حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کا مکمل واقعہ
ابوطالب کے انتقال کے بعد کافروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر طرح کی ایذاء رسانیوں کا کھلا موقع مل گیا،چنانچہ ان کی مخالفت ، دشمنی اور سرکشی روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا مگر اسے بھی جھٹلا دیا۔ ایسے یں حضور اکرم نا لی یا قریش کے ہاں اسلام کی آبیاری کے آثار نہ پا کر یہ سوچنے پرمجبور ہو گئے کہ اسلام کی حفاظت اور اشاعت کے لیے کی اور شہر کو مرکز بنایا جائے ، جہاں کے لوگ اسلام کے نام لیوا اور اللہ کے پرستار ہوں۔
طائف کے سفر
مکہ سے ۷۵ میل ( ۱۲۰ کلومیٹر ) دور طائف میں قبیلہ ثقیف افرادی لحاظ سے بہت مضبوط تھا، یہاں اکثر خوشحال اور فارغ البال لوگ آباد تھے۔ قریش کے مال دار لوگوں نے بھی یہاں جائیدادیں خرید رکھی تھیں ۔ طائف کے باہر ان کے باغ تھے جہاں یہ لوگ گرمیوں میں آرام اور تفریح کے لیے ٹھہرتے تھے۔ طائف سے کچھ فاصلے پر قبیلہ بنوسعد آباد تھا، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رضاعی ماں حضرت حلیمہ کا دودھ پیا تھا اور بچپن گزارا تھا۔ اس لیے امید تھی کہ یہاں کے لوگ آپ کو رضاعی رشتہ دار مانتے ہوئے اکرام کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات دھیان سے سنیں گے۔ اگر یہ لوگ مشرف بہ اسلام ہو جاتے تو مسلمانوں کو بہت سے مصائب سے نجات مل جاتی اور دین کے پھیلنے کے لیے ایک مرکز میسر آجاتاہے۔ آخر کار اوار شوال 10نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امید میں لے کر طائف کی طرف روانہ ہوئے ،آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ساتھ تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف میں قیام
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں دس دن گزار کر لوگوں کو عمومی اور خصوصی دونوں طرح دعوت دی ۔ آپ طائف کے بازار میں کھڑے ہو کر قرآن کی آیات سناتے اور لوگوں کو اپنی نصرت و حمایت کی طرف متوجہ کرتے رہے۔عبدالرحمن بن خالد عدوانی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ وہ بتاتے تھے:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ثقیف کے شہر طائف کے ) مشرقی گوشے میں اپنی لاٹھی یا کمان پر سہارا لگائے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس اس لیے تشریف لائے تھے تاکہ ان سے مدد حاصل کریں۔ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ طارق کی تلاوت کرتے سنا۔ میں اس وقت مشرک تھا مگر میں نے یہ سورت یاد کر لی۔ بنو ثقیف کے سرداروں) نے مجھے بلوایا اور پوچھا تم نے اس شخص سے کیا سنا ہے؟ میں نے انہیں سورۂ طارق سنادی۔ بنو ثقیف (کے سرداروں) کے پاس قریشی لوگ بھی تھے جنہوں نے کہا: ”ہم اپنے اس آدمی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اگر ہم سمجھتے کہ وہ حق بات کہہ رہا ہے تو ہم اسے سب سے پہلے قبول کر لیتے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تین سرداروں سے ملاقات اور بات چھیت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی دعوت کے ساتھ خصوصی ملاقاتیں بھی کیں۔ طائف میں بنو ثقیف کے بڑے سردار تین بھائی عہد یا لیل مسعود اور حبیب تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گفتگوکی اور انہں اللہ کے دین کی طرف بلایا اور اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی مدد نصرت کی ترغیب دی، مگر ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ دین کی دعوت کو قبول نہ کیا بلکہ عرب کی رواجی مہمان نوازی کے تقاضے بھی پس پشت ڈال دیے اور بہت تلخ جواب دیے، ان میں سے ایک نے کہا: ” تو ایک بے دین آدمی ہے جو کعبے کا غلاف اوڑھ کر آیا ہے۔“دوسرا بولا : اللہ کو تمہارے سوا اور کوئی نہ ملا جس کو رسول بنا کر بھیجتا۔“تیسرے نے کہا: میں تم سے بات ہی کرنا نہیں چاہتا؛ کیوں کہ اگرتم واقعی نبی ہو تو انکار کر دینا مصیبت سے خالی نہیں اور اگر جھوٹے ہو تو میں جھوٹے شخص سے بات کرنا نہیں چاہتا ۔“ سرداروں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ آپ وہاں قیام فرمالیں۔ نا امید ہو کر حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں سے بات چیت کرنے کا ارادہ فرمایا مگر کسی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دھیان نہ دیا بلکہ بڑی بد تمیزی سے کہا کہ ہمارے شہرسے فورا نکلو اور جہاں مرضی ہو چلے جاؤ۔
طائف سے واپسی اور ظلم کے انتہا
رسول اللہ صل اللہ جب جانے لگے تو ان بد بختوں نے شہر کے اوباش لڑکوں کو مذاق اُڑانے اور پتھر مارنے کے لیے آپ کے پیچھے دوڑا دیا۔ پتھروں کی بارش سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے ، تکلیف کی شدت سے آپ بار بار بیٹھ جاتے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بازوؤں سے پکڑ پکڑ کر اُٹھاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جونہی چلنے کے لیے قدم اٹھاتے ، وہ پھر سنگ باری کرتے ۔ طائف کی سرزمین پر کائنات کے مقدس ترین انسان کا خون اتنا بہا کہ دونوں جوتے خون سے رنگین ہو گئے۔حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو آپ کے ساتھ تھے ، انہیں اتنے پتھر لگے کہ ان کا سر پھٹ گیا۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح مار کھاتے شہر کی حدود سے نکل آئے ۔ ایک باغ نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں داخل ہو گئے ۔ تب ان لوگوں نے پیچھا چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کے سائے میں جا بیٹھے اور انتہائی بے بسی کے عالم میں دکھے ہوئے دل کے ساتھ اپنے مولا سے یہ دعا مانگی:الہی تجھی سے اپنی کمزوری اور بے کسی اور لوگوں میں ذلت اور رسوائی کی فریاد کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین تو ہی کمزوروں کا رب ہے، تو ہی میرا پروردگار ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے، کسی اجنبی پرائے کے جو مجھے دیکھ کر منہ بناتا اور تیوری چڑھاتا ہے یا کسی دشمن کے حوالے کرتا ہے جس کو تو نے مجھ پر مسلط کر دیا۔ اے اللہ ! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی چیز کی پروا نہیں۔ مجھے بس تیری حفاظت کافی ہے، میں تیرے چہرے کے اس نور کے طفیل جس سے تمام تاریکیاں روشن ہو جاتی ہیں اور جس سے دنیا اور آخرت کے سارے کام کیا سنور جاتے ہیں، اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ پر تیرا غصب نازل ہو یا تو مجھ سے ناراض ہو۔ تیری ناراضی اس وقت تک دور کرنا ضروری ہے جب تک تو راضی نہ ہو جائے ۔ نہ تیرے سوا کوئی طاقت ہے نہ قوت ۔
اللہ تعالیٰ کے شان جوش میں آنا
ایسی مضطرب دعا پر اللہ تعالی کی شان کریم کو جوش کیوں نہ آتا۔ فورا حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا گیا۔ انہوں نے کر عرض کیا: اللہ نے آپ کی قوم کی وہ گفتگو سنی ہے جو انہوں نے آپ سے کی ۔ اب وہ فرشتہ جو پہاڑوں کےانتظامات پر مامور ہے، حاضر خدمت ہے، آپ اسے جو چاہیں حکم دیں ۔اب پہاڑوں کے فرشتے نے سلام کر کے عرض کیا:ارشاد ہوتو دونوں جانب کے پہاڑوں کو ملا دوں؟ جس سے یہ قوم درمیان میں کچلی جائے۔
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے امت پر رحم
مگر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رحم وکرم کا پیکر تھے، جواب میں فرمایا: میں توقع رکھتا ہوں کہ اگر یہ لوگ مسلمان نہ ہوئے ان کی اولاد میں سے ایسے انسان پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے ۔“
صلی اللہ علیہ وسلم
ہر قسم اسلامی تاریخ کے لیےAlkhroof.com ویزٹ کریں شکریہ