images (8)

جب سات سال پہلے دفن کیا ہوا بھٹو واپس ضیاءالحق کے سامنے کرہا ہوا، جب نواز شریف نے بینظر کی ننگی تصویر پھینکنا شروغ کی، ایک ملّت کی غمگین کہانی حصّہ آٹھ

بینظیر کی واپسی

یہ اپریل انیس سو چھیاسی میں بہار کے دن ہیں-اور تین سال سے جلاوطن بھٹو کی تیتیس سالہ بیٹی نے سیاست میں واپسی کا اِعلان کر دیا ہے- انھوں نے پاکستان آنے کے لیے دس اپریل 1986 کی تاریخ بھی دے دی ہے-اس اعلان کے بعد سے طاقت کے ایوانوں میں ایک زبردست بحث چل نکلی ہے-کیا بینظیر کو واپس آنے دیا جائے یا ان کو روکنے کی کوشش کی جائے؟
اس بحث میں وزیراعظم جونیجو نے ضیاالحق کوقائل کر لیا کہ بےنظیر کے استقبال کو نہ روکا جائے- کیونکہ انھیں روکنے سے عالمی سطح پر یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے- بینظیر کے استقبال کو نہ روکنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بھٹو کی پھانسی کے سات سال بعد پیپلزپارٹی کی حقیقی مقبولیت کا ادراک کرنا چاہتے تھے۔پھر دس اپریل انیس سو چھیاسی کا دن آیا-بنظیر بھٹو بھٹو لاہور ائرپورٹ پر اتریں تو ہوائی اڈے کے گرداگرد لاکھوں افراد جمع تھے-لاہور شہر نے اتنا بڑا سیاسی جلوس اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا-لوگوں کے ہاتھوں میں پاکستان اور پیپلزپارٹی کے جھنڈے تھے اور ہر طرف ایک ہی ترانہ گونج رہا ہے-’’ائیر پورٹ پر اس وقت یہ حالت تھی جب ہم بے نظیر کی آمد سے کئی گھنٹے قبل پہنچے تھے‘‘
’’اس وقت لوگ بستر لیکر ائیر پورٹ کے ارد گردلیٹے ہوئے تھے، یعنی لوگ رات کو ہی آگئے تھے‘‘

عوام نے بینظیر کا استقبال کیسے کیا

بینظیر بھٹو کا جلوس لاہور ائرپورٹ سے مال روڈ، مال روڈ سے داتا دربار اور داتا دربار سے ہوتا ہوا مینار پاکستان پہنچا تو دوپہر ڈھل رہی تھی-وہ بھٹو جسے ضیا الحق سات سال پہلے دفن کر چکے تھے مینارِ پاکستان پر پورے قد سے کھڑا تھا اور آج وہ تنہا نہیں تھا-اس کے سامنے انسانوں کا سمندر تھا-اس سمندر میں پیپلزپارٹی کے مخالفین کو اپنا مستقبل ڈوبتا نظر آ رہا تھا
بینظیر بھٹوبھٹو کا ایسا شاندار استقبال سرکاری اندازوں کے بالکل خِلاف تھا- بینظیرکو بھی تاریخی استقبال سے بہت خوش تھیں لیکن اصل میں ان کے لیے مشکلات کی ابتدا بھی یہی تھی- کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے اُن کے بڑھتے قدم روکنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا-بینظیر بھٹو بھٹو کو روکنے کیلئے جو اقدامات کیے گئے ان میں سب سے پہلے تو کردار کُشی کی مہم شروع کی گئی
ان کے سکینڈلز بنائے گئے-لاہور میں اپنے استقبال کے بعد بینظیر بھٹوپارٹی رہنما فیصل صالح حیات کے گھر میں ٹھہری تھیں
اس لئے فیصل صالح حیات کے ساتھ بھی ان کا سکینڈل بنا دیا گیا-ان حالات میں بینظیر بھٹوکی والدہ نے وہی کیا جو ہمارے معاشرے میں مائیں کرتی ہیں-انھوں نے بینظیر بھٹو کی شادی کا فیصلہ کر لیا-اس دور میں کئی لوگ بھٹو خاندان کا داماد بننے کے خواب دیکھ رہے تھے-بینظیر بھٹوکو فیصل صالح حیات سے شادی کا بھی مشورہ دیا گیا لیکن یہ بیل بھی مُنڈھے نہ چڑھی
عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ فیصل صالح حیات کم پڑھے لکھے اور بور قسم کے آدمی تھے اس لئے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھا

بینظیر نے زرداری سے کیسے شادی کی


اس دوران نواب شاہ کے زمیندار گھرانے سے ایک رشتہ آیا-آصف زرداری کی والدہ ٹمی بخاری اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر نصرت بھٹو کے پاس آئیں-آصف زرداری کا سیاسی پس منظر نہیں تھا بلکہ نواب شاہ میں کچھ سال پہلے ض کونسل کا الیکشن تک ہار گئے تھے- البتہ ان کا پراپرٹی بزنس دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا-نصرت بھٹو کو یہ رشتہ پسند آیا اور اٹھارہ دسمبر انیس سو ستاسی کو لیاری کے ککری گراؤنڈ میں دونوں کی شادی ہو گئی-لیکن شادی سے بھی بینظیر بھٹوکی مشکلات کم نہیں ہوئیں
ان کے مخالفین ان کی چھوٹی سے چھوٹی کمزوری سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے-اس لئے بینظیر بھٹوہر قدم پھونک پھونک کررکھ رہی تھیں- یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے امید سے ہونے کی بات بھی میڈیا سے چھپا لی لیکن جنرل ضیا کویہ خبر ہر صورت میں چاہیے تھی-کیونکہ ان کے لیے اس کی ایک اہم سیاسی وجہ تھی-انیس سو اٹھاسی میں جب جنرل ضیا نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا توانہوں نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا-کیونکہ انہیں انٹیلی جنس رپورٹ مل چکی تھی کہ بینظیر بھٹوامید سے ہیں-لہٰذا وہ اگلے انتخابات کی تاریخ ایسی رکھنا چاہتے تھے جس میں بینظیر بھٹو زچگی کے قریب ہوں اور انتخابی مہم نہ چلا سکیں-انٹیلی جنس کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی کہ قریب قریب درست تاریخ کا پتہ لگائیں-بینظیر بھٹوبھی اس شرارت کو سمجھ چکی تھیں اس لیے ڈھیلے ڈھالے لباس پہنتی تھیں تاکہ انہیں دیکھنے والے کوئی اندازہ نہ لگا سکیں-

بینظیر بھٹونے مشہور کر دیا کہ وہ نومبر میں ماں بننے والی ہیں-یہی خبر جولائی میں جنرل ضیا تک بھی پہنچی، حالانکہ وہ 30مئی کو 90دن یعنی 30 اگست تک الیکشن کا اعلان کر چکے تھے-اب انہیں اپنے منصوبے کے تحت تاریخ بدلنا پڑی-انہوں نے 20 جولائی کو نیا اعلان کیا-اور بے نظیر کی زچگی کے مہینے یعنی نومبر میں انتخابات کا وعدہ کیا-تاریخ کی یہ عجیب و غریب جاسوسی جاری تھی کہ جنرل ضیا الحق کا طیارہ ہوا میں پھٹ گیا اور وہ جاں بحق ہو گئے-ضیاالحق کے آخری تین دن کی کہانی ہم آپ کو پچھلی قسط میں سنا چکے ہیں-پاکستان میں گیارہ سال سے سیاہ و سفید کے مالک جنرل ضیا کی موت کے ساتھ ہی پاکستان میں طاقت کا خلا پیدا ہوگیا۔اس خلا کو تین افراد نے پر کیا-جنہیں عرف عام میں سٹریٹیجک ٹرائی اینگل کہا جاتا ہے-طاقت کی اس تکون میں صدر غلام اسحق خان، آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل شامل تھے-صدرپاکستان غلام اسحق خان نے بھی نومبر میں انتخابات کی تاریخ کو برقرار رکھا-کیونکہ انہیں بھی بے نظیر کے بارے میں نومبر ہی کی اطلاع ملی تھی، لیکن یہ اطلاع غلط تھی-بے نظیر کی حکمت عملی کام کر گئی بلاول انتخابات سے دو ماہ پہلے اکیس ستمبر انیس سو اٹھاسی کو پیدا ہوئے اور بینظیر بھٹو کو انتخابی مہم چلانے کا پورا موقع مل گی

نواز شریف بمقابلہ بینظیر

سقوط ڈھاکہ کے بعد 1988کا الیکشن پہلا بڑا سیاسی معرکہ تھا-جس میں جماعتی بنیادوں پر الیکش ہو رہے تھے-

کیونکہ 1985کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر آزاد امیدواروں نے لڑے تھے-اور پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ ک تھا-نومبر میں ووٹنگ کا اعلان ہو چکا تھا-اور مقابلہ بہت سادہ تھا-یا آپ بھٹو کے ساتھ ہیں یا بھٹو کے خلاف بے نظیر کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ صاف نظر آ رہا تھاکہ شاید وہ الیکشن میں کلین سویپ کریں گی-لیکن ان کے مخالفین انہیں کسی بھی صورت کھلی چھوٹ دینے پر تیار نہیں تھے۔سٹریٹیجک ٹرائی اینگل بھی اپنے جوہر دکھا رہی تھی-ٹرائی اینگل کا تیسرا سرا یعنی جنرل حمید گل سب سے زیادہ متحرک تھے-انھوں نےبے ن-یر کے خلاف نو سیاسی جماعتوں کا اسلامی جمہوری اتحاد یعنی آئی جے آئی راتوں رات کھڑا کر دیا-اس حقیقت کا اعتراف جنرل حمید گل اپنے کئی انٹرویوز میں کھل کر کر چکے ہیں-کاشف عباسی: لیکن آپ نے جنرل صاحب ان کو پہلی ملاقات میں کہا تھا کہ میں نے آپ کے خلاف آئی جے آئی بنائی تھی
حمید گل: میں نے آپ کے خلاف نہیں کہا تھا، میں نے آئی جے آئی بنائی تھی ورنہ ہم الیکشن تک پہنچ نہیں سکتے تھے
یہ میں نے بتایا، انہوں نے کہا کہ جنرل صاحب آئی انڈر سٹینڈ-نوازشریف کی جماعت جو اس وقت مسلم لیگ کہلاتی تھی اس اتحاد کا سب سے بڑا حصہ تھی-اس کے علاوہ نیشنل پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی بھی آئی جے آئی کا حصہ تھی-پیپلزپارٹی کے بانی رکن اور بینظیر کے انکل غلام مصطفیٰ جتوئی کو آئی جے آئی کا سربراہ مقرر کر کے بینظیر کے مقابلے پر کھڑا کر دیا گیا-اس اتحاد کے سربراہ تو غلام مصطفیٰ جتوئی تھے لیکن آئی جے آئی کا عوامی چہرہ نوازشریف تھے–ن کی تصویر کے ساتھ اخبارت کے فرنٹ پیجز پر بڑے بڑے اشتہارات چھپتے-. جن میں بینظیر کو دشمن اور یہودی لابی کا ایجنٹ لکھا جاتا-عوام سے مخاطب ہو کر کہا جاتا کہ آپ کا مقابلہ آپ کے دشمن سے ہے-ا. خبارات کی وہ خبریں جن میں بینظیر اور نصرت بھٹو پاکستانی ایٹمی پروگرام کی حمایت نہیں کر رہیں بطور اشتہار چھاپی جاتیں-یہ تک خبریں چھپیں کہ پیپلزپارٹی امریکہ میں لابنگ کر رہی ہے کہ پاکستان کو ایف سکسٹین طیارے نہ دئیے جائیں-ایسی خبروں کے تراشے روز اخبارات میں بطور اشتہار چھاپے جاتے-اور بتایا جاتا کہ پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کا مطلب پاکستان کے دفاع پر سمجھوتا کرنا ہے-سڑکوں چوراہوں پر آئی جے آئی کے نو ستاروں والے جھنڈے کے ساتھ یہ نعرہ بھی درج ہوتا-نو ستارے بھائی بھائی ۔۔۔ بینظیر بھٹو کی شامت آئی -آئی جے آئی کا انتخابی نشان سائیکل تھا.-

جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مختلف شہروں میں سائیکل پر نو ستاروں کا جھنڈا لگا کر انتخابی مہم چلایا کرتے تھے-مخالفین بینظیر بھٹو کو عوام کی نظروں سے گرانے کیلئے اس حد تک چلے گئے کہ بینظیرکی نیم برہنہ تصاویرہیلی کاپٹروں کے ذریعے شہروں اور قصبوں میں گرائی گئیں-انہیں ماڈرن، مغرب زدہ اور امریکہ اور بھارت کی ایجنٹ تک قرار دیا جا رہا تھا-بینظیر بھٹو بھی اپنے جلسوں میں اسلامی جمہوری اتحاد کو اڑے ہاتھوں لیتیں-انھوں نے الزام لگایا کہ ہیروئن اور منشیات کی کمائی سے ان کے خلاف انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے-انھوں نے ایسے اشتہار چھپوائے جن میں نوازشریف یا قاضی حسین احمد کو نہیں بلکہ ضیاالحق کو نشانہ بنایا جاتا-ضیا الحق کو پاکستان کے ایٹمی راز بھارت کو دینے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا-پیپلزپارٹی آمریت اور اس کے ساتھیوں کے خلاف اپنے انتخابی نشان تیر کو کئی معنوں میں استعمال کر رہی تھی-جواب میں آئی جے آئی بھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والے ظلم اور زیادتیوں کی تصاویر اخبارات میں چھپواتی-ان اشتہاروں میں بھٹو کے پاکستان توڑنے کی طرف اشارہ ہوتا-اور یہ دکھایا جاتا کہ بھٹو سیاستدان کے پردے میں ایک سخت گیر ڈکٹیٹر تھے-وہ اخبارات جرائد دکھائے جاتے جو بھٹو نے زبردستی بند کروائے تھے-اور وہ لوگ دکھائے جاتے جن پر بھٹو نے تشدد کروایا تھا-گو کہ دنیا میں ضیاالحق موجود تھے نہ ذوالفقار علی بھٹو، لیکن انتخابی مہم میں یہ دونوں پوری آب و تاب سے زندہ تھے-یہ ایک انتخابی جنگ تھی اور شاید دونوں اس پرانے فارمولے پر چل رہے تھے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے-سولہ نومبر کوقومی اسمبلی کی دو سو سینتیس میں سے دو سو سات نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوئی-کامیابی کے لیے کسی بھی جماعت کو ایک سو چار نشستیں درکار تھیں-ایک دن پہلے گیلپ سروے چھپ چکا تھا-جس میں انتہائی جدید اور سائنسی سروے کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ انتخابات میں پیپلزپارٹی اور آئی جے آئی میں مقابلہ برابر کا ہے-لیکن جب نتیجہ آیا تو پیپلزپارٹی، آئی جے آئی سے کہیں آگے تھی-

الیکشن کی نتائج

پیپلز پارٹی نے بانوے جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے چوون نشستیں حاصل کی تھیں-بعد میں آزاد امیدواروں کی شمولیت سے پیپلزپارٹی کو ایک سو پندرہ امیدواروں کی حمایت مل گئی-س الیکشن کی دلچسپ بات یہ تھی کہ آئی جے آئی کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی ہار گئے-پیرپگارا جنھیں حکومت کی بھرپور مدد حاصل تھی وہ بھی ہار گئے-آج آپ سیاست میں خلائی مخلوق کی آوازیں سنتے ہیں-’’ہمارا مقابلہ تو ایک خلائی مخلوق کے ساتھ ہے‘‘-

بالکل اسی طرح اس وقت بھی ہارنے والے اسی قسم کی باتیں کرتے تھے-پیر پگارا نے کہا کہ انھیں ہرانے کیلئے خفیہ ہاتھ استعمال ہوا ہے-سابق وزیراعظم جونیجو بھی اپنی شکست پر انگلی منہ میں دبائے کچھ ایسی ہی بات کہہ رہے تھے-پرانے سیاسی جگادری ہار گئے لیکن بھٹو اور ضیا کے جواں سال سیاسی وارث جیت گئے-اب وہی دونوں میدان میں آمنے سامنے کھڑے تھے-اور پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا تھا-لیکن ابھی انتخابی جنگ ختم نہیں ہوئی تھی-ان دنوں قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی دن نہیں ہوتے تھے-بلکہ پہلے قومی اسمبلی اور اس کے تین دن بعد صوبائی اسمبلیوں کے لیے ووٹنگ ہوتی تھی-اس لیے قومی اسمبلی میں شکست کے بعد آئی جے آئی کو صوبائی انتخابت میں بھی ہارنے کا دھڑکا لگ گیا۔اس دوران روزنامہ مشرق اور نوائے وقت میں بینظیر بھٹو کا یہ بیان سامنے آیا کہ وہ کسی پنجابی کو اپنا لیڈر کیسے مان لیں؟
آئی جے آئی نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور رات بھر میں پنجاب کی دیواروں پر یہ نعرہ لکھ دیا گیا۔۔۔
’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘-مساجد میں لائوڈ سپیکر پر ینظیر بھٹوکے خلاف اعلانات بھی کروائے گئے-پنجاب کے عوام کو پیپلز پارٹی کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی گئی اور اس مہم کا پیپلزپارٹی کو نقصان بھی ہوا-جب نتیجہ آیا تو پنجاب سے 88نشستیں پیپلز پارٹی نے اور اکیانوے آئی جے آئی نے حاصل کیں-نوازشریف آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے-خیبر پختونخوا یعنی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بھی آئی جے آئی جیت گئی-سندھیوں کے لیے ایسے اشتہارات چھاپے گئے تھے جن میں لکھا جاتا کہ سندھ کو ایک جماعتی آمریت سے بچانے کیلئے آئی جے آئی کے نشان سائیکل پر مہر لگائیں-لیکن یہ مہم کسی کام نہ آئی-اورپیپلزپارٹی جیت گئی اور بوجھئیے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ کون بنے ?
قائم علی شاہ دو دسمبر انیس سو اٹھاسی کو بینظیر بھٹونے وزارت عظمی کا حلف اٹھایا تو وہ پاکستان اور عالم اسلامکی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں-؟

download (43)

افغان جنگ،، روس کی بربادی اور ضیاالحق کا ہنگامہ ترین دور، ایک ملّت کی غمگین کہانی, ساتواں حصّہ

ضیاالحق کے پورے دور پر سوویت روس کے ایک خفیہ آپریشن کی گہری چھاپ رہی ہے. اس آپریشن کو اسٹارم ٹرپل تھری کہا جاتا ہے. 27دسمبر 1979 کو روسی کمانڈوز نے افغان صدر حفیظ اللہ امین کوان کے محل میں قتل کر دیا. اور افغانستان پر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر دی. صرف تینتالیس منٹ پر مشتمل اس آپریشن نے افغان جنگ کی بنیاد رکھی. وہ جنگ جو دس سال تک انسانی المیوں کوجنم دیتی رہی اور ساڑھے بارہ لاکھ پچاس ہزار انسان اس کا ایندھن بن گئے. اس جنگ میں ایک سپرپاور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور دنیا میں امریکہ واحد سپر پاور کےطور پر ابھرا. سوویت روس اور افغانستان میں ہونے والی یہ تبدیلیاں جنرل ضیا الحق بہت غور سے دیکھ رہے تھے. وہ سمجھتے تھے کہ سوویت روس دراصل افغانستان سے ہوتا ہوا پاکستان کے راستے گوادر کی بندرگاہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے. تاکہ گرم پانیوں تک رسائی حاصل کر سکے. اس دور میں بھارت اور روس جنگی اتحادی تھے. اس لیے جنرل ضیا کو یہ بھی خطرہ تھا کہ افغانستان میں روس اور بھارت کی حامی حکومت پاکستان کے لیے مستقل خطرہ ہو گی. اس وقت امریکہ کا بھی یہی مفاد تھا کہ روس کو افغانستان میں روکا اور جنگ میں الجھا کر کمزور کیا جائے. چنانچہ امریکہ نے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنایا اور سعودی عرب کی مدد سے مجاہدین تیار کرنا شروع کر دئیے
امریکہ اور سعودی عرب اس جنگ کیلئے مالی وسائل فراہم کر رہے تھے. جبکہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک سے سادہ لوح مسلمانوں کو جہاد کے نام پر افغانستان میں جمع بھی کیا جا رہا تھا. اب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس حقیقت کو برملا تسلیم کررہے ہیں. ’’سعودی عرب 1979سے پہلے ایسا نہیں تھا، اس دور میں خطے میں کئے منصوبے شروع ہوئے‘‘
جنرل ضیا، امریکہ اور سعودی عرب… سوویت روس کو افغانستان میں نیست و نابود کرنے کیلئے ایک جان ہو گئے. لیکن اس وقت پاکستان پر امریکہ پابندیاں عائد تھیں جن کی وجہ سے پاکستان دنیا سے اسلحہ اور ٹکنالوجی حاصل نہیں کر پا رہا تھا. امریکی صدر جمی کارٹر نے سوویت روس سے جنگ کے بدلے پاکستان کو چالیس کروڑ ڈالر امداد کی پیشکش کی. جنرل ضیاء الحق نے اس موقعے پر مشہور فقرہ کہا کہ ’’یہ مونگ پھلی کے دانے اپنے پاس ہی رکھیں۔‘‘. دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ صدر جمی کارٹر کے مونگ پھلی کے فارمز تھے. اس گہرے طنز پر امریکی میڈیا نے ضیاء الحق کے فقرے کو خوب مرچ مسالہ لگا کرشہرت دی
لیکن مونگ پھلی کے باغات والا صدر انیس سو اکیاسی میں چلا گیا اور ایک بزنس مین کا بیٹا رونلڈ ریگن امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا. صدر ریگن ایک سیلزمین کے بیٹے تھے اور انھیں سودا کرنا خوب آتا تھا. انھوں نے امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور بنانے کیلئے پاکستان کی طرف خزانوں کے منہ کھول دیئے. پاکستان کے لیے تین ارب بیس کروڑ ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا گیا
معاشی پابندیاں ختم کر دیں گئیں. پاکستان کو دنیا کے جدید ترین اور کبھی نہ ہارنے والے ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کی منظوری دی گئی. انھی ایف سکسٹین کے باعث پاک فضائیہ کو کئی سال تک انڈین ائرفورس پر برتری حاصل رہی. امریکہ سے دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیا نے 34 ایف سکسٹین اور پاک بحریہ کیلئے ہارپون میزائل خریدے. ضیاء الحق کی خواہش اور مطالبے پر امریکہ نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو بھی نظرانداز کرنا شروع کیا. جس کی وجہ سے پاکستان نے افغان جنگ کے دوران ایٹمی پروگرام کو خفیہ طریقے سے مکمل کیا اور پہلا کولڈ ایٹامک ٹیسٹ بھی کیا. یعنی بم چلائے بغیر ہی ٹکنالوجی کی مدد سے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ کر لی گئی. اس دوران امریکی کانگریس نے کئی بارپاکستانی جوہری پروگرام پر پابندیاں لگانے کی کوششیں کیں.

لیکن ضیاء الحق کانگریس مین چارلی ولسن جیسے دوستوں کی مدد سے ان کوششوں کو ناکام بناتے رہے. امریکہ اور

سعودی عرب نے مل کر دس برس تک ساٹھ کروڑ ڈالر سالانہ مجاہدین کو فراہم کئے. کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے یہ ذمہ داری لے رکھی تھی کہ وہ ہر امریکی ڈالر کے بدلے میں ایک ڈالر مجاہدین کی امداد کے لیے خرچ کرے گا. امریکی پابندیوں کے خاتمے کے نتیجے میں پاکستان کو دوسرے یورپی ممالک سے بھی اسلحہ ملنے لگا تھا. ان میں فرانس سے جدید طیارہ شکن میزائل مسترال اور کروٹیل بھی ملے. پاکستانی خفیہ ایجنسی افغان مجاہدین کی تربیت کر رہی تھی. دوسری طرف سعودی امداد سے مدارس کا نیٹ ورک پھیلایا جا رہا تھا تاکہ مجاہدین کی مستقل سپلائی برقرار رکھی جا سکے. اس مقصد کے لیے اسلام سے محبت کے جذبات کو استعمال کیا گیا اور عالمی جہاد کے تصور کو عام کیا گیا. اسامہ بن لادن بھی اسی دور میں افغانستان پہنچے. اس سب کے باوجود افغانستان میں روس کو ہرانا مشکل نظر آ رہا تھا. کیونکہ روس کی فضائی طاقت کو افغان مجاہدین شکست نہیں دے پا رہے تھے. ایسے میں امریکہ نے ایک ایسا ہتھیار تیار کیا جو اپنی مثال آپ تھا. .روس کی فضائی برتری ختم کرنے کے لیے امریکہ نے ایک ایسا میزائیل تیار کیا، جس کیلئے لانچر نہیں صرف انسانی کاندھا چاہیے تھا. یہ میزائل تھا سٹنگر میزائل. اس میزائل نے روس کو تگنی کا ناچ نچا دیا. سٹنگر میزائل پاکستان کے ذریعے افغانستان کو سپلائی کیے جاتے تھے. ضیاالحق کے دور میں ان میزائلوں کو محفوظ کرنے کیلئے کئی مقامات چنے گئے جن میں سے ایک راولپنڈی کا اوجڑی کیمپ بھی تھا. مجاہدین سٹنگر میزائلوں سے روسی ہیلی کاپٹروں کو پتنگوں کی طرح گرانے لگے. روسی فوج کا مورال آٹھ سال سے جاری جنگ میں پہلے ہی بہت گر چکا تھا. پاکستان کی شاندار انٹیلی جنس، مجاہدین کے تابڑ توڑ حملوں، امریکہ اور سعودی عرب کی معاشی مدد. سے چلنے والی افغان جنگ میں اسٹنگر میزائل وہ آخری ہتھیار تھا جس نے سوویت ریچھ کی کمر توڑ دی. سٹنگر صرف سوویت روس کے لیے ہی تباہی نہیں تھا بلکہ پاکستان میں بھی اس نے غارت گری کی. وہ اوجھڑی کیمپ جہاں سٹنگرز میزائل جمع کیے گئے تھا، دس اپریل انیس اٹھاسی کو دھماکے سے پھٹ گیا. راوالپنڈی کے باسیوں کے لیے دس اپریل کا دن قیامت سے کم نہیں تھا. میزائل پھٹنے کی آوازیں اور آسمان سے برستی آگ ایک خونریز جنگ کا منظر پیش کر رہی تھی. جب یہ بارود کی بارش تھمی تو راولپنڈی میں 103افراد جان کی بازی ہارچکے تھے. جن میں بعد کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے والد گرامی بھی شامل تھے. سویت روس کیلئے اس جنگ کی مالی اور انسانی قیمت برداشت سے باہر ہو گئی تو اس نے واپیس کا فیصلہ کر لیا. اپریل انیس سو اٹھاسی میں پاکستان، افغانستان، روس اور امریکہ کے درمیان جنیوا میں ایک معاہدہ ہوا. اس میں طے پایا کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے. مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجا جائے گا. اور رشین آرمی فروری انیس سو نواسی تک افغانستان سے نکل جائے گی. روس نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے افغانستان خالی کردیا. لیکن روسی افواج کے مکمل انخلا سے پہلے ضیاء الحق کا آخری وقت بھی آن پہنچا تھا.کہا جاتا ہے کہ ضیاء الحق کوخفیہ ایجنسیوں نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ ان کے قتل کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے. موت سے پہلے آخری چند ماہ وہ آرمی ہاؤس راولپنڈی میں بند ہو کر رہ گئے تھے. ان کی موت سے تین دن پہلے چودہ اگست کی تقریب کا سارا فنکشن بھی ان کے حکم پر آرمی ہاؤس میں کرایا گیا.اس وقت ضیاالحق اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے آرمی ہاؤس کے صحن میں لگے درختوں کو سیکیورٹی رسک قرار دے دیا اور چالیس درخت کٹوا دیئے. اس پروگرام کے صرف تین دن بعد وہ آرمی ہاؤس سے نکلے اور ٹینکوں کی مشقیں دیکھنے بہاولپور پہینچ گئے. واپسی پر امریکی سفیر اور امریکن ملٹری اتاشی بھی ان کے ہمراہ سی ون تھرٹی طیارے میں سوار ہوئے. مشقیں دیکھنے والوں میں وائس آرمی چیف جنرل اسلم بیگ بھی شامل تھے. لیکن چونکہ وہ اپنے الگ طیارے میں آئے تھے اس لئے وہ واپیس پر ضیاء الحق کے ساتھ نہیں تھے. جنرل ضیاء الحق کا طیارہ اڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد بہاولپور کی ایک بستی لال کمال میں گر کرتباہ ہو گیا. حیرت کی بات یہ ہے کہ طیارے کے حادثے میں امریکی سفیر اور ملٹری اتاشی جیسے اہم عہدیدار مارے گئے. لیکن امریکہ نے اس سانحے سے متعلق حقائق جاننے میں کبھی دلچسپی نہیں دکھائی. یہی وجہ ہے کہ ضیاالحق کے قتل کو امریکی سازش سمجھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے. جنرل ضیاء کو افغان جہاد اور اسلامی قانون سازی کی وجہ سے مذہبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. تاہم افغان جنگ کے دوران مہاجرین کے ساتھ منشیات، کلاشنکوف کلچر اور دہشت گردی کا طوفان بھی پاکستان میں در آیا. اس وجہ سے آج بھی ضیاء الحق کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے. ضیاء الحق نے گیارہ سال ملک پر بلا شرکت غیرے حکومت کی لیکن اپنے یا اپنے خاندان کے لیے کوئی دولت جمع نہیں کی. لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ضیاء الحق نے جو بڑے فیصلے کئے ان میں سے بعض کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے. تاریخ کی ستم ظریفی تو دیکھئے کہ جن گرم پانیوں تک حصول کیلئے روس نے دس سال جنگ کی. تیس سال بعد وہی راستہ سی پیک کے ذریعے پرامن طریقے سے حاصل کر لیا. حالانکہ ابھی ان لوگوں کے بال کالے ہیں جنھوں نے روس کے خلاف افغان جنگ میں حصہ لیا تھا. ضیاالحق کا ہنگامہ خیز دور ختم ہو گیا.

images (9)

ذولفقار علی بھٹو نے کیسے ٩٣ ہزار پاکستانی فوج کی قیدی انڈیا سے رہا کی, بھٹوحکومت کی عروج و زوال , ایک ملت کی غمگین کہانی حصہ چھ

سانحہ مشرقی پاکستان کے چند ماہ بعد تک ملک میں مارشل لاء نافذ رہا. بھٹو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور دستور ساز اسمبلی کے سربراہ تھے. پاکستان کے نوے ہزار فوجی اورمغربی پاکستان کا تیرہ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ بھارت کے قبضے میں تھا. انھی معاملات کے حل کیلئے انیس سو بہتر میں بھٹو نے بھارت سے شملہ معاہدہ کیا. انہوں نے مذاکرات کے ذریعے بھارت سے تیرہ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ واپس لے لیا. اب مسئلہ تھا نوے ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی کا. بھٹو نے چین کے ذریعے اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کا راستہ روکا. انہوں نے بھارت سے مذاکرات کیے کہ اگرانڈیا پاکستانی قیدی رہا کر دے تو چین اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کا راستہ نہیں روکے گا. یہ دباؤ کام کر گیا اور پاکستان کے نوے ہزار قیدی رہا ہو کر وطن واپس آ گئے
اکہتر کی جنگ میں امریکہ نے چونکہ پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی تھی اس لیے پاکستان نےامریکہ سے کیے گئے

سیٹو اور سینٹو کے معاہدے توڑ دئیے. لیکن پاکستان کو طاقتور عالمی اتحادی تو چاہیے تھے. اس کے لیے بھٹو نے اسلامی ممالک کا اتحاد بنانا شروع کیا. انیس سو چوہتر میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی. اسی برس پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا اور دونوں ممالک کے تعلقات کا ایک نیا آغاز ہو گیا. بھٹو کی سب سے بڑی کامیابی پاکستان کا متفقہ آئین تیار کرنا تھا. اس آئین میں وزیراعظم کے اختیارات بڑھا دیئے گئے اور بھٹو نئے پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے. بھٹو دور کا ایک اوراہم واقعہ یہ تھا کہ انہوں نے ایوب دور اور اس سے پہلے لگنے والی صنعتوں اور اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا. جس کا عملی نتیجہ اچھا نہیں رہا اور صنعتیں تباہ ہونے لگیں. صنعتیں بہتر کرنے کے لیے بھٹو نے روس سے تعلقات بہتر بنائے اور مدد طلب کی. پاکستان اسٹیل ملز بھی بھٹو دور میں بنائی گئی جبکہ ایوب دور میں شروع ہونے والا تربیلا ڈیم بھی اس دور میں مکمل ہوا. آئین کی تیاری کے بعد بھٹو کا دوسرا سب سے بڑا کارنامہ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا تھا. ان کا نعرہ ۔۔۔گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم ضروربنائیں گے۔۔۔ عوام میں بہت مقبول ہوا. تاہم اسلامی ممالک کا بلاک بنانے کی کوششوں اور ایٹمی پروگرام کی وجہ سے امریکہ بھٹو کےخلاف سرگرم ہو گیا. امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی دے ڈالی اپنے دور اقتدار کے آخری سال بھٹو سے ایک تاریخی غلطی ہوئی. عام انتخابات انیس سو اٹھہتر میں ہونا تھے لیکن بھٹو کو اس کے مشیروں نے بتایا کہ اگر وہ ایک سال پہلے انتخابات کروا دیں تو ان کی جیت یقینی ہے. اس طرح وہ مزید پانچ سال حکومت کر سکیں گے. بھٹو کے مقابلے میں اپوزیشن کا مشترکہ اتحاد پی این اے میدان میں آیا. بھٹو نے واضح طور پر میدان مار لیا اور ایک سو پچپن نشستیں جیت لیں. اپوزیشن کے ہاتھ صرف چھتیس سیٹیں آئیں. پیپلز پارٹی جیت تو گئی لیکن انتخابات پر دھاندلی کا الزام لگ گیا. پی این اے دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئی. یہ سیاسی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے مذہبی رنگ میں رنگ گئی. اور وہ تحریک جو دھاندلی کے خلاف شروع ہوئی تھی تحریک نظام مصطفی میں تبدیل ہو گئی. اس تحریک کے نتیجے میں نظام مصطفیٰ تو نہ آیا لیکن ضیا الحق آ گیا. ’’مسٹر بھٹو کی حکومت ختم ہوچکی ہے، سارے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا ہے‘‘. ’’قوی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں، صوبائی گورنر اور وزیر ہٹا دیے گئے ہیں‘‘
بھٹو ضیاالحق پر بہت اعتبار کرتے تھے. بالکل اسی طرح جیسے ایوب بھٹو پر اور سکندر مرزا ایوب خان پر اعتبار کرتے تھے. تاریخ کا ستم دیکھئے کہ ضیا نے بھٹو کو، بھٹو نے ایوب کو اور ایوب نے سکندر مرزا کو دھوکا دیا. سچ ہے طاقت کے کھیل میں اخلاقیات نام کا کوئی ہتھیار نہیں ہوتا. ضیاء نےمارشل لا نافذ کرتے ہوئے بھٹو کو گرفتار کر لیا. بھٹو کو رضا قصوری کے قتل کے ایک بہت کمزور مقدمے میں سزائے موت سنا دی گئی. رضا قصوری، مشرف کے قریبی ساتھی احمد رضا قصوری کے والد تھے. چار اپریل انیس سو اناسی کو بھٹو کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا. ظلم کی انتہا یہ تھی کہ پھانسی سے قبل آخری ملاقات میں بیٹی کو باپ کے گلے بھی نہیں لگنے دیا گیا. اور پھانسی کے بعد کسی رشتے دار کو آخری دیدار تک نہیں کرنے دیا گیا
لیکن آج حال یہ ہے کہ بھٹو کی عدالتی موت کو عدالتی قتل سمجھا جاتا ہے

5a35828c767b8

مشرقی پاکستان کو کس نے توڑا, ایک ملت کی غمگین کہانی حصہ پانچ

جنرل یحیٰ نے مارچ انیس سو انہتر میں صدر ایوب خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے. اب جنرل یحییٰ ایک ہی وقت میں پاکستان کے صدر، چیف آف آرمی سٹاف اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے. وہ چونکہ ایوب کے زوال کے اسباب دیکھ چکے تھے. اس لیے انھوں نے فوراً سیاستدانوں سے کوئی لڑائی مول لینے کے بجائے ایوب دور میں سیاسی جماعتوں پر لگی پابندیوں کو ختم کیا. جنرل یحیٰ خان نے ایوب کا بنایا متنازعہ آئین بھی منسوخ کردیا. انھوں نے دسمبر انیس سو ستر میں صدارتی انتخابات کروائے. یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات تھے جس میں ایک آدمی ایک ووٹ کا اصول استعمال ہوا. انھیں پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف انتخابات کہا جاتا ہے. لیکن ان شفاف انتخابات کا نتیجہ بہت خوفناک برآمد ہوا. انتخابات میں میں بنگال کے شیخ مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کیا اور ایک سو ساٹھ نشستیں جیت لیں. لیکن ان کی جماعت مغربی پاکستان میں ایک بھی سیٹ حاصل نہ کر سکی. ادھر ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں اکیاسی نشتیں جیتیں. لیکن مشرقی پاکستان میں وہ ایک بھی سیٹ نہ جیت سکے. پاکستان واضح طور پر دو حصوں میں بٹ چکا تھا. پورا مشرقی پاکستان شیخ مجیب کے ساتھ کھڑا تھا اور شیخ مجیب آئینی لحاظ سے پاکستان کے نئے حکمران تھے. جنرل یحییٰ کی ذمہ داری تھی کہ انھیں اقتدار منتقل کرتے. اس مقصد کیلئے جنرل یحییٰ نے1فروری1971 میں ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا. یہ ایک تاریخی موقع تھا کہ پاکسان کو مشرقی پاکستان سے منتخب قیادت مل رہی تھی. لیکن اس تاریخ موقع پر بھٹو نے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا. نہ صرف انہوں نے شرکت سے انکار کیا بلکہ اپنے نمائندوں کو دھمکی دی کہ جو قومی اسمبلی کے اجلاس میں جائے گا وہ اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے. بھٹو کو شیخ مجیب کے چھ نکات پر اعتراض تھا. بھٹو سمجھتے تھے کہ شیخ مجیب کے چھ نکات پاکستان سے علیحدگی کے نکات ہیں. لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ شیخ مجیب پر اعتراضات کے باوجودبھٹو کو اجلاس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے تھی. بھٹو نے جنرل یحییٰ پر اجلاس ملتوی کرنے کیلئے دباؤ ڈالا. یحییٰ نے یہ اجلاس ملتوی کروا دیا. اجلاس کا ملتوی ہونا تھا کہ مشرقی پاکستان میں آگ لگ گئی. بنگالی سمجھ گئے کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ ہمیں اقتدار منتقل نہیں کرنا چاہتی۔. مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک چل پڑی. بھارت جو پہلے سے موقع کی تاڑ میں بیٹھا تھا اس نے باغی گروہ مکتی باہنی کے ذریعے مسلح بغاوت شروع کرا دی مکتی باہنی کے مسلح گروہوں نے پاک فوج اور مغربی پاکستان کے حامیوں پر حملے شروع کر دئیے. یہ پاکستان بچانے کا آخری موقع تھا. اگر اس وقت بھی ایک اجلاس بلا کر اقتدار انتخابات جیتنے والے کے سپرد کر دیا جاتا. تو شاید پاکستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی

گو کہ اب یہ اتنا سادہ بھی نہیں رہا تھا. لیکن جنرل یحییٰ نےاقتدار منتقل کرنے کی بجائے یہ آخری موقع بھی گنوا دیا

اور بغاوت کچلنے کیلئے فوجی ایکشن شروع کردیا. یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فوجی ایکشن کو بھٹو سمیت تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے سپورٹ کیا. پاک فوج نے مکتی باہنی کی بغاوت کو نو ماہ میں کچل دیا. لیکن اس فوجی ایکشن کے نتیجے میں نفرت کی ندی کا پانی سروں سے بہت اونچا ہو چکا تھا. دوسری طرف موقع کی تاڑ میں بیٹھے بھارت نے اپنی سازش کو ناکام ہوتے دیکھا تو انٹرنیشنل بارڈر کراس کرتے ہوئے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا. پاک فوج چاروں طرف سے گھیرے میں آ گئی. جغرافیہ ہمارے خلاف تھا، پاک فوج مرکز سے ایک ہزار میل دور اور چاروں طرف سے دشمن پوری سپلائی لائن کے ساتھ گھیرا ڈال چکا تھا. جبکہ ادھر صورت حال یہ تھی کہ پاک فوج کی سپلائی لائن کٹ چکی تھی. اور مشرقی پاکستان کی سرزمین بیگانی ہو چکی تھی۔ شکست دیوار پر لکھی تھی. اس کے باوجود پاک فوج کے جوان بہادری سے لڑے.وطن کی خاطر ہزاروں جوان کٹ مرے لیکن یہ ایک ہاری ہوئی جنگ تھی. جسے طول تو دیا جا سکتا تھا جیتا نہیں جا سکتا تھا. اور ہوا بھی یہی. پاکستان کو اپنی تاریخ کی سب سے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا. اور نوے ہزار پاکستانی فوجی بھارت کے قیدی بن گئے. ملک ٹوٹ چکا تھا اور پاکستان مشرقی اور مغربی کے بجائے صرف پاکستان رہ گیا تھا. گو کہ ملک توڑنے کا ذمہ دار کوئی ایک فرد نہیں ہو سکتااس کے پیچھے سیکڑوں عوامل ہوتے ہیں. لیکن اگر یہ دیکھنا ہو کہ آخری وقت میں وہ کون سا شخص تھا جو پاکستان کو بچا سکتا تھا لیکن اس نے نہیں بچایا تو اس کا نام ہے جنرل یحییٰ. جنرل یحییٰ اس لیے کہ ان کی بطور صدر اور کمانڈر ان چیف یہ ذمہ داری تھی کہ اقتدار سب سے زیادہ ووٹ لینے والےکو ایماندری سے منتقل کر دیتے. لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا. لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان توڑنے کے تنہا ذمہ دار جنرل یحییٰ ہیں۔ کیونکہ. وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔۔۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہی جنرل یحییٰ کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہو گیا. جنرل یحییٰ نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک کاغذ کی تحریر کے ذریعے اقتدار منتقل کر دیا. بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور دستور ساز اسمبلی کے سربراہ بن گئے

انھوں نے اقتدار سنبھالا اور جنرل یحیٰ کو نظر بند کر دیا. باقی زندگی میں جنرل یحیٰ زیادہ تر نظر بند ہی رہے. بھٹو کی پھانسی کے ایک سال بعد سقوط ڈھاکہ کا یہ اہم ترین کردار انتقال کر گیا. ادھر پاکستان سے الگ ہونے والے بنگلہ دیش میں ایک کے بعد ایک فوجی بغاوت جنم لیتی رہی. یہاں تک کہ علیحدگی کے صرف چار سال بعد ڈھاکہ میں شیخ مجیب کو نوجوان فوجی افسروں نے گھر میں گھس کر قتل کر دیا. یوں صرف دس سال کے اندر اندر سقوط ڈھاکہ کے تینوں اہم کردار بھٹو، شیخ مجیب اور جنرل یحییٰ موت کی وادی میں جا سوئے. پاکستان میں اس سانحے کی وجوہات جاننے کے لیے ایک کمیشن بنایا گیا

اس کمیشن کے سربراہ بنگال سے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس جسٹس حمودالرحمن تھے. اس کمیشن نےسقوط ڈھاکہ پر ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی. اس رپورٹ میں ذمہ داروں کا تعین بھی کیا گیا. اور سقوط ڈھاکہ کے عوامل بھی لکھے گئے

یہ رپورٹ بھٹو کے دور میں مکمل ہو گئی تھی. لیکن چند مصلحتوں کے پیش نظر انہوں نے اسے شائع نہیں کیا. وہ دن اور آج کا دن یہ رپورٹ کبھی سامنے نہ آسکی. اس کے کچھ حصے بھارت میں تو شائع ہوئے لیکن پاکستان میں اسے کبھی پبلک نہیں کیا گیا

download (46)

پاکستان کا پہلا ملک گیر مارشل لا: ایوب خان کی آغازی حکومت ایک ملت کی غمگین کہانی حصہ چار

1958 میں پاکستان کا پہلا ملک گیر مارشل لا لگا. اور ایوب خان پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے. وہ پہلے ڈکٹیٹر تھے جو برملا کہتے تھے کہ عوام ابھی اتنے باشعورنہیں ہوئے کہ انھیں ووٹ کا حق دیا جائے. جمہوریت اور سیاستدانوں سے ان کی نفرت اتنی زیادہ تھی کہ انھوں نے ایبڈو اور پراڈا جیسے بدنام زمانہ قوانین بنائے. ان قوانین کے تحت سات ہزار سیاستدان سات، سات سال کے لیے نااہل قرار دیئے گئے. نااہل قرار دیئے جانے والے سیاستدانوں میں سابق وزرائے اعظم حسین شہید سہروردی اور فیروزخان نون جیسے بڑے نام بھی شامل تھے. ان لوگوں کو نااہل کرنے کے لیے کرپشن اور ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے. سیاستدانوں پر کرپشن الزامات اور نااہل کرنے کے بعد ایوب خان نے اپنی مرضی کا ایک آئین تشکیل دیا. اور انیس سو پینسٹھ میں اسی آئین کے تحت انتخابات کا اعلان کر دیا. خودپسندی اوراقتدار کی ہوس دیکھئے کہ جنرل ایوب جو پاکستان مسلم لیگ کے صدر بھی تھے وہ خود صدارتی امیدوار کے طور پر میدان میں آ گئے. ان کے مقابلے کے لیے اب میدان میں کوئی سیاستدان نہیں بچا تھا کیونکہ تمام بڑے سیاستدانوں کو مختلف الزامات کے تحت نااہل کیا جا چکا تھا. اپوزیشن بری طرح تقسیم تھی


ایوب خان کا خیال تھا کہ وہ بہت مقبول ہیں اور باآسانی جیت جائیں گے. ایسے میں تقسیم شدی اپوزیشن نے بھی شاندار پتہ کھیلا. انھوں نے متفقہ طور پر قائداعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو صدر پاکستان کے امیدوار کے طور پر کھڑا کر دیا. ان حالات میں وہ پاکستان کی واحد امید تھیں. جنرل ایوب خان محترمہ فاطمہ جناح سے خوفزدہ تھے. مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں میں فاطمہ جناح کو پذیرائی ملنا یقینی بات تھی. لیکن ایوب خان نے صحت مند مقابلے کے بجائے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف کردار کشی کی گھٹیا مہم شروع کروا دی. بانی پاکستان کی بہن کو بھارتی ایجنٹ اور غدار کہا گیا. انیس سو پینسٹھ کے متنازع ترین انتخابات ہوئے اور کھلی دھاندلی کے نتیجے میں ایوب خان جیت گئے. اتنی بڑی ناانصافی نے ایوب خان کو عوام کی نظروں سے گرا دیا. ایوب خان کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع ہو گئے. اور سڑکوں چوراہوں پر ایوب کے خلاف ہر طرح کے نعرے لگنے لگے. اسی دوران دو ایسے واقعات ہوئے جن سے ملک کی معاشی حالت ڈانواں ڈول ہو گئی اورایوب خان کو بہت بڑا سیاسی دھچکا پہنچا. ایک واقعہ تو 1965 کی جنگ ستمبر کاتھا. جس میں پاکستان نے بھارتی حملے کا بھرپور اور کامیاب دفاع کیا. لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ امریکہ پاکستان سے ناراض ہو گیا. وجہ یہ تھی امریکہ سے پاکستان کا معاہدہ تھا کہ پاکستان امریکی ہتھیاروں کو بھارت کے خلاف استعمال نہیں کرے گا. لیکن جنگ میں پاکستان نے اپنی پوری طاقت بھارت کے خلاف استعمال کی اس سے امریکی امداد بند ہو گئی. دوسرا واقعہ معاہدہ تاشقند تھا. جس میں جنرل ایوب کےخلاف یہ تاثر پھیل گیا انھوں نے بھارت کے خلاف جیتی ہوئی جنگ ستمبر مذاکرات کی میز پر ہار دی ہے. ان دو واقعات اور محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف دھاندلی ایوبی اقتدار کیلئے زہرقاتل ثابت ہوئے. ذوالفقار علی بھٹو اس وقت ایوب کے وزیر خارجہ تھے اور سر عام جنرل ایوب کو ڈیڈی کہا کرتے تھے. لیکن جب بھٹو نے حالات بدلتے دیکھے تووہی کیا جوطاقت کے کھیل میں کیا جاتا ہے. انہوں نے ایوب کے خلاف بھڑکے ہوئےعوامی جذبات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔. انھوں نے پاکستان کی پہلی عوامی جماعت پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور مغربی پاکستان کے سب سےمقبول لیڈربن گئے. 1969میں جب صدر ایوب خان کے خلاف عوامی مزاحمت بے قابو ہو گئی تو آرمی چیف جنرل یحیٰ نےایوب خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا. ایوب خان نے پاکستان پر دس سال اور چھ ماہ حکومت کی. یہ دس سال پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین سال تھے. ان برسوں میں ابتدائی طور پر پاکستان کھل کر امریکی کیمپ میں شامل ہوا. جس کے چند مثبت نتائج بھی نکلے. امریکی مدد سے پاکستان نے پہلی بار منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیمز کا آغاز کیا. صنعتوں اور زراعت کو فروغ دیا. پاک فوج مضبوط ہوئی. پاکستان پہلی بار گندم کی پیداور میں خودکفیل ہوا. بنکنگ سیکٹر پروان چڑھا اور چین سے تعلقات بہتر بنائے گئے. لیکن ایوب خان کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ ان کے دور میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں دوریاں اتنی بڑھ گئی تھیں. کہ محض تین سال بعد ملک دو ٹکڑے ہوگیا. ایوب خان نے امریکی امداد سے پاکستان میں انڈسٹری کو ترقی تو دی لیکن اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے جمہوری سسٹم ڈیولیپ نہیں ہونے دیا. جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ امداد کی سہارے ہونے والی ترقی امریکی امداد کے خاتمے پر ختم ہو گئی. منگلا تو مکمل ہو گیا لیکن تربیلا ڈیم کے لیے پیسے ختم ہو گئے۔ تربیلا ڈیم بھٹو دور میں مکمل ہوا

59b3dadb9e03b

لیاقت علی خان کی موت اور پاکستان کی سیاست میں فوجی اثرات ایک ملت کی غمگین کہانی حصہ دوم

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلم لیگ نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کے نتائج خطرناک ثابت ہوئے. لیاقت علی خان کی جگہ ایک متحرک شخص کی ضرورت تھی جو پاکستان کا آئین بھی تشکیل دے اور ملکی معاملات بھی سنبھالے. اس لیے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو وزیرعظم کا عہدہ دے دیا گیا. گورنر جنرل کے پاس برطانیہ کے دئیے ہوئے کافی اختیارت تھے لیکن رسمی طور پر وہ انھیں استعمال نہیں کرتا تھا. اس لیے وزیرخزانہ ملک غلام محمد کو بے ضرر سمجھتے ہوئے گورنرجنرل بنا دیا گیا. فالج کے مریض ملک غلام محمد بیوروکریٹ تھے

قیام پاکستان کی جدوجہد سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا. اسی لئے وہ عوامی امنگوں کو سمجھنے سے سراسر قاصر تھے

اس پر مزید یہ کہ فالج کے باعث ان کی گفتگو کسی کی سمجھ نہیں آتی تھی. ان کی امریکی سیکرٹری ترجمے کے فرائض سرانجام دیتی تھی

اس وقت پاکستان کا آئین نہیں بنا تھا اور پاکستان کو1935 کے برطانوی ایکٹ کے تحت چلایا جا رہا تھا. اس ایکٹ میں گورنر جنرل کے پاس کافی اختیارات تھے. گورنر جنرل غلام محمد نے فادر آف دا نیشن بننے کے بجائے اس ایکٹ سے فائدہ اٹھایا. اور اپنے اختیارات کا کھل کر جائز اور ناجائز استعمال کیا. ان کے دور میں پاکستان میں دو بڑے اہم واقعات ہوئے. ایک یہ کہ مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان کی حمایت کرنے والوں پرگولیاں برسائی گئیں. دوسرا یہ کہ احمدیوں کے خلاف چلنے والی تحریک کو کچلنے کے لیے لاہور میں مارشل لاء نافذ کیا گیا

اور یہ لاہور کی سطح تک نافذ ہونے والا مارشل لا پاکستان کا پہلا مارشل لا تھا. اس پر بس نہیں بلکہ غلام محمد نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو بھی برطرف کردیا۔. خواجہ ناظم الدین نے ملکہ برطانیہ سے اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی اپیل کی. لیکن بدقسمتی دیکھئیے کہ برطانیہ جو خود کو قدیم ترین جمہوریت کہتا ہے اس نے یہ جمہوری درخواست ماننے سے انکار کر دیا

ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی جگہ امریکہ میں پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم بنا دیا. اگلے برس یعنی 1954 میں غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو بھی برطرف کر دیا. حالانکہ اس وقت پاکستان کے پہلے آئین کا مسودہ تقریباً تیار ہو چکا تھا

کہا جاتا ہے کہ اسمبلی توڑنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ نئے آئین میں گورنرجنرل کے اختیارات کافی کم کرنے کی تجاویز تھیں. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس فیصلے میں انہیں آرمی چیف جنرل ایوب خان کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ستم بالائے ستم یہ کہ غلام محمد کے دور میں حاضر سروس آرمی چیف جنرل ایوب خان کو وزیردفاع بھی مقرر کردیا گیا. اور یوں اقتدار کے ایوانوں میں فوجی بوٹوں کی گونج سنائی دینے لگی

download (49)

قائداعظم کی وفات سے لیاقت علی خان کی وفات تک کا سفر, ایک ملت کی غمگین کہانی حصہ اول

انيس سو اڑتاليس میں ایک طرف پاکستان بے سروسامانی کے عالم میں حالت جنگ میں تھا دوسری طرف بانی پاکستان شدید بیمار ہو گئے لیکن بیماری بھی انھیں گورنر جنرل کی حیثیت میں پاکستان کی خدمت کرنے سے نہیں روک سکی. قائداعظم کو انتہائی خطرناک حالت میں بلوچستان کے شہر زیارت سے کراچی لایا گیا آپ ائرپورٹ پر اترے تو بیماری سے نڈھال تھے لیکن انھیں اس حالت میں لے جانے کیلئے ایک کھٹارا سی ایمبولینس بغیر نرس کے بھیج دی گئی. ایمبولینس قائداعظم کو ان کی رہائش گاہ تک پہنچانے سے پہلے ہی راستے میں خراب ہو گئی. جب دوسری ایمبولینس منگوائی گئی تو اس دوران ایک گھنٹے کا وقت لگ گیا جس میں محترمہ فاطمہ جناح بیمار بانی پاکستان کو ہاتھ کاپنکھ

جھلتی رہیں. اس سوال کا جواب آج کسی کے پاس بھی نہیں کہ خراب ایمبولینس بھیجنا ایک سازش تھی یا ایسا ایک بے سروسامانی سے لڑتی ریاست میں کمیونیکشن کے گیپ کی وجہ سے ہوا. ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ قائداعظم کی آمد کے بارے میں لیاقت علی خان آگاہ ہی نہیں تھے. یہ عذر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اس وقت پورے کراچی میں صرف دو ایمبولینسز تھیں

جن میں سے ایک کو قائداعظم کیلئے بھیج دیا گیا شاید یہ کمیونیکشن کی تاریخی غلطی ہو لیکن بہت سے لوگ آج بھی یہ مانتے ہیں کہ خراب ایمبولینس بھیجنا دراصل ایک سوچی سمجھی سازش تھی قائداعظم جب گھر پہنچے تو بیماری سے بری طرح نڈھال ہو چکے تھے۔ آخری وقت میں ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور ذاتی معالج کے سوا ان کے ساتھ کوئی دوسرا موجود نہیں تھا وہاں موجود لوگوں کے مطابق ان کے آخری الفاظ تھے

اللہ

پاکستان

انھوں نے یہ کہا اور جان جان آفرین کے سپرد کر دی قائداعظم کے جنازے میں چھے لاکھ لوگ شریک ہوئے. قائداعظم کی وصیت کے مطابق ہی ان کی نماز جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی. اور خواجہ ناظم الدین کو پاکستان کا دوسرا گورنر جنرل نامزد کردیا گیا.

لیاقت علی خان کو کس نے مارا؟

ادھر قائداعظم جہان فانی سے رخصت ہوئے ادھر حکومتی ایوانوں میں روایتی سازشیں جنم لینے لگیں اس سارے

گرداب کو اگر کوئی شخص قائداعظم کے بعد سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا تھا وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاق علی خان تھے. بانی پاکستان کے بعد لیاقت علی خان مختار کُل ہو گئے اور پاکستان کی قسمت کے اہم ترین فیصلے کرنے لگے.اس وقت ایک طرف پاکستان کا آئین تشکیل پا رہا تھا اور دوسری طرف پاکستان کو اپنی تاریخ کا ایک اور اہم ترین فیصلہ کرنا تھا یہ فیصلہ تھا روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں کسی ایک کا اتحادی بننا یا غیر جانب دار رہنا. پاکستان نے یہ تاریخی فیصلہ امریکہ کے حق میں کیا حالانکہ پاکستان کے پاس بھارت کی طرح غیرجانبدار رہنے کا آپشن بھی موجود تھا لیاقت علی خان کو سوویت یونین کے رہنما جوزف اسٹالین اور امریکی صدر ہیری ٹرومین دونوں کی طرف سے دعوت تھی لیکن انھوں نے ماسکو کے بجائے واشنگٹن جانے کو ترجیح دی. واشنگٹن میں حسب توقع ان کا پرتپاک استقبال ہوا اس دورے سے سوویت یونین یعنی اس دور کے روس اورپاکستان کے تعلقات بگڑ گئے. امریکا سے دوستی کی وجہ سے پاکستان عالمی سیاست اور سرد جنگ کی بھول بھلیوں میں الجھ کررہ گیا

جس کے نتیجے میں اس کی سالمیت اور خودمختاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا. سب سے بڑا نقصان تو یہ تھا پاکستان آزادنہ خارجہ پالیسی کے راستے سے ہٹ گیا اور عالمی طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہونے لگا

لیاقت علی خان کے دور اقتدار کا آخری سال کافی ہنگامہ خیز رہا۔ 1951 میں میجر جنرل اکبرخان نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی. یہ کوشش ناکام رہی اوراس کے تمام کرداروں کوگرفتارکرلیا گیا. پاکستانی تاریخ میں حکومت کا تختہ الٹنے کی یہ پہلی غیر سیاسی کوشش تھی. 16 اکتوبر1951 کے دن لیاقت علی خان راولپنڈی میں مسلم لیگ کے جلسے سے خطاب کرنے سٹیج پر آئے. جلسے کے شرکاء میں کھڑے سید اکبر نے وزیراعظم پر گولی چلا دی. گولی سینے میں لگی اور پاکستان کا پہلا وزیراعظم ہزاروں لوگوں کے درمیان دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان کے آخری الفاظ تھے

۔۔۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔۔ اس قتل کی تفتیش کیلئے جو پہلا ثبوت میدان میں موجود تھا

یعنی گولی چلانے والا سید اکبر اسے موقعے پر ہی پولیس نے ہلاک کر دیا. اس قتل کی تفتیش انتہائی غیرسنجیدگی سے کی گئی

جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جب لاہور ہائیکورٹ نے قتل کیس کی فائل پیش کرنے کا حکم دیا

تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے حیرت انگیزجواب دیا. اس نے کہا ’’مائی لارڈ لیاقت علی خان قتل کیس کی فائل گُم ہو گئی ہے۔‘‘

اس قتل کی پوری تفتیش تو کبھی نہ ہو سکی لیکن اخباروں میں ایسی خبریں چھپتی رہیں کہ لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے امریکہ اور افغانستان کا ہاتھ ہے. سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے پہلے سیاسی قتل کی تفتیش درست انداز میں کر لی جاتی اور قانون کے مطابق سزائیں دی جاتیں تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی. لیاقت علی خان کا دنیا سے اٹھنا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم کی کرسی ایک مذاق بن کر رہ گئی. جس پر کٹھ پتلیاں لائی جاتیں اور گرائی جاتیں. اس پر ستم ظریفی یہ کہ یہ کٹھ پتلیاں چلانے والا ایک معذور اور مفلوج شخص تھا جو بدقسمتی سے پاکستان کا مختار کل بنا دیا گیا تھا

WhatsApp Image 2024-02-06 at 18.51.18

کھجور کی بہترین فوائد

کھجور بہت مشہور پھل ہے اس کا رنگ سیاہ اور سرخی مائل ہوتا ہے ذائقہ میٹھا اور مزاج گرم تر ہے

غذا کی اہمیت

کھجور غذائی اہمیت اعتبار سے بڑا اہم ترین پھل ہے یہ تازہ حالت میں بھی ملتا ہے اور خشک حالت میں اسے چھوہارا کہتے ہیں، کھجور میں قدرتی شکر گلوکوز اور فرکوز کی شکل میں پائی جاتی ہے یہ شکر معدے میں جاتے ہی فوراً جذب ہو کر خون میں شامل ہو جاتی ہے اپنی اسی خصوصیت کی وجہ سے اسے گئے کی شکر سے بہتر سمجھا جاتا ہے اسے عام طور پر دودھ یا دودھ کے بغیر ہی کھاتے ہیں دودھ کے ساتھ کھانے سے اس کی غذائی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے، صحرا کے لوگ اسے مکھن کے ساتھ استعمال کرتے ہیں اس مقصد کے لیے گٹھلی نکال کر اس میں مکھن بھر لیتےہیں۔

غذائی فوائد

کھجور کا ذکر دنیا کی تمام مقدس کتب میں آیا ہے، قرآن مجید میں تو خاص طور پر اس کا ذکر بیس دفعہ آیا ہے یعنی سورۃ البقرہ آیت نمبر 266، سورہ انعام آیت نمبر 100 ، آیت نمبر 142 سورۃ الرعد میں آیت نمبر 4 ، سورۃ النمل آیت نمبر 10.11 اور 67 سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 90,91 آیت نمبر 24,25 ، سورۃ طہ آیت نمبر 71 سورة الشعر آیت نمبر 148 ، سورة یسین آیت نمبر 33,35 ، سورة ق آیت نمبر 10 ، سورة الحمد آيت نمبر 18,20، سورة رحمن آیت مبر 10,11,68 اور 69 سورۃ القمر آیت نمبر 18,20 ، الحاقہ آیت نمبر 16,7 اور سورۃ عبس میں آیت نمبر 24,32 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھجور کی غذائی اور دوائی افادیت کا ذکر م سورۃ کہف آیت نمبر 32 سورة مريم

ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس گھر میں کھجور ہوگی اس گھر والے کبھی بھوکے نہیں رہیں گے ۔ ایک اور حدیث مبارکہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عجوہ کھجور اور بیت المقدس کی مسجد کا گنبد دونوں جنت سے آئے ہیں۔آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے صبح سات کھجور کھائیں، شام تک زہر کے اثر سے محفوظ رہے گا اور جس نے شام کو کھائیں وہ صبح تک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کے حیض کی کثرت کے لیےکھجور سے بہتر پھل اور حیض کے لیے شہد سے بہتر کوئی دوا نہیں ہے۔

قبض

کھجو قبض کشا پھل ہے۔ ریشہ دار پھل ہونے کی وجہ سے یہ معدے کی تزابیت کو دور کر کے اسے فعال بناتا ہے اور اجابت کھل کر ہوتی ہے اس مقصدکے لیے کھجوروں کو رات بھر پانی میں بھگودیں دیں اور صبح چھان کر پی لیں ۔

انتڑیوں کی خرابی

کھجور و انٹریوں کی خرابی کے لیے بھی کامیابی سے استعمال کیا جاتا ہے، کھجور کااعتدال کے ساتھ استعمال انتری کو غلیظ اور فاسد مادوں سے پاک کر دیتا ہے۔

دل کی کمزوری

کھجوروں کو دل کی طاقت کے لیے بھی بہت مفید سمجھا جاتا ہے اس مقصد کے لیے کھجور یا چھوہاروں کو رات بھر پانی میں بھگو دیں صبح کو گھٹلیاں نکال کر پھینک دیں اور کھجور ملے پانی کو پی لیں، ہیضے میں دو بار یہ عمل دہرائیں اس سے دل کی کمزوری ختم ہو جاتی ہے۔

قوت باہ کی کمزوری۔

کھجوروں اور چھوہاروں کو قوت باہ کی کمزوری کے لیے بھی کامیابی سے استعمال کیا جاتا ہے رات کو آٹھ دس چھوہارے بکری کے دودھ میں بھگو دیں اور صبح کو دودھ کے ساتھ پی لیں اگر اس میں تھوڑا سا شہد اور چٹکی بھر چھوٹی الائچی کاپاؤڈر مکس کر لیا جائے تو اس کی تاثیر اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

متفرقات

کھجور خون صالح پیدا کر کے بدن کو موٹا کرتی ہے، جگر اور معدے کو طاقت بخشتی ہے۔ تازہ کھجور تپ دق کے مریضوں کے لیے مفید ہے۔ گردوں اور کمر کو مضبوط بناتی ہے۔ بخار کھانسی اور پیچش میں بہت مفید ثابت آور بھی ہے، قبض کشا ہونے کے ساتھ ساتھ پیشاب آور بھی ہے۔ کھجور کے مضر اثرات انار کے رس، روغن بادام اور خشخاش کے استعمال سے دور ہو جاتے ہیں ۔

WhatsApp Image 2024-02-06 at 18.51.19 (1)

امرود کی بہترین فوائد

برصغیر پاک و ہند کا نہایت مشہور پھل ہے، یوں تو اس کی بہت سی قسمیں ہیں لیکن دوقسمیں زیادہ مشہور ہیں ایک اندر سے سرخ اور دوسری اندر سے سفید ہوتی ہے

پختہ امرود میٹھا معتدل اور قدرے حرارت پیدا کرتا ہے اس کے پتے درجہ دوم میں سرد اور خشک پھول درجہ اول میں گرم تر اس کی زیادتی معدے میں کا سبب بن سکتی ۔ ہے، کالی مرچ سونف اور نمک اس کے مضر اثرات اپھارا اور قولنج کا سب کی اصلاح کرتے ہیں۔

غذائی افادیت

معدے کے امراض

آنتوں کی صفائی

امرود کے استعمال سے آنتیں صاف ہو جاتی ہیں، بواسیر قبض کو دور کرتا ہے۔

ہاضمہ کیلئے

خود ہاضم ہوتا ہے اور دوسری غذاؤں کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

قبض کشا

امرود قبض کشا ہوتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اسے کھانا کھانے کے بعد کھایاجائے اگر کھانا کھانے سے پہلے کھایا جائے تو قبض پیدا کرتا ہے۔

خون کی حدت میں مفید

امرود کے روزانہ استعمال سے خون کی حدت ختم ہو جاتی ہے، امرود کااعتدال کے ساتھ استعمال خون کو صاف کرتا اور طبیعت کو نرم کرتا ہے۔

گردہ اور مثانہ کی کمزوری

امرود کھانے سے گردے کی پتھری ٹوٹ کر نکل جاتی ہے، امرود کےاستعمال سے مثانے کی سوزش دور ہو جاتی ہے۔

متفرقات

اجوائن کے ساتھ استعمال

امرود کو دیسی اجوائن کے ساتھ استعمال کرنے سے آنکھوں کے گرد اندھیرا آنا اور سر چکر انا دور ہو جاتا ہے۔

زخموں کیلئے

امرود کے خشک پتوں کا سفوف زخموں کو ختم کرتے ہیں

WhatsApp Image 2024-02-06 at 18.51.19 (2)

آم کی بہترین فوائد

آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے آم گرم ممالک کا مشہور پھل ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے ایشیائی پھلوں کا بادشاہ کہتےہیں۔ غذا کے ساتھ ساتھ اسے گھریلو روا کا درجہ بھی حاصل ہے، یہ بھر پور گود سے والا رس بھرا پھل ہے، یہ عام طور پر سبز زود اور قدرے سرخ رنگوں میں ملتا ہے رنگوں کے علاوہ اس کی جسامت میں بھی خاصا فرق ہوتا ہے اس اور گودے کی طرح اس کی گٹھلیوں کا سائنسز بھی مختلف ہوتا ہے، اس کا شمار تناؤ پیڑوں میں ہوتا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں آم چار ہزار سال سے کاشت کیا جاتا ہے، ہندوؤں کی مشہور الہامی کتب ” ویدوی“ میں اسے کاشت یعنی بہشتی پھل کہا گیا ہے۔

بر صغیر پاک و ہند کے علاوہ اس وقت یہ پھل چین، بنگلہ دیش، فلپائن میکسیکو اور برازیل میں بکثرت ہوتا ہے پاک وہند میں اگر چہ اس کی لگ بھگ پانچ سو اقسام پائی جاتی ہے لیکن ان میں صرف 35 اقسام ہی کاشت کی جاتی ہیں۔

غذائی فوائد

آم کے پھل کو کچے سے لیکر پکنے تک قریباً ہر حالت میں استعمال کیا جاتا ہے، سبز یا کچے آم میں نشاستے کی بھر مقدار پائی جاتی ہے جو آہستہ آہستہ گلوکوز سکروز اور ماشوز میں تبدیل ہوتی رہتی ہے اور پختہ ہونے تک یہ تمام اجزاء مکمل ہو جاتے ہیں اور نشاستہ یکسر غائب ہو جاتا تا ۔ ہے، کچے آم میں پیکٹن وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے لیکن گٹھلی مکمل ہونے پر یکسر ختم ہو جاتی ہے، خام یعنی کچے آم میں آگز بلک سرک میلک اور سکسا ٹنک ایسڈ ز خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہے اسی لئے کچا آم کھٹا ہوتا ہے ایک سو گرام پختہ آم میں 74 غذائی مرارے ہوتے ہیں۔

وٹامنز

کچے آم میں وٹامن سی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے نیم پختہ یا پختہ آم اس میں کی مقدار خاصی کم ہو جاتی ہے، وٹامن سی کے علاوہ اس میں وٹامن بی اور نیاسمین بھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہیں ، آم کی ہر قسم میں ان کی مقدار کمو بیش ہوتی ہے۔

پختہ آم غذائیت بخش اور مقوی ہوتا ہے اس میں شکر کی مقدار دیگر اجزاء کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے شکر کے علاوہ اس میں ٹارٹرک ایسڈ اور میلک ایسڈ بھی پائی جاتی ہے یہ ترشے جسم کی نشوونما کے لیے بڑے مفید سمجھے جاتے ہیں، ان کی وجہ سے بدن میں نمکیات کا توازن برقرار رہتا ہے۔

طبی فوائد

دیگر پھلوں کی طرح آم بھی اپنے طبی فوائد کے اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتا ہے خام اور پختہ یعنی دونوں حالتوں میں بے حد مفید ہے کچے آم میں چونکہ ایسڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لئے معدے اور انتڑیوں کے بہت سے امراض میں بہت مفید ثابت ہوتا ہے، کچے آم کا اچار بھی بنایا جاتا ہے اور مربہ بھی کچے آم کا چھلکا بھی بڑے کام کی شے ہے معدے کی لعاب دار جھلیوں کے لیے خاصا مفید سمجھا جاتا ہے آم کا اچار عام طور پر سرسوں یا رائی کے تیل سرکہ اور نمک سے تیار کیا جاتا ہے طبی اعتبار سے اس کا استعمال بہت کم مقدار میں کیا جانا چاہیے اس کی زیادتی معدے کے امراض کا باعث بنتی ہے جوڑوں کے درد گھٹیا گلے کی بیماریوں اور تیزابیت ایسی بیماریوں میں اس کا استعمال نقصان دہ ثابت ہوتا ہے

پختہ آم پیشاب اور قبض کشا قوت بخش اور وزن بڑھاتا ہے۔ دل کے پٹھوں کو طاقت دیتا ہے چہرے کی رنگت کو سنوارتا اور بھوک میں اضافہ کرتا ہے ہے ۔ے قدیم اطبا اور ویدوں کے بقول آم خون پیدا کرتا ہے گوشت میں اضافہ کرتا ۔ ہڈیوں کے گودے اور مادہ منویہ کو بڑھاتا ہے اسے جگر کے امراض میں بھی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے جن لوگوں کا وزن کم ہو ان کے لیے خصوصیت کے ساتھ مفید ہے جگر کے لیے مفید ثابت ہونے کے باوجود اس کی زیادتی جگر کے قدرتی فعل میں خلل ڈالتی ہے۔

کچے آم کے خواص

کچے آم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انسان کو موسم گرمائی آگ برساتی ہوا سے محفوظ رکھتا ہے، گرمیوں کی تیز دھوپ میں اگر کسی کو لو لگ جائے تو کچے آم کو بھوبل یعنی گرم گرم راکھ میں دبا کر پکا لیا جائے اس کے بعد اسکے رس میں تھوڑی چینی ملا کر مریض کو پلا دیں اس سے لو کے اثرات ختم ہو جاتے ہیں، کچھے آم کو تھوڑے سے نمک کے ساتھ کھانے سے پیاس کو تسکین ملتی ہے علاوہ ازیں پینے کے ذریعے خارج ہونے والے فولاد اور نمک کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔

صفراوی امراض

کچا آم پتے اور جگر کی صفراوی بیماریوں کے لیے بہت موثر ثابت ہوتا ہے کچے آم میں موجود ترشے ایسڈز صفراء کے اخراج کو بڑھا دیتے ہیں اور انتڑیوں سے زہریلے مواد کو خارج کر دیتے ہیں کچے آم کا خالی مرچوں اور شہد کے ساتھ روزانہ کھانے سے صفراوی امراض ختم ہو جاتے ہیں، خاص طور پر یرقان کے لیے اسے بے حد موثر سمجھا جاتا ہے، یہ جگہ کو طاقت بخشتا اور صحت مند رکھتا ہے۔

خون کی خرابیاں

کچا سبز آم خون کی اکثر خرابیوں میں مفید ثابت ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ کچے آم میں وٹامن سی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے یہ خون کی رگوں کو لچکدار بناتی ہے جس کی وجہ سے دوران خون میں کوئی رکاوٹ نہیں پڑتی، علاوہ ازیں یہ خون کے سرخ ذرات میں بھی اضافہ کرتا ہے، غذا میں شامل فولاد کو خون میں جذب کرتا ہے جسکی وجہ سے خون بہنے سے بچا رہتا ہے کچے آم میں یہ خوبی بھی ہے کہ ٹی بی، خون کی کمی پیچش اور ہیضہ کے خلاف جسم کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے علاوہ ازیں مسوڑھوں سے خون بہنے کی بیماری کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے پختہ وشیریں آم کےفوائد

امراض چشم

پختہ اور شیریں آم بینائی کی کمزوری کو دور کرتے ہیں خاص طور پر اندھراتا اور مرض جس میں رات کو کم دکھائی دیتا ہے کے لیے مفید ہیں، یہ مرض عام طور پر وٹامن اے کی کمی سے پیدا ہوتا ہے یہ بیماری زیادہ تر ان بچوں میں ہوتی ہے جنہیں غربت کی وجہ سے موزوں اور مناسب غذا میسر نہیں آتی، میٹھے آموں کا بکثرت استعمال اس بیماری سے چھٹکارا دلا دیتا ہے علاوہ ازیں یہ پھیل آنکھوں کو ایسی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے جو مریض کو مستقل طور پر اندھا بنا سکتی ہے۔ پختہ میٹھے آم آنکھوں کی جلن خارش اور بھینگے پن میں بھی بے حد مفید سمجھے جاتےہیں۔