FB_IMG_1699447004924

صلح حد بیبیه (ذوالقعده )کا مکمل واقعہ

مسلمانوں کو مکہ چھوڑے ہوئے 4 برس ہونے والے تھے۔ وہ مسجد الحرام اور بیت اللہ کی زیارت کو ترس گئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوشدید اشتیاق تھاکہ اللہ کے گھر کا طواف کیا جائے اور مناسک ادا کیے جائیں۔

انہی دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں خود کو صحابہ کے ہمراہ مسجد الحرام میں داخل ہوتے اور مناسک کی تعمیل کرتے دیکھا۔ یہ اشار تھا کہ دلی آرمان پورے ہونے کو ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ محسوس کر چکے تھے کہ قریش مسلسل جنگوں کی وجہ سے کمزور پڑ چکے تھے، اس لیے یہ امید تھی کہ وہ آپ کو عمرے کی اجازت دے دیں گے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یکم ذو القعدہ سن ۲ ہجری میں چودہ سو صحابہ کرام کے ساتھ احرام باندھ کر عمرے کے ارادے سے مکہ روانہ ہو گئے ۔ قربانی کے جانور بھی ساتھ تھے ۔ عرب کے لوگ کسی ایسے قافلے پر حملہ نہیں کرتے تھے جس کے ساتھ قربانی کے جانور ہوں۔ یہ مہینہ مدنی تقویم میں ذوالقعدہ اور مکی تقویم میں رجب تھا قریش سمیت تمام اہل عرب کے نزدیک ان دنوں جنگ حرام تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان تھا کہ جنگ کی نوبت نہیں آئے گی لیکن قریش کو آپ کے آنے کی اطلاع ہوئی تو وہ بھڑک اٹھے، انہوں نے آپ کو روکنے کے لیے خلاف دستور جنگ کی تیاری شروع کر دی اور راستے میں ایک سلح جتھہ تعینات کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا تو فرمایا: ” قریش پر افسوس ہے، انہیں جنگوں نے نگل لیا، ان کا کیا بگڑ جائے گا اگر وہمجھے میرے حال پر چھوڑ دیں اور باقی عربوں کو ان کے حال پر

قریش سے مذاکرات :

اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام شاہراہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے راستے سے آگے بڑھے اور مکہ کے مضافات میں حدیبیہ پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقامی باشندے بُدیل بن ورقاء کو یہ پیغام دے کر قریش کی طرف بھیجا کہ ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے، ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے

قریش نے اس پیغام پر ذرا بھی غور نہ کیا۔ انہوں نے ایک جہان دیدہ شخص غروہ بن مسعود ثقفی کو سفیر بنا کر بھیجا ۔ تا کہ ڈرا دھمکا کرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس بھیج کر دیا جائے۔ تقریباً چھ سال کی طویل مدت میں یہ پہلا موقع تھا کہ قریش نے تلوار کی جگہ سفارت اور گفت و شنید کی راہ اختیار کی تھی۔ یہ اس بات کا عملی اعلان تھا کہ اسلام اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ہے ۔”غروہ بن مسعود نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر قریش کی منشاء کے مطابق کئی سخت باتیں کہیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کامعقول موقف سننے، آپ کا عزم و استقلال محسوس کرنے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے مثال عقیدت دیکھنے کے بعد اس نے جان لیا کہ مسلمان دینے والے لوگ نہیں۔ چنانچہ واپس آکر کہا: میں نے قیصر و کسری جیسےاحبت بادشاہوں کی بھی ایسی عزت و توقیر ہوتے نہیں دیکھی جیسی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عزت ان کے ساتھی کرتے ہیں ۔ 20

بیعت رضوان

اس دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ کر کے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر قریش کی طرف بھیج دیا۔ انہوں نے آپ کام کا موقف دوبارہ بڑی وضاحت کے ساتھ قریش کے رئیسوں کے سامنے پیش کر دیا۔ واپسی کے موقع پر قریش نے انہیں پیش کش کی کہ آپ چاہیں تو طواف کر لیں ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بولا : ” جب تک رسول اللہ علیہ وسلم کو طواف کی اجازت نہ ملے گی میں بھی طواف نہیں کروں گا ۔ اس پر قریش کے سردار گڑ گئے اور انہیں نظر بند کر دیا۔ ادھر حضرت عثان رضی اللہ عنہ کی واپسی میں تاخیر ہوئی تو مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بہت غم زدہ ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب تک صلح و صفائی کی راہ تلاش کر رہے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خون اتنا قیمتی تھا کہ اسے معاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ایک بول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور صحابہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے بدلے موت کی بیعت لی۔ سب نے دل وجان سے آمادگی ظاہر کی کہ عثمان رضی اللہ عنہ خون کا بدلہ لینے کے لیے ہم آخری سانس تک لڑیں گے۔

ہر قسم اسلامی پوسٹ اور تاریخ کے لیےAlkhroof.com ویزٹ کریں شکریہ

Tags: No tags

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *