FB_IMG_1699604242991

تندرست رہنے کے لیے انسانی جسم کو کن چیزوں کی ضرورت ہے

کلورین

یہ جسم کا دھوبی ہے جسم کی صفائی کرتا ہے خاص کر پیٹ اور انٹریوں کی۔ ڈاکٹر ز ٹائیفائیڈ میں کلورین مکسچر دیتے ہیں یہ جسم کی چربی کو گھٹاتا ہے اور زہریلے مادے بلاک کر دیتا ہے۔کلورین جسم سے غلاظت کو باہر نکال پھینکتا ہے۔ ہاضمے کی قوت بڑھاتا ہے اور قبض کو دور کرتا ہے، اس کی کمی سے زکام ہو جاتا ہے ۔ پیٹ پھول سباتا ہے، طبیعیت افسردہ رہتی ہے، مزاج چڑ چڑا ہو جاتا ہے، گردے کی بیماریاں اور دانتوں سے خون آنا کلورین کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل چیزوں میں کلورین زیادہ پایا جاتا ہے ۔مولی، بند گو بھی ، پیاز ، پالک، گاجر، ٹماٹر، بیکری کا دودھ۔

میگنیشیم

یہ قدرت کی قبض کشا دوا ہے۔ پٹھوں کو طاقت دیتا ہے، دماغ اور اعصاب کی پرورش کرتا ہے، فاسفورس اور چونے کے ساتھ ملکر یہ ہڈیوں اور دانتوں اور کھوپڑی کو مضبوط کرتا ہے۔ معمولی میگنیشیم کی ایک چٹکی پانی میں گھول کر پینا درد دل اور پیٹ کے مروڑ کو دور کر دیتا ہے۔ یہ دردوں کی خاص دوا ہے ۔ جس آدمی کے مزاج میں ترشی ہو اسے میگنیشیم کی ضرورت ہے۔ مندرجہ ذیل اشیاء میں اس کی کافی مقدار پائی جاتی ہے۔

انجیر، پالک، انگور، آلو بخارا سنگترہ، رس بھری ،کھٹا، سیب، ٹماٹر ۔

گندھک

یہ بدن میں چستی لاتی ہے جگر سے صفرا کا اخراج بڑھاتی ہے۔ اندرونی حرارت اور طاقت پیدا کرتی ہے، خون کو صاف کر کے جلد کو حسین اور شاداب بناتی ہے، بالوں کو بڑھاتی ہے، چھوت کی بیماریوں کے حملے سے بچاتی ہے، جسم سے گندے مادے نکالتی ہے اور گنڈیا اور جلدی و خونی امراض کے زہروں کو خارج کرتی ہے۔ گندھک جسم میں فاسفورس کا اثر قائم رکھتی ہے اور زیادہ دماغی اکساہٹ سے بچاتی ہے، موٹے آدمیوں کے لیے بندهک والی غذا ضروری ہے۔ اس کی کمی سے جلد کی بیماریاں اور کینٹھے کا درد پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ بات حال ہی میں دریافت ہوئی ہے کہ جلدی بیماریاں تپ دق کا پیش خیمہ ہے۔ مندرجہ ذیل اشیاءمیں گندھک پائی جاتی ہے۔مولی لہسن، پیاز، بند گوبھی، پھول گوبھی وغیرہ۔

فولاد

فولاد خون کا بڑا جزو ہے یہ بدن کو گرمی دیتا ہے، مقناطیسی طاقت پیدا کرتا ہے، خون کو سرخ اور دماغ کو چست بناتا ہے ۔ ہاتھ پاؤں کا سرد رہنا، چہرے کی زردرنگت ، چور چرا بین یہ علامات ظاہر کرتی ہیں کہ جسم میں فولاد کی کمی ہے۔ جس طرح عمارت میں لوہے کے شہیتر، سلائیں وغیر ہ مکان کو مستحکم کرتی ہیں اسی طرح فولاد والی غذا ئیں ہمارے جسم کو مضبوط بناتی ہیں اور بیماریوں کے حملے سے محفوظ رکھتی ہیں ۔فولاد قوت ارادی کو مضبوط اور دل میں دلیری اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا کرتا ہے۔مندرجہ ذیل اشیاء میں فولاد کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔مختلف دالیں، لال مولی، ساگ، ہری سبزیاں، پالک، مٹر کی پھلیاں سیم،سویابین، گاجر، کدو، بند گو بھی ، انڈے کی زردی، گوشت، کیجی، اسٹابری، خوبانی ، کیلا،انجیر ، بادام کھجور اور اکثر موسمی پھلوں سے جسم کو فولاد ملتا ہے۔

چونا یعنی کیلشیم

چونا ہڈیوں اور دانتوں کو بہت سنا اور خون کی نالیوں کی دیواریں مضبوط کرتا ہے۔ قوت برداشت، اچھی یاد داشت، کام کرنے کی ہمت اور طاقت کا دارو مدار خون میں چونے کی کافی مقدار پر ہے۔ چونا ہی فولاد کو سرخ خون بنانے میں مدد دیتا ہے، اس کی کمی سے ہڈیاں کمزور اور دانت خراب ہو جاتے ہیں۔ ہڈیوں اور پھیپھڑوں کی بیماریاں اس کی موجودگی سے نہیں ہو پاتیں۔ بچپن میں اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے جو بچے دیر سے چلنا سیکھتے ہیں اور جن بچوں کے دانتدیر سے نکلتے ہیں تو سمجھیں کہ ان کے جسم میں چونے کی کمی ہے۔ مندرجہ ذیل اشیاء میں چونا وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ پالک شلجم، کا جبر، مٹر، لال چولائی ، باتھو، سلاد، بند گوبھی، دودھ، بالائی، دہی، مکھن، چھاچھ لسی، پنیر، انڈا، بادام، پسته، اخروٹ وغیره

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.43.46

وٹامن ڈی اور ای کی فوائد

وٹامن ڈی

وٹامن ڈی 1932 میں ڈالان نامی محقق نے خالص قلمی صورت میں حاصل کی۔ یہ وٹامن بھی چکنائی میں حل پذیر ہے اور بہت سی چکنائی والی چیزوں خاص طور پر مچھلی کے جگر کے تیل میں وٹامن اے کے ساتھ ساتھ پائی جاتی ہے۔ انسان کو یہ } وٹامن حاصل کرنے کے لیے صرف غذا پر انحصار نہیں کرنا پڑتا کیونکہ یہ وٹامن انسانی جسم میں سورج کی روشنی سے بھی بن جاتی ہے، جو لوگ زیادہ تر گھر سے باہر رہتے ہیں اور گرم ملکوں میں رہنے والے لوگوں میں اس کی کمی عام طور پر نہیں ہوتی۔

قدرتی ذرائع

یہ وٹامن کاڈ مچھلی، نبیلی بٹ اور شارک مچھلی کے تیل، دودھ مکھن، بالائی اور انڈے کی زردی میں پائی جاتی ہے۔ دھوپ بھی ہمارے جسم میں لگنے کے بعد کیمیائی عمل سے وٹامن ڈی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

فائدے

یہ وٹا من جسم کی نشوونما میں بہت اہم کام سر انجام دیتی ہے۔ (۲) یہ جسم میں کیلشیم اور فاسفورس کی کیمیائی ترکیب تخلیل میں مدد دیتی ہے۔ ہڈیوں اور دانتوں کی مضبوطی انہی دو معدنی نمکیات پر منحصر ہے۔

وٹامن ای

اس وٹامن کا کیمیائی نام ٹوکو فیرول Tocopherol ہے عام غذا سے انسان کی روزانہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے، اس لئے اس کی کمی واقع نہیں ہوتی۔ وٹامن ای کا استعمال افزائش نسل کے لیے ضروری ہے اور مرد اورعورت دونوں کے لیے فائدہ مند ہے ۔ اس کی غیر موجودگی نامردی اور بانجھ پن پیدا کرتی ہے۔ وٹامن ای کی مقدار اگر مناسب اور متواتر لذا میں مہیا ہو تو جسم میں فولاد اور چونے کے اجزا جذب کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔

قدرتی ذرائع

یہ وٹامن مکئی کے تیل ، سرسوں کے تیل میں پایا جاتا ہے جبکہ اس کا بہترین ذریعہ تخمک گندم Wheat germ oil ہے ۔ اس کے علاوہ انڈے کی زردی ، زرد پتوں والی سبزیاں، چاکلیٹ اور خمیر وغیرہ میں پائی جاتی ہے۔

فائدے

اس کا جسم میں سب سے اہم کام عضلات کے عمل تحول میں ہائیڈ روجن مہیا کرنا ہے۔(۲) اس کی موجودگی میں وٹامن اے سی میں عمل تکسید Oxidation نہیں ہوتا اور جسم کی نشو و نما کے لیے فائدہ مند ہے۔(۳) اگر وٹامن ای حمل کے پہلے ایک یا دو ماہ کے دوران استعمال کرلی جائے تو اسقاط حمل کا خدشہ نہیں رہتا۔(۴) اس سے جسم مضبوط اور وزن بڑھتا ہے۔

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.43.46

وٹامن بی اور سی کے فوائد

وٹامن بی

وٹامن بی کا بھی تندرستی سے گہرا تعلق ہے۔ یہ سب سے پہلے دریافت کی جانیوالی وٹامن ہے۔ جسم کے اعصاب، نروس سسٹم اور دل دماغ کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ اعضاء کو مضبوط کرتی ہے، قوت ہاضمہ کو تقویت پہنچاتی اور بھوک لگاتی ہے۔ اوائل عمر میں جسمانی نشوونما کی بہترین مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ چہرے پر تازگی، بشاشت اور جلد پر چکنائی اور ملائمت اس کی موجودگی کے باعث ہی رہتی ہے۔ جسم میں اس کی کمی اور عدم فراہمی سے قلب اور اعصاب بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔

قدرتی ذرائع

وٹامن بی کے حصول کے لیے غذا میں اس کی سب سے زیادہ مقدار گیہوں،جو ، دالوں اور دوسرے اناجوں میں پائی جاتی ہے۔

مشین کے بغیر صاف کئے گئے چاولوں میں اس کی مقدار بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ سبز ترکاریوں، دودھ، دہی، چھاچھ، پنیر، بادام، پستہ کی گوشت اور انڈے کی زردی میں وٹامن ہی بکثرت ہوتی ہے۔ خصوصاً انڈے کی زردی وٹامن کا “مخزن” ہے۔ وٹامن بی پھلوں، ساگ اور سبزیوں میں بھی کافی مقدار میں پائی جاتی ہے۔

وٹامن سی

طبی نقطہ نظر سے غذا میں وٹامن سی کی موجودگی آنکھوں اور دانتوں اور مسوڑھوں کے امراض سے محفوظ رکھتی ہے ۔ خون کی کمزوری اور جسم کی لاغری کو دفع کرتی ہے ۔ جلدی بیماریاں، فساد خون وغیرہ سے محفوظ رکھتی ہے۔ ہڈیوں کی مضبوطی نشوونما کی معاون اور بینائی کی محافظ ہے۔ غذا میں اس کی کمی یا غیر موجودگی بہت سے امراض کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔

ذرائع

یہ ہمیں ترش پھلوں مثلاً نارنگی، مالٹے، لیموں اور سب سے زیادہ امرود، اس کے علاوہ آلو شکر قندی شلجم، گاجر، ٹماٹر، ہری مرچ اور گوشت میں پائی جاتی ہے۔ یہ پانی میں حل پذیر وٹامن ہے ۔ یہ وٹامن جسم میں نہیں بنتا، اس لئے غذا میں اس کا ہونا ضروری ہے۔ یہ وٹامن جسم کے کئی اہم افعال میں حصہ لیتا ہے۔ مثلاً امینو ایسڈز کا تحول، خلیوں میں لوہے کے نمک کی تحلیل، دانت اور ہڈیوں کی ساخت میں استعمال ہوتا ہے۔

دوسرے وٹامنز کے برعکس یہ اناج میں نہیں ملتا اور دودھ اور گوشت میں بھی کم مقدار میں پایا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر پھلوں اور سبزیوں میں ہوتا ہے۔ اس لئے اگر غذا میں پھل اور سبزیاں کم ہوں تو جسم کو اس وٹامن کی مناسب مقدار مہیا کرنے کا انتظام کرنا چاہیے۔ مثلاً درمیانی قسم کے دو کینو یا ٹماٹر ، آدھا گریپ فروٹ، ایک چھٹانک لیموں کا رس، آدھا خربوزہ اور چوتھائی حصہ تربوز ایک بالغ کی یومیہ ضرورت کو پورا کردیتا ہے۔

فائدے

دانتوں اور مسوڑھوں کی تندرستی کا ضامن ہے۔

یہ زخم کے مندمل ہونے میں مدد دیتی ہے کیونکہ اس کی موجودگی سے کولاجن پروٹین (Collageen Protein) بنتی ہے، جو زخم ٹھیک کرنے کے لیے ضروری ہے۔

ہیموگلوبن بنانے میں اہمیت رکھتی ہے۔(۴) یہ جسم میں قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔(۵) وٹامن سی بدن میں لچک پیدا کرتا ہے اور رگوں کو قوت بخشتا ہے۔

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.48.16

وٹامن اے کے اہم فوائد

وٹامن اے

وٹامن اے غذا کا جزواعظم ہے ۔ روزانہ غذا میں اس کی مناسب و متوازن مقدار میں موجودگی صحت انسانی پر غیر معمولی اثرات پیدا کرتی ہے۔ جسم تندرست و توانا اور چہرہ تروتازہ اور بارونق رہتا ہے۔ جلد چکنی، آنکھیں روشن اور چمکیلی رہتی ہیں بچوں کی غذا میں وٹامن اے کا بےحد دخل ہے۔ پھیپھڑے پر آنتوں کے امراض سے انسان کو محفوظ رکھتی ہے اور جلدی بیماریوں کو روکتی ہے ۔ بالخصوص مدافعت امراض کی قوت بڑھاتی ہے، غذا میں اس کی کمی صحت پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔

ذرائع

وٹامن اے حاصل کرنے کے دو بڑے ذرائع حیوانی اور نباتاتی ہیں۔ حیوانی ذرائع میں دودھ، دہی، انڈا، مچھلی، گوشت گھی مکھن اور کلیجی میں پایا جاتا ہے اور نباتاتی ذرائع میں زرد رنگ کی سبزیوں مثال گاجر، زرد شلجم، میٹھے کدو، زرد آڑو اور مکئی میں ملتا ہے، اس کے علاوہ تمام سبز پتوں والی سبزیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔

یہ وٹامن بڑی مقدار میں کاڈ مچھلیی کے جگر کے تیل میں پایا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کاڈ مچھلی چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے۔ ان چھوٹی مچھلیوں کی خوراک چونکہ سمندری کائی اور سمندری گھاس ہوتی ہے۔ چنانچہ وٹامن اے کا اصلی ذخیرہ ہری گھاس اور نباتات میں ہوتا ہے۔ وٹامن اے چکنائی میں حل پذیر ہے آئندہ استعمال کے لیے جسم میں زیادہ تر جگر میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ بچپن میں اس کی مقدار جسم میں کم ہوتی ہے لیکن عمر کے اضافے کے ساتھ ساتھ اس کا ذخیرہ زیادہ ہو جاتا ہے ۔ اگر مہینہ بھر وٹامن اے انسان کو نہ ملے تو جسم کی ضرورت جگر سے پوری ہوتی رہتی ہے۔

فائدے

اس سے جسم سڈول اور خوبصورت بنتا ہے، انسان صحت مند اور طاقت وررہتا ہے۔

آنکھوں کی بینائی اور صحت کے لیے ضروری ہے وٹامن اے سے شکستہ عضو کے اجزاء کو جوڑنے میں مدد ملتی ہے۔

اس وٹامن کی موجودگی ہمارے جسم کی اس قوت کے استحکام کا باعث ہوتی ہے جس سے ہم قدرتی طور پر بیماریوں سے اپنا تحفظ کر لیتےہیں۔

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.50.49

“انسانی جسم کی تعمیر میں کن اجزاء کی ضرورت ہے….؟

انسانی جسم کی نشو نما ایک مکان کی تعمیر سے مشابہت رکھتی ہے۔ جب ہم کوئ مکان بنانا چاہتے ہیں تو مختلف تعمیری اشیاء کومنتخب کرتے ہیں تو بنیادی طور پر عمارت کی اچھی یا بری تعمیر کا انحصار تعمیری اشیاء کی اچھائی یا برائی پر ہوتا ہے۔ بالکل یہی حال جسمانی عمارت کی نشود نما کا ہے۔ اگر تعمیر خراب ہوگی تو اسے ہمیشہ مرمت کی ضرورت درپیش رہے گی اور ہم آئے دن نئی نئی بیماریوں کا شکار رہیں گے۔

جسم کا سب سے بڑا معمار ہماری قوت حیات ہے جس کے کئی مددگار ہیں ان مددگاروں میں سے نہایت اہم مدد گار وٹامنز“ کہلاتے ہیں۔ یہ جسم کے بنانے اور ان کی مرمت میں وہی کام انجام دیتے ہیں جو کسی کام کے بنانے میں سنگ تراش، معمار اور بڑھی۔ ان کا ریگروں کے ناموں کی طرح وٹامنز کے بھی الگ الگ نام میں اور وہ وٹامنز اے ۔ بی ۔سی۔ ڈی اور ای کہلاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جسم کی تعمیر میں ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے۔

وٹامنز کی کمی کا نقصانات

وٹامنز کی کمی سے جسمانی نشوونما رک جاتی ہے اور رفتہ رفتہ جسم کمزور ہو کر اس میں سے بیماریوں کے مقابلے کی قوت زائل ہو جاتی ہے اور انسانی صحت بگرد جاتی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہماری صحت بگڑ سے بطور حفظ ما تقدم ہمیں ان امور کا خیال رکھنا چاہیے۔ بجائے سینکڑوں روپے ادویات پر خرچ کرنے کے لذا اور صحت کے زریں اصولوں پر کار بند ہو کر امراض سے محفوظ رہنے کی کوشش کی جائے لہذا ہمیں ایسی غذائیں استعمال کرنی ہیں جن میں ہر قسم کے وٹامنز موجود ہوں خصوصاًوٹامن اے کافی مقدار میں ہو۔

تندرستی کے حصول میں غذا کو بڑی قدرت حاصل ہے امراض کا مقابلہ کرنےمیں غذا کا %80 حصہ ہوتا ہے۔

دن رات محنت و مشقت کرنے سے ہمارے جسم کے بعض اجزا تحلیل ہوتے رہتے ہیں ان اجزاء کی کمی پوری کرنے کے لیے صحت بخش غذا کا استعمال ضروری ہے۔ ہماری جسمانی عمارت کی جنگی کا انحصار غذا پر ہے چنانچہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے که اگر کسی انسان کو متواتر کھانے کو نہ دیا جائے تو وہ کمزور اور لاغر ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ کمزوری اور لاغری اس درجے تک پہنچ جاتی ہے کہ موت واقع ہو سکتی ہے۔بر صغیر میں نوے فیصد امراض ناقص غذا کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ غذا جسم انسانی کے لیے ایندھن کے مترادف ہے کیونکہ ہماری روز مرہ کی غذا میں بعض طبیعی اجزا معدنی عناصر، تیزابی مادے اور کئی قسم کے وٹامنز قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں اور جسم کے لیے ڈاکٹری اصطلاح میں قوت مہیا کرتے ہیں ۔

غذا اور غذایت لازم وملزوم

غذا اور غذائیت لازم و ملزوم ہیں۔ غذائیت کے بغیر غذا بالکل بے کار شے ہے اسی طرح زندگی اور صحت کے ساتھ غذا کے عناصر حیات کا گہرا تعلق ہے، اس لئے ان کی کمی یا غیرموجودگی کے باعث انسان متعدد امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ اکثر امراض غذا میں وٹامنز کی کمی کے باعث رونما ہوتے ہیں، اس کے علاوہ بعض خاص خاص وٹامنز کی غیر موجودگی بعض اوقات شدید نقصانات پیدا کر دیتی ہے اور اس طرح امرانس کے مقابلے میں انسانی جسم سے قوت مدافعت مفقود ہو جاتی ہے۔ امراض کے مقابلے کی قوت کو برقرار رکھنے اور صحیح جسمانی تعمیر کے لیے ہماری غذا میں وٹامنز کے علاوہ ایک خاص کیمیائی عنصر بھی پایا جاتا ہے جسے ڈاکٹری اصطلاح میں ” پروٹین کہتے ہیں۔ انسانی جسم کی تعمیر میں پروٹین کا وہی درجہ ہے جو ایک مکان بنانے میں اینٹوں کا گوشت اور خون ہماری خوراک کے پروٹین سے بنتے ہیں۔

وٹامنز کس چیز میں زیادہ ہوتی ہے

ساگ، سبزی اور پھل میں پروٹین بہت کم ہوتی ہے، بدن کو پروٹینی غذائیں مہیا کر نیوالی غذائیں جن میں دودھ بلائی ،گوشت، مکھن، مچھلی، انڈا، جو کا دلیہ، بے چھنے آئے کی روٹی ، آلو۔ سویابیں، مٹر، دالیں اور پھلیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ دودھ، دہی، چھاچھ۔ گہیوں، چنا، مٹر اور دالوں میں پروٹین زیادہ ہوتی ہے۔مگر گوشت، انڈے، مچھلی ، ماش کی دال اور سویابین میں بہت زیادہ۔

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.53.17

دجال کی طاقت اور اس سے بچنے کے ذرائع

دجال کی معاون قوتوں اور اس کے پاس موجود شیطانی طاقتوں سے آگاہی ہمیں درج ذیل احادیث سے ملتی ہے

حدیث شریف میں آتا ہے:

دجال کے ساتھ اصفیان کے ستر ہزار یہودی ہوں گے جو ایرانی چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے ۔ ( صحیح المسلم : 7034 روایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ )

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے متعلق کہا : ” اس کے پاس آگ اور پانی ہوں گے۔ (جو) آگ ( نظر آئے گی وہ) ٹھنڈا پانی ہوگا اور (جو ) پانی ( نظر آئے گاوہ) آگ ( ہوگی ) ۔ ( صحیح البخاری: روایت حذیفہ رضی اللہ عنہ ) ۔

اس (رجال) کے پاس روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کا دریا ہوگا (مطلب یہ کہ اس کے پاس پانی اور غذا وافر مقدار میں ہوں گے ) ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ان باتوں کے لیے نہایت حقیر ہے لیکن اللہ اسے اس کی اجازت دے گا ( تاکہ لوگوں کو آزمایا جاسکے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں یاد جال پر ) (صحیح البخاری: جلد 9 صفحہ 244 ، روایت المغیر و رضی اللہ عنہ بن شعبہ )

دجال کے ساتھی :

دجال کے پیروکاروں کی اکثریت یہودی اور عور تیں ہوں گی ۔” (مسنداحمد) اب یہاں اشکال ہوسکتا ہے کہ یہودیوں کی تعداد تو بہت کم ہے۔ ان کے بل بوتے پر وہ عالمی نظام، عالمی حکومت اور عالمی مذہب کے قیام کی کوشش کیسے کرے گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہودی بھوکا دے کر اپنے ساتھ صہیونیوں کو ملالیں گے ۔ صہیونی ہر اس شخص کو کہتےہیں جو یہودی ہو یا نہ لیکن یہودی مقاصد ( مثلا عالمی دجالی ریاست کے قیام ) کی تکمیل میں یہود کا آلہ کار بن جائے۔ یہودیوں کے فریب کا شکار وہ عیسائی، ہندو اور مسلمان ہوں گے جو دجال کے فتنے سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکیں گے اور اس کے پھندنے میں پھنس جائیں گے۔ امریکا اور یورپی ممالک یہود کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں وہ یہودیوں سے زیادہ اسرائیل کے حامی ہیں اور اس کی حمایت کو اپنے لیے باعث برکت سمجھتے ہیں۔ یہود کے دھوکہ وفریب اور مکرو دجل کا کمال دیکھیے کہ عیسائی مذہب میں جو پیش گوئیاں جناب مسیح صادق حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام کے حوالے سے وارد ہوئی ہیں ، یہودی ان کو دجال پر منطبق کرتے ہیں اور پھر عیسائیوں کو دھو کا یہ دیتے ہیں کہ ہم مسیح موعود کا انتظار کر رہے ہیں اور مسلمان صحیح مخالف (Anti christ) ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اور عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کا اور یہود و جال اکبر کے منتظر ہیں جس کو حضرت مسیح علیہ السلام مسلمان مجاہدین اور خوش نصیب نو مسلم عیسائیوں کی مدد سے قتل کریں گے۔ یہود تو عیسائیوں کے اور ان کے مقدس پیغمبر کے دشمن ہیں

۔ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ستایا ، تنگ کیا اور بالآخران کے قتل کا منصوبہ بنایا جبکہ مسلمان آج بھی حضرت عیسی علیہ السلام کا انتہائی احترام کرتے ہیں اور اس سے پہلے بھی کرتے تھے اور آئندہ بھی ان کے ساتھ مل کر ان کے دشمنوں سے جہاد عظیم کریں گے۔ کیا دنیا میں عیسائیوں جیسی سادہ قوم بھی ہوگی جو اپنے پیغمبر کے قاتلوں سے تو دوستی اور تعلق رکھے اور جو ان کے (اور اپنے مشترکہ) پیغمبر سے بےپایاں محبت رکھتی ہوگی ، اس سے نفرت اور دشمنی رکھے؟

بھارت کی اسرائیل سے دوستی کسی سے مخفی نہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب امریکی خلائی مثل ” کولمبیا زمین کے مدار میں داخل ہوتے ہی برباد ہو گئی تو راز کھلا کہ اس میں چار امریکی ، تین اسرائیلی جبکہ ایک بھارتی خاتون خلا باز سوار تھے ۔ ابلیسی مشن پرگئی یہ ” مثلث فضا کی تسخیر کے بعد خلائی تسخیر کا ارادہ رکھتی تھی

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.56.26

کان کے درد کا مختلف اقسام اور اس کا علاج

کانوں کے ہمہ اقسام دردوں کے لئے ذیل کے اعمال شفا کا ملہ اور نجات درد کا بہترین علاج ہیں ان کے استعمال سے کانوں کے تمام حصوں سے بہت تیزی سے شفا حاصل ہوتی ہے

پہلا عمل

اگر کسی کے کان میں درد کی شکایت ہو تو باوضو حالت میں چینی کی پلیٹ میں سورہ یوسف لکھیں اور روغن گل سے دھو کر اس تیل کو نیم گرم حالت میں چند قطرے کان میں ڈالیں۔

دوسرا عمل

اس مقصد کے لئے بقدر ضرورت خالص سرسوں کا تیل ہلکا گرم کر کے اس پر :-لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبُحْنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ “ایک سو ایک مرتبہ پڑھ کر دم کریں اور متاثرہ کان میں چند قطرے ڈالیں۔ کان میں تیل ہمیشہ ہلکا گرم ڈالیں ۔انشاء اللہ تعالیٰ العزیزالحکیم شفاء ہوگی۔

کان بجنے ( یعنی اس میں گونج) کا علاج

اگر کسی کے کان ہر وقت بجتے رہتے ہوں یا ان میں اکثر گھنٹیاں بجتی ہوئی تو انکے علاج کے لئے ذیل کے اعمال اکسیر اعظم کا حکم رکھتے ہیں۔

پہلا عمل

سورہ الاعلی پڑھ کر اس پر دم کرنے سے انشاء اللہ تعالیٰ شفاء ہوگی۔

دوسرا عمل

ذیل کی آیت کریمہ پڑھ کر دم کریں یا روغن گل دم کر کے کان میں پکائیں۔انشاء اللہ تعالٰی العزیز کان کا بجنا بند ہو جائے گا۔

آیت کریمہ۔۔

مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكْعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضِوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثْرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرُعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُو وَ عَمِلُو الصَّلِحَتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وأَجْرًا عَظِيمًا

کان بہنے کا علاج

اگر کسی کے کان کسی بیماری یا چوٹ کی وجہ سے بہنے لگیں اور دوا کام نہ دے توتکلیف سے نجات کے لئے ذیل کے اعمال بے حد کارگر اور مفید ہیں۔

سورہ الاعلیٰ تین بار پڑھ کر کان میں آرام آنے تک دم کیا جائے۔

بہنے والے کان پر ہاتھ رکھ کر سورہ حشر کی ذیل کی آیات مبارکہ پڑھی جائیں۔انشاء اللہ تعالٰی العزیز کان بہنا بند ہو جائے گا۔

آیات مبارکہ:-

لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصِدَعًا مِنْ خَشِيَةِ اللهِ وَتِلْكَ الأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ۔۔ هو الله الذى لا إله إلا هو علم الغيب وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ۔۔ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ المُؤمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ المُتَكَبِّرُ سُبْحْنَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ۔۔ هُوَ اللهُ الخَالِقُ الْبَارِىءُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ، وَهُوَ الْعَزِيزُ الحكيم۔

بہرے پن کا علاج

جو کوئی کسی بیماری یا کسی اور وجہ سے بہرہ ہوگیا ہو یا اسے کم سنائی دیتا ہو اور علاج معالجہ کارگر نہ ہوتا ہو تو ایسے میں ذیل کا عمل اکسیر اعظم کا درجہ رکھتا ہے اس کے استعمال سےاس بیماری سے اللہ عز وجل بہت جلد شفائے کاملہ عاجلہ عطا کرتا ہے۔ذیل کی آیت مبارکہ سات بار پڑھ کر دم کیا جائے۔انشاء اللہ تعالی العزیز اقلیم شفاء ہوگی۔

آیت مبارکہ۔۔

وَإِذَا قُرِى ءَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَانْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.59.28

فتح مکه ( رمضان ۸ هجری) مکہ مکرمہ فتح ہونے کا مکمل واقعہ

صلح حدیبیہ کے خاتمے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سرعت سے جنگ کی تیاری شروع کردی اور پوری کوشش کہ یہ خبر مکہ والوں کو نہ ملے پائے۔ رازداری کی یہ انتہاء تھی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو سفر سامان تیارکرنے کا حکمم تود یا مگر یہ نہ بتایا یہ کہاں کا سفر ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ایک دم مکہ والوں کے سروں پر جا پہنچیں تا کہ وہ مقابلہ نہ کرسکیں اور یوں ملکہ کی مقدس سرزمین کسی خون ریزی کے بغیر اپنے اصل وارثوں کو واپس مل جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں خصوصی دعائییں کیں اور فرمایا یا اللہ قریش کا کوئی مجرا اپنا کام نہ کرپائے اور ہم اچانک ان تک پہنچ جائیں

اس موقع پر ایک مخلص مسلمان حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کے ذریعے قریش کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لشکر کا اطلاعی رقعہ روانہ کردیا۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی جو کسی اور سے سرزد ہوتی تو اس پر نفاق کا شبہ کیا جاتا مگر حضرت خاطب رضی اللہ عنہ مخلص اور پرانے صحابی تھے، اس اضطرابی حرکت کی وجہ صرف یہ تھی کہ مکہ میں ان کے اہل و عیال بے سہارا تھے، کوئی اور رشتہ دار وہاں ان کا حمایتی نہ تھا۔ انہیں خطرہ ہوا کہ کہیں قریش مسلمانوں کو حملہ کرتے دیکھ کر میرےبیوی بچوں کو یرغمال نہ بنائیں۔ اس لیے قریش سے یہ بھلائی کر کے وہ اپنے اہل و عیال کے حق میں ان کے نیک سلوک مستحق بنا چاہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے اس کی اطلاع دے دی ۔

آپ نے حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مقداد بن اسود رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس عورت کے پیچھے بھیجا۔ انہوں نے سرپٹ گھوڑے دوڑا کر مدینہ کے مضافاتی مقام روضہ خاخ میں اسے جالیا اور حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا رقعہ بر آمد کروالیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ سے پوچھ کچھ کی تو انہوں نے مکہ میں اپنے اہل وعیال کےبے آسرا ہونے کا عذر بیان کیا اور کہا ” مکہ میں میرے اہل وعیال کا کوئی قرابت دار نہیں ۔ میں نے چاہا کہ مکہ والوں پرکوئی احسان کر دوں تا کہ وہ میرے قرابت داروں کا لحاظ رکھیں۔“

مکہ کی سمت یلغار

آخر کار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار سرفروشوں کے لشکر جرار کےساتھ ، ارمضان المبارک سن ۸ ہجری کو مدینہ سے کوچ کیا۔ یہ سفرشدید گرمی کے موسم میں تھا۔ رمضان کے روزے بھی تھے۔ سفر کی رفتار بھی دوگنی رکھی کی تھی۔ چونکہ مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی شرعی رحصت ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ دو روزے نہ رکھے آپ نے فرمایا اپنے دشمن کے مقابلے میں قوی رہو۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود عزیمت پرعمل کرکے روزہ دار تھے ۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات :

لشکر کی نقل وحرکت اتنی خاموش اور تیز تھی کہ قریش کو آخرتک کچھ پتانہ چلا اورمسلمانوں نے دو ہفتوں کی مسافت صرف ایک ہفتے میں طے کرلی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی آپ کی روانگی سے بے خبر تھے اور اپنے اہل وعیال کولے کر ہجرت کے ارادے سے نکل پڑے تھے۔ مکہ سے ۸۲ میل دور جحفہ کے مقام پر مسلمانوں کا عظیم لشکر آبادکھائی دیا تو حیران رہ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور انہیں ہم رکاب فرمالیا

لشکر اسلام کا نظارہ

رمضان (۷ جنوری ۶۳۰ ء ) جب اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ و ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کولے کر کر کے راستے میں ایک پہاڑکی گھاٹی پرکھڑے ہو گئے تا کہ وہ انہیں پورے لشکر کا نظارہ کر سکیں

تھوڑی دیر بعد اسلامی لشکر کے مختلف دستے اپنے اپنے قبائل کے پرچموں کے ساتھ ان کے سامنے سے گزرنے لگے۔

مکہ میں فاتحانہ داخلہ:

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو گزشتہ زمانے کا ایک ایک منظر آپ کے سامنے تھا۔ یہی وہ سرزمین تھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، پلے بڑھے، عزت و احترام کے ساتھ جوانی گزاری، پھر منصب نبوت ملنے پر اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اٹھے اور پورے شہر کی دشمنی مول لی۔ قریش کا ایک ایک ظلم وستم آپ کو یاد تھا جس کی انتہا یہ ہوئی کہ آپ کو اپنے پیروکاروں کے ساتھ جلاوطنی پر مجبور ہونا پڑا۔ آج وہی شہر آپ کے سامنے سرنگوں تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بڑی فتح کے باوجود دنیا کے دوسرے کسی فاتح کی طرح سرشاری اور فخر کی کیفیت میں نہیں تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حضور میں عجز و نیاز کی تصویر بنے ہوئے تھے، احساس شکر سے آپ کا سر مبارک سواری کی زمین سے لگا جاتا تھا۔

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے حرم میں تشریف لائے اور سواری پر ہی اس کا طواف کیا۔ آپ کے ہاتھ مبارک میں ایک چھڑی تھی ، طواف کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے صحن میں نصب بتوں کی طرف چھڑی سے اشارہ کرتے گئے اور بت زمین بوس ہوتے چلے گئے۔

مختصر سے خطبے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سرداروں سے دریافت کیا بتاؤ، آج میں تم سے کیا سلوک کروں؟” سرداران قریش کو اپنا ایک ایک جرم یاد تھا مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم کی اُمید کر سکتے تھے، وہ التجا کے انداز میں بولے بھلائی کا سلوک فرمائیے ۔ آپ ایک مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے فرزند ہیں ۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی کشادہ دلی سے فرمایا: ” جاؤ تم سب آزاد ہو۔

جان لینے والے جان دینے والے بن گئے

قریش کے پر جوش جوانوں میں اب بھی کچھ ایسے تھے جنہیں اسلام لانے میں ترد تھا مگر حقیقت سے کب تک آنکھیں پرائی جاسکتی ہیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حد سے زیادہ فیاضانہ سلوک بھی ان کے سامنے تھا، اس لیے زیادہ دن نہیں گزرنے پائے تھے کہ تقریبا سب ہی ایمان لے آئے۔

جینا مرنا ساتھ ہے:

اللہ کا گھر شرک کی علامات سے پاک ہو چکا تھا، حرم کو توحید کا مرکز ہونے کا اعزاز واپس مل چکا تھا۔ قریش کے بڑے بڑے رئیس اور اسلام کی مخالفت میں پیش پیش رہنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوکر اسلام قبول کررہے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب اپنے اپنے وطن مکہ والوں کے بھی سردار تھے ایسے میں اگر یہ خیال کیا جاتا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اب مکہ مکرمہ میں ہی قیام فرمالیں گے اور اسکو اسلامی ریاست کا مرکز قرار دیں گے تو کوئی عجیب بات نہ تھی۔ انصار کے کچھ لوگ یہی باتیں کر رہے تھے ؛ کیوں کہ ان کو مسلسل یہ دھڑ کا لگا ہوا تھا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر دعاؤں میں مصروف تھےاور انصاری نگاہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جمی ہوئی تھیں کہ دیکھی آپ اس معاملے میں کیا فیصلہ فرماتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظلم کووحی کے ذریعے ان کے خدشات کی خبرمل گئی تھی، اس لیے دعا سے فارغ ہو کر ان سے دریافت فرمایا : ” تم کیا کہہ رہے تھے؟ وہ بولے : ” کچھ نہیں یا رسول اللہ

مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصرار کیا تو انہوں نے دھڑکتے دلوں کے ساتھ اپنی تشویش سے آپ کو آگاہ کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان جانثاروں کی حوصلہ شکنی کیسے کر سکتے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کی گرم جوشی کے ساتھ فرمایا اللہ کی پناہ ایسا نہیں ہو سکتا الْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالممَاتُ مُماتُكُمْ جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے ۔ فتح مکہ کے فورا بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گردو نواح کی تسخیر اور شرک کے قدیم مراکز کو منہدم کرانے پر توجہ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نحلہ کے مقام پر واقع غزنی کے بت کدے کو تہہ وبالا کر آئے

ہر قسم اسلامی تاریخ کے لیےAlkhroof.com .ویزٹ کریں شکریہ

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.59.28

معدہ اور پیٹ کے درد کا علاج قرآن مجید کی روشنی میں

اس مقصد کے لئے ذیل کی آیات مبارکہ کو تین پھلوں پر دم کر کے وہ پھل کھائے۔انشاء اللہ تعالی العزیز الحکیم درد معدہ سے شفاء حاصل ہوگی۔

آیت مبارکہ:-

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهّب

دوسرا عمل

اس مقصد کے لیے پانی یا شربت پر سات مرتبہ :-الله لا إله إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ پڑھ کر دم کریں اور پلا دیں۔انشاء اللہ تعالٰی العزیز پیٹ درد سے آرام آجائے گا۔

تیسرا عمل

پانی لے کر باوضو حالت میں قبلہ رخ بیٹھ کر ذیل کی آیات مبارکہ کو گیارہ مرتبہ پڑھ کر پانی دم کر کے پلائیں پیٹ درد کو بفضلہ تعالٰی فوری آرام آجائے گا مجرب ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لَقَدْ جَاءتكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ خريصٌ عَلَيْكُمُ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلهُ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

چھوتا عمل

روزانہ باوضو حالت میں تین عدد کالی مرچیں لے کر ان پر سورہ کافرون نہایت توجہ ویکسوئی کے ساتھ پڑھ کر دم کرے اور مریض کو کھلا دے سات یوم تک بلاناغہ یہ عمل کرے۔انشاء اللہ تعالٰی العزیز بہت جلد افاقہ ہوگا اور آرام آجائے گا۔

معدہ کی مریض کا علاج

معدہ کے درد کے مریض کو ذیل کی آیت لکھ کر گلے میں ڈالیں اور چینی کی رکابی پرلکھ کر دھو کر پلایا جائے۔ انشاء اللہ تعالی العزیز احکیم شفاء ہوگی۔

آیت مبارکہ

أَفَغَيْرَ دِينِ اللهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَ كَرُهَا وَ إِلَيْهِ يَرْجَعُونَ

download (21)

مرگی (صرع) کا علاج قرآن مجید کی روشنی میں

جو کوئی مرگی کے مرض میں مبتلا ہو اور اس سے عاجز آ گیا ہو اور بے ہوش ہو جاتا ہو تو اس کے لئے ذیل کے اعمال قرآنی بے حد فائدہ مند اور مفید ہیں روزانہ صبح کو بعد از نماز فجر اور شام کو بعد از نماز مغرب باوضو حالت میں سوره جن بمعہ بسم اللہ شریف پڑھ کر سات مرتبہ ایسے شخص پر مسلسل سات یوم تک مسلسل دم کیا جائے۔

انشاء اللہ تعالی اس عمل سے مرگی کے دورے پڑنا ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گےاور مرگی والا شخص یا بالکل صحت یاب ہو جائے گا۔د باوضو حالت میں ساتھ مرتبہ سورہ مریم پڑھ کر نمک پر دم کریں اور اسے اس طریقہ سے بیمار استعمال کر کہ ہر روز کھانے سے پہلے اور بعد سونے سے پیشتر اورجاگنے کے بعد گویا روزانہ چھ بار نمک چکھ لیا کرے۔اگر مرض میں افاقہ دکھائی دے تو بھی نمک کا استعمال تین ماہ تک جاری رکھا جائے اگر مریض اس عمل پر مداومت کرے تو انشاء اللہ تعالٰی العزیز اس مرض سے نجاتپا جائے گا۔

مرگی کے مریض کے سر میں ذیل کی آیت مبارکہ تین بار لکھ کر باندھنا مفید ہے۔

آیت مبارکہ:-

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّ الَّذِينَ فَتَن الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُو فَلَهُمُ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِة

سورہ الشمس مرگی کے مریض کے کان میں پڑھنا بے حد اکسیر، نافع اور فائدہ مندہے۔قرآن کریم کے یہ حروف مقطعات پڑھ کر مریض کے کان میں پھونک ماریں کان کے پاس منہ کر کے پڑھیں اور پھونک ایسے ماریں کہ کان کے اندر جائے۔

حروف مقطعات

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ المص طسم كهيعص يسَ ن والْقُرْآنَ الْحَكِيم ۔نَ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ.حمعسق

پہلی ہی بار دم کرنے سے آرام ہو جائے گا ورنہ دو چار دفعہ پڑھ کر دم کریں دورہ کے وقت خاص کر دم کریں۔انشاء اللہ تعالٰی العزیز پھر دورہ نہ پڑے گا۔