مسجد اقصی کی فضیلت
مسجد اقصی عام مساجد سے بہت بلند اور اونچی شان رکھتی ہے، اس کے دامن میں بےبہا برکتیں اور سعادتیں رکھ دی گئی ہیں، اہل ایمان کے دلوں میں اس مسجد کی بڑی وقعت اور محبت رچی بسی ہوئی ہے، قرآن وسنت میں اس مسجد کی اور اس علاقے کی جہاں یہ مسجد واقع ہے اس کی فضیلت پر کئی دلائل اور ارشادات موجود ہیں جنھیں پڑھ کر ایک مخلص مومن کے دل میں اس مسجد کی خاص عقیدت اور محبت دل میں اتر جاتی ہے۔
مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ ہے کہ یہ مسجد جس سرزمین پر واقع ہے اللہ تعالی نے اس سر زمین کو مبارک قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد
سبحان الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام الى المسجد الاقصى الذي باركنا حوله.
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کومسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی جس کے ارد گر دہم نے برکت رکھی: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کومسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی جس کے ارد گر دہم نے برکت رکھی ہے
بعض اہلِ علم کے قول
بعض اہل علم فرماتے ہیں: اگر اس مسجد کے لیے اس قرآنی فضیلت کے علاوہ اور کوئی فضیلت نہ ہوتی تب بھی یہی ایک فضیلت اس کی عظمت و بزرگی اور شان کے لیے کافی تھی
جس ملک میں مسجد اقصی واقع ہے وہاں حق تعالیٰ نے بہت کی ظاہری اور باطنی برکات رکھی ہیں ، مادی حیثیت سے چشمے، نہریں، غلے، پھل اور میووں کی افراط اور روحانی اعتبار سے دیکھا جائے تو کتنے انبیاء ورول علیہم السلام کا مسکن و مدفن اور ان کے فیوض وانوار کا سر چشمہ رہا ہے۔
مسجد اقصیٰ کی ایک اور بڑی فضیلت
مسجد اقصی کی ایک یہ فضیلت بھی قابل ذکر ہے کہ جس وقت اللہ تعالی نے خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم اعز از معراج کی صورت میں عطا فرمایا، جو ایک عظیم معجزہ بھی ہے، توسفر میں ایک اہم منزل وہ پڑاؤ تھا جو آپ نے مسجد اقصی میں فرمایا، پھر یہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ کو آسمان کی بلندیوں کی طرف لیجایا گیا۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں۔ نبی کریم صلی ہے کہ یہ فرماتے ہیں : “میرے پاس براق لایا گیا، یہ ایک سفید رنگت کی لمبی سواری تھی ، گدھے سے کچھ بڑی اور خچر سے کچھ چھوٹی ، اس کا ایک قدم انتہائے نظر کی مسافت پر پڑتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میں اُس پر سوار ہوا، یہاں تک کہ میں بیت المقدس پہنچ گیا ، وہاں پہنچ کر اس سواری کو اس حلقے سے باندھ دیا جس حلقے سے دیگر انبیاء کرام علیہم السلام (اپنی سواریاں ) باندھتے ہیں، پھر میں مسجد میں داخل ہوا، اس میں دورکعت اداء کیں ، پھر باہر نکل آیا ، حضرت جبرئیل علیہ السلام دودھ اور شراب کا ایک الگ الگ برتن میرے پاس لائے ، میں نے ان میں سے دودھ والا برتن لے کیا، اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے فطرت کے عین مطابق چیز کو پسند فرمایا ہے۔ اس کے بعد وہ ہمیں آسمان کیطرف لے کر چل پڑے ۔ (مسلم : ۱۶۲)
مسجد اقصیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے سفر پر وہاں تشریف لے گئے ساریے انبیاء کرام وہاں جمع تھے سب کی امامت فرمائی ، شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں لے جانے میں یہ بھی اشارہ ہوگا کہ جو کمالات انبیائے بنی اسرائل وغیرہ پر تقسیم ہوئے تھے، آپ کی ذات مقدسہ میں وہ سب جمع کر دیئے گئے، جونعمتیں بنی اسرائیل پر مبذول ہوئی تھیں، اُن پر اب بنی اسماعیل کو قبضہ دلایا جانے والا ہے، کعبہ اور بیت المقدس دونوں کے انوار و برکات کی حامل ایک ہی امت ہونے والی ہے۔ (تفسیر عثمانی )
مکہ اور مدینہ منورہ کے بعد یہ مقدس ترین مقام ہے، بیت المقدس کی سرزمین حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن رہی ہے، جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے اسی سرزمین کی طرف ہجرت فرمائی حضرت داؤد علیہ السلام نے اسی سرزمین کو جائے سکونت کے طور پر اپنایا، اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا، حضرت سلیمان علیہ السلام اسی جگہ سے ساری دنیا پر حکومت کرتے تھے ، حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے، اس شہر میں حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سرزمین کے تعلق سے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ تم اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ، يُقَومِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَلَا تَرتَدُّوا عَلى أدْبَارِكُم فَتَنْقَلِبُوا الخَسِرِينَ (المائدة: ٢١) اے میری قوم! تم اس پاک زمین میں داخل ہو، جس کو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، اور اپنی پیٹھیں نہ پھیرلو، ورنہ نقصان اٹھاؤ گے
قصۂ جالوت و طالوت کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے، بیت المقدس میں پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر ۵۰۰ گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے، یہ وہ مقام ہے جس کی زیارت کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تلقین فرمائی ہے، یہی وہ سرزمین ہے جہاں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے ، حضرت عیسی علیہ السلام کو جب ان کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تعالی نے اس شہر سے انھیں آسمان پر اٹھالیا۔ قیامت کے قریب حضرت عیسی علیہ السلام کا زمین پر نزول بھی اسی مقدس سرزمین پر ہوگا، اسی شہر کے مقام لد پر حضرت عیسی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے ، ینزل عیسی بن مریم ، عند المنارة البيضاء شرق دمشق فیدر که عند بابالد فيقتله (ابو داؤد: ۳۳۲۱)فلسطین ارض محشر ہے، جیسا کہ روایت میں ہے: الشام أرض المحشر والمنشر (صحيح الجامع الصغير : ٣٤٢٦) اسی زمین سے یا جوج و ماجوج کے فساد کا آغاز ہوگا۔