے سادہ لوح مسلمانوں کو جہاد کے نام پر افغانستان میں جمع بھی کیا جا رہا تھا. اب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس حقیقت کو برملا تسلیم کررہے ہیں. ’’سعودی عرب 1979سے پہلے ایسا نہیں تھا، اس دور میں خطے میں کئے منصوبے شروع ہوئے‘‘
جنرل ضیا، امریکہ اور سعودی عرب… سوویت روس کو افغانستان میں نیست و نابود کرنے کیلئے ایک جان ہو گئے. لیکن اس وقت پاکستان پر امریکہ پابندیاں عائد تھیں جن کی وجہ سے پاکستان دنیا سے اسلحہ اور ٹکنالوجی حاصل نہیں کر پا رہا تھا. امریکی صدر جمی کارٹر نے سوویت روس سے جنگ کے بدلے پاکستان کو چالیس کروڑ ڈالر امداد کی پیشکش کی. جنرل ضیاء الحق نے اس موقعے پر مشہور فقرہ کہا کہ ’’یہ مونگ پھلی کے دانے اپنے پاس ہی رکھیں۔‘‘. دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ صدر جمی کارٹر کے مونگ پھلی کے فارمز تھے. اس گہرے طنز پر امریکی میڈیا نے ضیاء الحق کے فقرے کو خوب مرچ مسالہ لگا کرشہرت دی
لیکن مونگ پھلی کے باغات والا صدر انیس سو اکیاسی میں چلا گیا اور ایک بزنس مین کا بیٹا رونلڈ ریگن امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا. صدر ریگن ایک سیلزمین کے بیٹے تھے اور انھیں سودا کرنا خوب آتا تھا. انھوں نے امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور بنانے کیلئے پاکستان کی طرف خزانوں کے منہ کھول دیئے. پاکستان کے لیے تین ارب بیس کروڑ ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا گیا
معاشی پابندیاں ختم کر دیں گئیں. پاکستان کو دنیا کے جدید ترین اور کبھی نہ ہارنے والے ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کی منظوری دی گئی. انھی ایف سکسٹین کے باعث پاک فضائیہ کو کئی سال تک انڈین ائرفورس پر برتری حاصل رہی. امریکہ سے دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیا نے 34 ایف سکسٹین اور پاک بحریہ کیلئے ہارپون میزائل خریدے. ضیاء الحق کی خواہش اور مطالبے پر امریکہ نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو بھی نظرانداز کرنا شروع کیا. جس کی وجہ سے پاکستان نے افغان جنگ کے دوران ایٹمی پروگرام کو خفیہ طریقے سے مکمل کیا اور پہلا کولڈ ایٹامک ٹیسٹ بھی کیا. یعنی بم چلائے بغیر ہی ٹکنالوجی کی مدد سے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ کر لی گئی. اس دوران امریکی کانگریس نے کئی بارپاکستانی جوہری پروگرام پر پابندیاں لگانے کی کوششیں کیں.
لیکن ضیاء الحق کانگریس مین چارلی ولسن جیسے دوستوں کی مدد سے ان کوششوں کو ناکام بناتے رہے. امریکہ اور
سعودی عرب نے مل کر دس برس تک ساٹھ کروڑ ڈالر سالانہ مجاہدین کو فراہم کئے. کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے یہ ذمہ داری لے رکھی تھی کہ وہ ہر امریکی ڈالر کے بدلے میں ایک ڈالر مجاہدین کی امداد کے لیے خرچ کرے گا. امریکی پابندیوں کے خاتمے کے نتیجے میں پاکستان کو دوسرے یورپی ممالک سے بھی اسلحہ ملنے لگا تھا. ان میں فرانس سے جدید طیارہ شکن میزائل مسترال اور کروٹیل بھی ملے. پاکستانی خفیہ ایجنسی افغان مجاہدین کی تربیت کر رہی تھی. دوسری طرف سعودی امداد سے مدارس کا نیٹ ورک پھیلایا جا رہا تھا تاکہ مجاہدین کی مستقل سپلائی برقرار رکھی جا سکے. اس مقصد کے لیے اسلام سے محبت کے جذبات کو استعمال کیا گیا اور عالمی جہاد کے تصور کو عام کیا گیا. اسامہ بن لادن بھی اسی دور میں افغانستان پہنچے. اس سب کے باوجود افغانستان میں روس کو ہرانا مشکل نظر آ رہا تھا. کیونکہ روس کی فضائی طاقت کو افغان مجاہدین شکست نہیں دے پا رہے تھے. ایسے میں امریکہ نے ایک ایسا ہتھیار تیار کیا جو اپنی مثال آپ تھا. .روس کی فضائی برتری ختم کرنے کے لیے امریکہ نے ایک ایسا میزائیل تیار کیا، جس کیلئے لانچر نہیں صرف انسانی کاندھا چاہیے تھا. یہ میزائل تھا سٹنگر میزائل. اس میزائل نے روس کو تگنی کا ناچ نچا دیا. سٹنگر میزائل پاکستان کے ذریعے افغانستان کو سپلائی کیے جاتے تھے. ضیاالحق کے دور میں ان میزائلوں کو محفوظ کرنے کیلئے کئی مقامات چنے گئے جن میں سے ایک راولپنڈی کا اوجڑی کیمپ بھی تھا. مجاہدین سٹنگر میزائلوں سے روسی ہیلی کاپٹروں کو پتنگوں کی طرح گرانے لگے. روسی فوج کا مورال آٹھ سال سے جاری جنگ میں پہلے ہی بہت گر چکا تھا. پاکستان کی شاندار انٹیلی جنس، مجاہدین کے تابڑ توڑ حملوں، امریکہ اور سعودی عرب کی معاشی مدد. سے چلنے والی افغان جنگ میں اسٹنگر میزائل وہ آخری ہتھیار تھا جس نے سوویت ریچھ کی کمر توڑ دی. سٹنگر صرف سوویت روس کے لیے ہی تباہی نہیں تھا بلکہ پاکستان میں بھی اس نے غارت گری کی. وہ اوجھڑی کیمپ جہاں سٹنگرز میزائل جمع کیے گئے تھا، دس اپریل انیس اٹھاسی کو دھماکے سے پھٹ گیا. راوالپنڈی کے باسیوں کے لیے دس اپریل کا دن قیامت سے کم نہیں تھا. میزائل پھٹنے کی آوازیں اور آسمان سے برستی آگ ایک خونریز جنگ کا منظر پیش کر رہی تھی. جب یہ بارود کی بارش تھمی تو راولپنڈی میں 103افراد جان کی بازی ہارچکے تھے. جن میں بعد کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے والد گرامی بھی شامل تھے. سویت روس کیلئے اس جنگ کی مالی اور انسانی قیمت برداشت سے باہر ہو گئی تو اس نے واپیس کا فیصلہ کر لیا. اپریل انیس سو اٹھاسی میں پاکستان، افغانستان، روس اور امریکہ کے درمیان جنیوا میں ایک معاہدہ ہوا. اس میں طے پایا کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے. مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجا جائے گا. اور رشین آرمی فروری انیس سو نواسی تک افغانستان سے نکل جائے گی. روس نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے افغانستان خالی کردیا. لیکن روسی افواج کے مکمل انخلا سے پہلے ضیاء الحق کا آخری وقت بھی آن پہنچا تھا.کہا جاتا ہے کہ ضیاء الحق کوخفیہ ایجنسیوں نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ ان کے قتل کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے. موت سے پہلے آخری چند ماہ وہ آرمی ہاؤس راولپنڈی میں بند ہو کر رہ گئے تھے. ان کی موت سے تین دن پہلے چودہ اگست کی تقریب کا سارا فنکشن بھی ان کے حکم پر آرمی ہاؤس میں کرایا گیا.اس وقت ضیاالحق اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے آرمی ہاؤس کے صحن میں لگے درختوں کو سیکیورٹی رسک قرار دے دیا اور چالیس درخت کٹوا دیئے. اس پروگرام کے صرف تین دن بعد وہ آرمی ہاؤس سے نکلے اور ٹینکوں کی مشقیں دیکھنے بہاولپور پہینچ گئے. واپسی پر امریکی سفیر اور امریکن ملٹری اتاشی بھی ان کے ہمراہ سی ون تھرٹی طیارے میں سوار ہوئے. مشقیں دیکھنے والوں میں وائس آرمی چیف جنرل اسلم بیگ بھی شامل تھے. لیکن چونکہ وہ اپنے الگ طیارے میں آئے تھے اس لئے وہ واپیس پر ضیاء الحق کے ساتھ نہیں تھے. جنرل ضیاء الحق کا طیارہ اڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد بہاولپور کی ایک بستی لال کمال میں گر کرتباہ ہو گیا. حیرت کی بات یہ ہے کہ طیارے کے حادثے میں امریکی سفیر اور ملٹری اتاشی جیسے اہم عہدیدار مارے گئے. لیکن امریکہ نے اس سانحے سے متعلق حقائق جاننے میں کبھی دلچسپی نہیں دکھائی. یہی وجہ ہے کہ ضیاالحق کے قتل کو امریکی سازش سمجھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے. جنرل ضیاء کو افغان جہاد اور اسلامی قانون سازی کی وجہ سے مذہبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. تاہم افغان جنگ کے دوران مہاجرین کے ساتھ منشیات، کلاشنکوف کلچر اور دہشت گردی کا طوفان بھی پاکستان میں در آیا. اس وجہ سے آج بھی ضیاء الحق کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے. ضیاء الحق نے گیارہ سال ملک پر بلا شرکت غیرے حکومت کی لیکن اپنے یا اپنے خاندان کے لیے کوئی دولت جمع نہیں کی. لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ضیاء الحق نے جو بڑے فیصلے کئے ان میں سے بعض کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے. تاریخ کی ستم ظریفی تو دیکھئے کہ جن گرم پانیوں تک حصول کیلئے روس نے دس سال جنگ کی. تیس سال بعد وہی راستہ سی پیک کے ذریعے پرامن طریقے سے حاصل کر لیا. حالانکہ ابھی ان لوگوں کے بال کالے ہیں جنھوں نے روس کے خلاف افغان جنگ میں حصہ لیا تھا. ضیاالحق کا ہنگامہ خیز دور ختم ہو گیا.