FB_IMG_1696348668475

روم اور فارس کی جنگ اور فتح ہونے کا مکمل واقعہ

روم و فارس کی جنگ اور قرآن کی پیش گوئی:

روم اور فارس کے مابین گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں فارس نے رومیوں کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کیا۔ مشرکین جو مسلمانوں کو دبا کر پہلے ہی مغرور ہورہے تھے، مزید اترانے لگے کیوں کہ عقیدے کے لحاظ سے وہ خود کو فارس کے مشرکین سے اور مسلمانوں کو رومی اہل کتاب سے قریب تر سمجھتے تھے۔ چنانچہ وہ تکبر میں آکر کہنے لگے کہ جس طرح ہمارے فارسی بھائیوں نے رومی اہل کتاب کو کچل ڈالا ہے ، اسی طرح ہم تمہیں ختم کر دیں گے۔ مشرکین کی اس لن ترانی کے جواب میں سورہ روم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں خبر دی گئی کہ رومی شکست کھانے کے باوجود چند سالوں میں دوبارہ فتح یاب ہوں گے

مشرکین نے مذاق اڑایا کہ ایسی زبر دست شکست کے بعد رومی دوبارہ کیسے غالب آ سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے شرط لگالی کہ اگر پانچ سال کے اندر رومی فتح یاب نہ ہوئے تو تم جیتے ورنہ ہم ۔ ہارنے والے پر جیتنے والے کو دینے کے لیے ہرجانہ بھی طے کر لیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شرط کا پتا چلا تو قرآن مجید کے الفاظ بضع سنين ” کے پیش نظر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کوشرط میں پانچ سال کی جگہ نو سال کی ترمیم کرانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ سات سال بعد قرآن کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور رومیوں نے اہل فارس کو عبرت ناک شکست دے ڈالی

حضرت ابو بکر صدیق ہی کی حبشہ کی طرف ہجرت اور راستے سے واپسی (۹ نبوی ):

بنو ہاشم کے محصور ہونے کے بعد حالات سخت ترین ہو گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ مسلمانوں کا اب دنیا میں کوئی سہارا نہیں ہے۔ ان حالات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، جیسے کوہ استقامت بھی حبشہ کی طرف ہجرت پر مجبور ہو گئے ۔

صحیح بخاری کا قول

یہ واقعہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس طرح مروی ہے: جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین پر عمل پیرا دیکھا۔ کوئی دن ایسانہ گزرتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام ہمارے ہاں تشریف نہ لاتے ہوں۔ جب مسلمان تکالیف میں مبتلا کیے گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حبشہ ہجرت کا ارادہ کیا۔ وہ مکہ سے نکل کر حبشہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب برک عماد میں پہنچے ( جومکہ سے پانچ منازل سمندر کی سمت واقع ہے) تو انہیں قبیلہ قارہ کا سردار ابن دغنہ ملا

ابن دعنہ نے ان سے پوچھا: ابوبکر ! کہاں کا ارادہ ہے؟“ انہوں نے فرمایا: ” مجھے میری قوم نے نکال دیا ہے۔ میں نے سوچا کہ زمین میں سفر کر کے اپنے رب کی عبادت کروں۔“

ابن دعنہ نے کہا: ابوبکر تم جیسا آدمی نہ نکل سکتا ہے، نہ نکالا جاسکتا ہے۔ تم مفلسوں کے لیے کماتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، معاشرے کے نادار لوگوں کی کفالت کرتے ہو۔ مہمان کی خاطر مدارات کرتے ہو۔ سچائی کے کاموں میں مدد کرتے ہو۔ میں تمہیں پناہ دیتا ہوں ۔ واپس چلو اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کرو ۔“ پس ابن دعنہ روانہ ہوا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مکہ) آگیا۔ وہاں ابن رعنہ قریش کے سرداروں کے پاس گیا اور ان سے کہا: ” ابوبکر جیسا آدمی نہ نکل سکتا ہے، نہ نکالا جاسکتا ہے۔ کیا تم ایسے آدمی کو نکالتے ہو جو مفلسوں کے لیے کماتا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے، معاشرے کے نادار لوگوں کی کفالت کرتا ہے۔ مہمان کی خاطر مدارات کرتا ہے۔ سچائی کے کاموں میں مدد کرتا ہے ۔

قریش نے ابن دغنہ کی پناہ کو مان لیا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے امان قبول کی اور ابن دغنہ سے کہا : ” ابوبکر سے کہو کہ اپنے رب کی عبادت گھر میں کریں۔ اسی میں نماز ادا کر میں اور جو جی چاہے پڑھیں ۔ لیکن اپنی تلاوت سے ہمیں تنگ نہ کریں۔ آواز بلند نہ کریں کیوں کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہمارے بیوی بچے فتنے میں نہ پڑ جائیں۔ ابن دغنہ نے یہ باتیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہ دیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ کچھ عرصے تک ان شرائط پر قائم رہے۔ اپنے گھر ہی میں عبادت کرتے رہے۔ اپنی نماز میں بلند آواز سے قرات نہیں کرتے تھے۔ نہ ہی اپنے گھر کے سوا کہیں تلاوت کرتے تھے۔ پھر ایک دن ان کے جی میں آئی تو اپنے گھر کے باہر میدان میں ایک مسجد بنالی۔ اس میں نماز پڑھنے لگے۔ قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی۔مشرکین کی عورتیں اور بچے ان کے پاس جمع ہو جاتے تھے ۔ وہ ان کی قرآت کو پسند کرتے اور انہیں دیکھاکرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت رونے والے آدمی تھے۔ جب وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو اپنے آنسو نہ روک پاتے ۔ قریشی زعماء اس سے گھبرائے اور ابن دغنہ کو بلوایا۔ جب وہ ان کے پاس آیا تو بولے: ہم نے ابو بکر کواس شرط پر پناہ دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں کریں گے مگر وہ اس حد سے باہر نکل گئے ۔ گھر کے باہر مسجد بنالی۔ نماز اور قرآت علانیہ شروع کر دی ۔ ہمیں ڈر ہے کہ اس طرح ہمارے بیوی بچے فتنے میں پڑ جائیں گے۔ تم ان کے پاس جاؤ، اگر وہ مان جائیں کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کریں گے تو ٹھیک۔ اور اگر وہ اعلانیہ عبادت پر اصرار کریں تو انہیں کہو کہ وہ تمہاری پناہ لوٹا ہیں۔ کیوں کہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کی تو ہین کریں۔ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ علانیہ عبادت کو باقی نہیں رہنے دیں گے۔“ابن ردغنہ ابوبکر رضی اللہ عنہجکے پاس آیا اور کہنے لگا:تمہیں معلوم ہے کہ میں نے کس شرط پر تم سے معاہدہ کیا تھا۔ اگر تم اس پر کار بند رہتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ میری امان واپس کردو کہ میں نہیں چاہتا کہ عرب میں شہرت ہو کہ میں نے ایک شخص کو امان دی لیکن میری امان ضائع کر دی گئی ۔” حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ” میں تمہاری پناہ واپس کرتا ہوں اور اللہ کی امان پر راضی ہوں ۔

لا حول ولا قوۃ الا بالا

ہر قسم اسلامی پوسٹ کے لئےAlkhroof.com ویزٹ کریں شکریہ

Tags: No tags

One Response

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *