حضرت عبداللہ بن جحش ان کے سریے میں پہلی بار ایساہوا تھا کہ قریش کے خلاف تلوار چلی اور ان کا آدمی مارا گیا۔ اس سے قریش کے رؤسا کو اپنی قوم میں اشتعال پھیلانے کا جو موقع ملا انہوں نے اسے ضائع نہ کیا اورمسلمانوں کے خلاف بڑے پیانے پر جنگ کی تیاری شروع کردی، جنگ کے لیے سب سے اہم چیز عسگری اخراجات تھے۔ قریش نے اپناسارا سرمایہ دے کر ابو سفیان کی قیادت میں ایک بڑا تجارتی قافلہ شام کی طرف روانہ کیا تاکہ اس کے منافع سے سامان جنگ تیارکیاجائے۔
قافلہ جاتے ہوئے مسلمانوں کی دسترس سے بچ کر نکل گیا تھا۔ واپسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخبر اس کی گھات میں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بروقت اطلاع مل گئی اور آپ ۸/ رمضان المبارک سن ۲ ہجری کو مہاجرین و انصار کے ان حضرات کو جوفوری طور پر میسر آسکے ساتھ لے کر اس قافلے کے لیے فوراً روانہ ہوئے
بچوں کا شوق جہاد
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے نکلے تو مدینہ سے ایک میل دور بر عقبہ کے پاس پڑاؤ ڈالا سب کو دیکھا بھالا۔ آپ کو ان میں کچھ کم عمرلڑکےکے نظر آئے جو جہاد کے ذوق و شوق میں ساتھ نکل آئے تھے۔ آپ نے انہیں واپس جانے کا حکم فرمایا۔ ان بچوں میں اسامہ بن زید، رافع بن حدیج ، براء بن عازب، زید بن ارقم اور زید بن ثابت رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل تھے۔ انہی میں سولہ سال کے عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی تھے جو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی تھے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہونے سے چھپتے پھر رہے تھے، ان کے بھائی سعد رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو پوچھا: “کیا ہوا؟ کہنے لگے: ڈرتا ہوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ لی تو چھوٹا سمجھ کر واپس نہ کردیں، میں اللہ کے راستے میں نکلنا چاہتا ہوں، شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت عطا فرما دے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا۔ آپ نے حسب معمول انہیں بھی واپس جانے کا حکم دیا جسے سن کر وہ رونے لگے ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جذبہ دیکھ کر اس مہم میں شرکت کی اجازت دے دی۔ مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی لشکر میں گھوڑے صرف دو اور اونٹ ستر تھے۔ ایک، ایک اونٹ پر تین، تین افراد باری باری سوار ہوتے ۔
قافلے کی جگہ مکہ کے لشکر سے سامنا:
ادھر قریشی قافلے کے سردار ابوسفیان بن حرب کو مسلمانوں کی آمد کی خبر ہوگئی تھی، اس لئے وہ عام راستہ چھوڑ کرسمندر کے کنارے کنارے قافلے کو تیزی سے لے چلے اور ساتھ ہی ایک سوار کو مکہ کی طرف دوڑایا تاکہ قریش مددکو پہنچیں اور اپنے تجارتی قافلے کی حفاظت کریں۔ قریش پہلے ہی مدینہ پرحملے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے اس خبر کا مکہ میں پہنچناتھا کہ فورا نوسو پچاس مسلح افراد کا ایک لشکر جن میں دوسوگھڑسوار اور سات سو اونٹ سوار تھے، مقابلے کے لیے نکل کھڑا ہوا لشکر میں قریش کے بڑے بڑے سردار شریک تھے۔ چھ سو افرادزرہ پوش تھے ۔
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع پہنچی کہ تجارتی قافلہ بیچ کر نکل گیا ہے اور قریش کا مسلح لشکر مقابلے کے لیے آیا چاہتا ہےتو آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دوسرے مہاجرین نے اپنی جان نچھاور کرنے کا عزم ظاہر کیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کا جذبہ دیکھنا چاہتے تھے۔ انصار آپ کو اس وعدے پر لائے تھے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کریں گے جس کا مفہوم مدینہ کی حدود میں تحفظ فراہم کرنا تھا۔ کھلے لفظوں میں یہ معاہدہ نہیں تھا کہ اگر مدینہ سے باہر قریش سے جنگ ہوئی تو انصار اس وقت بھی مدد کے پابند ہوں گے، اس لیے آپ انصار کی رائے کے منتظر رہے۔ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ آپ کی منشا سمجھ گئے اور اٹھ کر کہنے لگے۔
آپ شاید ہماری رائے جانا چاہتے ہیں۔ اللہ کے رسول ! آپ جس سے چاہیں صلح کریں، جس سے چاہیں لڑیں۔ ہم آپ پر ایمان لاچکےہیں۔ اللہ کی قسم! آپ فرمائیں تو ہم سمندر میں کود پڑیں۔
ایک اور انصاری حضرت مقداد رضی اللہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ہم بنی اسرائیلی نہیں جنہوں نے موسی علیہ السلام کو کہ دیا تھاکہ جاؤ تم اورتمہارا خدالڑو۔ نہیں، ہم تو آپکے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے لڑیں گے ۔
قریش کا لشکر بدر کی طرف بڑھ رہا تھا جو مدینہ سے ۷ میل (۱۲۰ کلومیٹر ) جنوب میں ایک وادی ہے۔ مسلمان بھی اس طرف روانہ ہو گئے۔ لشکر اسلام کا جنگی پرچم سفید رنگ کا تھا جو حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے تھاما ہوا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے دو سیاہ رنگ کے جھنڈے تھے، ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا حضرت سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس
یہاں قریش کے بعض غلام جو پانی کی تلاش میں نکلے تھے مسلمانوں کے ہاتھ میں آگے ۔ وہ ان کو مار پیٹ کر قریش کی تعدادوغیرہ معلوم کرنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ آپ نے خودان سے تفتیش شروع کی اور پوچھا قریش روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟ کہنے لگے : “نو “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑ دیا اورصحابہ سے فرمایا: ” دشمن کی تعداد نوسوسے ایک ہزار کے درمیان ہے ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست اور ذہانت تھی، عام طور پر ایک اونٹ نوے سے سو آدمیوں کو کافی ہوجا تا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نور حساب لگا لیا کہ قریش کتنی تعداد میں ہو سکتے ہیں، جو بالکل درست تھا، وہ نوسو پچاس تھے۔
قریش کا لشکر میدان میں داخل ہونا
قریش کا لشکر پیش قدمی کرتا ہوا میدان بدر کے دوسرے سرے تک پہنچ گیا جہاں پانی قریب تھا۔ مسلمانوں نے پہلے میدان کے اس کنارے ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا تھا جہاں سے پانی کئی میل دور تھا مگر پھر ایک صحابی حضرت خباب بن منذر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے چشمے کی طرف بڑھ کر اس کے قریب خیمے لگائے ، ساتھ ہی اللہ تعالی نے بارش نازل فرمادی جس سے مسلمان خوب سیراب ہو گئے یہاں کی ریتیلی زمین پختہ ہوگئی۔ یہی بارش قریش کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ؟ کیوں کہ ان کے پڑاؤ میں کیچڑا اور پھسلن پیدا ہوگئی۔
جمعہ 17رمضان ۲ ہجری (۲۵ مئی ۶۲۲ ) کا سورج طلوع ہوا تو قریش اپنی جنگی تیاری مکمل کر چکے تھے۔ ادھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی صفیں درست کر رہے تھے، حضرت سعد بن معاذرضی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک ٹیلے پر جور کی شاخوں اور چوں سے ایک سائبان بنادیا گیا تاکہ آپ وہاں تشریف رکھیں اور پورے میدان جنگ کا معائنہ کر کے احکامات دیتے رہیں۔ پیچھے تیز رفتار سواریاں بھی رکھی گئیں کہ خدانخواستہ شکست ہو جائے تو مدینہ کیطرف بچ نکلنے کی صورت باقی رہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ مقرر ہوئے ۔
صبح سویرے قریش کا لشکر سامنے آ گیا اور کچھ فاصلہ چھوڑ کر صف آرا ہوا۔ یہ اسلام اور کفر کا پہلا اور فیصلہ کن معرکہ تھا، ایک طرف تین سو تیرہ مسلمان تھے جن کا سامان جنگ بھی کم تھا۔ دوسری طرف تین گنا کفار بہترین اسلحے کے ساتھ موجود تھے۔ اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گڑ گڑا کر اللہ سے دعائیں کر رہے تھے ، آپ فرما رہے تھے: “اے اللہ! اگرآج مومنوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر تا قیامت روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بے تابی سے دعا فرما رہے تھے کہ آپ کی چادر شانہ مبارک سے بار بار سرک جاتی تھی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ چادر درست کرتے اور تسلی دیتے اللہ کے رسول ! آپ اپنے رب سے خوب مانگ چکے، اس نے آپ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ ضرور پوراہوگا ، اللہ آپ کی ضرور مدد کرے گا اور آپ کو فتح مند فرمائے گا۔
دو صحابیوں کے لیے خوشخبری
دو صحابی عین اس وقت لڑائی میں شرکت کے لیے پہنچے مسلمانوں کو بڑی مسرت ہوئی ، کیوں کہ اس وقت مسلمانوں کو اپنی عددی کمی کا شدت سے احساس ہورہاتھا، ایسے میں اگر ایک شخص بھی مزید پہنچ جاتا تو غنیمت تھا ، مگر آنے والوں سے رحمت عالم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم شہید ہو ۔“
All islamic post ke leya Alkhroof.com visit kro