حج کی موقع پر دعوت سرگرمی
موسم حج قریب آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امیدیں بڑھ گئیں، کیوں کہ دور دراز کے لوگوں کو وحی کی دعوت دینے کا اس سے بہت موقع کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔ ادھر قریش کے سردار بڑے فکر مند تھے، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے اور آپ کی دعوت کو لوگوں کے نزدیک غیر مؤثر بنانے کے لیے طرح طرح کی باتیں پھیلائی ہوئی تھیں۔ آپ کو (نعوذ اللہ) بے دین، مجنون اور شاعر مشہور کر رکھا تھا مگران تمام حربوں کے باوجود اکاڈ کالوگ مسلمان ہوتے جارہے تھے ۔ یہ دیکھ کر قریش کے سردار با ہم مل بیٹھے، اُن کے نامور سردار ولید بن مغیرہ نے کہا:اج کا زمانہ آرہا ہے۔ عرب کے مختلف قبائل یہاں آئیں گے جن کے کانوں میں یہ بات پڑ چکی ہے، لہذا اس شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک ہی بات طے کر کے کہو۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری باتیں آپس میں ٹکرائیں ۔” خاصے غور و خوض کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی مضبوط الزام سمجھ نہ آیا تو ولید نے کہا: سب سے زیادہ معقول بات یہ ہے کہ تم کہہ دو کی جادوگر ہے، اس نے جادو کے زور سے بھائی کو بھائی سے ، شوہر کو بیوی سے اور خاندان والوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے۔”
چنانچہ لوگ یہ بات طے کر کے حاجیوں کے قافلوں کے مختلف راستوں میں بیٹھ گئے اور اس الزام کو مشہور کرنےگے۔ یہ نبوت کا چوتھا سال تھا
سوق عکاظ میں دعوتِ اسلام (شوال ۴ نبوی ):
عرب میں ماہ شوال سے ذوالحجہ کے آخر تک بڑی چہل پہل ، گرم جوشی اور ہل چل کے دن ہوتے تھے۔ قافلوں کے چلنے اور ٹہر نے ہر طرف عید کا سماں ہوتا۔ انہی دنوں میں عربوں کے مشہور میلے اور بازار لگا کرتے تھے۔ سب سے بڑا بازار عکاظ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ” کے مقام پر لگتا تھا۔ یہ مکہ سے تین دن کی پیدل مسافت تھی۔ عازمین حج اور تاجروں کے قافلے پورا ماہ شوال یہاں گزارتے ۔ ذوالقعدہ میں انسانوں کا یہ سیلاب مکہ کا رخ کرتا اور ذی مجنہ میں ذوالقعدہ کے بیںس دن اس طرح گزارتا کہ جنگل میں منگل ہو جاتا۔ یکم ذوالجہ کو یہ رونقیں مکہ سے پانچ میل ( ۸ کلومیٹر ) دور جلی کباب کے دامن ” ذی الحجاز میں منتقل ہو جاتیں جو عرفات سے تین میل ( پونے پانچ کلو میٹر دور ہے۔ آٹھ دن تک یہاں میلے کا سماں رہتا۔ 9 ذو الچے کو لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مناسک حج ادا کر نے عرفات روانہ ہو جاتے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے ان اجتماعات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے اور ان کے ذریعے تھوڑے وقت میں دور دراز کے قبائل تک اپنی بات پہنچانے کا فیصلہ کر لیا، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شوال سن4 ھجریی میں تین دن کا سفر کر کے مکہ سے سوق غکاظ تشریف لے گئے اور مختلف قبائل کے سامنے دین کی دعوت رکھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالمجاز کے بازار میں آئے اور یہاں بھی اسی کوشش میں دن رات مصروف رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ابو لہب بھی آپ کے تعاقب میں رہا۔ حضور ملی یا تم ان بازاروں اور میلوں کے مختلف حلقوں میں تشریف لے جاتے اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: لو گو کہو لا إله إلا الله (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ) تم کامیاب ہو جاؤ گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آپ کا چچا ابولہب پکتا آتا، اس کی بھیگی آنکھوں میں نفرت کی چنگاریاں ہوتیں اور اس کے سرخ گال غصے سے تمتمار ہے ہوتے ۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی پھینکا اور چلاتا ” ارے لوگو! دیکھنا کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے نہ ہٹادے۔ یہ چاہتا ہے کہ تم لات اور عزی کی عبادت چھوڑ دو۔” حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف توجہ دیے بغیر اپنا پیغام سناتے جاتے
ضیماد ازدی کا قبول اسلام
مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی سرگرمیاں جاری تھیں اور قریش کی عداوت بھی۔ اسی زمانے میں قبیلہ ازد کے ضماد نامی ایک صاحب مکہ پہنچے ۔ مشرکین نے اس خدشے سے کہ کہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر نہ ہو جائیں، انہیں باور کرایا کہ حضور ( نعوذ باللہ) مجنون ہیں۔ ضماء کو جھاڑ پھونک کا بڑا تجربہ تھا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور کہا: میرے ہاتھ پر اللہ نے بہت سے لوگوں کو شفا دی ہے۔ آپ کہیں تو آپ پر بھی دم کردوں۔”
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” إِنَّ الحَمدَ لِله نَحْمَدُهُ وَ نَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ ، وَاشْهَدُ أن لا إله إلا الله وحدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَآنُ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ
بلاشبہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ جسے اللہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندےاور رسول ہیں۔)
ضماد نے دم بخود ہوکر یہ کلمات سنے ، یقین نہ آیا کہ کوئی ایسے کام بھی سنا سکتا ہے۔ بے ساختہ کہا: ” پھر سنائیے۔” حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کلمات دوبارہ سہ بارہ دہرا دیے۔ ضماد نے کہا: میں نے کاہنوں، جادوگروں اور شاعروں کا کلام سنا ہے مگر اس جیسے جملے کبھی نہیں سنے ۔یہ تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں ۔
ضماد نے اسلام قبول کرلیا اور اپنی قوم کی طرف سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر کے واپس ہوئے
مشرکین کے قرآن کی تاثیر کا اعتراف
ہرطرح کی مخالفت کے باوجود قرآن کی تاثیر کا مشرکین کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ بلکہ الٹا ان کے بڑے بڑے سردار جو شعروسحن کا اچھا ذوق رکھتے تھے قرآن کے صوتی اثرات اور اس کی ادبی لطافت سے محفوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ ابو جہل، ابوسفیان اور اخنس بن شریق رات کو اس وقت چھپ چھپ کرآتے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تلاوت فرما رہے ہوتے۔صبح صادق تک وہ گم سم یہ آواز سنتے رہتے ۔ پو پھوٹتے ہی واپس ہوتے ۔ اگر کسی موڑ پر باہم مل جاتے تو ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہوئے کہتے : ” آئندہ ایسا مت کرنا۔ اگر قوم کے نادان لوگوں کو پتا چل گیا تو نامعلوم اس کا کیا اثر لیں گے ۔ مگر اگلی شب پھر ایسا ہوتا۔ جب کئی دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا تو ایک دن اخنس بن شریق لاٹھی اٹھا کر ابو جہل کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا: “بتا ہی دو کہ محمد سے جو تلاوت سنی اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟” ابو جہل کہنے لگا: “ہم اور بنو ہاشم عزت و شرف کی ہر چیز میں مقابلہ کرتے آئے ہیں۔ جب ہم ہر چیز میں برابر نکلے تو وہ کہنے لگے ہیں کہ ہمارے پاس نبی بھی ہے جس پر وحی آتی ہے۔ اللہ کی قسم ! ہم یہ بات کبھی نہیں مانیں گے ۔
قریش کے سردار ولید بن مغیرہ نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام اللہ سناتو اس پر رقت طاری ہوگئی۔ واپس آیا تو ابو جہل نے اس کی بدلی ہوئی حالت دیکھ کر اسے طعنے دیے اور اصرار کیا کہ وہ کوئی ایسی بات کہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ قرآن کا منکر ہے۔ ولید نے کہا: ” میں کیا کہوں؟ تم جانتے ہو کہ شعر، رزمیہ کلام اور قصائد کو مجھ سے زیادہ جانے والا کوئی نہیں۔اللہ کی قسم وہ کلام ان میں سے کسی سے بھی مشابہ نہیں۔ اس میں عجیب مٹھاس ہے۔ وہ ایسا کلام ہے جو سب پر غالب ہے، اس پر کوئی غالب نہیں ۔ وہ دوسرے کاموں کو زیروزبر کر دیتا ہے۔“
ابو جہل نے کہا: تمہیں ایسا کچھ تو کہناہی پڑے گا جس سے تمہاری قوم خوش ہو جائے ۔”ولید نے سوچ بچار کرکے کہا: اسے جادو کہنا چاہیے ۔ مگر نضر بن حارث نے جسے لوگ شیطان کہہ کر یاد کرتے تھے، اس حربے کو بھی فضول قرار دیا۔ وہ قرآن کی تاثیر کو عرب کے روایتی دین کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا۔ ایک دن اس نے برملا کہا: قریش کے لوگو! اللہ کی قسم تمہیں ایسے مسئلہ سے سابقہ پڑا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ۔ تم جانتے ہو کہ محمد تمہارے خاندان کا ایک لڑکا تھا جو پلا بڑھا۔ وہ تمہارا سب سے محبوب فرد اور سب سے زیادہ سچیبات کرنے والا اور سب سے زیادہ امانت دار تھا۔ اب جب وہ ادھیڑ عمر ہوگیا اور یہ نیا پیغام لایا تو تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہے اللہ کی قسم وہ جادو گر نہیں ، کیوں کہ ہم جادوگروں اور ان کی جھاڑ پھونک کو جانتے ہیں۔ کبھی تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہیں۔ اللہ کی قسم وہ کاہن نہیں، کاہنوں اور ان کی حالت کو بھی ہم خوب دیکھ چکے ہیں۔ کبھی تم کہتے ہو کہ وہ مجنون ہیں۔ اللہ کی قسم وہ مجنون نہیں۔ ہم جنون ، اس کی اقسام اور اس کے اثرات کو اچھی طرح جانتے ہیں قریش کے لوگو اپنا انجام اچھی طرح دیکھ لو ۔ واقعی تم پر ہی بڑی آفت آ پڑی ہے۔
عتبہ بن ربیعہ سے گفتگو
ایک دن قریش نے اپنے نہایت زیرک سردار عتبہ بن ربیعہ کو خوب سمجھا سمجھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس نے آتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ بہتر ہیں یا آپ کے آبا و اجداد؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاموش دیکھ کروہ کہنے لگا اگر وہ بہتر ہیں تو سوچو کہ وہ انہی معبودوں کو پوجتے تھے جنہیں تم غلط کہتے ہو۔ اگر تم بہتر ہو، تو ٹھیک ہے، اپنا موقف سناؤ۔ ہم سنیں گے ۔ ہمارے نزدیک تو تم سے زیادہ نقصان دہ آدمی ہماری قوم میں کوئی پیدا نہیں ہوا جس نے ہماری اجتماعیت کو منتشر کر دیا اور عربوں میں ہمیں بدنام کر دیا۔ مشہور ہوگیا ہے کہ قریش میں ایک جادو گر ہے۔ قریش میں ایک کا ہن ہے۔ اب تو بس اتنی ہی کسر رہ گی ہے کہ ہم تلوار میں لے کر ایک دوسرے پر پل پڑیں اور فنا ہو جائیں۔ بھائی ! اگر تمہیں کوئی عورت چاہیے تو ہم دس عورتوں سے تمہارا نکاح کرا دیتے ہیں۔ اگر دولت چاہے تو ہم تمہارے لیے اتنامال جمع کر دیں گے کہ سارے قریش سے زیادہ مال دار ہو جاؤ گے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے یہ سب سنتے رہے ۔ جب وہ چپ ہو گیا تو فرمایا ” تم نے جو کہنا تھا کہ چکے ؟ اس نے کہا: ہاں ۔ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرما ئیں: حم تنزيل مِنَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ كتب فصلت ایتہ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يُعْلَمُونَ بَشِيرًا ونَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ) یہ کلام رحمن ورحیم کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں صاف صاف بیان کی جاتی ہیں، ایسا قرآن ہے جو عربی میں ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ہے جو دانش مند ہیں۔ بشارت دینے والا ، ڈرانے والا ہے۔ پھر بھی اکثر لوگوں نے روگردانی کی ، پھر وہ سنتے ہی نہیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت کرتے جا رہے تھے اور عقبہ ہاتھوں پر سہارا لگائے زمین پر بیٹھے سنتا جارہا تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچے فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ انْذَرْتُكُمْ صَعِقَةٌ مِثْلَ صَعِقَةٍ عَادٍ وثَمُودَ * پھر بھی اگر یہ لوگ منہ موڑیں تو کہ دو میں نے تمہیں ایسی کڑک سے خبر دار کر دیا ہے جیسی کڑک عادو ثمود پر آئی تھی۔ “
عتبہ یہ آیت سن کر یک دم کھڑا ہوگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےمنہ پر ہاتھ رکھا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر مزید تلاوت سے روکا۔ کلام پاک کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ گھر میں محبوس ہوکر بیٹھ گیا۔ آخر دوسرے مشرکین نے آکر خیریت پوچھی۔ اس نے سارا واقعہ سنایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر ہاتھ رکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا : ” تم جانتے ہو محمد جوبھی کہتے ہیں وہ سچ ہی ثابت ہوتا ہے۔ مجھے تو اس وقت عاداور ثمود جیسی کڑک کے سوا کچھ سمجھ نہیں آیا۔مجھے لگا کہ کہیں تم پرواقعی عذاب نازل نہ ہو جائے۔“ پر کہنے لگا اللہ کی قسم محمد نے جو سنایا وہ نہ تو جادو تھا نہ شعراور نہ کوئی جنتر منتر تم میری ایک بات مان لو۔ پھر چاہے میری کوئی بات نہ مانا۔ اس شخص کو اسکے حال پر چھوڑ دو۔وہ جو کہ رہاہے اس کا چر چا ضرورہوگا اگر یوں نے اس پر قابو پالیا تو تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اور اگر وہ عربوں پر غالب آ گیا تو اس کی نفع تمہاری فتح شار ہوگی۔ اس کی عزت میں تمہاری عزت ہوگی ۔”عمائد قریش یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ محمد کی زبان کا جادو تم پر بھی چل گیا ہے۔
طفیل بن عمر ودوسی کا قبول اسلام:
یہی دور تھا جب یمینی قبیلے دوس کے ایک شریف اور عاقل مخص طفیل بن عمرو کی مکہ آمد ہوئی۔ مشرکین مکہ نے اپنے معمول کے مطابق انہیں خبر دار کیا کہ یہاں ایک شخص نیا دین لے کر اٹھا ہے جو باپ اور بیٹے، بھائی اور بھائی اور بیوی اور شوہر میں پھوٹ ڈال چکا ہے، ڈر ہے کہ کہیں تم بھی اس کے اسیر نہ ہو جاؤ، پس اس کی بات نہ سنتا۔
طفیل بن عمرو نے پریشان ہو کر کانوں میں روئی ٹھونس لی مگر ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے قریب نماز ادا کرتے دیکھا تو قریب چلے گئے ۔ تلاوت کی آواز کانوں میں پڑی گئی ۔ کلام اللہ کی حلاوت اور اعجاز نے انہیں دم بخور د کردیا۔ خود سے کہنے لگے: ” میں شاعر اور ذہین آدمی ہوں ۔ بات کی اچھائی برائی کو جانچ سکتا ہوں۔ اس آدمی کی بات سننے میں کیا حرج ہے۔ اگر اچھی ہوئی تو ٹھیک ورنہ مسترد کر دوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو طفیل بن عمرو نے ملاقات کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کا پیغام سنا اور وہیں مشرف بہ اسلام ہو گئے ۔ یمن واپس جا کر پہلے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ والد اور بیوی نے فوراً اسلام قبول کر لیا پھر قوم میں تبلیغ شروع کی مگر قوم آمادہ نہ ہوئی آخر کچھ مدت بعد دوبارہ مکہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ ا قبیلہ دوس سرکش ہے، اس نے( اسلام لانے سے انکار کر دیا ہے۔ آپ اس کے خلاف بد دعا کیجئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: یا اللہ قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور انہیں لے آ ۔