download (49)

قائداعظم کی وفات سے لیاقت علی خان کی وفات تک کا سفر, ایک ملت کی غمگین کہانی حصہ اول

انيس سو اڑتاليس میں ایک طرف پاکستان بے سروسامانی کے عالم میں حالت جنگ میں تھا دوسری طرف بانی پاکستان شدید بیمار ہو گئے لیکن بیماری بھی انھیں گورنر جنرل کی حیثیت میں پاکستان کی خدمت کرنے سے نہیں روک سکی. قائداعظم کو انتہائی خطرناک حالت میں بلوچستان کے شہر زیارت سے کراچی لایا گیا آپ ائرپورٹ پر اترے تو بیماری سے نڈھال تھے لیکن انھیں اس حالت میں لے جانے کیلئے ایک کھٹارا سی ایمبولینس بغیر نرس کے بھیج دی گئی. ایمبولینس قائداعظم کو ان کی رہائش گاہ تک پہنچانے سے پہلے ہی راستے میں خراب ہو گئی. جب دوسری ایمبولینس منگوائی گئی تو اس دوران ایک گھنٹے کا وقت لگ گیا جس میں محترمہ فاطمہ جناح بیمار بانی پاکستان کو ہاتھ کاپنکھ

جھلتی رہیں. اس سوال کا جواب آج کسی کے پاس بھی نہیں کہ خراب ایمبولینس بھیجنا ایک سازش تھی یا ایسا ایک بے سروسامانی سے لڑتی ریاست میں کمیونیکشن کے گیپ کی وجہ سے ہوا. ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ قائداعظم کی آمد کے بارے میں لیاقت علی خان آگاہ ہی نہیں تھے. یہ عذر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اس وقت پورے کراچی میں صرف دو ایمبولینسز تھیں

جن میں سے ایک کو قائداعظم کیلئے بھیج دیا گیا شاید یہ کمیونیکشن کی تاریخی غلطی ہو لیکن بہت سے لوگ آج بھی یہ مانتے ہیں کہ خراب ایمبولینس بھیجنا دراصل ایک سوچی سمجھی سازش تھی قائداعظم جب گھر پہنچے تو بیماری سے بری طرح نڈھال ہو چکے تھے۔ آخری وقت میں ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور ذاتی معالج کے سوا ان کے ساتھ کوئی دوسرا موجود نہیں تھا وہاں موجود لوگوں کے مطابق ان کے آخری الفاظ تھے

اللہ

پاکستان

انھوں نے یہ کہا اور جان جان آفرین کے سپرد کر دی قائداعظم کے جنازے میں چھے لاکھ لوگ شریک ہوئے. قائداعظم کی وصیت کے مطابق ہی ان کی نماز جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی. اور خواجہ ناظم الدین کو پاکستان کا دوسرا گورنر جنرل نامزد کردیا گیا.

لیاقت علی خان کو کس نے مارا؟

ادھر قائداعظم جہان فانی سے رخصت ہوئے ادھر حکومتی ایوانوں میں روایتی سازشیں جنم لینے لگیں اس سارے

گرداب کو اگر کوئی شخص قائداعظم کے بعد سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا تھا وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاق علی خان تھے. بانی پاکستان کے بعد لیاقت علی خان مختار کُل ہو گئے اور پاکستان کی قسمت کے اہم ترین فیصلے کرنے لگے.اس وقت ایک طرف پاکستان کا آئین تشکیل پا رہا تھا اور دوسری طرف پاکستان کو اپنی تاریخ کا ایک اور اہم ترین فیصلہ کرنا تھا یہ فیصلہ تھا روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں کسی ایک کا اتحادی بننا یا غیر جانب دار رہنا. پاکستان نے یہ تاریخی فیصلہ امریکہ کے حق میں کیا حالانکہ پاکستان کے پاس بھارت کی طرح غیرجانبدار رہنے کا آپشن بھی موجود تھا لیاقت علی خان کو سوویت یونین کے رہنما جوزف اسٹالین اور امریکی صدر ہیری ٹرومین دونوں کی طرف سے دعوت تھی لیکن انھوں نے ماسکو کے بجائے واشنگٹن جانے کو ترجیح دی. واشنگٹن میں حسب توقع ان کا پرتپاک استقبال ہوا اس دورے سے سوویت یونین یعنی اس دور کے روس اورپاکستان کے تعلقات بگڑ گئے. امریکا سے دوستی کی وجہ سے پاکستان عالمی سیاست اور سرد جنگ کی بھول بھلیوں میں الجھ کررہ گیا

جس کے نتیجے میں اس کی سالمیت اور خودمختاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا. سب سے بڑا نقصان تو یہ تھا پاکستان آزادنہ خارجہ پالیسی کے راستے سے ہٹ گیا اور عالمی طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہونے لگا

لیاقت علی خان کے دور اقتدار کا آخری سال کافی ہنگامہ خیز رہا۔ 1951 میں میجر جنرل اکبرخان نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی. یہ کوشش ناکام رہی اوراس کے تمام کرداروں کوگرفتارکرلیا گیا. پاکستانی تاریخ میں حکومت کا تختہ الٹنے کی یہ پہلی غیر سیاسی کوشش تھی. 16 اکتوبر1951 کے دن لیاقت علی خان راولپنڈی میں مسلم لیگ کے جلسے سے خطاب کرنے سٹیج پر آئے. جلسے کے شرکاء میں کھڑے سید اکبر نے وزیراعظم پر گولی چلا دی. گولی سینے میں لگی اور پاکستان کا پہلا وزیراعظم ہزاروں لوگوں کے درمیان دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان کے آخری الفاظ تھے

۔۔۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔۔ اس قتل کی تفتیش کیلئے جو پہلا ثبوت میدان میں موجود تھا

یعنی گولی چلانے والا سید اکبر اسے موقعے پر ہی پولیس نے ہلاک کر دیا. اس قتل کی تفتیش انتہائی غیرسنجیدگی سے کی گئی

جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جب لاہور ہائیکورٹ نے قتل کیس کی فائل پیش کرنے کا حکم دیا

تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے حیرت انگیزجواب دیا. اس نے کہا ’’مائی لارڈ لیاقت علی خان قتل کیس کی فائل گُم ہو گئی ہے۔‘‘

اس قتل کی پوری تفتیش تو کبھی نہ ہو سکی لیکن اخباروں میں ایسی خبریں چھپتی رہیں کہ لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے امریکہ اور افغانستان کا ہاتھ ہے. سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے پہلے سیاسی قتل کی تفتیش درست انداز میں کر لی جاتی اور قانون کے مطابق سزائیں دی جاتیں تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی. لیاقت علی خان کا دنیا سے اٹھنا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم کی کرسی ایک مذاق بن کر رہ گئی. جس پر کٹھ پتلیاں لائی جاتیں اور گرائی جاتیں. اس پر ستم ظریفی یہ کہ یہ کٹھ پتلیاں چلانے والا ایک معذور اور مفلوج شخص تھا جو بدقسمتی سے پاکستان کا مختار کل بنا دیا گیا تھا

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *