دجال کا نام اور اس کا معنی
یہودی اپنے اس نجات دہندہ کا آخری معلوم نام مائل ریو بل یا کھمبل بتاتے ہیں جو ہماری اسلامی اصطلاح میں ” طاغوت اور بتوں کا نام ہے۔ اور اس کا لقب ان کے ہاں مسیحا یا مسیا ہے۔
دجال کا اصل نام معلوم نہیں … احادیث میں آیا جو نہیں … یہ اپنے لقب سے مشہور ہے۔ ہمارے ہاں اس کا لقب دجال مشہور ہے اور یہ لفظ اس کی پہچان اور علامت بن گیا ہے۔
دجال کا مادہ “،د،ج ،ل” ہے۔ دجال کا لفظ فعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ دجال کا معنی ہے ڈھانپ لینا، پیٹ لینا۔ دجال اس لیے کہا گیا کیونکہ اس نے حق کو باطل سے ڈھانپ دیا ہے یا اس لیے کہ اس نے اپنے جھوٹ ملمع سازی اور تیس کے ذریعے سے اپنے کفر کولوگوں سے چھپا لیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ چونکہ وہ اپنی فوجوں سے زمین کو ڈھانپ لے گا ، اس لیے اسے دجال کہا گیا ہے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہی دجال اکبر بہت بڑے بڑے فتنوں والا ہے جو ان فتنوں کے ذریعے سے اپنے کفر کو ملمع سازی کے ساتھ پیش کرے گا اور اللہ کے بندوں کو شکوک و شبہات میں ڈال دے گا۔
“دجال” عربی زبان میں جعلساز ملمع ساز اور فریب کار کو بھی کہتے ہیں۔ جل”کسی نقلی چیز پر سونے کا پانی چڑھانے کو کہتے ہیں۔ دجال کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جھوٹ اور فریب اس کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف ہوگا۔ وہ ظاہر کچھ کرے گا اندر کچھ ہوگا۔ اس کے تمام دعوے منصوبے، سرگرمیاں اور پروگرام ایک ہی محور کے گرد گردش کریں گے اور وہ ہے : دجل اور فریب۔ اس کے ہر فعل پر دھوکا دہی اور غلط بیانی کا سایہ ہو گا۔ اس کی کوئی چیز، کوئی عمل کوئی قول ، اس شیطانی عادت کے اثر سے خالی نہ ہوگا۔
دجال اکبر کا نام مسیح کیوں رکھا گیا؟ اس کے بارے میں بہت سارے اقوال ہیں مگر سب سے زیادہ واضح قول یہ ہے کہ دجال کو مسیح کہنے کی وجہ یہ ہے اس کی ایک آنکھ اور ابرو نہیں ہے۔ ابن فارس کہتے ہیں مسیح وہ ہے جس کے چہرے کے دوحصوں میں سے ایک حصہ مٹا ہوا ہو، اس میں نہ آنکھ ہو اور نہ ہی ابرو ۔ اس لیے دجال کو مسیح کہا گیا ہے۔ پھر انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے: “وَأَنَّ الدَّجَّالَ مَمْسُوحُ العَيْنِ، عَلَيْهَا ظَفَرَةٌ غَلِيظَةٌ ” ” بلاشبه دجال مٹی ہوئی آنکھ والا ہے جس پر ایک غلیظ بعد آسانا خونہ (پھلی ) ہے۔“
دجال کون ہے
(1) سامری جادوگر :
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کو گمراہ کر کے شرک میں مبتلا کرنے والا سامری در حقیقت دجال تھا۔ دجال کو عالم اشیاء میں تصرف کا جو بھر پور اختیار دیا گیا ہے اس کے تحت سونے سے بنائے گئے بچھڑے کو متحرک، جاندار اور آواز لگانے والا بنا دینا کچھ بھی بعید نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے اتنا ز بر دست جرم سرزد ہونے کے باوجود ا سے جانے دیا اور جو بنی اسرائیل اس کے ورغلانے پر شرک میں مبتلا ہوئے تھے، ان کی تو یہ یہ طے ہوئی کہ ان کو قتل کیا جائے۔ آپ نے سامری سے فرمایا: “وإن لك موعدا لن تخلفه ” بے شک تیرے لیے ایک وقت مقرر ہے جس سے تو آگے پیچھے نہ ہو سکے گا۔ یہ اس لیے کہ سامری کو اگر اس وقت قتل کیا جاتا تو وہ نہ مرتا دجال جو مسیح کا ذب ہے، کی موت تو حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھ لکھی ہوئی ہے جو مسیح صادق ہیں۔ جب سامری سے کہا گیا: “فاذهب ، فان لك في الحيوةان تقول لامساس ” ” چلا جاء تیری یہ سزا ہے کہ زندگی بھر کہے گا مجھے نہ چھوڑا تو دجال المسمی بہ سامری مجروح حالت میں وہاں سے غائب ہو گیا اور اب کہیں روپوش ہے۔
دجال کا شخصی خاکہ
(3) امریکا:
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ امریکا دجال ہے۔ کیونکہ دجال کی ایک آنکھ ہوگی اور امریکا کی بھی ایک آنکھ ہے۔ اس کی مادیت کی آنکھ کھلی جبکہ روحانیت کی آنکھ چوپٹ ہے۔ وہ مسلمانوں کو ایک آنکھ سے اور غیر مسلموں کو دوسری سے دیکھتا ہے۔ اس کو اپنے فائدے کی چیز نظر آتی ہے، دوسرے کے نقصان سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ اس کی کرنسی پر ایک آنکھ بنی ہوئی ہے. دجالی آنکھ جو شیطانی تکون کے اوپر پر اسرار علامات کے بیچ میں ہے۔ اس کی سرزمین پر دجالی تہذیب جنم لے چکی ہے۔ پروان چڑھ رہی ہے اور مادی طاقتوں پر غیر معمولی اقتدار کی بدولت وہ نیوورلڈ آرڈر کے ذریعے دنیا میں دجالی نظام بر پا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ایک صدر ( جو جوتا کھا کر رخصت ہوا) کا بیان ریکارڈ پر ہے: ” مجھے خدا کی طرف سے براہ راست ہدایات ملتی ہیں۔ یہ تو دعوائے نبوت کے مترادف ہے اور دجال پہلے ایسا ہی دھوئی کرے گا۔ صدر صاحب موصوف یہ بھی فرما چکے ہیں: “ہم تمہیں پھروں کے دور میں بھیج دیں گے۔ یہ فرعونی لہجہ تو دعوائے خدائی کے ہم معنی ہے اور دجال آخر میں خدائی کا دعوی کرے گا۔ دجالیت در اصل جھوٹی خدائی کا دوسرا نام ہے وغیرہ وغیرہ۔