ماہ ربیع الاول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آمد کے علامات
حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے کے بعد انسانیت اپنی عمر کے کئی ہزار برس گزار چکی تھی۔ زمین پر اب سینکڑوں تو میں آباد تھیں ۔ کوئی گوشہ ارضی ایسا نہ تھا جہاں انسانی تہذیب و تمدن کی ایک تاریخ نہ بن چکی ہو مگر اس تاریخ میں ایک بہت بڑی کمی تھی اور وہ تھی ایسی جامع راہ نمائی کی جس کے بعد کسی گمراہی کا خطرہ نہ رہے، ایسی مکمل تعلیم کی جس کے بعد جہالت کی جھاڑیوں میں بھٹکنے کے اندیشے نہ ہوں ، ایسی تربیت اور تادیب کی جس سے انسان واقعی انسان بن سکیں۔ ہزاروں برسوں سے دنیا میں انبیاء کرام ایمان کی کی آمد کا سلسلہ جاری تھا مگر کسی نبی اور پیغمبر کی تعلیمات کے اثرات عالم گیر نہ ہوئے ۔ ہر نبی اور رسول کی دعوت ایک مخصوص قوم، ایک خاص نسل اور ایک خاص علاقے تک محدو درہی ، اب ضرورت تھی ایسے عالم گیرنبی کی جو بیک وقت پوری دنیا کی امامت کرے اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ راست دکھائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پناہ قدرت اور حکمت بالغہ کے تحت اس عظیم الشان منصب کے حامل کو دنیا میں لانے کا ارادہ کیا تو اس کے ساتھ ہی ایسے حالات پیدا فرمادیے جو عنقریب کسی غیر معمولی انقلاب کی خبر دے رہے تھے۔ حالات کے اس اُتار چڑھاؤ کا میدان سرزمین عرب تھی، جبکہ اس کے سرے ایک طرف رومی سلطنت اور دوسری جانب کربنی کی بادشاہت سے بھی جاملتے تھے ۔ کسری مشرق کا تاج دار تھا اور قیصر ایشیا کے علاوہ یورپ اور افریقہ کے بھی کئی ملکوں کو زیرنگیں کیے بیٹھا تھا۔ اس طرح عرب میں نمودار ہونے والی تبدیلیاں دنیا کے ان دو بڑے درباروں کی وساطت سے دنیا کے تینوں آبادترین براعظموں کو ایک نئے دور کے آغاز کی نوید سنا رہی تھیں
ایک نجاشی کا مراسلہ
میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک عرب حج کے لیے بھی اس گرجے کا رخ نہ کرنے لگیں ۔ جب عربوں کو ائر بہ کے اس ناپاک ارادے کی خبر ملی تو وہ سخت برافروختہ ہوئے؛ کیوں کہ کعبہ کی محبت ان کی رگ رگ میں بسی تھی اور وہ اس کی جگہ کسی اور عبادت گاہ کا تصور تک نہیں کر سکتے تھے، چنانچہ ” النسنی کی رسم انجام دینے والے قبیلہ بنو فقیم (بن کنانہ ) کا ایک جوشیلا حاجی موقع پا کر گرجے میں گھس گیا اور اسے ناپاک کر کے بھاگ نکلا۔ امر ہمہ کو پتا چلا کہ یہ کام عربوں کا ہے تو اس نے قسم کھائی کہ وہ کعبہ کو ڈھائے بغیر دم نہیں لے گا۔ ستمبر ۵۶۹ء میں وہ ایک بڑا لشکر لے کر مکہ کی طرف بڑھا جس میں تیرہ جنگی ہاتھی بھی تھے ۔ عربوں میں ائیر ہبہ سے مقابلے کی تاب نہیں تھی، اس کے باوجود ذونفر اور نفیل ابن حبیب نامی دوسرداروں نے اپنے اپنے علاقے میں اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر دونوں شکست کھا کر گرفتار ہوئے ، جس سے ائیر بہ کی ہیبت مزید بڑھ گئی اور وہ بلا روک ٹوک مکہ کے قریب پہنچ گیا۔ فوج کے ہر اول دستے نے شہر کے مضافات میں لوٹ مار کی جس کی زد میں عبدالمطلب کے دوسو اونٹ بھی آگئے ۔ اس دوران اٹھہ کہ نے سفیر بھیج کرقریش کے روس کو یہ پیغام دیا: میں تم سے لڑنے نہیں آیا ، میرا مقصد صرف کعبہ کو ڈھانا ہے، اگر تم مزاحمت نہیں کرو گے تو مجھے تم سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔“ یہ سن کر عبد المطلب نے بڑی بے باکی سے جواب دیا: ”ہم بھی اس سے لڑنا نہیں چاہتے ۔ یہ تو اللہ کا گھر ہے، اس کے خلیل ابراہیم کی تعمیر ہے، اگر اللہ اپنے گھر کی حفاظت کرنا چاہے گا تو خود کر لے گا۔“ سفیر نے یہ عجیب جواب سن کر عبد المطلب کو ساتھ لیا اور ائیر بہہ کے پاس لے آیا۔ دونوں میں ترجمان کے ذریعے گفتگو شروع ہوئی ۔ ائیر بہ نے پوچھا: ” آپ کی کیا ضرورت ہے؟“ وہ بولے: “میرے دوسو اونٹ جو تمہارے سپاہیوں نے پکڑے ہیں، واپس کر دو ۔“ ابر بہ حیران ہو کر بولا: ” تم اپنے اونٹوں کی فکر کر رہے ہو، کعبہ کی پروا نہیں کرتے جو تمہارے دین اور بزرگوں کی
عبد المطلب کے اطمینان سے جواب
میں تو اونٹوں کا مالک ہوں۔ اس گھر کا مالک کوئی اور ہے ، وہی اس کا بچاؤ کرے گا ۔“ ایر بہ غرور بھرے لہجے میں بولا: ‘وہ بھی مجھ سے نہیں بچا سکے گا۔ اس نے ان کے اونٹ واپس کر دیے اور فوج کو چڑھائی کا حکم دیا۔ عبد المطلب نے مکہ پہنچتے ہی لوگوں کو شہر خالی کرنے کی ہدایت کی۔ لوگ مکہ سے باہر نکل کر پہاڑوں میں چھپگئے اور دم بخور ہو کر ابر بہ کی یلغار کا نظارہ کرنے لگے۔ ادھر عبد المطلب کعبہ کے دروازے کی کنڈی تھام کر اللہ سے فریاد کر رہے تھے کہ وہ ائیر بہ کے لشکر کو انجام تک پہنچائے۔ ابھی ائمہ بہ کا لشکر مکہ میں داخل نہیں ہوا تھا کہ اچانک اُن کا سب سے بڑا جنگی ہاتھی محمود راستے ہی میں بیٹھ گیا اور مار پیٹ کے باوجود نہ اُٹھا۔ جب اس کا رخ یمن کی طرف پھیرا گیا تو وہ چل پڑا، پھر شام اور خراسان کی طرف موڑا تب بھی وہ چلتا رہا۔ اب مکہ کی طرف لایا گیا تو پھر بیٹھ گیا۔ لگتا تھا کوئی ان دیکھی طاقت اسے مکہ میں داخل ہونے سے روک رہی ہے۔ ابھی لوگ حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ یک دم ساحل سمندر کی طرف سے پرندوں کے جھنڈ نمودار ہوئے جو اپنی چونچ اور پنجوں میں چھوٹے چھوٹے کنکر اُٹھائے ہوئے تھے۔ ان پرندوں نے آتے ہی ائر بہ کے لشکر پر کنکر پھینکنے شروع کر دیے۔ جسے یہ کنکر لگتا وہ فورا ہلاک ہو جاتا۔ لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور سب سپاہی واپس بھاگے، اگر یہ بھی لہولہان ہو گیا، لوگ ایسے اٹھا کر واپس مین لے جانے لگے تو اس کے جسم کا ایک ایک عضو جھڑنے لگا یہاں تک کہ اپنے پایہ تخت صنعا پہنچ کر اس کا دم نکل گیا۔ اس وقت تک اس کا جسم اتنا گل چکا تھا کہ پیلیوں کے نیچے دل نظر آرہا تھا۔ واقعہ فیل ، ایک غیبی اشارہ: پرندوں جیسی معمولی مخلوق کے ذریعے حبشیوں کی خوفناک فوج کی تباہی نے یہ ظاہر کر دیا کہ کائنات کا مالک اپنے گھر کی حفاظت کر رہا ہے۔ حبشہ کی نصرانی فوج کا یہ انجام در حقیقت قیصر کے منہ پر طمانچہ تھا جو مشرق و مغرب میں صلیب کا سب سے بڑا سر پرست تھا۔ یہ کلیسا کی شکست اور عربوں کی فتح تھی ۔ یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ عنقریب دنیا میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے کو ہے، جس کا مرکز عرب ہوگا۔ عربی میں ہاتھی کو فیل کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ واقعہ قصہ اصحاب الفیل کے نام سے مشہور ہوا۔ عربوں کے ہاں اس واقعے کو اتنی اہمیت دی گئی کہ انہوں اس سال کو عام الفیل کا نام دیا اور آئندہ اپنی تاریخوں کا حساب اسی سال سے کرنے لگے۔
ائر نہ کی ہلاکت کے بعد حبشیوں کی استحصال پسند حکومت زیادہ دن نہ چل کی۔ آئ ہنہ کا بیٹا بیسوم کچھ دن حکومت کر کے مرگیا۔ دوسرے بیٹے مسروق نے حکومت سنبھالی مگر وہ بھی اس انتظامی آگ کو نہ دبا سکا جو عشیوں کے خلاف عربوں کے سینوں میں بھڑک رہی تھی۔ قبیلہ حمیر کے ایک عالی نسب شخص سیف بن ذکی تین نے اس ماحول سے فائدہ اٹھایا۔ وہ حبشیوں کے مظالم کی فریاد لے کر ایرانی بادشاہ نوشیروان کے دربار میں پہنچ گیا اور اس سے مدد طلب کی۔ نوشیروان نے اسے حبشیوں کی بے پھلی کا بہترین موقع تصور کیا اور اس کی مدد کے لیے تیار ہو گیا۔ آخر سیف بن ذی یزن ایرانیوں کے ایک بڑے لا ولشکر کے ساتھ جزیرۃ العرب واپس آیا اور مسروق بن ابرہہ کو زور آزمائی کی دعوت دے ڈالی۔ اس کے نتیجے میں یمن میں ایک فیصلہ کن معرکہ ہوا جس میں حبشیوں کو شکست فاش ہوئی اور مسروق مارا گیا ۔ اس . طرح جزیرۃ العرب کے جنوب میں قائم نصرانی حبشیوں کی بہتر (۷۲) سالہ حکومت ایک بھولی بسری کہانی بن گئی۔ سیف بن ذی یزن عربوں کا مقبول قائد بن گیا ، کیوں کہ اُس نے عرب کو غیر ملکیوں سے پاک کیا تھا۔
اسلامی تاریخ کے مکمل تاریخ کے لیے کتاب حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں 00923170487219
Alkhroof.com