FB_IMG_1699453572758

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آمد

شہر مدینہ کے لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے روانگی کی اطلاع مل چکی تھی ۔ غالباً انہیں یہ بھی علم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات سے صبح تک سفر اور دو پہر کو آرام کرتے ہوئے آرہے ہیں۔) اس لیے وہ روزانہ فجر ادا کرتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں شہر کے باہر آتے اور دور دور تک نظریں دوڑاتے ۔ جب گرمی زیادہ ہو جاتی تو واپس لوٹ جاتے ۔

قبا میں تشریف آوری

آخر ایک دن جب کہ سورج خاصا بلند ہو چکا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یثرب کی نواحی بستی قبا کے قریب پہنچ گئے۔ مدینہ کے لوگ اس وقت حسب معمول انتظار کے بعد گھروں کو واپس جا رہے تھے کہ اس دوران مدینہ کے ایک یہودی نے جو اپنے قلعے پر چڑھ کر صحرا کا نظارہ کر رہا تھا، دیکھا کہ بہت دور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی سفید کپڑوں میں ملبوس چلے آرہے ہیں، تپتی ریت پر سراب میں ان کا عکس جھلک رہا ہے۔ یہودی بے ساختہ پکارنے لگا:اہل عرب تمہاری خوش بختی آگئی جس کے تم منتظر تھے۔“

یہ سنتے ہی انصار نے عربوں کی استقبالیہ رسم کے مطابق ہتھیار سنبھالے اور دیوانہ وار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے دوڑ پڑے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استقبالیہ جلوس کے درمیان چلتے رہے یہاں تک کہ قبا میں بنو عمرو بن عوف کی بستی تک پہنچ کر ( جہاں اکثر مہاجرین قیام کرتے تھے ) کھلے میدان میں رک گئے اور خاموشی سے بیٹھ گئے ۔ حضرت ابوبکر ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زحمت سے بچانے کے لیے خود کھڑے ہو کر لوگوں سے ملنے لگے ۔ جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے نہیں دیکھا تھا ، وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو آ کر سلام کرنے لگے۔ اس دوران سورج عین سر پر آ گیا اور گرمی نا قابل برداشت ہوگئی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر اٹھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پر سایہ کر دیا ۔ اب سب لوگوں کو پتاچل گیا کہ مخدوم کون ہے اور خادم کون ۔ یہ واقعہ پیر ۸ ربیع الاول ( ۲۰ ستمبر622 ) کا ہے

مسجد قبا کی تاسیس:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرو بن عوف کے ہاں ٹھہرے، وہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو آج بھی مسجد قبا کے نام سے مشہورہے۔ یہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازیں ادا فرماتے رہے۔ یہ دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمیر کردہ پہلی مسجد تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی رکھوائی ہوئی امانتیں واپس کرنے کی ذمہ داری سونپ کر آئے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ تین دن میں یہ کام انجام دے کر روانہ ہوئے اور یہیں قیامیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آملے۔

مدینہ منورہ میں والہانہ استقبال:

قا میں چار دن قیام کر کے جمعہ ۱۲ ربیع الاول (۲۴ ستمبر ) کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی سمت روانہ ہوئے۔ راستے میں جمعہ کی نماز بنی سالم بن عوف کے محلے کی مسجد میں ادا فرمائی ۔ یہ اس سرزمین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نماز جمعہ تھی۔ای شام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ میں داخل ہوئے تو لوگ راستوں ، گلیوں اور مکانات کی چھتوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدارکرنے کے لیے جمع تھے۔ ہر طرف نعرے لگ رہے تھے:

اللهُ أَكْبَر ، جَاءَ مُحَمَّد، اللهُ أَكْبَر ، جَاءَ رَسُولُ الله ،

معصوم بچیاں مسرت سے سرشار ہو کر یہ اشعار پڑھا رہی تھیں

قافلوں کو رخصت کرنے والی گھائی کی اوٹ سے چودھویں کا چاند نکلا

ہم پر شکر ادا کر نالازم رہے گا جب تک اللہ کو پکارنے والا کوئی فرد باقی رہے۔

ے وہ رسول ! جو ہماری طرف بھیجے گئے آپ ایسادین لائے ہیں جس کی ہر حال میں پیروی کی جائے گی ۔

Tags: No tags

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *