FB_IMG_1696348668475

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ پیدائش

کائنات کی صبح صادق

آخر وہ گھڑی بالکل قریب آگئی جس کا کائنات کے ذرے ذرے کو انتظار تھا۔ ایک دن قریش کے سردار عبد المطلب بن ہاشم کو صبح سویرے اطلاع ملی کہ اللہ نے انہیں ایک ہونے سے نوازا ہے۔ یہ ربیع الاول کا مہینہ تھا جبکہ خالص قمری تقویم کے لحاظ سے یہ ماہ رمضان تھا۔ تاریخ کے بارے میں اختلاف ہے۔8.9.10 اور 12 کے اقوال مشہور ہیں

عبد المطلب وہ دوڑے ہوئے آئے ۔ اپنی بہو آمنہ بنت وہب کے پہلو میں ایک چاند سا حسین بچہ دیکھا تو ان کا دل شفقت و محبت سے لبریز ہو گیا۔ چھ ماہ پہلے ان کے سب سے چھوٹے بیٹے عبد اللہ کا انتقال ہو گیا تھا، یہ بچہ اسی عبداللہ کی نشانی تھا۔ عبد المطلب بچے کو گود میں لے کر کعبہ میں داخل ہوئے۔ اللہ کی حمد وثنا بیان کی ، اس بچے کا نام سوچنے لگے تو ان کے ذہن میں ایک بالکل نیا نام “محمد” آپا جواس سے پہلے عربوں میں کسی نے نہیں رکھا تھا۔ اللہ تعالی نے یہ منفرد نام اپنے آخری رسول کے لیے محفوظ کیا ہوا تھا جو عین وقت پر عبد المطلب کے دل میں ڈال دیا گیا

آخری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرہ نسب

اس آخری نبی کا شجرہ نسب یوں ہوا: محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن کریمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ سلسلہ نسب حضرت اسماعیل علیہ السلام تک

عدنان کے بعد کئی واسطوں سے حضور نبی کریم علی ای نیم کاسلسلہ نسب حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جاملتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے اور برگزیدہ نبی تھے ۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن

پاکیزہ بچپن: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو شروع شروع میں چند دن ان کے چا چا ابولہب کی باندی تویہ نے دودھ پلایا۔ اس دوران عبد المطلب اپنے یتیم پوتے کے لیے کسی دودھ پلانے والی کو تلاش کر رہے تھے۔ عربوں میں یہ رواج تھا کہ شیر خوار بچوں کو پرورش کے لیے دیہات کی دائیوں کے حوالے کر دیتے تھے تا کہ انہیں کھلی اور صاف آب و ہوا میسر آئے اور اُن کے جسم و جان کی اچھی نشو نما ہو۔ اس کے علاوہ دیہاتیوں کی زبان بھی فصیح اور خاص ہوتی تھی، جسے سیکھ کر بچے بھی ابتدا ہی سے خوش گفتار بن جاتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ رضاعی ماں کے ساتھ پرورش

طائف کے قریب آباد : وسعد اپنی فصاحت و بلاغت کے باعث مشہور تھے۔ اس لیے مکہ کے شرفاء ان کی دایوں کی خدمات حاصل کرنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ انہی دنوں اس قبیلے کی چند دریاں بچے گود لینے کے لیے مکہ آئیں مگر کسی دائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گو نہ لیا تھا ؟ کیوں کہ یہ خشک سالی کا زمانہ تھا اوران لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ٹھیک ٹھاک معاوضہ چاہیے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ایام میں یتیم دیکھ کرکسی دائی کو اس گھر سے معقول معاوضہ ملنے کی توقع نہ ہوئی۔ دالوں کے اس قافلے میں حلیمہ سعدیہ نامی ایک نیک خاتون بھی تھیں۔ انہیں کسی گھرسے کوئی بچہ نہ ملا۔ آخر وہ حضرت آمنہ کے گھر میں داخل ہوئیں، اس یتیم بچے کو دیکھتے ہی اس کی محبت ان کے دل میں پیوست ہوگئی، وہ زیادہ اجرت کا خیال کیے بغیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے سے لگائے اپنے ساتھ لے آئیں۔ ان کو گود لیتے ہی حلیمہ سعدیہ کو ہر طرف برکت ہی برکت نظر آنے لگی۔ لاغر جانور توانا ہو گئے ، بد حالی خوشحالی میں بدل گئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نشود نما عام بچوں سے مختلف ہوئی، جب عمر مبارک دو برس ہوئی تو حلیمہ سعدیہ نے دودھ چھڑا دیا۔ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے رضاعی بہن بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے جنگل میں جانے لگے۔ اس دوران ایک دن اچانک دوفرشتے نازل ہوئے جنہوں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک چیرا اور آپ کے دل سے سیاہ لوتھڑے جیسی کوئی چیز نکال کر پھینک دی اور دل کو ایمان و حکمت سے بھر کر واپس رکھ دیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر سینہ چیرے جانے کا کوئی نشان تک نہ رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چار سال کی عمر تک بنوسعد میں رہے۔ اس کے بعد حلیمہ سعدیہ نے آپ کو والدہ کے سپرد کر دیا۔ قبیلہ بنو سعد میں گزرے ان دنوں کی سادہ و جفا کش زندگی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت نشو ونما اور تربیت پر بہت عمدہ اثرات ڈالے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعدمیں کبھی کبھارصحابہ کرام سے فرماتے تھے: میں تم سب سے زیادہ خالص عرب ہوں اور میں نے بنو سعد کے قبیلے میں دودھ پیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کے ساتھ یثرب کا سفر

مکہ واپس آنے کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چھ سال ہوئی تو والدہ محترمہ آپ کو لے کر یثرب روانہ ہوئیں تا کہ اپنے شوہر کی قبر پر جائیں اور بچے کو اس کے والد کے ننھیالیوں سے ملائیں۔ ان کی حبشی باندی بر کہ (ام ایمن ) بھی اس سفر میں ہم راہ تھیں، جنہیں عبداللہ نے میراث میں چھوڑا تھا۔ یثرب میں حضرت آمنہ نے اپنے شوہر کے نھیال ہو یار میں کچھ دن گزارے۔ یہاں بن عدی بن نجار کا تالاب بھی تھا جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرا کی سکھی ۔

حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور عبد المطلب کے پرورش

واپسی کے سفر میں حضرت آمنہ ابواء کے مقام پر پہنچی تھیں کہ اچانک ان کا آخری وقت آگیا اور دیکھتے ہی دیکھتےدور دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ یہ ویران غیر آباد مقام مکہ اور یثرب دونوں کے بیچوں بیچ تھا۔ چاروں طرف پہاڑ تھے جن کے درمیان ایک ٹیلے پر حضرت آمنہ کی تدفین کی گئی عبداللہ کا یتیم، چھ سال کی عمر میں ماں کے سہارے سے بھی محروم ہو گیا اور وہ بھی اس کسمپری کے عالم میں کہ دور دور تک کوئی عزیز یارشتہ دارنہ تھا جس پر ہاتھ رکھا اورسینے سے لگا کر تسلی دیتا۔ یاللہ تعالی کی طرف سے غیر معمولی شخصیات کی تربیت کے وہ مراحل ہوتے ہیں جو بھٹی کا کام کر کے استعداد کے سونے کو کندن بناتے ہیں۔ حضور علیہ السلام علم کی باندی یہ کہ (اُم ایمن جو غالباً اس وقت خود سولہ سترہ برس سے زیادہ کی نہ تھیں) بڑی مشکل سے آپ علیہ سلم کو ساتھ مکہ لائیں۔ عبد المطلب نے اپنے ڈر یتیم کو پوری طرح اپنی آغوش شفقت میں لے لیا۔ وہ ایک آن پوتے کو اپنی نظروں سے دور نہ ہونے دیتے تھے۔ جب کہنے کے سایے میں اُن کے لیے وہ رئیسانہ قالین بچھایا جاتا جس پر کسی اور کو بیٹھنے کی اجازت نہ تھی تب بھی وہ اپنے ہونہار پوتے کو ساتھ بٹھاتے ۔حضور علیہ السلام سات سال کے تھے جب عبد المطلب کچھ دنوں کے لیے آپ کو چھوڑ کر یمن گئے تاکہ وہاں کے نئے حاکم سیف بن ذی ایوان کو مبارک باد دیں جس نے یمن سے حبشیوں کا اقتدار ختم کر کے عربوں کو دوبارہ عروج بخشا تھا۔ اس سفر کے سوا عبد المطلب نے ہمیشہ یتیم پوتے کو دل سے لگا کر رکھا۔

عبد المطلب کے وفات کے بعد

مگر والہانہ شفقت کے یہ دن باد صبا کی طرح گزر گئے اور ایک دن عبد المطلب بھی دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ اس وقت حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عمر ۸ سال دو ماہ دس دن تھی۔ جاتے جاتے عبدالمطلب اپنے بیٹے ابو طالب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھ بھال کی وصیت کر گئے اور وہی آپ کے سر پرست بنے۔۔اس سال عرب کے مشہور تھی اور قبیلہ بنی طے کے سردار حاتم طائی کا انتقال ہوا تھا اور یہی سال فارس کے سب سےنامور بادشاہ نوشیروان کی وفات کا ہے۔

اقبال مند لڑکپن :

عموماً لڑکپن کا زمانہ شوخی اور شرارت کے عروج کا ہوتا ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایام شروع سے نہایت شریف ، باوقار اور حیادار تھے۔ حضور عالم عرب کی معاشرتی برائیوں سے ذرا بھی متاثر نہ ہوئے۔ شرکیہ رسومات ، شراب نوشی اور گانے بجانے سے کوسوں دور رہے۔ سچائی ، امانت داری، ہمدردی، تواضع ، مروت اور رحم دلی کی صفات حضور نئی ہی ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ بے حدد ہیں، معاملہ فہم، بہادر اور چاق و چوبند بھی تھے۔

شام کی سفر اور راہب کے گاہی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بارہ سال تھی جب آپ اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ کے شام کے تجارتی سفر پر نکلے۔ اس قافلے نے شام کے سرحدی شہر بھرٹی میں شاہراہ کے کنارے پڑاؤ ڈالا جہاں بحیرا نامی ایک راہب کی خانقاہ تھی۔ 0 بحیرا راہب کبھی اپنی خانقاہ سے باہر نہیں نکلتا تھا، مگر اس دن وہ باہر آیا اور مجمعے کو چیرتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچا۔ پھران کا ہاتھ تھام کر کہنے لگا: یہ سیدالعالمین ہیں ۔ یہ رب العالمین کے رسول ہیں۔ یہ رحمتہ للعالمین ہیں ۔ قریش کے کچھ بوڑھوں نے کہا: “تمہیں کیسے معلوم؟ کہنے لگا: ” جب تم گھاٹی سے نیچے اتر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ کوئی درخت ا پھر ایسا نہیں جو تعظیما جھک نہ رہاہو۔ ایسا فقط نبی کے لیے ہوتا ہے۔ میں اسے مہر نبوت کی وجہ سے پہچانتا ہوں جو اس کے کندھوں کے درمیان ہے۔”

حضور نام کی عمر بارہ سال تھی جب آپ اپنے بچا ابو طالب کے ساتھ کے شام کے تجارتی سفر پر نکلے۔ اس قافلے نے شام کے سرحدی شہر بھرٹی میں شاہراہ کے کنارے پڑاؤ ڈالا جہاں بحیرا نامی ایک راہب کی خانقاہ تھی۔ 0 بحیرا کبھی اپنی خانقاہ سے باہر نہیں نکلتا تھا، مگر اس دن وہ باہر آیا اور مجھے کو چیرتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچا۔ پھران کا ہاتھ تھام کر کہنے لگا: یہ سیدالعالمین ہیں ۔ یہ رب العالمین کے رسول ہیں۔ یہ رحمتہ للعالمین ہیں ۔ قریش کے کچھ بوڑھوں نے کہا: “تمہیں کیسے معلوم؟ کہنے لگا: ” جب تم گھاٹی سے نیچے اتر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ کوئی درخت یا پھر ایسا نہیں جو تعظیما جھک نہ رہا

ہو۔ ایسا فقط نبی کے لیے ہوتا ہے۔ میں اسے مہر نبوت کی وجہ سے پہچانتا ہوں جو اس کے کندھوں کے درمیان ہے۔”راہب نے قافلے کی ضیافت کی اور ابو طالب کو قسم دی کہ اس لڑکے کو شام نہ لے جائیں؛ کیوں کہ اگر رومیوں نےاس مقام نبوت کی وجہ سے پہچان لیا تو قتل کردیں گے۔ آخر ابو طالب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے ساتھ واپس مکہ بھیجا

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے جنگ میں شرکت

حضور صلی اللہ علیہ وسلم دس سال کے تھے جب مکہ کے مضافات میں اڑائیوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جنہیں حروب فجارکہاجاتا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی لڑائی نجار اول بنو کنانہ اور ہوازن کے درمیان ہوئی۔ دوسری جنگ قریش اور ہوازن کے مابین لڑی گئی۔ تیسری میں ہوازن اور بنو نصر بن معاویہ آمنے سامنے آئے۔ چوتھی لڑائی جسے نجار رابع اور نجار یہ اض کہا جاتا ہے، گزشتہ تمام جنگوں سے زیادہ سخت تھی جوقریش اور قبیلہ بنو قیس کے درمیان بر پا ہوئی۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پندرہ سال کی تھی ۔ معرکے کے دن قریش کے تقریباً تمام ہوشیار مرد میدان میں صف بند تھے لڑکوں کو بھی مددگار کے طور پر طلب کیا گیا تھا۔ نبی اکرم منی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کے ہمراہ میدان جنگ میں پہنچ گئے جو تیر اندازی پر مقرر تھے۔ اس جنگ میں بنو ہاشم کے سردار زبیر بن عبد المطلب تھے۔ قریش کی قیادت بنو امیہ کا سردار حرب بن امیہ کر رہا تھا۔ لڑائی شروع ہوئی تو دشمنوں نے قریش پر پورا دباؤ ڈال دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اپنی کمانوں سے تیر چلا رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دشمن کے چلائے ہوئے تیر لال کر پکڑا رہے تھے تا کہ تیروں کی کمی نہ ہونے پائے۔ دن کے ابتدائی حصے میں بنوتیس کا پلہ بھاری تھا مگر سورج ڈھلنے کے بعد قریش نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور بنو قیس شکست کھا کر پسپا ہو گئے۔ یہ حضور علیہ السلام کے لیے کسی جنگ میں شرکت کا پہلا تجربہ تھا۔ 0

جنوبی عرب پر فارس کے تسلط

اس سال جنوبی عرب میں ایک انقلاب آیا۔ یمن کا محب وطن عرب حاکم سیف بن ذی یزن پندرہ سالہ حکومت کے بعد فوت ہو گیا، چونکہ یہ حکومت کسری کی عسکری مدد کے طفیل تھی ، اس لیے سیف کے مرتے ہی کسرئی نے یمن کو براہ راست اپنے قبضے میں لے لیا اور وہاں اپنے فارسی النسل گورنروں اور افسروں کا تقرر کر دیا ۔ اس طرح جزیرۃ العرب کا جنوب ایک بار پھر بری طرح غیر ملکی استبداد میں جکڑ اگیا۔ 0

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رزق حلال کے لیے محنت

جوان ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہِ و سلم نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے روزگار تلاش کرنے کی فکر کی۔ بنو ہاشم تا جر پیشہ تھے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سرمایہ نہیں تھا، اس لیے آپ نے اجرت کے بدلے لوگوں کی بکریاں چرانے کا کام شروع کیا۔ بنو سعد میں بچپن گزارنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے اس کام کا تجربہ تھا۔بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچاز بیر کے ساتھ تجارت کا تجربہ حاصل کیا اوران کے ساتھ یمن کا ایک سفر بھی کیا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل رشک جوانی اور شادی

سرمایہ نہ ہونے کے باعث حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کا سرمایہ تجارت میں لگا کر نفع میں شریک ہونے لگے۔ عمر مبارک پچیس سال کی تھی جب اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مال و دولت کے لحاظ سے غنی کر دینے کا انتظام فرمایا۔ قریش کی ایک مال دار اور شریف بیوہ خدیجہ بنت خویلد قابل اعتماد افراد کو سرمایہ دے کر تجارت میں لگوائیں اور حاصل ہونے والے نفع سے انہیں معقول معاوضہ دیتیں ۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شرافت ، دیانت اور دوسری خوبیوں کا علم ہوا تو بڑے اصرار سے آپ کو اپنا سرمایہ دے کر تجارت کے لیے شام بھیج دیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت داری اور خوش اسلوبی کی وجہ سے اس تجارت میں بے حد نفع ہوا۔ساتھ ہی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مزید خوبیوں کا علم بھی ہوا وہ آپ کے کردار سے اتی متاثر ہوئیں کہ آپ کونکاح کا پیغام بھیج دیا۔ اس سے پہلے وہ بڑے بڑے شریف اور رئیس لوگوں کی طرف سے رشتے کے پیغام مسترد کر چکی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب نے نکاح پڑھایا۔ اس وقت آپ کی عمر پچیس برس کی تھی ، جبکہ حضرت خدیجہ چالیس سال کی تھیں۔

Alkhroof.com

islamic book ke leya es whatsapp number pe masg krskte hai. 00923170487219

Tags: No tags

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *