صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر جبر وستم
قریش کے سرداروں نے جب یہ دیکھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دین تبلیغ سے نہ رکتے ہیں، نہ ابو طالب ان کی سر پرستی چھوڑتے ہیں تو مزید طیش میں آگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بنو ہاشم میں ذاتی وجاہت اور پھر ابوطالب جیسے ہر دل عزیز اور قابل احترام بزرگ کو وہ نظر انداز نہیں کر سکتے تھے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہاتھ اٹھانا آسان نہ تھا مگر عام مسلمان جن میں زیادہ تر غریب لوگ تھے، اب ان کے طیش اور انتقام کا نشانہ بننے لگے۔ قریش کا ہر سردار اپنے اپنے قبیلے کے ان لوگوں کو تختہ مشق بنانے لگا جو اسلام لے آئے تھے۔ جو لوگ غریب تھے اور بے یارو مددگار بھی انہوں نے سب سے زیادہ دکھ سہے
حباب بن الارث اور حضرت بلال رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکلیفیں
خباب بن الارث رضی اللہ عنہ کو انگاروں پر لٹایا گیا، جس سے ان کی کمر با لکل جھلس گئی ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ امیہ بن خلف کے غلام تھے، وہ انہیں صحرا کی تپتی دھوپ میں لٹا کر سیے پر بھاری پتھر رکھ دیا۔ کہتا کہ محمدمد کا انکار کردو اور لات و عزی کی پرستش کرو ورنہ اسی حالت میں تمہارا دم نکل جائے گا۔ کبھی لوہے کی زرہ پہنا کر تیز دھوپ میں بٹھا دیتا۔ وہ اس تکلیف میں بھی کہتے: ” أحدًا أحدا (وہ ایک، وہ ایک ہے ) کبھی ان کے گلے میں رسی ڈال کر شریر لڑکوں کو حکم دیتا کہ پورے شہر میں گھسیٹتے پھریں
عمار بن یاسر اور اس کی خاندان کے تکلیفیں
عمار بن یاسر، ان کے والد یا سراور والدہ سمیہ کا مکہ میں کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ قریش کے سرداران تینوں کو پکڑ کر صحرا میں لاتے اور بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس حال میں دیکھتے تو فرماتے: یا سر کے گھرانے والو! صبر کرتے رہو۔ تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔
حضرت یاسر رضی اللہ عنہ جو معمر اور کمزور تھے، اس مسلسل تشدد کی تاب نہ لا کر ایک دن فوت ہو گئے۔ پھر ان کی اہلیہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل ملعون نے بدترین اذیت دیتے ہوئے برچھی کا وار کر کے شہید کر ڈالا ۔ یہ اسلام کی پہلی شہید خاتون کہلا ئیں ۔ اسی طرح حضرت صہیب رضی اللہ عنہ جو عبداللہ بن جرمان کے آزاد کردہ غلام اور نسلی لحاظ سےعجھی تھے، زدو کوب کا نشانہ بنتے رہے۔ انہیں اتنا مارا جاتا کہ بے ہوش ہو جاتے
قریش کے مظالم اتنے بڑھے کہ شریف، مال دار اور معزز مسلمان بھی ان کی زیادتیوں سے نہ بچ سکے ۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے کس کر باندھ دیا کہ جب تک اسلام نہ چھوڑو گے آزاد نہیں کردوں گا مگر وہ دین حق پر ڈٹے رہے۔
حضرت مصعب بن عمیر کا واقعہ
حضرت مصعب بن عمیر مکہ کے بڑے مال دار ہو نہار اور ناز و نعمت میں پلے ہوئے نو جوان تھے۔ انہیں گھر والوں نے ایک کوٹھری میں بند کر دیا اور ایک طویل مدت تک وہ قید ہی میں رہے
حضرت ابوبکرصدیق پر مظالم
سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ کے انتہائی معزز لوگوں میں سے تھے، اسی طرح حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بھی شرفاء میں شامل تھے مگر جب دونوں اسلام لائے تو قریش کے سردار نوفل بن خویلد نے دونوں کو پکڑ کرایک ہی رسی سے باندھ دیا اور بڑی ایذا رسانی کے بعد چھوڑا ۔ تب سے یہ دونوں قرینین ( دو پکے ساتھی ) کہلانے لگے
حضرت صدیق اکبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جان سے زیادہ عزیز:
ایک دن سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سر عام اسلام کی دعوت دینا شروع کی تو مشرکین آپے سے باہر ہو کر اُن پر جھپٹ پڑے اور مارمار کر بے ہوش کر دیا۔ عتبہ بن ربیعہ اپنے موٹے تلے والے پرانے جوتوں سے ان کے چہرے پر ٹھوکریں مارتا رہا۔ چہرہ اتنازخمی ہوگیا کہ پہچان مشکل ہوگئی۔ ان کے رشتے دار نیم مردہ حالت میں انہیں اٹھا کرنے لئے گئے ، سب کو یقین تھا کہ وہ زندہ نہیں بچیں گے مگر اللہ نے ان کی زندگی باقی رکھی تھی ۔ شام کے قریب انہیں ہوش آیا تو پہلا جملہ منہ سے یہ انکا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو خیریت سے ہیں ناں؟ جب بتایا گیا کہ بخیریت ہیں تو کہنے لگے:
میں جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھ نہیں لیتا، کچھ کھاؤں پیوں گا نہیں۔”
آخر کار ان کی والدہ ام الخیر اور ایک رشتہ دار خاتون ام جمیل رات کا اندھیرا پھیلنے کے بعد انہیں سہارا دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عزیز ترین دوست کی یہ حالت دیکھ کر اپنے آنسو نہ روک سکے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو بھی روتے رہے۔ اُن کی والدہ ابھی تک اسلام نہیں لائی تھیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی درخواست پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ہدایت کے لیے دعا کی۔ دعا کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ ام الخیر رضی اللہ عنہا اس وقت ایمان لے آئیں۔ یہ اس دن کی دعوت و تبلیغ اور ظلم وستم پر صبر کرنے کا نقد صلہ تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ساتھیوں کے خیال رکھنا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے بہت خیال رکھتے تھے اور ان کو ہمیشہ جنت کے باریں میں ذکر فرماتے اور صبر کے تلقین فرماتے