FB_IMG_1695732057063

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہ اسلام کا واقعہ

جب حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے (ذوالحجہ ۵ نبوی):

حضور صلی اللہ علیہ وسلم قریش کی اس قدر دشمنی اور ایذارسانی کے باوجود ان کے ایسے افراد کی ہدایت کی خصوصیت سے آرزو رکھتے تھے جن میں حق شناسی صداقت کے لیے قربانی اور قیادت کی غیر معمولی صلاحیتیں نظر آتی تھیں، چاہے وہ ابھی اسلام کے کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہو اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی طور پر کتنی ہی تکلیف کیوں نہ پہنچ رہی ہو۔

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت ظرفی اور کشادہ دلی تھی کہ آپ ایسے افراد کی ہدایت کے لیے بھی اللہ تعالی سے دعائیں کیا کرتے تھے۔ قریش کے دو آدمیوں میں آپ کو غیر معمولی قائدانہ اوصاف نظر آتے تھے۔ ایک حد درجہ ضدی اور عیار شخص عمر و بن ہشام (ابو جہل) تھا، جو آئے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نت نئے منصوبے بناتا تھا۔ دوسری شخص انتائی بہادر اور جرارتھی۔ یہ اٹھائیس سالہ جیالے نو جوان عمر بن خطاب تھے۔ دلیری وسپہ گری میں بے مثال اور ہمت و بے باکی میں یکتا تھے۔ ایک دو واقعات ایسے پیش آچکے تھے جن سے ان کا دل کسی نہ کسی حد تک اسلام کی سچائی کو محسوس کر چکا تھا۔

سن کامیابی کی بات

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانیہ تبلیغ شروع کرنے سے چند دن پہلے وہ حرم کے صحن میں سورہے تھے کہ کسی شخص نے آکر ایک بت کے سامنے جانور قربان کیا۔ اتنے میں ایک نہایت زور دار آواز سنائی دی، کوئی کہ رہاتھا۔ ” يَا جَلِيحٍ أَمْرٌ نَجِيح . رَجُلٌ فَصِيحٍ ، يَقُولُ: لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ ” (اے جلیح سن کا میابی کی بات۔ ایک فصیح و بلیغ آدمی کہتا ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ) حضرت عمر کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ آواز لگانے والے کو تلاش کرتے رہے مگر ناکام رہے۔ اس کے چند ہی دنوں بعد مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا چرچا ہوا۔

حضرت عمر چھپ کر تلاوت نبوی سنتے ہیں

ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجدالحرام میں نماز اداکرتے ہوئے سورۃ الحاقہ کی تلاوت فرمارہے تھے حضرت عمر چھپ کر سنے لگے۔ قرآن مجید کے صوتی و معنوی حسن نے ان کے دل کو موہ لیا، دل میں کہنے لگے: یہ واقعی شاعر ہیں۔

اتنے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت تلاوت کی

وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيْلاً مَّا تُؤْمِنُون (یہ کسی شاعر کا کلام نہیں تم بہت کم ایمان لاتے ہو۔ ) حضرت عمر حیران ہوئے کہ میرے دل کی بات انہیں کیسے پتا چل گئی۔ سوچنے لگے : یہ تو جادو گر ہیں ۔ اتنے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی آیت تلاوت کی: وَمَا هُوَبِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُون . یہ کسی جادوگر کا کلام نہیں تم بہت ک نصیحت پکڑتے ہوں ) حضرت عمر کے دل میں اسلام کی صداقت کا بیج اسی دن پڑ گیا تھا۔جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو قریش میں بڑی بے چینی پھیل گئی ۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح اسلام کو ایک دم حرف غلط کی طرح مٹادیں۔ ادھر جمعرات کی شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا کر رہے تھے:

یا اللہ ! اسلام کو عمر و بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے قوت عطا فرما۔“

ادھر قریش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے پر آمادہ ہور ہے تھے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو مسلمان ہوئے ابھی تین دن ہوئے تھے کہ ابو جہل کے بھڑ کانے پر قریش کے جوش انتظام کو ٹھنڈا کرنے کا بیڑا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اٹھایا، انہوں نے تلوار سنبھالی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کے ارادے سے چل پڑے راستے میں ہیم بن عبداللہ الحمام والی مل گئے جو خفیہ طور پر مسلمان ہو چکے تھے، ان کے تیور دیکھ کر پوچھا: ” عمر ! کہاں کا ارادہ ہے؟”

بولے: “محمد کے پیچھے جارہا ہوں جو قریش کے دانش مندوں کو بے وقوف قرار دیتا ہے، ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اور ہماری جمعیت کی مخالفت کرتا ہے۔“ حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا: ” غمر بہت غلط کام کرنے جا رہے ہو اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرو گے تو بنو ہاشم اور بنوزہرہ کے لوگ تمہیں کہاں چھوڑیں گے !مگر حضرت عمر اپنے ارادے پر اڑے رہے۔ معاملہ زیادہ سنگین ہوتا دیکھ کر نعیم رضی اللہ عنہ نے ذہن بدلنے کے لیے ان کی غیرت پر چوٹ کی اور کہا: ” عمر پہلے اپنے گھر کی خبر لو تمہاری بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید مسلمان ہو چکے ہیں

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب بہن کے دروازے پر پہنچے تو اندر سے قرآن مجید پڑھنے پڑھانے کی آواز آرہی تھی۔ یہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ تھے جو گھر والوں کو قرآن مجید پڑھا رہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ زور سے دروازے پر دستک دی۔بہن نے پوچھا: ” کون؟ جواب دیا: “عمر”یہ سنتے ہی سب گھبرا گئے ۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو جلدی سے ایک کو ٹھری میں چھپا دیا۔ پھر فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا نے دروازہ کھولا۔ عمر نے اندر داخل ہوتے ہی بہن اور بہنوئی سے پوچھا: ” تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟“دونوں بولے: “ہم تو آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔“ عمر نے گرج کر کہا : ” مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ بے دین ہو چکے ہو۔“

سعید بن زید رضی اللہ عنہ بولے: ” عمر بتاؤ اگر حق تمہارے دین کی بجائے دوسرے دین میں ملے تو کیا کریں؟ یہ سنتے ہی عمر حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ پر پل پڑے، انہیں نیچے گرا کر بری طرح مارا، ان کی بہن فاطمہ بنت خطاب میں نہا نے انہیں اپنے شوہر سے ہٹانے کی کوشش کی تو انہیں اتنے زور کا طمانچہ مارا کہ ان کا منہ خون سے بھر گیا۔

فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا روتے ہوئے بولیں : ” خطاب کے بیٹے تم جو جی چاہے کر لومگر میں تو اسلام لا چکی ہوں، گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں ۔“ بہن کے یہ جملے سن کر اور اسے لہولہان دیکھ کر حضرت عمر کا دل پسیجنے لگا۔ غصّہ اتر گیا اور وہ وہیں چارپائی پڑ ڈھےکر پوچھنے لگے : لا ؤ، دکھاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے ؟“

بہن نے کہا: “تم ناپاک ہو، جبکہ اس کتاب کو صرف پاک صاف لوگ ہاتھ لگا سکتے ہیں، پہلے غسل کرو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے غسل کیا تو جسم کی کثافت کے ساتھ دل کا میل کچیل بھی بہہ گیا۔ اب بہن نے وحی کے اوراق سامنے لا کر رکھے۔ یہ ” سورۃ طہ” کی آیات تھیں جو انہی دنوں نازل ہوئی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ آیات پڑھتے گئے اور دل میں ایمان کی روشنی اترتی گئی ۔ آخر بے تاب ہو کر بولے : ‘مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو ” اُن کی آواز سن کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ جو اب تک کوٹھری میں چھپے تھے، باہر نکل آئے اور بولے:

عمر ا مبارک ہو، جمعرات کی شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی تھی کہ الہی عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام کے ذریعے اسلام کو عزت دے۔ لگتا ہے وہ دعا تمہارے حق میں قبول ہو گئی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ سیدھے صفا پہاڑ کے دامن میں حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لگ بگ ان چالیس صحابہ کرام کے ساتھ جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی ، ساری دنیا میں اللہ کے دین کو زمہ کرنے کی فکر میں مشغول تھے۔ ان میں حضرت ابوبکر ، حضرت علی اور حضرت حمزہ نمایاں تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہ دربار حضور میں حاضری اور اسلام

حضرت عمر رضی اللہ نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک صحابی نے جھانک کر دیکھا اور بتایا کہ عمر تلوار سمیت کھڑے ہیں۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ” آنے دو۔ اگر نیک ارادہ ہو تو بہتر ۔ ورنہ ہم اسے اس کی تلوار سے قتل کر دیں گے ۔“ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کھڑے ہو گئے اور انہیں جھنجھوڑ کر کہا: “اے عمر! کیا تم اللہ کی طرف سے ذلت اور عذاب آنے سے پہلے باز نہیں آؤ گے؟” پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ یہ عمر بن خطاب ہے۔ الہی ! اس کے ذریعے دین کو عزت دے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اب رہا نہ گیا، بولے : ”میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔“یہ سن کر سب مسلمانوں نے اتنی زور سے تکبیر کا نعرہ بلند کیا کہ مکہ کی ہر گلی میں آواز گونج گئی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہ کھلم کھلا اسلام کی تبلیغ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام لاتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اب کھلم کھلا اسلام کی تبلیغ کیجیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اگلی صبح مسجد الحرام میں جا کر کفار کے سامنے اپنے اسلام کا برملا اعلان کیا ۔ کفار ان پر جھپٹ پڑے۔ یہ اکیلے ان سے لڑتے رہے۔ دیر تک جھگڑا ہوتارہا۔ آخر کفار مایوس ہو کر پیچھے ہٹ گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہونے کے اسلام لانے کی خبر سے پورے مکہ میں کھلبلی مچ گئی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ” عمر بن خطاب کا اسلام لانا اسلام کی فتح تھی۔ ہم ان کے اسلام لانے سے پہلے کعبے کے پاس آزادانہ نماز تک نہیں پڑھ سکتے تھے۔ جب وہ اسلام لائے تو انہوں نے قریش سے لڑائی کی اور کعبہ کے پاس نماز ادا کی۔ ان کے ساتھ ہم نے بھی نماز ادا کی ۔

سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم

Alkhroof.com

Tags: No tags

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *