WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.59.28

فتح مکه ( رمضان ۸ هجری) مکہ مکرمہ فتح ہونے کا مکمل واقعہ

صلح حدیبیہ کے خاتمے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سرعت سے جنگ کی تیاری شروع کردی اور پوری کوشش کہ یہ خبر مکہ والوں کو نہ ملے پائے۔ رازداری کی یہ انتہاء تھی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو سفر سامان تیارکرنے کا حکمم تود یا مگر یہ نہ بتایا یہ کہاں کا سفر ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ایک دم مکہ والوں کے سروں پر جا پہنچیں تا کہ وہ مقابلہ نہ کرسکیں اور یوں ملکہ کی مقدس سرزمین کسی خون ریزی کے بغیر اپنے اصل وارثوں کو واپس مل جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں خصوصی دعائییں کیں اور فرمایا یا اللہ قریش کا کوئی مجرا اپنا کام نہ کرپائے اور ہم اچانک ان تک پہنچ جائیں

اس موقع پر ایک مخلص مسلمان حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کے ذریعے قریش کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لشکر کا اطلاعی رقعہ روانہ کردیا۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی جو کسی اور سے سرزد ہوتی تو اس پر نفاق کا شبہ کیا جاتا مگر حضرت خاطب رضی اللہ عنہ مخلص اور پرانے صحابی تھے، اس اضطرابی حرکت کی وجہ صرف یہ تھی کہ مکہ میں ان کے اہل و عیال بے سہارا تھے، کوئی اور رشتہ دار وہاں ان کا حمایتی نہ تھا۔ انہیں خطرہ ہوا کہ کہیں قریش مسلمانوں کو حملہ کرتے دیکھ کر میرےبیوی بچوں کو یرغمال نہ بنائیں۔ اس لیے قریش سے یہ بھلائی کر کے وہ اپنے اہل و عیال کے حق میں ان کے نیک سلوک مستحق بنا چاہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے اس کی اطلاع دے دی ۔

آپ نے حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مقداد بن اسود رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس عورت کے پیچھے بھیجا۔ انہوں نے سرپٹ گھوڑے دوڑا کر مدینہ کے مضافاتی مقام روضہ خاخ میں اسے جالیا اور حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا رقعہ بر آمد کروالیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ سے پوچھ کچھ کی تو انہوں نے مکہ میں اپنے اہل وعیال کےبے آسرا ہونے کا عذر بیان کیا اور کہا ” مکہ میں میرے اہل وعیال کا کوئی قرابت دار نہیں ۔ میں نے چاہا کہ مکہ والوں پرکوئی احسان کر دوں تا کہ وہ میرے قرابت داروں کا لحاظ رکھیں۔“

مکہ کی سمت یلغار

آخر کار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار سرفروشوں کے لشکر جرار کےساتھ ، ارمضان المبارک سن ۸ ہجری کو مدینہ سے کوچ کیا۔ یہ سفرشدید گرمی کے موسم میں تھا۔ رمضان کے روزے بھی تھے۔ سفر کی رفتار بھی دوگنی رکھی کی تھی۔ چونکہ مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی شرعی رحصت ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ دو روزے نہ رکھے آپ نے فرمایا اپنے دشمن کے مقابلے میں قوی رہو۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود عزیمت پرعمل کرکے روزہ دار تھے ۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات :

لشکر کی نقل وحرکت اتنی خاموش اور تیز تھی کہ قریش کو آخرتک کچھ پتانہ چلا اورمسلمانوں نے دو ہفتوں کی مسافت صرف ایک ہفتے میں طے کرلی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی آپ کی روانگی سے بے خبر تھے اور اپنے اہل وعیال کولے کر ہجرت کے ارادے سے نکل پڑے تھے۔ مکہ سے ۸۲ میل دور جحفہ کے مقام پر مسلمانوں کا عظیم لشکر آبادکھائی دیا تو حیران رہ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور انہیں ہم رکاب فرمالیا

لشکر اسلام کا نظارہ

رمضان (۷ جنوری ۶۳۰ ء ) جب اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ و ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کولے کر کر کے راستے میں ایک پہاڑکی گھاٹی پرکھڑے ہو گئے تا کہ وہ انہیں پورے لشکر کا نظارہ کر سکیں

تھوڑی دیر بعد اسلامی لشکر کے مختلف دستے اپنے اپنے قبائل کے پرچموں کے ساتھ ان کے سامنے سے گزرنے لگے۔

مکہ میں فاتحانہ داخلہ:

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو گزشتہ زمانے کا ایک ایک منظر آپ کے سامنے تھا۔ یہی وہ سرزمین تھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، پلے بڑھے، عزت و احترام کے ساتھ جوانی گزاری، پھر منصب نبوت ملنے پر اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اٹھے اور پورے شہر کی دشمنی مول لی۔ قریش کا ایک ایک ظلم وستم آپ کو یاد تھا جس کی انتہا یہ ہوئی کہ آپ کو اپنے پیروکاروں کے ساتھ جلاوطنی پر مجبور ہونا پڑا۔ آج وہی شہر آپ کے سامنے سرنگوں تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بڑی فتح کے باوجود دنیا کے دوسرے کسی فاتح کی طرح سرشاری اور فخر کی کیفیت میں نہیں تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حضور میں عجز و نیاز کی تصویر بنے ہوئے تھے، احساس شکر سے آپ کا سر مبارک سواری کی زمین سے لگا جاتا تھا۔

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے حرم میں تشریف لائے اور سواری پر ہی اس کا طواف کیا۔ آپ کے ہاتھ مبارک میں ایک چھڑی تھی ، طواف کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے صحن میں نصب بتوں کی طرف چھڑی سے اشارہ کرتے گئے اور بت زمین بوس ہوتے چلے گئے۔

مختصر سے خطبے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سرداروں سے دریافت کیا بتاؤ، آج میں تم سے کیا سلوک کروں؟” سرداران قریش کو اپنا ایک ایک جرم یاد تھا مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم کی اُمید کر سکتے تھے، وہ التجا کے انداز میں بولے بھلائی کا سلوک فرمائیے ۔ آپ ایک مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے فرزند ہیں ۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی کشادہ دلی سے فرمایا: ” جاؤ تم سب آزاد ہو۔

جان لینے والے جان دینے والے بن گئے

قریش کے پر جوش جوانوں میں اب بھی کچھ ایسے تھے جنہیں اسلام لانے میں ترد تھا مگر حقیقت سے کب تک آنکھیں پرائی جاسکتی ہیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حد سے زیادہ فیاضانہ سلوک بھی ان کے سامنے تھا، اس لیے زیادہ دن نہیں گزرنے پائے تھے کہ تقریبا سب ہی ایمان لے آئے۔

جینا مرنا ساتھ ہے:

اللہ کا گھر شرک کی علامات سے پاک ہو چکا تھا، حرم کو توحید کا مرکز ہونے کا اعزاز واپس مل چکا تھا۔ قریش کے بڑے بڑے رئیس اور اسلام کی مخالفت میں پیش پیش رہنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوکر اسلام قبول کررہے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب اپنے اپنے وطن مکہ والوں کے بھی سردار تھے ایسے میں اگر یہ خیال کیا جاتا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اب مکہ مکرمہ میں ہی قیام فرمالیں گے اور اسکو اسلامی ریاست کا مرکز قرار دیں گے تو کوئی عجیب بات نہ تھی۔ انصار کے کچھ لوگ یہی باتیں کر رہے تھے ؛ کیوں کہ ان کو مسلسل یہ دھڑ کا لگا ہوا تھا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر دعاؤں میں مصروف تھےاور انصاری نگاہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جمی ہوئی تھیں کہ دیکھی آپ اس معاملے میں کیا فیصلہ فرماتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظلم کووحی کے ذریعے ان کے خدشات کی خبرمل گئی تھی، اس لیے دعا سے فارغ ہو کر ان سے دریافت فرمایا : ” تم کیا کہہ رہے تھے؟ وہ بولے : ” کچھ نہیں یا رسول اللہ

مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصرار کیا تو انہوں نے دھڑکتے دلوں کے ساتھ اپنی تشویش سے آپ کو آگاہ کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان جانثاروں کی حوصلہ شکنی کیسے کر سکتے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کی گرم جوشی کے ساتھ فرمایا اللہ کی پناہ ایسا نہیں ہو سکتا الْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالممَاتُ مُماتُكُمْ جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے ۔ فتح مکہ کے فورا بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گردو نواح کی تسخیر اور شرک کے قدیم مراکز کو منہدم کرانے پر توجہ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نحلہ کے مقام پر واقع غزنی کے بت کدے کو تہہ وبالا کر آئے

ہر قسم اسلامی تاریخ کے لیےAlkhroof.com .ویزٹ کریں شکریہ

Tags: No tags

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *