FB_IMG_1697388361663

بیت المقدس کی تاریخ

بیت المقدس یا القدس یا یروشلم یہ بہت پرانا شہر ہے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بیت المقدس اور مسجد اقصی دونوں ایک ہی عمارت کے دو نام ہیں، یہ غلام فہمی ان تصویروں کے ذریعے پھیلی ہے جن میں شہر اقبۃ الصخرۃ نظر آتا ہے اور جس کے برابر میں لکھا رہتا ہے بیت المقدس، حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس ایک قدیم شہر کا نام ہے جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے، اور جس کے صحن میں دل کش قربتہ الصخرہ موجود ہے، اور وہ بھی بہت محترم ہے، اس کے علاوہ بھی وہاں مسجدیں اور قبے ہیں، انبیاء کرام کی قبریں ہیں ، اور دوسری یادگاریں ہیں۔

بیت المقدس کی نام کا واقعہ

یروشلم جزیرۃ العرب کے اس خطہ کو کہا جاتا ہے جو موریہ میہون ، اکرا اور بزلیتہا نامی چار پہاڑیوں کے درمیان آباد ہے، اس کی بنیاد مملکت سالم کے بادشاہ ملک صدق نے رکھی تھی، جس ملک میں یہ شہر آباد ہے اسے اس زمانہ میں یہود یہ کنعان اور شام کہا جاتا تھا مکمل ایک صدی کے بعد جب اس شہر پر یہودی قابض ہوئے تو انھوں نے اس کا نام یا یوں رکھ دیا، پھر مرور زمانہ کے ساتھ یو سالم ہوا، اور اخیر میں یروشلم ہو گیا، اس شہر کو القدس یا بیت المقدس کہا جاتا ہے، یہ شہر اگر چہ مسلمان، عیسائی اور یہودی آسمانی مذاہب کی حامل تینوں بڑی قوموں کے یہاں مقدس ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ بیت المقدس اور مسجد اقصی تاریخ کے تمام ادوار میں اہل اسلام ہی کی ملکیت رہی، بیت المقدس کے تعلق سے عیسائیوں اور یہودیوں کا حق تسلیم کرنا سراسر غلط ہے، اس شہر کی ابتدائی تاریخ کا سرسری جائزہ اس حقیقت کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہودی القدس یا فلسطین کے اصل باشندے نہیں ہیں ، بیت المقدس کے اصل باشندے ہونے کا یہودی دعوی محض مغالطہ ہے، قدیم تاریخی مآخذ سے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے کے اصل باشندے کنعانی عرب تھے، طوفان نوح کے بعد جو قو میں سامی اقوام سے مشہور ہوئیں ان کا اولین مسکن جزیرۃ العرب تھا، جس کی سرحدیں مشرق میں خلیج عقبہ اور فلسطین تک اور شمال مشرق میں نہر فرات تک پھیلی ہوئی ہیں، علامہ سید سلیمان ندوی کے مطابق اکثر قابل لحاظ یورپی مورخین نے اس کی تائید کی ہے، یہود کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ القدس میں جس کی تعمیر کنعانیوں نے کی تھی، تقریباً ۱۳۰۰ برس قبل مسیح داخل ہوئے ، اور ۲۰۰ سال کی طویل کشمکش کے بعد اس پر قابض ہوئے ، اس لحاظ سے القدس یا یروشلم کے اصل باشندے یہودی نہیں کنعانی تھے، القدس یا فلسطین میں یہودیوں کی آمد قیقی باشندوں کے طور پر نہیں؛ بلکہ نامین کے طور پر ہوئی، اصل باشندوں کا قتل عام کر کے اس علاقہ پرر سیبودی قابض ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے ذریعہ بنی اسرائیل کو نبوت و بادشاہت عطا فرمائی تھی ان پیغمبروں کے ذریعہ ان کی متحدہ ریاست قائم ہوئی لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد یہودی نہ صرف آپسی خانہ جنگی کاشکار ہوئے ؛ بلکہ اپنے پیغمبروں کی تعلیم سے دوری اور خدا کی نافرمانی کے سبب وہ متعدد مرتبہ عذاب الہی سے دو چار ہوئے، یہودیو سلطنت کے پانچویں سال شاہ مصر سیق نے القدس پر چڑھائی کی تھی، چنانچہ کتاب سلاطین میں لکھا ہے: “رجیعام بادشاہ کے پانچویں سال شاہ مصر سیق نے یروشلم پر چڑھائی کردی، اور اس نے خداوند کے گھر کے خزانوں اور شاہی محل کے خزانوں کو لے لیا اس کے بعد تقریباً ۰ ۷۴ ق م میں آشوریوں نے میہود کو فلسطین سے بے دخل کر دیا، پھر بخت نصر کا حملہ ہوا جس میں توریت ضائع ہوگئی ، اور بہت سے یہودی مارے گئے، اور کچھ کو باہل لے جا کر قید کیا گیا، بخت نصر کے حملہ کے بعد پھر ایرانیوں کے ذریعہ کچھ عرصہ کے لیے فلسطین ہی میں انھیں آباد ہونے کا موقع ملا مگر زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یونانی اور رومی ان پر قبر ابی بن کر ٹوٹ پڑے، اور انھیں فلسطین سے بے دخل کر دیا المیلس رومی کے حملہ میں لاکھوں میں یہودی قتل کر دئے گئے، اور بیکل مقدس کو جلا دیا گیا ، اس حادثہ کے ۶۵ سال بعد قیصر کے عہد میں پانچویں مرتبہ یہودیوں نے بغاوت کی مگر انھیں شکست سے دو چار ہونا پڑا، قیصر نے نہ صرف یہودیوں پر بدترین ظلم کیا؛ بلکہ بیل کو تباہ کر کے اس پر ہل چلوا دیا، اور وہاں ایک مندر تعمیر کروایا، اسی زمانہ میں یروشلم کا نام ایلیاء رکھ دیا گیا، قیصر کے حملہ میں تقریبا پانچ لاکھ یہودی مارے گئے ، اس سے قبل بخت نصر کے حملہ میں ہیکل سلیمانی کو میں بو کر دیا گیا تھا، اور طویل عرصہ تک میبودی جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے، ایرانی دور اقتدار میں جب پھر سے یہودی جنوبی فلسطین میں آباد ہوئے تو دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی گئی ، اس مرتبہ یہودی ۴۰۰ سال سے زیادہ نہیں تک سکے، رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی پاداش میں جب انھیں دوبارہ جلا وطن کردیا گیا تو جنوبی فلسطین میں عرب قبائل اسی طرح آباد ہوئے جس طرح وہ ۸۰۰ سال پہلے شمالی فلسطین میں آباد تھے۔

اس پوری تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ یہودی فلسطین اور بیت المقدس کے اصل باشندے نہیں تھے، اور ارض فلسطین پر ان کا دعوی کسی طرح درست نہیں، شمالی فلسطین میں یہودیوں کی مدت اقامت ۴۰۰ سال اور جنوبی فلسطین میں ۸۰۰ سال سے زیادہ نہیں: جب کہ یہودیوں کے برخلاف عرب قبائل شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں ۲۰۰۰ سال سے آباد ہیں، پھر لاھ میں حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کرلیا، اور وہاں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا، اموی خلیفہ عبدالملک کے زمانہ میں یہاں مسجد اقصی اور قبۃ الصخرۃ کی عالی شان تعمیر ہوئی ، فتح بیت المقدس کے ۴۶۲ سال بعد ! میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر بیت المقدس پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا جس میں ستر ہزار مسلمان شہید کر دئے گئے لیکن ۸۸ سال بعد ے لاء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس پھر فتح ہو کر مسلمانوں کے زیر نگوں آ گیا ، ۱۲۲۸ء سے ۱۲۳۴ ء تک اس مقدس شہر کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھین لیا گیا ، اس طرح ایک سو سال کے علاوہ ے ا ء سے ۱۹۱۷ء تک یہ مبارک شہر مسلمانوں ہی کے قبضہ میں رہا، بالآخرے 191 ء میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے علاقے برطانیہ کے زیر قبضہ آ گئے ، اور یہیں سے فلسطین اور بیت المقدس کے خلاف سازشوں کا جال بنا جانے لگا، برطانیہ نے ۲ نومبر ۱۹۱۷ء میں یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے بالفور معاہدہ کہا جاتا ہے، اس معاہدہ میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے ایک یہودی نمائندہ کے نام اپنی ایک تحریر کے ذریعہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن بنانے کی اجازت دے دی، برطانیہ کا یہ معاہدہ بدترین خیانت تھی، ۱۹۳۵ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین میں یہودی حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ایک حصہ پر یہودیوں کو اپنی حکومت بنانے کی قانونی اجازت دے دی، ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کیا، بالآخر ۱۹۳۸ میں ارض فلسطین پر اسرائیل کی شکل میں ایک ناجائز مملکت وجود میں آگئی ، خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ عبدالحمید ثانی پر جب مغربی ملکوں نے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کے لیے دباؤ ڈالا توعثمانی خلیفہ نے صاف الفاظ میں کہا کہ سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا؛ کیوں کہ فلسطین میرا نہیں امت کا ہے، اور امت نے اس سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنا خون بہایا ہے1923ء سے ۱۹۲۷ء تک القدس شہر مسلمانوں کے ملک اُردن ہی کا ایک حصہ رہا ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطین دیگر علاقوں کے ساتھ القدس شہر پر بھی اسرائیل قابض ہوا؛ اگر چہ اسرائیل طاقت کے زور پر القدس پر قابض ہوا، لیکن اس سے القدس قانونی طور پر اسرائیل کا حصہ ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو سکتا ہے؛ اس لیے کہ جس وقت برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سر پرستی میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا، اس وقت یہ بات طے کر دی گئی تھی کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہوگا ,

Tags: No tags

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *