نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے ابھی تک ہجرت کا حکم نہیں ملا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے پر رکے ہوئے تھے، ان کی یہی تمنا تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کی معیت نصیب ہو جائے ۔ انہوں نے سفر کے لیے دو اونٹنیاں لے لیں اور چار ماہ تک انہیں ببول کے پتے کھلا کر پالتے رہے۔
صحابہ مکہ سے روانہ ہوتے رہے۔ عثمان بن عفان، عبد الرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص، زبیر بن عوام طلحہ بن عبد الله، زید بن خطاب ، حمزہ بن عبد المطلب اور زید بن حارث رضی اللہ عنہ سمیت رفتہ رفتہ بھی ہجرت کر گئے ۔ صرف چند ایسے بے کس مسلمان پیچھے رہ گئے جو کفار کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے اور ہجرت سے بالکل عاجز تھے
قاتلانہ حملے کی سازش:
قریش کو مسلمانوں کی ہجرت سے یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ وہ ایک مرکز بنانے کے بعد مکہ کے لیے خطرہ بن جائیں گے، چنانچہ عمائد مکہ نے دارالندوہ میں مجلس مشاورت منعقد کی تاکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسا آخری اور قطعی فیصلہ کیا جائے کہ یہ نیادین مزید پھیلنے نہ پائے۔ مجلس میں ہر خاندان کے رئیس مثلا: امیہ بن خلف ، ابوسفیان، ابوجہل ، نظر بن حارث وغیرہ موجود تھے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کردیا جائے۔ کسی نے کہا کہ جلا وطن کر دینا کافی ہے۔
ابو جہل اور شیطان کا راۓ
ابو جبل کی رائے یہ تھی کہ قتل کر دیا جائے۔ اہل مجلس نے اس کو ترجیح دی مگرمسئلہ یہ تھا کہ قبائل کی معاشرت میں ہر فرد کی جان پورے قبیلے کی امانت تصور کی جاتی تھی۔ خدشہ تھا کہ اس صورت میں بنو ہاشم اور بنوعبد مناف کی تمام شاخیں یک جاکر بدلہ لینے پر تر آئیں گی اور مکہ میں خانہ جنگی چھڑ جائے گی ۔ آخر طویل بحث کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ ہر خاندان کی ایک ایک فرد چن لیا جائے اور ان کی جمعیت آج رات بیت نبوی کا محاصرہ کرے اور مشترکہ طور پر قاتلانہ حملہ کرے۔
ہجرت کا حکم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر پر
اسی دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ کی طرف سے فی الفور ہجرت کا حکم مل گیا۔ قریش کے کئی لوگوں نے اس قدر دشمنی کے باوجوداپنی قیمتی امانتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھوانے کا معمول ترک نہیں کیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امانتیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیں کہ ان کے مالکوں کو پہنچا کر بعد میں وہ بھی یثرب آجا ئیں۔
سفر ہجرت کی حکمت عملی
چونکہ یثرب تک سیدھا جانے میں پورا خطرہ تھا کہ قریش تعاقب کر کے پکڑ لیتے اس لیے بہت سوچ سمجھ کر نکلنے کی تقدیر کی گئی، جس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ اور آزاد کردہ غلام عامر بن فہیر رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شریک کر لیا گیا۔ عبدالرحمن بن ابی بکر ابھی اسلام نہیں لائے تھے ۔ انہیں بے خبر رکھا گیا۔ طے یہ ہوا کہ دونوں حضرات مکہ کے باہر غار ثور میں چھپ جائیں گے، تین راتیں وہاں چھپ کر گزاریں گے۔ اس دوران اہل مکہ کی خبریں لانے کا کام عبداللہ بن ابی بکر کریں گے، تیسرے دن جبکہ قریش تھک ہار کر بیٹھ چکے ہوں گے، اونٹوں پر سوار ہو کر ایک غیر معروف راستے سے منزل مقصود کا سفر کیا جائے گا۔ غیر معروف راستے میں بھٹکنے سے حفاظت کے لیے عبداللہ بن ازیقط نامی ایک پیشہ ور راہ نما کو اجرت پر ساتھ لینا بھی طے تھا جو مشرک ہونے کے باوجود پیشہ ورانہ راز داری میں پکا تھا۔
اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اونٹنیوں پر سوار ہو کر مکہ سے نکلے، ایک ٹیلے پر چڑھ کر آپ نے اس مقدس شہر کو مخاطب کر کے کہا: “اے مکہ ! اللہ کی قسم! تو زمین کا بہترین شہر اور اللہ کو سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اگرمجھے نکالانہ جاتا تومیں تجھ سے ہرگز نہ نکتا۔ یہ واقعہ جمعہ28 صفر ( مدنی) یکم ہجری (۱۰ستمبر 622 ء) کا ہے
غار ثور میں روپوشی اور قریش کی بھاگ دوڑ :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تو سیدھے غار ثور پہنچے اور اونٹنیاں عبد اللہ بن اریقط کے حوالے کر دیں۔ اس سے طے کر لیا گیا تھا کہ تیسری شب وہ سواریاں غار کے پاس لے آئے گا۔ طےشدہ ترتیب کے مطابق اس دوران عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ جو نہایت چالاک لڑکے تھے، شام کو اہل مکہ کی بھاگ دوڑ اور مشوروں کی خبریں غار لاتے اور رات غار میں گزارتے۔ عامر بن فہیر رضی اللہ عنہ و ساردن بکریاں چراتے اور عشاء کے بعد غار میں آکر بکریوں کا دودھ پیش کرتے ۔ قریش نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوشہر میں نہ پا کر ہر راستے پر آپ کی تلاش شروع کر دی تھی ۔ ان مقدس ہستیوں کو قتل یا گرفتار کرنے والے کے لیے سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ اس خطیر انعام کی حرص میں درجنوں لوگ اس مہم پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ایک موقع پر کھوج لگانے والے کچھ لوگ غار ثور کے دہانے تک آگئے ،تب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بے چینی نا قابل بیان تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جان کا خوف انہیں لرزائے دے رہا تھا۔ وہ سرگوشی میں بولے : یارسول اللہ! اگر یہ لوگ اپنے پیروں کی طرف جھانک کر دیکھ لیں تو ہم نظر آجائیں گے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پورے اطمینان سے بولے : اے ابو بکر گھبراو نہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“ قریش اتنے قریب پہنچ کر بھی نا کام واپس لوٹ گئے ۔
غار ثور سے دار ہجرت کی سمت
تین راتوں کی روپوشی کے بعد رات کے آخری پہر حضور ملی ای ایم او حضرت ابوبکر بنایا ہے مارے نکلے۔ دونوںاونٹنیاں سواری کے لیے تیار تھیں۔ رہبر عبد اللہ بن اُر فقط بھی آگیا تھا اور عامربن بیرونی نوید بھی۔ اب چار افراد کا یہقافلہ ایک پیچیدہ راستے سے جو معروف شاہراہ کی بہ نسبت ساحل سے قریب تھا، پیر یکم ربیع الاول (۱۳ نمبر ۶۲۲ ء ) کواپنی منزل کی سمت روانہ ہوا۔ رات اور اگلے دن دو پہر تک سفر تیزی سے جاری رہا۔ گرمی کی شدت تھی۔ دور دور تک آدم تھانہ آدم زاد ۔ گرمی اور تھکن کی وجہ سے ظہر کے وقت یہ حضرات سایہ تلاش کرنے لگے ۔ آخر ایک اونچی چٹان نظر آئی جس کا کچھ سایہ تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے زمین کو ہموار کر کے اس پر اپنی چادر بچھائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ آرام فرمائیے ۔”