images (4)

The Secret Business Model of Tesla

Unprecedented valuation: Tesla’s astounding rise to the top of the industry

The fact that Tesla’s market capitalization has surpassed one trillion dollars highlights this remarkable accomplishment. Tesla is currently the most valuable automobile company in the world in the contemporary market. Considering that its value is higher than that of the next ten leading automobile manufacturers combined, it is clear that Tesla has achieved an unrivalled position in the industry.

Bringing to light the mystery that is the Musk Factor

Tesla’s meteoric rise can be attributed to the mystique that surrounds Elon Musk, whose visionary strategies have propelled the company’s value to heights that have never been seen before. The value of Tesla has increased significantly as a direct result of Musk’s innovative approach and strategic acumen.

Scale of Tesla’s Operations Sales Figures versus Valuation

Contrary to what most people believe, Tesla’s sales figures do not entirely correspond with its valuation, despite the fact that the company is extremely valuable. In spite of the fact that its sales volume has demonstrated significant growth, the projected sales for 2021 amount to less than one million units, which would correspond to a market share of only 1.2% worldwide.

Profit Margins: Revealing the Dynamics of the Financial System

The majority of Tesla’s revenue comes from the sale of automobiles, and the company’s four most popular models—the Model S, Model 3, Model X, and Model Y—offer a range of prices. Remarkably, Tesla has surpassed even well-known luxury brands such as BMW and Mercedes with its remarkable profit margin of 30.5%. This represents a significant increase from the company’s historical average profit margin.

Many Different Sources of Income

Sources of Revenue Other Than Automobile Sales

Tesla’s revenue is diversified through three main streams: automotive sales, regulatory credit sales, service revenue, and an energy business that includes Solar Roof and Power Wall products. Although vehicle sales continue to be the primary source of revenue, Tesla diversifies its income through these three main streams.

Increasing the Number of Products Available in the Future

Tesla has ambitious plans that include the launch of an electric truck called Cybertruck as well as a forthcoming car model that is affordable and is expected to cost approximately $25,000. The goal of these plans is to penetrate the middle-class segment of the market.

Conducting an Analysis of Tesla’s Financials,

 Revenue Growth and Projections

In 2020, the company’s revenue reached a staggering $32 billion, and it is anticipated that it will reach $45 billion in 2021. However, a significant 80 percent of this revenue comes from the sale of vehicles, and the company is making slow progress towards reaching levels that are comparable to those of established automobile manufacturers.

Financial Investment in Research and Development

The substantial amount of money that Tesla invests in research and development is evidence of the company’s dedication to the development of new technologies. Despite the fact that it has been profitable since the year 2020, large amounts of money were spent on research and development in the years prior to that.

Characteristics that are Exclusive to Tesla That Define Its Success Advertising Strategy: Influence exerted by Elon Musk

In contrast to traditional advertising methods, Tesla’s marketing expenses amount to zero. This is because the company capitalises on Elon Musk’s public persona and product innovation, which exemplifies the power of word-of-mouth marketing.

In addition to Gigafactories, the Direct Sales Model

Tesla’s direct sales approach eliminates the need for intermediaries, which results in increased control but also results in additional expenses. For the purpose of achieving economies of scale and ensuring cost efficiency in the production of batteries, the establishment of gigafactories is a sign of this quest.

A Pioneering Example of Electric Cars and Other Technological Advancements

The revolutionary self-driving technology and safety features designed by Tesla, in conjunction with the company’s success in making electric vehicles more widely available, solidify Tesla’s position as a pioneer in the industry.

A Discussion on the Valuation of Tesla: Is It Excessively High?

New Challenges: Potential Dangers to Tesla’s Dominance in the Industry

In the realm of electric vehicles, the increasing market penetration of competing automobile manufacturers presents a potential threat to Tesla’s market share, which in turn challenges the company’s prospects for future commercial expansion.

Dependence on Regulatory Credits: An Essential Source of Revenue Acquisition

There is a significant relationship between the sale of regulatory credits and Tesla’s profitability. As a result of competitors increasing their production of electric vehicles, industry experts anticipate that this revenue stream may experience a potentially negative decline.

Forecasting the Future: Keeping an Eye on Tesla’s Destiny Diverse Portfolios and Investment Considerations

Although it is a popular choice, investing in Tesla requires a cautious approach, and it is recommended that investors diversify their holdings in order to reduce the risks that are associated with single-stock investments.

Observations and Conclusions: Looking Forward to Tesla’s Development

Contemplation on Tesla’s long-term viability is prompted by the apparent contradiction that surrounds the company’s valuation. The trajectory of the company’s success continues to be a subject of anticipation and scrutiny as the company navigates through the dynamics of the industry.

images (8)

جب سات سال پہلے دفن کیا ہوا بھٹو واپس ضیاءالحق کے سامنے کرہا ہوا، جب نواز شریف نے بینظر کی ننگی تصویر پھینکنا شروغ کی، ایک ملّت کی غمگین کہانی حصّہ آٹھ

بینظیر کی واپسی

یہ اپریل انیس سو چھیاسی میں بہار کے دن ہیں-اور تین سال سے جلاوطن بھٹو کی تیتیس سالہ بیٹی نے سیاست میں واپسی کا اِعلان کر دیا ہے- انھوں نے پاکستان آنے کے لیے دس اپریل 1986 کی تاریخ بھی دے دی ہے-اس اعلان کے بعد سے طاقت کے ایوانوں میں ایک زبردست بحث چل نکلی ہے-کیا بینظیر کو واپس آنے دیا جائے یا ان کو روکنے کی کوشش کی جائے؟
اس بحث میں وزیراعظم جونیجو نے ضیاالحق کوقائل کر لیا کہ بےنظیر کے استقبال کو نہ روکا جائے- کیونکہ انھیں روکنے سے عالمی سطح پر یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے- بینظیر کے استقبال کو نہ روکنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بھٹو کی پھانسی کے سات سال بعد پیپلزپارٹی کی حقیقی مقبولیت کا ادراک کرنا چاہتے تھے۔پھر دس اپریل انیس سو چھیاسی کا دن آیا-بنظیر بھٹو بھٹو لاہور ائرپورٹ پر اتریں تو ہوائی اڈے کے گرداگرد لاکھوں افراد جمع تھے-لاہور شہر نے اتنا بڑا سیاسی جلوس اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا-لوگوں کے ہاتھوں میں پاکستان اور پیپلزپارٹی کے جھنڈے تھے اور ہر طرف ایک ہی ترانہ گونج رہا ہے-’’ائیر پورٹ پر اس وقت یہ حالت تھی جب ہم بے نظیر کی آمد سے کئی گھنٹے قبل پہنچے تھے‘‘
’’اس وقت لوگ بستر لیکر ائیر پورٹ کے ارد گردلیٹے ہوئے تھے، یعنی لوگ رات کو ہی آگئے تھے‘‘

عوام نے بینظیر کا استقبال کیسے کیا

بینظیر بھٹو کا جلوس لاہور ائرپورٹ سے مال روڈ، مال روڈ سے داتا دربار اور داتا دربار سے ہوتا ہوا مینار پاکستان پہنچا تو دوپہر ڈھل رہی تھی-وہ بھٹو جسے ضیا الحق سات سال پہلے دفن کر چکے تھے مینارِ پاکستان پر پورے قد سے کھڑا تھا اور آج وہ تنہا نہیں تھا-اس کے سامنے انسانوں کا سمندر تھا-اس سمندر میں پیپلزپارٹی کے مخالفین کو اپنا مستقبل ڈوبتا نظر آ رہا تھا
بینظیر بھٹوبھٹو کا ایسا شاندار استقبال سرکاری اندازوں کے بالکل خِلاف تھا- بینظیرکو بھی تاریخی استقبال سے بہت خوش تھیں لیکن اصل میں ان کے لیے مشکلات کی ابتدا بھی یہی تھی- کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے اُن کے بڑھتے قدم روکنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا-بینظیر بھٹو بھٹو کو روکنے کیلئے جو اقدامات کیے گئے ان میں سب سے پہلے تو کردار کُشی کی مہم شروع کی گئی
ان کے سکینڈلز بنائے گئے-لاہور میں اپنے استقبال کے بعد بینظیر بھٹوپارٹی رہنما فیصل صالح حیات کے گھر میں ٹھہری تھیں
اس لئے فیصل صالح حیات کے ساتھ بھی ان کا سکینڈل بنا دیا گیا-ان حالات میں بینظیر بھٹوکی والدہ نے وہی کیا جو ہمارے معاشرے میں مائیں کرتی ہیں-انھوں نے بینظیر بھٹو کی شادی کا فیصلہ کر لیا-اس دور میں کئی لوگ بھٹو خاندان کا داماد بننے کے خواب دیکھ رہے تھے-بینظیر بھٹوکو فیصل صالح حیات سے شادی کا بھی مشورہ دیا گیا لیکن یہ بیل بھی مُنڈھے نہ چڑھی
عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ فیصل صالح حیات کم پڑھے لکھے اور بور قسم کے آدمی تھے اس لئے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھا

بینظیر نے زرداری سے کیسے شادی کی


اس دوران نواب شاہ کے زمیندار گھرانے سے ایک رشتہ آیا-آصف زرداری کی والدہ ٹمی بخاری اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر نصرت بھٹو کے پاس آئیں-آصف زرداری کا سیاسی پس منظر نہیں تھا بلکہ نواب شاہ میں کچھ سال پہلے ض کونسل کا الیکشن تک ہار گئے تھے- البتہ ان کا پراپرٹی بزنس دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا-نصرت بھٹو کو یہ رشتہ پسند آیا اور اٹھارہ دسمبر انیس سو ستاسی کو لیاری کے ککری گراؤنڈ میں دونوں کی شادی ہو گئی-لیکن شادی سے بھی بینظیر بھٹوکی مشکلات کم نہیں ہوئیں
ان کے مخالفین ان کی چھوٹی سے چھوٹی کمزوری سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے-اس لئے بینظیر بھٹوہر قدم پھونک پھونک کررکھ رہی تھیں- یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے امید سے ہونے کی بات بھی میڈیا سے چھپا لی لیکن جنرل ضیا کویہ خبر ہر صورت میں چاہیے تھی-کیونکہ ان کے لیے اس کی ایک اہم سیاسی وجہ تھی-انیس سو اٹھاسی میں جب جنرل ضیا نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا توانہوں نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا-کیونکہ انہیں انٹیلی جنس رپورٹ مل چکی تھی کہ بینظیر بھٹوامید سے ہیں-لہٰذا وہ اگلے انتخابات کی تاریخ ایسی رکھنا چاہتے تھے جس میں بینظیر بھٹو زچگی کے قریب ہوں اور انتخابی مہم نہ چلا سکیں-انٹیلی جنس کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی کہ قریب قریب درست تاریخ کا پتہ لگائیں-بینظیر بھٹوبھی اس شرارت کو سمجھ چکی تھیں اس لیے ڈھیلے ڈھالے لباس پہنتی تھیں تاکہ انہیں دیکھنے والے کوئی اندازہ نہ لگا سکیں-

بینظیر بھٹونے مشہور کر دیا کہ وہ نومبر میں ماں بننے والی ہیں-یہی خبر جولائی میں جنرل ضیا تک بھی پہنچی، حالانکہ وہ 30مئی کو 90دن یعنی 30 اگست تک الیکشن کا اعلان کر چکے تھے-اب انہیں اپنے منصوبے کے تحت تاریخ بدلنا پڑی-انہوں نے 20 جولائی کو نیا اعلان کیا-اور بے نظیر کی زچگی کے مہینے یعنی نومبر میں انتخابات کا وعدہ کیا-تاریخ کی یہ عجیب و غریب جاسوسی جاری تھی کہ جنرل ضیا الحق کا طیارہ ہوا میں پھٹ گیا اور وہ جاں بحق ہو گئے-ضیاالحق کے آخری تین دن کی کہانی ہم آپ کو پچھلی قسط میں سنا چکے ہیں-پاکستان میں گیارہ سال سے سیاہ و سفید کے مالک جنرل ضیا کی موت کے ساتھ ہی پاکستان میں طاقت کا خلا پیدا ہوگیا۔اس خلا کو تین افراد نے پر کیا-جنہیں عرف عام میں سٹریٹیجک ٹرائی اینگل کہا جاتا ہے-طاقت کی اس تکون میں صدر غلام اسحق خان، آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل شامل تھے-صدرپاکستان غلام اسحق خان نے بھی نومبر میں انتخابات کی تاریخ کو برقرار رکھا-کیونکہ انہیں بھی بے نظیر کے بارے میں نومبر ہی کی اطلاع ملی تھی، لیکن یہ اطلاع غلط تھی-بے نظیر کی حکمت عملی کام کر گئی بلاول انتخابات سے دو ماہ پہلے اکیس ستمبر انیس سو اٹھاسی کو پیدا ہوئے اور بینظیر بھٹو کو انتخابی مہم چلانے کا پورا موقع مل گی

نواز شریف بمقابلہ بینظیر

سقوط ڈھاکہ کے بعد 1988کا الیکشن پہلا بڑا سیاسی معرکہ تھا-جس میں جماعتی بنیادوں پر الیکش ہو رہے تھے-

کیونکہ 1985کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر آزاد امیدواروں نے لڑے تھے-اور پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ ک تھا-نومبر میں ووٹنگ کا اعلان ہو چکا تھا-اور مقابلہ بہت سادہ تھا-یا آپ بھٹو کے ساتھ ہیں یا بھٹو کے خلاف بے نظیر کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ صاف نظر آ رہا تھاکہ شاید وہ الیکشن میں کلین سویپ کریں گی-لیکن ان کے مخالفین انہیں کسی بھی صورت کھلی چھوٹ دینے پر تیار نہیں تھے۔سٹریٹیجک ٹرائی اینگل بھی اپنے جوہر دکھا رہی تھی-ٹرائی اینگل کا تیسرا سرا یعنی جنرل حمید گل سب سے زیادہ متحرک تھے-انھوں نےبے ن-یر کے خلاف نو سیاسی جماعتوں کا اسلامی جمہوری اتحاد یعنی آئی جے آئی راتوں رات کھڑا کر دیا-اس حقیقت کا اعتراف جنرل حمید گل اپنے کئی انٹرویوز میں کھل کر کر چکے ہیں-کاشف عباسی: لیکن آپ نے جنرل صاحب ان کو پہلی ملاقات میں کہا تھا کہ میں نے آپ کے خلاف آئی جے آئی بنائی تھی
حمید گل: میں نے آپ کے خلاف نہیں کہا تھا، میں نے آئی جے آئی بنائی تھی ورنہ ہم الیکشن تک پہنچ نہیں سکتے تھے
یہ میں نے بتایا، انہوں نے کہا کہ جنرل صاحب آئی انڈر سٹینڈ-نوازشریف کی جماعت جو اس وقت مسلم لیگ کہلاتی تھی اس اتحاد کا سب سے بڑا حصہ تھی-اس کے علاوہ نیشنل پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی بھی آئی جے آئی کا حصہ تھی-پیپلزپارٹی کے بانی رکن اور بینظیر کے انکل غلام مصطفیٰ جتوئی کو آئی جے آئی کا سربراہ مقرر کر کے بینظیر کے مقابلے پر کھڑا کر دیا گیا-اس اتحاد کے سربراہ تو غلام مصطفیٰ جتوئی تھے لیکن آئی جے آئی کا عوامی چہرہ نوازشریف تھے–ن کی تصویر کے ساتھ اخبارت کے فرنٹ پیجز پر بڑے بڑے اشتہارات چھپتے-. جن میں بینظیر کو دشمن اور یہودی لابی کا ایجنٹ لکھا جاتا-عوام سے مخاطب ہو کر کہا جاتا کہ آپ کا مقابلہ آپ کے دشمن سے ہے-ا. خبارات کی وہ خبریں جن میں بینظیر اور نصرت بھٹو پاکستانی ایٹمی پروگرام کی حمایت نہیں کر رہیں بطور اشتہار چھاپی جاتیں-یہ تک خبریں چھپیں کہ پیپلزپارٹی امریکہ میں لابنگ کر رہی ہے کہ پاکستان کو ایف سکسٹین طیارے نہ دئیے جائیں-ایسی خبروں کے تراشے روز اخبارات میں بطور اشتہار چھاپے جاتے-اور بتایا جاتا کہ پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کا مطلب پاکستان کے دفاع پر سمجھوتا کرنا ہے-سڑکوں چوراہوں پر آئی جے آئی کے نو ستاروں والے جھنڈے کے ساتھ یہ نعرہ بھی درج ہوتا-نو ستارے بھائی بھائی ۔۔۔ بینظیر بھٹو کی شامت آئی -آئی جے آئی کا انتخابی نشان سائیکل تھا.-

جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مختلف شہروں میں سائیکل پر نو ستاروں کا جھنڈا لگا کر انتخابی مہم چلایا کرتے تھے-مخالفین بینظیر بھٹو کو عوام کی نظروں سے گرانے کیلئے اس حد تک چلے گئے کہ بینظیرکی نیم برہنہ تصاویرہیلی کاپٹروں کے ذریعے شہروں اور قصبوں میں گرائی گئیں-انہیں ماڈرن، مغرب زدہ اور امریکہ اور بھارت کی ایجنٹ تک قرار دیا جا رہا تھا-بینظیر بھٹو بھی اپنے جلسوں میں اسلامی جمہوری اتحاد کو اڑے ہاتھوں لیتیں-انھوں نے الزام لگایا کہ ہیروئن اور منشیات کی کمائی سے ان کے خلاف انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے-انھوں نے ایسے اشتہار چھپوائے جن میں نوازشریف یا قاضی حسین احمد کو نہیں بلکہ ضیاالحق کو نشانہ بنایا جاتا-ضیا الحق کو پاکستان کے ایٹمی راز بھارت کو دینے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا-پیپلزپارٹی آمریت اور اس کے ساتھیوں کے خلاف اپنے انتخابی نشان تیر کو کئی معنوں میں استعمال کر رہی تھی-جواب میں آئی جے آئی بھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والے ظلم اور زیادتیوں کی تصاویر اخبارات میں چھپواتی-ان اشتہاروں میں بھٹو کے پاکستان توڑنے کی طرف اشارہ ہوتا-اور یہ دکھایا جاتا کہ بھٹو سیاستدان کے پردے میں ایک سخت گیر ڈکٹیٹر تھے-وہ اخبارات جرائد دکھائے جاتے جو بھٹو نے زبردستی بند کروائے تھے-اور وہ لوگ دکھائے جاتے جن پر بھٹو نے تشدد کروایا تھا-گو کہ دنیا میں ضیاالحق موجود تھے نہ ذوالفقار علی بھٹو، لیکن انتخابی مہم میں یہ دونوں پوری آب و تاب سے زندہ تھے-یہ ایک انتخابی جنگ تھی اور شاید دونوں اس پرانے فارمولے پر چل رہے تھے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے-سولہ نومبر کوقومی اسمبلی کی دو سو سینتیس میں سے دو سو سات نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوئی-کامیابی کے لیے کسی بھی جماعت کو ایک سو چار نشستیں درکار تھیں-ایک دن پہلے گیلپ سروے چھپ چکا تھا-جس میں انتہائی جدید اور سائنسی سروے کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ انتخابات میں پیپلزپارٹی اور آئی جے آئی میں مقابلہ برابر کا ہے-لیکن جب نتیجہ آیا تو پیپلزپارٹی، آئی جے آئی سے کہیں آگے تھی-

الیکشن کی نتائج

پیپلز پارٹی نے بانوے جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے چوون نشستیں حاصل کی تھیں-بعد میں آزاد امیدواروں کی شمولیت سے پیپلزپارٹی کو ایک سو پندرہ امیدواروں کی حمایت مل گئی-س الیکشن کی دلچسپ بات یہ تھی کہ آئی جے آئی کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی ہار گئے-پیرپگارا جنھیں حکومت کی بھرپور مدد حاصل تھی وہ بھی ہار گئے-آج آپ سیاست میں خلائی مخلوق کی آوازیں سنتے ہیں-’’ہمارا مقابلہ تو ایک خلائی مخلوق کے ساتھ ہے‘‘-

بالکل اسی طرح اس وقت بھی ہارنے والے اسی قسم کی باتیں کرتے تھے-پیر پگارا نے کہا کہ انھیں ہرانے کیلئے خفیہ ہاتھ استعمال ہوا ہے-سابق وزیراعظم جونیجو بھی اپنی شکست پر انگلی منہ میں دبائے کچھ ایسی ہی بات کہہ رہے تھے-پرانے سیاسی جگادری ہار گئے لیکن بھٹو اور ضیا کے جواں سال سیاسی وارث جیت گئے-اب وہی دونوں میدان میں آمنے سامنے کھڑے تھے-اور پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا تھا-لیکن ابھی انتخابی جنگ ختم نہیں ہوئی تھی-ان دنوں قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی دن نہیں ہوتے تھے-بلکہ پہلے قومی اسمبلی اور اس کے تین دن بعد صوبائی اسمبلیوں کے لیے ووٹنگ ہوتی تھی-اس لیے قومی اسمبلی میں شکست کے بعد آئی جے آئی کو صوبائی انتخابت میں بھی ہارنے کا دھڑکا لگ گیا۔اس دوران روزنامہ مشرق اور نوائے وقت میں بینظیر بھٹو کا یہ بیان سامنے آیا کہ وہ کسی پنجابی کو اپنا لیڈر کیسے مان لیں؟
آئی جے آئی نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور رات بھر میں پنجاب کی دیواروں پر یہ نعرہ لکھ دیا گیا۔۔۔
’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘-مساجد میں لائوڈ سپیکر پر ینظیر بھٹوکے خلاف اعلانات بھی کروائے گئے-پنجاب کے عوام کو پیپلز پارٹی کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی گئی اور اس مہم کا پیپلزپارٹی کو نقصان بھی ہوا-جب نتیجہ آیا تو پنجاب سے 88نشستیں پیپلز پارٹی نے اور اکیانوے آئی جے آئی نے حاصل کیں-نوازشریف آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے-خیبر پختونخوا یعنی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بھی آئی جے آئی جیت گئی-سندھیوں کے لیے ایسے اشتہارات چھاپے گئے تھے جن میں لکھا جاتا کہ سندھ کو ایک جماعتی آمریت سے بچانے کیلئے آئی جے آئی کے نشان سائیکل پر مہر لگائیں-لیکن یہ مہم کسی کام نہ آئی-اورپیپلزپارٹی جیت گئی اور بوجھئیے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ کون بنے ?
قائم علی شاہ دو دسمبر انیس سو اٹھاسی کو بینظیر بھٹونے وزارت عظمی کا حلف اٹھایا تو وہ پاکستان اور عالم اسلامکی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں-؟

download (43)

افغان جنگ،، روس کی بربادی اور ضیاالحق کا ہنگامہ ترین دور، ایک ملّت کی غمگین کہانی, ساتواں حصّہ

ضیاالحق کے پورے دور پر سوویت روس کے ایک خفیہ آپریشن کی گہری چھاپ رہی ہے. اس آپریشن کو اسٹارم ٹرپل تھری کہا جاتا ہے. 27دسمبر 1979 کو روسی کمانڈوز نے افغان صدر حفیظ اللہ امین کوان کے محل میں قتل کر دیا. اور افغانستان پر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر دی. صرف تینتالیس منٹ پر مشتمل اس آپریشن نے افغان جنگ کی بنیاد رکھی. وہ جنگ جو دس سال تک انسانی المیوں کوجنم دیتی رہی اور ساڑھے بارہ لاکھ پچاس ہزار انسان اس کا ایندھن بن گئے. اس جنگ میں ایک سپرپاور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور دنیا میں امریکہ واحد سپر پاور کےطور پر ابھرا. سوویت روس اور افغانستان میں ہونے والی یہ تبدیلیاں جنرل ضیا الحق بہت غور سے دیکھ رہے تھے. وہ سمجھتے تھے کہ سوویت روس دراصل افغانستان سے ہوتا ہوا پاکستان کے راستے گوادر کی بندرگاہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے. تاکہ گرم پانیوں تک رسائی حاصل کر سکے. اس دور میں بھارت اور روس جنگی اتحادی تھے. اس لیے جنرل ضیا کو یہ بھی خطرہ تھا کہ افغانستان میں روس اور بھارت کی حامی حکومت پاکستان کے لیے مستقل خطرہ ہو گی. اس وقت امریکہ کا بھی یہی مفاد تھا کہ روس کو افغانستان میں روکا اور جنگ میں الجھا کر کمزور کیا جائے. چنانچہ امریکہ نے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنایا اور سعودی عرب کی مدد سے مجاہدین تیار کرنا شروع کر دئیے
امریکہ اور سعودی عرب اس جنگ کیلئے مالی وسائل فراہم کر رہے تھے. جبکہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک سے سادہ لوح مسلمانوں کو جہاد کے نام پر افغانستان میں جمع بھی کیا جا رہا تھا. اب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس حقیقت کو برملا تسلیم کررہے ہیں. ’’سعودی عرب 1979سے پہلے ایسا نہیں تھا، اس دور میں خطے میں کئے منصوبے شروع ہوئے‘‘
جنرل ضیا، امریکہ اور سعودی عرب… سوویت روس کو افغانستان میں نیست و نابود کرنے کیلئے ایک جان ہو گئے. لیکن اس وقت پاکستان پر امریکہ پابندیاں عائد تھیں جن کی وجہ سے پاکستان دنیا سے اسلحہ اور ٹکنالوجی حاصل نہیں کر پا رہا تھا. امریکی صدر جمی کارٹر نے سوویت روس سے جنگ کے بدلے پاکستان کو چالیس کروڑ ڈالر امداد کی پیشکش کی. جنرل ضیاء الحق نے اس موقعے پر مشہور فقرہ کہا کہ ’’یہ مونگ پھلی کے دانے اپنے پاس ہی رکھیں۔‘‘. دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ صدر جمی کارٹر کے مونگ پھلی کے فارمز تھے. اس گہرے طنز پر امریکی میڈیا نے ضیاء الحق کے فقرے کو خوب مرچ مسالہ لگا کرشہرت دی
لیکن مونگ پھلی کے باغات والا صدر انیس سو اکیاسی میں چلا گیا اور ایک بزنس مین کا بیٹا رونلڈ ریگن امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا. صدر ریگن ایک سیلزمین کے بیٹے تھے اور انھیں سودا کرنا خوب آتا تھا. انھوں نے امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور بنانے کیلئے پاکستان کی طرف خزانوں کے منہ کھول دیئے. پاکستان کے لیے تین ارب بیس کروڑ ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا گیا
معاشی پابندیاں ختم کر دیں گئیں. پاکستان کو دنیا کے جدید ترین اور کبھی نہ ہارنے والے ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کی منظوری دی گئی. انھی ایف سکسٹین کے باعث پاک فضائیہ کو کئی سال تک انڈین ائرفورس پر برتری حاصل رہی. امریکہ سے دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیا نے 34 ایف سکسٹین اور پاک بحریہ کیلئے ہارپون میزائل خریدے. ضیاء الحق کی خواہش اور مطالبے پر امریکہ نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو بھی نظرانداز کرنا شروع کیا. جس کی وجہ سے پاکستان نے افغان جنگ کے دوران ایٹمی پروگرام کو خفیہ طریقے سے مکمل کیا اور پہلا کولڈ ایٹامک ٹیسٹ بھی کیا. یعنی بم چلائے بغیر ہی ٹکنالوجی کی مدد سے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ کر لی گئی. اس دوران امریکی کانگریس نے کئی بارپاکستانی جوہری پروگرام پر پابندیاں لگانے کی کوششیں کیں.

لیکن ضیاء الحق کانگریس مین چارلی ولسن جیسے دوستوں کی مدد سے ان کوششوں کو ناکام بناتے رہے. امریکہ اور

سعودی عرب نے مل کر دس برس تک ساٹھ کروڑ ڈالر سالانہ مجاہدین کو فراہم کئے. کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے یہ ذمہ داری لے رکھی تھی کہ وہ ہر امریکی ڈالر کے بدلے میں ایک ڈالر مجاہدین کی امداد کے لیے خرچ کرے گا. امریکی پابندیوں کے خاتمے کے نتیجے میں پاکستان کو دوسرے یورپی ممالک سے بھی اسلحہ ملنے لگا تھا. ان میں فرانس سے جدید طیارہ شکن میزائل مسترال اور کروٹیل بھی ملے. پاکستانی خفیہ ایجنسی افغان مجاہدین کی تربیت کر رہی تھی. دوسری طرف سعودی امداد سے مدارس کا نیٹ ورک پھیلایا جا رہا تھا تاکہ مجاہدین کی مستقل سپلائی برقرار رکھی جا سکے. اس مقصد کے لیے اسلام سے محبت کے جذبات کو استعمال کیا گیا اور عالمی جہاد کے تصور کو عام کیا گیا. اسامہ بن لادن بھی اسی دور میں افغانستان پہنچے. اس سب کے باوجود افغانستان میں روس کو ہرانا مشکل نظر آ رہا تھا. کیونکہ روس کی فضائی طاقت کو افغان مجاہدین شکست نہیں دے پا رہے تھے. ایسے میں امریکہ نے ایک ایسا ہتھیار تیار کیا جو اپنی مثال آپ تھا. .روس کی فضائی برتری ختم کرنے کے لیے امریکہ نے ایک ایسا میزائیل تیار کیا، جس کیلئے لانچر نہیں صرف انسانی کاندھا چاہیے تھا. یہ میزائل تھا سٹنگر میزائل. اس میزائل نے روس کو تگنی کا ناچ نچا دیا. سٹنگر میزائل پاکستان کے ذریعے افغانستان کو سپلائی کیے جاتے تھے. ضیاالحق کے دور میں ان میزائلوں کو محفوظ کرنے کیلئے کئی مقامات چنے گئے جن میں سے ایک راولپنڈی کا اوجڑی کیمپ بھی تھا. مجاہدین سٹنگر میزائلوں سے روسی ہیلی کاپٹروں کو پتنگوں کی طرح گرانے لگے. روسی فوج کا مورال آٹھ سال سے جاری جنگ میں پہلے ہی بہت گر چکا تھا. پاکستان کی شاندار انٹیلی جنس، مجاہدین کے تابڑ توڑ حملوں، امریکہ اور سعودی عرب کی معاشی مدد. سے چلنے والی افغان جنگ میں اسٹنگر میزائل وہ آخری ہتھیار تھا جس نے سوویت ریچھ کی کمر توڑ دی. سٹنگر صرف سوویت روس کے لیے ہی تباہی نہیں تھا بلکہ پاکستان میں بھی اس نے غارت گری کی. وہ اوجھڑی کیمپ جہاں سٹنگرز میزائل جمع کیے گئے تھا، دس اپریل انیس اٹھاسی کو دھماکے سے پھٹ گیا. راوالپنڈی کے باسیوں کے لیے دس اپریل کا دن قیامت سے کم نہیں تھا. میزائل پھٹنے کی آوازیں اور آسمان سے برستی آگ ایک خونریز جنگ کا منظر پیش کر رہی تھی. جب یہ بارود کی بارش تھمی تو راولپنڈی میں 103افراد جان کی بازی ہارچکے تھے. جن میں بعد کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے والد گرامی بھی شامل تھے. سویت روس کیلئے اس جنگ کی مالی اور انسانی قیمت برداشت سے باہر ہو گئی تو اس نے واپیس کا فیصلہ کر لیا. اپریل انیس سو اٹھاسی میں پاکستان، افغانستان، روس اور امریکہ کے درمیان جنیوا میں ایک معاہدہ ہوا. اس میں طے پایا کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے. مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجا جائے گا. اور رشین آرمی فروری انیس سو نواسی تک افغانستان سے نکل جائے گی. روس نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے افغانستان خالی کردیا. لیکن روسی افواج کے مکمل انخلا سے پہلے ضیاء الحق کا آخری وقت بھی آن پہنچا تھا.کہا جاتا ہے کہ ضیاء الحق کوخفیہ ایجنسیوں نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ ان کے قتل کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے. موت سے پہلے آخری چند ماہ وہ آرمی ہاؤس راولپنڈی میں بند ہو کر رہ گئے تھے. ان کی موت سے تین دن پہلے چودہ اگست کی تقریب کا سارا فنکشن بھی ان کے حکم پر آرمی ہاؤس میں کرایا گیا.اس وقت ضیاالحق اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے آرمی ہاؤس کے صحن میں لگے درختوں کو سیکیورٹی رسک قرار دے دیا اور چالیس درخت کٹوا دیئے. اس پروگرام کے صرف تین دن بعد وہ آرمی ہاؤس سے نکلے اور ٹینکوں کی مشقیں دیکھنے بہاولپور پہینچ گئے. واپسی پر امریکی سفیر اور امریکن ملٹری اتاشی بھی ان کے ہمراہ سی ون تھرٹی طیارے میں سوار ہوئے. مشقیں دیکھنے والوں میں وائس آرمی چیف جنرل اسلم بیگ بھی شامل تھے. لیکن چونکہ وہ اپنے الگ طیارے میں آئے تھے اس لئے وہ واپیس پر ضیاء الحق کے ساتھ نہیں تھے. جنرل ضیاء الحق کا طیارہ اڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد بہاولپور کی ایک بستی لال کمال میں گر کرتباہ ہو گیا. حیرت کی بات یہ ہے کہ طیارے کے حادثے میں امریکی سفیر اور ملٹری اتاشی جیسے اہم عہدیدار مارے گئے. لیکن امریکہ نے اس سانحے سے متعلق حقائق جاننے میں کبھی دلچسپی نہیں دکھائی. یہی وجہ ہے کہ ضیاالحق کے قتل کو امریکی سازش سمجھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے. جنرل ضیاء کو افغان جہاد اور اسلامی قانون سازی کی وجہ سے مذہبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. تاہم افغان جنگ کے دوران مہاجرین کے ساتھ منشیات، کلاشنکوف کلچر اور دہشت گردی کا طوفان بھی پاکستان میں در آیا. اس وجہ سے آج بھی ضیاء الحق کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے. ضیاء الحق نے گیارہ سال ملک پر بلا شرکت غیرے حکومت کی لیکن اپنے یا اپنے خاندان کے لیے کوئی دولت جمع نہیں کی. لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ضیاء الحق نے جو بڑے فیصلے کئے ان میں سے بعض کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے. تاریخ کی ستم ظریفی تو دیکھئے کہ جن گرم پانیوں تک حصول کیلئے روس نے دس سال جنگ کی. تیس سال بعد وہی راستہ سی پیک کے ذریعے پرامن طریقے سے حاصل کر لیا. حالانکہ ابھی ان لوگوں کے بال کالے ہیں جنھوں نے روس کے خلاف افغان جنگ میں حصہ لیا تھا. ضیاالحق کا ہنگامہ خیز دور ختم ہو گیا.

images (9)

ذولفقار علی بھٹو نے کیسے ٩٣ ہزار پاکستانی فوج کی قیدی انڈیا سے رہا کی, بھٹوحکومت کی عروج و زوال , ایک ملت کی غمگین کہانی حصہ چھ

سانحہ مشرقی پاکستان کے چند ماہ بعد تک ملک میں مارشل لاء نافذ رہا. بھٹو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور دستور ساز اسمبلی کے سربراہ تھے. پاکستان کے نوے ہزار فوجی اورمغربی پاکستان کا تیرہ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ بھارت کے قبضے میں تھا. انھی معاملات کے حل کیلئے انیس سو بہتر میں بھٹو نے بھارت سے شملہ معاہدہ کیا. انہوں نے مذاکرات کے ذریعے بھارت سے تیرہ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ واپس لے لیا. اب مسئلہ تھا نوے ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی کا. بھٹو نے چین کے ذریعے اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کا راستہ روکا. انہوں نے بھارت سے مذاکرات کیے کہ اگرانڈیا پاکستانی قیدی رہا کر دے تو چین اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کا راستہ نہیں روکے گا. یہ دباؤ کام کر گیا اور پاکستان کے نوے ہزار قیدی رہا ہو کر وطن واپس آ گئے
اکہتر کی جنگ میں امریکہ نے چونکہ پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی تھی اس لیے پاکستان نےامریکہ سے کیے گئے

سیٹو اور سینٹو کے معاہدے توڑ دئیے. لیکن پاکستان کو طاقتور عالمی اتحادی تو چاہیے تھے. اس کے لیے بھٹو نے اسلامی ممالک کا اتحاد بنانا شروع کیا. انیس سو چوہتر میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی. اسی برس پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا اور دونوں ممالک کے تعلقات کا ایک نیا آغاز ہو گیا. بھٹو کی سب سے بڑی کامیابی پاکستان کا متفقہ آئین تیار کرنا تھا. اس آئین میں وزیراعظم کے اختیارات بڑھا دیئے گئے اور بھٹو نئے پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے. بھٹو دور کا ایک اوراہم واقعہ یہ تھا کہ انہوں نے ایوب دور اور اس سے پہلے لگنے والی صنعتوں اور اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا. جس کا عملی نتیجہ اچھا نہیں رہا اور صنعتیں تباہ ہونے لگیں. صنعتیں بہتر کرنے کے لیے بھٹو نے روس سے تعلقات بہتر بنائے اور مدد طلب کی. پاکستان اسٹیل ملز بھی بھٹو دور میں بنائی گئی جبکہ ایوب دور میں شروع ہونے والا تربیلا ڈیم بھی اس دور میں مکمل ہوا. آئین کی تیاری کے بعد بھٹو کا دوسرا سب سے بڑا کارنامہ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا تھا. ان کا نعرہ ۔۔۔گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم ضروربنائیں گے۔۔۔ عوام میں بہت مقبول ہوا. تاہم اسلامی ممالک کا بلاک بنانے کی کوششوں اور ایٹمی پروگرام کی وجہ سے امریکہ بھٹو کےخلاف سرگرم ہو گیا. امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی دے ڈالی اپنے دور اقتدار کے آخری سال بھٹو سے ایک تاریخی غلطی ہوئی. عام انتخابات انیس سو اٹھہتر میں ہونا تھے لیکن بھٹو کو اس کے مشیروں نے بتایا کہ اگر وہ ایک سال پہلے انتخابات کروا دیں تو ان کی جیت یقینی ہے. اس طرح وہ مزید پانچ سال حکومت کر سکیں گے. بھٹو کے مقابلے میں اپوزیشن کا مشترکہ اتحاد پی این اے میدان میں آیا. بھٹو نے واضح طور پر میدان مار لیا اور ایک سو پچپن نشستیں جیت لیں. اپوزیشن کے ہاتھ صرف چھتیس سیٹیں آئیں. پیپلز پارٹی جیت تو گئی لیکن انتخابات پر دھاندلی کا الزام لگ گیا. پی این اے دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئی. یہ سیاسی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے مذہبی رنگ میں رنگ گئی. اور وہ تحریک جو دھاندلی کے خلاف شروع ہوئی تھی تحریک نظام مصطفی میں تبدیل ہو گئی. اس تحریک کے نتیجے میں نظام مصطفیٰ تو نہ آیا لیکن ضیا الحق آ گیا. ’’مسٹر بھٹو کی حکومت ختم ہوچکی ہے، سارے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا ہے‘‘. ’’قوی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں، صوبائی گورنر اور وزیر ہٹا دیے گئے ہیں‘‘
بھٹو ضیاالحق پر بہت اعتبار کرتے تھے. بالکل اسی طرح جیسے ایوب بھٹو پر اور سکندر مرزا ایوب خان پر اعتبار کرتے تھے. تاریخ کا ستم دیکھئے کہ ضیا نے بھٹو کو، بھٹو نے ایوب کو اور ایوب نے سکندر مرزا کو دھوکا دیا. سچ ہے طاقت کے کھیل میں اخلاقیات نام کا کوئی ہتھیار نہیں ہوتا. ضیاء نےمارشل لا نافذ کرتے ہوئے بھٹو کو گرفتار کر لیا. بھٹو کو رضا قصوری کے قتل کے ایک بہت کمزور مقدمے میں سزائے موت سنا دی گئی. رضا قصوری، مشرف کے قریبی ساتھی احمد رضا قصوری کے والد تھے. چار اپریل انیس سو اناسی کو بھٹو کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا. ظلم کی انتہا یہ تھی کہ پھانسی سے قبل آخری ملاقات میں بیٹی کو باپ کے گلے بھی نہیں لگنے دیا گیا. اور پھانسی کے بعد کسی رشتے دار کو آخری دیدار تک نہیں کرنے دیا گیا
لیکن آج حال یہ ہے کہ بھٹو کی عدالتی موت کو عدالتی قتل سمجھا جاتا ہے

5a35828c767b8

مشرقی پاکستان کو کس نے توڑا, ایک ملت کی غمگین کہانی حصہ پانچ

جنرل یحیٰ نے مارچ انیس سو انہتر میں صدر ایوب خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے. اب جنرل یحییٰ ایک ہی وقت میں پاکستان کے صدر، چیف آف آرمی سٹاف اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے. وہ چونکہ ایوب کے زوال کے اسباب دیکھ چکے تھے. اس لیے انھوں نے فوراً سیاستدانوں سے کوئی لڑائی مول لینے کے بجائے ایوب دور میں سیاسی جماعتوں پر لگی پابندیوں کو ختم کیا. جنرل یحیٰ خان نے ایوب کا بنایا متنازعہ آئین بھی منسوخ کردیا. انھوں نے دسمبر انیس سو ستر میں صدارتی انتخابات کروائے. یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات تھے جس میں ایک آدمی ایک ووٹ کا اصول استعمال ہوا. انھیں پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف انتخابات کہا جاتا ہے. لیکن ان شفاف انتخابات کا نتیجہ بہت خوفناک برآمد ہوا. انتخابات میں میں بنگال کے شیخ مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کیا اور ایک سو ساٹھ نشستیں جیت لیں. لیکن ان کی جماعت مغربی پاکستان میں ایک بھی سیٹ حاصل نہ کر سکی. ادھر ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں اکیاسی نشتیں جیتیں. لیکن مشرقی پاکستان میں وہ ایک بھی سیٹ نہ جیت سکے. پاکستان واضح طور پر دو حصوں میں بٹ چکا تھا. پورا مشرقی پاکستان شیخ مجیب کے ساتھ کھڑا تھا اور شیخ مجیب آئینی لحاظ سے پاکستان کے نئے حکمران تھے. جنرل یحییٰ کی ذمہ داری تھی کہ انھیں اقتدار منتقل کرتے. اس مقصد کیلئے جنرل یحییٰ نے1فروری1971 میں ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا. یہ ایک تاریخی موقع تھا کہ پاکسان کو مشرقی پاکستان سے منتخب قیادت مل رہی تھی. لیکن اس تاریخ موقع پر بھٹو نے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا. نہ صرف انہوں نے شرکت سے انکار کیا بلکہ اپنے نمائندوں کو دھمکی دی کہ جو قومی اسمبلی کے اجلاس میں جائے گا وہ اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے. بھٹو کو شیخ مجیب کے چھ نکات پر اعتراض تھا. بھٹو سمجھتے تھے کہ شیخ مجیب کے چھ نکات پاکستان سے علیحدگی کے نکات ہیں. لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ شیخ مجیب پر اعتراضات کے باوجودبھٹو کو اجلاس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے تھی. بھٹو نے جنرل یحییٰ پر اجلاس ملتوی کرنے کیلئے دباؤ ڈالا. یحییٰ نے یہ اجلاس ملتوی کروا دیا. اجلاس کا ملتوی ہونا تھا کہ مشرقی پاکستان میں آگ لگ گئی. بنگالی سمجھ گئے کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ ہمیں اقتدار منتقل نہیں کرنا چاہتی۔. مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک چل پڑی. بھارت جو پہلے سے موقع کی تاڑ میں بیٹھا تھا اس نے باغی گروہ مکتی باہنی کے ذریعے مسلح بغاوت شروع کرا دی مکتی باہنی کے مسلح گروہوں نے پاک فوج اور مغربی پاکستان کے حامیوں پر حملے شروع کر دئیے. یہ پاکستان بچانے کا آخری موقع تھا. اگر اس وقت بھی ایک اجلاس بلا کر اقتدار انتخابات جیتنے والے کے سپرد کر دیا جاتا. تو شاید پاکستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی

گو کہ اب یہ اتنا سادہ بھی نہیں رہا تھا. لیکن جنرل یحییٰ نےاقتدار منتقل کرنے کی بجائے یہ آخری موقع بھی گنوا دیا

اور بغاوت کچلنے کیلئے فوجی ایکشن شروع کردیا. یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فوجی ایکشن کو بھٹو سمیت تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے سپورٹ کیا. پاک فوج نے مکتی باہنی کی بغاوت کو نو ماہ میں کچل دیا. لیکن اس فوجی ایکشن کے نتیجے میں نفرت کی ندی کا پانی سروں سے بہت اونچا ہو چکا تھا. دوسری طرف موقع کی تاڑ میں بیٹھے بھارت نے اپنی سازش کو ناکام ہوتے دیکھا تو انٹرنیشنل بارڈر کراس کرتے ہوئے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا. پاک فوج چاروں طرف سے گھیرے میں آ گئی. جغرافیہ ہمارے خلاف تھا، پاک فوج مرکز سے ایک ہزار میل دور اور چاروں طرف سے دشمن پوری سپلائی لائن کے ساتھ گھیرا ڈال چکا تھا. جبکہ ادھر صورت حال یہ تھی کہ پاک فوج کی سپلائی لائن کٹ چکی تھی. اور مشرقی پاکستان کی سرزمین بیگانی ہو چکی تھی۔ شکست دیوار پر لکھی تھی. اس کے باوجود پاک فوج کے جوان بہادری سے لڑے.وطن کی خاطر ہزاروں جوان کٹ مرے لیکن یہ ایک ہاری ہوئی جنگ تھی. جسے طول تو دیا جا سکتا تھا جیتا نہیں جا سکتا تھا. اور ہوا بھی یہی. پاکستان کو اپنی تاریخ کی سب سے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا. اور نوے ہزار پاکستانی فوجی بھارت کے قیدی بن گئے. ملک ٹوٹ چکا تھا اور پاکستان مشرقی اور مغربی کے بجائے صرف پاکستان رہ گیا تھا. گو کہ ملک توڑنے کا ذمہ دار کوئی ایک فرد نہیں ہو سکتااس کے پیچھے سیکڑوں عوامل ہوتے ہیں. لیکن اگر یہ دیکھنا ہو کہ آخری وقت میں وہ کون سا شخص تھا جو پاکستان کو بچا سکتا تھا لیکن اس نے نہیں بچایا تو اس کا نام ہے جنرل یحییٰ. جنرل یحییٰ اس لیے کہ ان کی بطور صدر اور کمانڈر ان چیف یہ ذمہ داری تھی کہ اقتدار سب سے زیادہ ووٹ لینے والےکو ایماندری سے منتقل کر دیتے. لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا. لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان توڑنے کے تنہا ذمہ دار جنرل یحییٰ ہیں۔ کیونکہ. وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔۔۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہی جنرل یحییٰ کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہو گیا. جنرل یحییٰ نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک کاغذ کی تحریر کے ذریعے اقتدار منتقل کر دیا. بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور دستور ساز اسمبلی کے سربراہ بن گئے

انھوں نے اقتدار سنبھالا اور جنرل یحیٰ کو نظر بند کر دیا. باقی زندگی میں جنرل یحیٰ زیادہ تر نظر بند ہی رہے. بھٹو کی پھانسی کے ایک سال بعد سقوط ڈھاکہ کا یہ اہم ترین کردار انتقال کر گیا. ادھر پاکستان سے الگ ہونے والے بنگلہ دیش میں ایک کے بعد ایک فوجی بغاوت جنم لیتی رہی. یہاں تک کہ علیحدگی کے صرف چار سال بعد ڈھاکہ میں شیخ مجیب کو نوجوان فوجی افسروں نے گھر میں گھس کر قتل کر دیا. یوں صرف دس سال کے اندر اندر سقوط ڈھاکہ کے تینوں اہم کردار بھٹو، شیخ مجیب اور جنرل یحییٰ موت کی وادی میں جا سوئے. پاکستان میں اس سانحے کی وجوہات جاننے کے لیے ایک کمیشن بنایا گیا

اس کمیشن کے سربراہ بنگال سے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس جسٹس حمودالرحمن تھے. اس کمیشن نےسقوط ڈھاکہ پر ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی. اس رپورٹ میں ذمہ داروں کا تعین بھی کیا گیا. اور سقوط ڈھاکہ کے عوامل بھی لکھے گئے

یہ رپورٹ بھٹو کے دور میں مکمل ہو گئی تھی. لیکن چند مصلحتوں کے پیش نظر انہوں نے اسے شائع نہیں کیا. وہ دن اور آج کا دن یہ رپورٹ کبھی سامنے نہ آسکی. اس کے کچھ حصے بھارت میں تو شائع ہوئے لیکن پاکستان میں اسے کبھی پبلک نہیں کیا گیا

download (46)

پاکستان کا پہلا ملک گیر مارشل لا: ایوب خان کی آغازی حکومت ایک ملت کی غمگین کہانی حصہ چار

1958 میں پاکستان کا پہلا ملک گیر مارشل لا لگا. اور ایوب خان پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے. وہ پہلے ڈکٹیٹر تھے جو برملا کہتے تھے کہ عوام ابھی اتنے باشعورنہیں ہوئے کہ انھیں ووٹ کا حق دیا جائے. جمہوریت اور سیاستدانوں سے ان کی نفرت اتنی زیادہ تھی کہ انھوں نے ایبڈو اور پراڈا جیسے بدنام زمانہ قوانین بنائے. ان قوانین کے تحت سات ہزار سیاستدان سات، سات سال کے لیے نااہل قرار دیئے گئے. نااہل قرار دیئے جانے والے سیاستدانوں میں سابق وزرائے اعظم حسین شہید سہروردی اور فیروزخان نون جیسے بڑے نام بھی شامل تھے. ان لوگوں کو نااہل کرنے کے لیے کرپشن اور ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے. سیاستدانوں پر کرپشن الزامات اور نااہل کرنے کے بعد ایوب خان نے اپنی مرضی کا ایک آئین تشکیل دیا. اور انیس سو پینسٹھ میں اسی آئین کے تحت انتخابات کا اعلان کر دیا. خودپسندی اوراقتدار کی ہوس دیکھئے کہ جنرل ایوب جو پاکستان مسلم لیگ کے صدر بھی تھے وہ خود صدارتی امیدوار کے طور پر میدان میں آ گئے. ان کے مقابلے کے لیے اب میدان میں کوئی سیاستدان نہیں بچا تھا کیونکہ تمام بڑے سیاستدانوں کو مختلف الزامات کے تحت نااہل کیا جا چکا تھا. اپوزیشن بری طرح تقسیم تھی


ایوب خان کا خیال تھا کہ وہ بہت مقبول ہیں اور باآسانی جیت جائیں گے. ایسے میں تقسیم شدی اپوزیشن نے بھی شاندار پتہ کھیلا. انھوں نے متفقہ طور پر قائداعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو صدر پاکستان کے امیدوار کے طور پر کھڑا کر دیا. ان حالات میں وہ پاکستان کی واحد امید تھیں. جنرل ایوب خان محترمہ فاطمہ جناح سے خوفزدہ تھے. مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں میں فاطمہ جناح کو پذیرائی ملنا یقینی بات تھی. لیکن ایوب خان نے صحت مند مقابلے کے بجائے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف کردار کشی کی گھٹیا مہم شروع کروا دی. بانی پاکستان کی بہن کو بھارتی ایجنٹ اور غدار کہا گیا. انیس سو پینسٹھ کے متنازع ترین انتخابات ہوئے اور کھلی دھاندلی کے نتیجے میں ایوب خان جیت گئے. اتنی بڑی ناانصافی نے ایوب خان کو عوام کی نظروں سے گرا دیا. ایوب خان کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع ہو گئے. اور سڑکوں چوراہوں پر ایوب کے خلاف ہر طرح کے نعرے لگنے لگے. اسی دوران دو ایسے واقعات ہوئے جن سے ملک کی معاشی حالت ڈانواں ڈول ہو گئی اورایوب خان کو بہت بڑا سیاسی دھچکا پہنچا. ایک واقعہ تو 1965 کی جنگ ستمبر کاتھا. جس میں پاکستان نے بھارتی حملے کا بھرپور اور کامیاب دفاع کیا. لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ امریکہ پاکستان سے ناراض ہو گیا. وجہ یہ تھی امریکہ سے پاکستان کا معاہدہ تھا کہ پاکستان امریکی ہتھیاروں کو بھارت کے خلاف استعمال نہیں کرے گا. لیکن جنگ میں پاکستان نے اپنی پوری طاقت بھارت کے خلاف استعمال کی اس سے امریکی امداد بند ہو گئی. دوسرا واقعہ معاہدہ تاشقند تھا. جس میں جنرل ایوب کےخلاف یہ تاثر پھیل گیا انھوں نے بھارت کے خلاف جیتی ہوئی جنگ ستمبر مذاکرات کی میز پر ہار دی ہے. ان دو واقعات اور محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف دھاندلی ایوبی اقتدار کیلئے زہرقاتل ثابت ہوئے. ذوالفقار علی بھٹو اس وقت ایوب کے وزیر خارجہ تھے اور سر عام جنرل ایوب کو ڈیڈی کہا کرتے تھے. لیکن جب بھٹو نے حالات بدلتے دیکھے تووہی کیا جوطاقت کے کھیل میں کیا جاتا ہے. انہوں نے ایوب کے خلاف بھڑکے ہوئےعوامی جذبات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔. انھوں نے پاکستان کی پہلی عوامی جماعت پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور مغربی پاکستان کے سب سےمقبول لیڈربن گئے. 1969میں جب صدر ایوب خان کے خلاف عوامی مزاحمت بے قابو ہو گئی تو آرمی چیف جنرل یحیٰ نےایوب خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا. ایوب خان نے پاکستان پر دس سال اور چھ ماہ حکومت کی. یہ دس سال پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین سال تھے. ان برسوں میں ابتدائی طور پر پاکستان کھل کر امریکی کیمپ میں شامل ہوا. جس کے چند مثبت نتائج بھی نکلے. امریکی مدد سے پاکستان نے پہلی بار منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیمز کا آغاز کیا. صنعتوں اور زراعت کو فروغ دیا. پاک فوج مضبوط ہوئی. پاکستان پہلی بار گندم کی پیداور میں خودکفیل ہوا. بنکنگ سیکٹر پروان چڑھا اور چین سے تعلقات بہتر بنائے گئے. لیکن ایوب خان کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ ان کے دور میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں دوریاں اتنی بڑھ گئی تھیں. کہ محض تین سال بعد ملک دو ٹکڑے ہوگیا. ایوب خان نے امریکی امداد سے پاکستان میں انڈسٹری کو ترقی تو دی لیکن اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے جمہوری سسٹم ڈیولیپ نہیں ہونے دیا. جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ امداد کی سہارے ہونے والی ترقی امریکی امداد کے خاتمے پر ختم ہو گئی. منگلا تو مکمل ہو گیا لیکن تربیلا ڈیم کے لیے پیسے ختم ہو گئے۔ تربیلا ڈیم بھٹو دور میں مکمل ہوا

download (47)

سکندر مرزا: ملکی نظام کی قیام اور مارشل لاء کا آغاز ایک ملت کی غمگین کہانی, حصہ سوم

انیس سو پچپن میں جب گورنر جنرل غلام محمد رخصت ہوئے تو بیوروکریسی نے ملکی نظام پراپنی گرفت مضبوط کرلی تھی. فوجی مداخلت بھی پورے عروج پرتھی. میجرجنرل ریٹائرڈ اسکندرمرزا جو بیوروکریٹ بھی رہ چکے تھے گورنرجنرل بن گئے. یوں عملی طور پرحکومت فوجی اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں چلی گئی. اسکندرمرزا طویل عرصے تک حکومت کرنے کے خواہش مند تھے. انہیں لگتا تھا کہ اگر وہ اپنے دوست آرمی چیف جنرل ایوب خان کو اقتدار میں شریک کر لیں تو ان کی خواہش پوری ہو سکتی ہے. سو انھوں نے ایسا ہی کیا تاریخ کے ریکارڈ کو درست رکھنے کے لیے آپ کو بتاتے چلیں کہ اسکندر مرزا، میر جعفر کے پڑپوتے تھے. وہی میر جعفر جس نے بنگال میں انگریزوں کو راستہ دینے کیلئے نواب سراج الدولہ سے غداری کی تھی. سکندر مرزا کا دور پاکستان کی جمہوریت کے لیے جگ ہنسائی کا دور تھا. اسکندر مرزا نے صرف تین سال میں پانچ وزرائے اعظم کی چھُٹی کروا کے وزارت عظمیٰ کی کرسی کو ایک مذاق بنا دیا. کہتے ہیں کہ اس پر بھارتی وزیراعظم نہرو نے کہا تھا کہ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی تیزی سے پاکستان میں وزیراعظم بدلتے ہیں. اسکندر مرزا کا پہلا شکار وزیراعظم محمد علی بوگرہ تھے. جنھیں ہٹا کرایک بیوروکریٹ چودھری محمد علی کو وزیراعظم بنایا گیا. لیکن یہ ساتھ بھی ایک سال سے زیادہ نہ چل سکا اور انیس سو چھپن میں انہیں بھی گھربھیج دیا گیا. چوہدری محمد علی کی جگہ حسین شہید سہروردی کو وزیراعظم بنایا گیا. لیکن جب حسین شہید سہروردی نے اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو اسکندر مرزا نے انہیں بھی اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا. سہروردی کی جگہ ابراہیم اسماعیل چندریگر جنہیں آئی آئی چندریگر بھی کہا جاتا ہے، وزیراعظم بنے. لیکن صرف دو ماہ بعد انہیں بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا
ان کی جگہ ملک فیروز خان نون پاکستان کے ساتویں وزیراعظم بنے. اور یہ پہلے وزیراعظم تھے جن کا تعلق پنجاب سے تھا. اس سے پہلے جتنے بھی وزرائے اعظم یا گورنر جنرل آئے ان میں قائداعظم کو چھوڑ کر باقی سب مشرقی پاکستان سے تھے یا مہاجر تھے. وزیراعظم فیروز خاں نون نے گوادر کی بندرگاہ پاکستان میں شامل کیا. یہ بندرگاہ برطانوی دور میں عرب سلطنت اومان کو دی گئی تھی. ملک فیروزخان نون نے اومان کو ایک کروڑ ڈالر کی رقم ادا کی اور گوادر کو

پاکستان میں شامل کر لیا. کہتے ہیں کہ نواب اکبربگٹی نے مذاکرات میں اہم کردارادا کیا تھا
جن وزرائے اعظموں کو اسکندر مرزا اپنی تفریح طبع کے لیے آئے روز فارغ کر رہے تھے. انھی میں سے ایک چودھری محمد علی تھے جنہوں نے جاتے جاتے بھی پاکستان کا 1956 کا آئین ہیں مکمل کر دیا. پاکستان کے اسی پہلے آئین کے تحت اسکندر مرزا گورنر جنرل سے پاکستان کے پہلے صدر بنے. اور پاکستان اسی آئین کے تحت ملکہ برطانیہ کے تسلط سے پوری طرح نکل کر ایک آزاد اور خود مختارملک بن گیا. ادھر آئین بنا ادھر ملک میں انتخابات کا ماحول پیدا ہو گیا. یہ بات پاکستان کے لیے خوشی کا باعث تھی لیکن اسکندر مرزا اور جنرل ایوب کے لیے یہ بڑے دکھ کی بات تھی. مرزا اور ایوب دونوں جانتے تھے کہ اگر انہوں نے الیکشن سے پہلے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو آج کے بعد وہ پاکستان میں
اقتدار کے مزے کبھی نہیں اٹھا سکیں گے۔ کیونکہ ایوب خان ریٹائر ہونے والے تھے اور سکندر مرزا نئی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے قابل نہیں تھے ایسے میں انہوں نے وہی کیا جو خوفزدہ آمر کیا کرتے ہیں. سات اکتوبر انیس سو اٹھاون کو اسکندر مرزا نے حکومت برطرف اور آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کا اعلان کر دیا. سکندر مرزا باوردی فوجی نہیں تھے. اس لیے تاریخ کا یہ ریکارڈ درست رہنا چاہیے کہ پاکستان میں پہلا ملک گیر مارشل لا فوج نے نہیں بلکہ بنگال سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹ صدر نے لگایا. انہوں نے اپنی سازشوں کے طاقتور ساتھی جنرل ایوب کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا. جنرل ایوب نے جب دیکھا کہ اسکندر مرزا کا اقتدار اور مارشل لا تو انھی کے سہارے قائم ہے. تو انھوں نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے بے دخل کر کے جلا وطن کردیا. ایوب خان نے قوم سے خطاب کیا، ملک گیر مارشل لا کا باقاعدہ اعلان کیا اور یوں پاکستان میں جمہوریت کی جگہ میرے عزیز ہم وطنو کی شروعات ہو گئی. شجاع نواز نے اپنی کتاب کراس سورڈز میں لکھا ہے کہ جنرل ایوب کو پاکستان پر مسلط کرنے والے بھی اسکندر مرزا تھے. کیونکہ جب پاکستان میں انگریز جنرل کی جگہ مقامی جنرل کو آرمی چیف بنانے کی بات چل رہی تھی. تو اسکندر مرزا وزیراعظم لیاقت علی خان کے سیکرٹری دفاع تھے. انھوں نے ہی وزیراعظم کو قائل کیا کہ جونئیر موسٹ جنرل ایوب خان کو پرموشن دے کر آرمی چیف بنایا جائے. شاید یہی وجہ تھی کہ اسکندر مرزا سمجھتے تھے جنرل ایوب ان کے احسانات تلے دبے رہیں گے. لیکن وہ یہ بھول گئے کہ طاقت کی جنگ میں اخلاق نامی کوئی ہتھیار نہیں ہوتا. اسکندرمرزا کی بدقسمتی دیکھئے کہ کبھی وہ پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک تھے. ہر چند ماہ بعد اپنے موڈ کے مطابق وزیراعظم تبدیل کر دیتے تھے
اور پھر یوں ہوا کہ جلاوطنی کے بعد انھیں وطن کی مٹی بھی نصیب نہ ہوئی. اسکندر مرزا نے انیس سو انہتر میں لندن میں وفات پائی اور ایران کے دارلحکومت تہران میں دفن ہوئے. جب تک زندہ رہے انھیں ملکہ برطانیہ سے وظیفہ ملتا رہا کیونکہ وہ اسی کے وفادار تھے. اب پاکستان میں اسکندر مرزا کا نہیں جنرل ایوب کا دور شروع ہو چکا تھا۔

59b3dadb9e03b

لیاقت علی خان کی موت اور پاکستان کی سیاست میں فوجی اثرات ایک ملت کی غمگین کہانی حصہ دوم

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلم لیگ نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کے نتائج خطرناک ثابت ہوئے. لیاقت علی خان کی جگہ ایک متحرک شخص کی ضرورت تھی جو پاکستان کا آئین بھی تشکیل دے اور ملکی معاملات بھی سنبھالے. اس لیے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو وزیرعظم کا عہدہ دے دیا گیا. گورنر جنرل کے پاس برطانیہ کے دئیے ہوئے کافی اختیارت تھے لیکن رسمی طور پر وہ انھیں استعمال نہیں کرتا تھا. اس لیے وزیرخزانہ ملک غلام محمد کو بے ضرر سمجھتے ہوئے گورنرجنرل بنا دیا گیا. فالج کے مریض ملک غلام محمد بیوروکریٹ تھے

قیام پاکستان کی جدوجہد سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا. اسی لئے وہ عوامی امنگوں کو سمجھنے سے سراسر قاصر تھے

اس پر مزید یہ کہ فالج کے باعث ان کی گفتگو کسی کی سمجھ نہیں آتی تھی. ان کی امریکی سیکرٹری ترجمے کے فرائض سرانجام دیتی تھی

اس وقت پاکستان کا آئین نہیں بنا تھا اور پاکستان کو1935 کے برطانوی ایکٹ کے تحت چلایا جا رہا تھا. اس ایکٹ میں گورنر جنرل کے پاس کافی اختیارات تھے. گورنر جنرل غلام محمد نے فادر آف دا نیشن بننے کے بجائے اس ایکٹ سے فائدہ اٹھایا. اور اپنے اختیارات کا کھل کر جائز اور ناجائز استعمال کیا. ان کے دور میں پاکستان میں دو بڑے اہم واقعات ہوئے. ایک یہ کہ مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان کی حمایت کرنے والوں پرگولیاں برسائی گئیں. دوسرا یہ کہ احمدیوں کے خلاف چلنے والی تحریک کو کچلنے کے لیے لاہور میں مارشل لاء نافذ کیا گیا

اور یہ لاہور کی سطح تک نافذ ہونے والا مارشل لا پاکستان کا پہلا مارشل لا تھا. اس پر بس نہیں بلکہ غلام محمد نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو بھی برطرف کردیا۔. خواجہ ناظم الدین نے ملکہ برطانیہ سے اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی اپیل کی. لیکن بدقسمتی دیکھئیے کہ برطانیہ جو خود کو قدیم ترین جمہوریت کہتا ہے اس نے یہ جمہوری درخواست ماننے سے انکار کر دیا

ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی جگہ امریکہ میں پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم بنا دیا. اگلے برس یعنی 1954 میں غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو بھی برطرف کر دیا. حالانکہ اس وقت پاکستان کے پہلے آئین کا مسودہ تقریباً تیار ہو چکا تھا

کہا جاتا ہے کہ اسمبلی توڑنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ نئے آئین میں گورنرجنرل کے اختیارات کافی کم کرنے کی تجاویز تھیں. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس فیصلے میں انہیں آرمی چیف جنرل ایوب خان کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ستم بالائے ستم یہ کہ غلام محمد کے دور میں حاضر سروس آرمی چیف جنرل ایوب خان کو وزیردفاع بھی مقرر کردیا گیا. اور یوں اقتدار کے ایوانوں میں فوجی بوٹوں کی گونج سنائی دینے لگی

download (49)

قائداعظم کی وفات سے لیاقت علی خان کی وفات تک کا سفر, ایک ملت کی غمگین کہانی حصہ اول

انيس سو اڑتاليس میں ایک طرف پاکستان بے سروسامانی کے عالم میں حالت جنگ میں تھا دوسری طرف بانی پاکستان شدید بیمار ہو گئے لیکن بیماری بھی انھیں گورنر جنرل کی حیثیت میں پاکستان کی خدمت کرنے سے نہیں روک سکی. قائداعظم کو انتہائی خطرناک حالت میں بلوچستان کے شہر زیارت سے کراچی لایا گیا آپ ائرپورٹ پر اترے تو بیماری سے نڈھال تھے لیکن انھیں اس حالت میں لے جانے کیلئے ایک کھٹارا سی ایمبولینس بغیر نرس کے بھیج دی گئی. ایمبولینس قائداعظم کو ان کی رہائش گاہ تک پہنچانے سے پہلے ہی راستے میں خراب ہو گئی. جب دوسری ایمبولینس منگوائی گئی تو اس دوران ایک گھنٹے کا وقت لگ گیا جس میں محترمہ فاطمہ جناح بیمار بانی پاکستان کو ہاتھ کاپنکھ

جھلتی رہیں. اس سوال کا جواب آج کسی کے پاس بھی نہیں کہ خراب ایمبولینس بھیجنا ایک سازش تھی یا ایسا ایک بے سروسامانی سے لڑتی ریاست میں کمیونیکشن کے گیپ کی وجہ سے ہوا. ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ قائداعظم کی آمد کے بارے میں لیاقت علی خان آگاہ ہی نہیں تھے. یہ عذر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اس وقت پورے کراچی میں صرف دو ایمبولینسز تھیں

جن میں سے ایک کو قائداعظم کیلئے بھیج دیا گیا شاید یہ کمیونیکشن کی تاریخی غلطی ہو لیکن بہت سے لوگ آج بھی یہ مانتے ہیں کہ خراب ایمبولینس بھیجنا دراصل ایک سوچی سمجھی سازش تھی قائداعظم جب گھر پہنچے تو بیماری سے بری طرح نڈھال ہو چکے تھے۔ آخری وقت میں ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور ذاتی معالج کے سوا ان کے ساتھ کوئی دوسرا موجود نہیں تھا وہاں موجود لوگوں کے مطابق ان کے آخری الفاظ تھے

اللہ

پاکستان

انھوں نے یہ کہا اور جان جان آفرین کے سپرد کر دی قائداعظم کے جنازے میں چھے لاکھ لوگ شریک ہوئے. قائداعظم کی وصیت کے مطابق ہی ان کی نماز جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی. اور خواجہ ناظم الدین کو پاکستان کا دوسرا گورنر جنرل نامزد کردیا گیا.

لیاقت علی خان کو کس نے مارا؟

ادھر قائداعظم جہان فانی سے رخصت ہوئے ادھر حکومتی ایوانوں میں روایتی سازشیں جنم لینے لگیں اس سارے

گرداب کو اگر کوئی شخص قائداعظم کے بعد سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا تھا وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاق علی خان تھے. بانی پاکستان کے بعد لیاقت علی خان مختار کُل ہو گئے اور پاکستان کی قسمت کے اہم ترین فیصلے کرنے لگے.اس وقت ایک طرف پاکستان کا آئین تشکیل پا رہا تھا اور دوسری طرف پاکستان کو اپنی تاریخ کا ایک اور اہم ترین فیصلہ کرنا تھا یہ فیصلہ تھا روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں کسی ایک کا اتحادی بننا یا غیر جانب دار رہنا. پاکستان نے یہ تاریخی فیصلہ امریکہ کے حق میں کیا حالانکہ پاکستان کے پاس بھارت کی طرح غیرجانبدار رہنے کا آپشن بھی موجود تھا لیاقت علی خان کو سوویت یونین کے رہنما جوزف اسٹالین اور امریکی صدر ہیری ٹرومین دونوں کی طرف سے دعوت تھی لیکن انھوں نے ماسکو کے بجائے واشنگٹن جانے کو ترجیح دی. واشنگٹن میں حسب توقع ان کا پرتپاک استقبال ہوا اس دورے سے سوویت یونین یعنی اس دور کے روس اورپاکستان کے تعلقات بگڑ گئے. امریکا سے دوستی کی وجہ سے پاکستان عالمی سیاست اور سرد جنگ کی بھول بھلیوں میں الجھ کررہ گیا

جس کے نتیجے میں اس کی سالمیت اور خودمختاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا. سب سے بڑا نقصان تو یہ تھا پاکستان آزادنہ خارجہ پالیسی کے راستے سے ہٹ گیا اور عالمی طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہونے لگا

لیاقت علی خان کے دور اقتدار کا آخری سال کافی ہنگامہ خیز رہا۔ 1951 میں میجر جنرل اکبرخان نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی. یہ کوشش ناکام رہی اوراس کے تمام کرداروں کوگرفتارکرلیا گیا. پاکستانی تاریخ میں حکومت کا تختہ الٹنے کی یہ پہلی غیر سیاسی کوشش تھی. 16 اکتوبر1951 کے دن لیاقت علی خان راولپنڈی میں مسلم لیگ کے جلسے سے خطاب کرنے سٹیج پر آئے. جلسے کے شرکاء میں کھڑے سید اکبر نے وزیراعظم پر گولی چلا دی. گولی سینے میں لگی اور پاکستان کا پہلا وزیراعظم ہزاروں لوگوں کے درمیان دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان کے آخری الفاظ تھے

۔۔۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔۔ اس قتل کی تفتیش کیلئے جو پہلا ثبوت میدان میں موجود تھا

یعنی گولی چلانے والا سید اکبر اسے موقعے پر ہی پولیس نے ہلاک کر دیا. اس قتل کی تفتیش انتہائی غیرسنجیدگی سے کی گئی

جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جب لاہور ہائیکورٹ نے قتل کیس کی فائل پیش کرنے کا حکم دیا

تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے حیرت انگیزجواب دیا. اس نے کہا ’’مائی لارڈ لیاقت علی خان قتل کیس کی فائل گُم ہو گئی ہے۔‘‘

اس قتل کی پوری تفتیش تو کبھی نہ ہو سکی لیکن اخباروں میں ایسی خبریں چھپتی رہیں کہ لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے امریکہ اور افغانستان کا ہاتھ ہے. سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے پہلے سیاسی قتل کی تفتیش درست انداز میں کر لی جاتی اور قانون کے مطابق سزائیں دی جاتیں تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی. لیاقت علی خان کا دنیا سے اٹھنا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم کی کرسی ایک مذاق بن کر رہ گئی. جس پر کٹھ پتلیاں لائی جاتیں اور گرائی جاتیں. اس پر ستم ظریفی یہ کہ یہ کٹھ پتلیاں چلانے والا ایک معذور اور مفلوج شخص تھا جو بدقسمتی سے پاکستان کا مختار کل بنا دیا گیا تھا

download (50)

“The Line project: Saudi Arabia’s Ambitious Mega City Project – Vision or Mirage?”

Introduction:

When it comes to big projects, Saudi Arabia has its sights set on one truly amazing project: The Line. This futuristic city, which is 500 metres tall and covers 170 kilometres, aims to transform urban living. The Line, which is expected to be completed in 2045 and could cost up to a trillion dollars, raises a number of concerns regarding technology, viability, and possible global effects.

The Context:

It’s important to understand Saudi Arabia’s broader background before analysing The Line. The country, well-known for its wide deserts and economy reliant on oil, is sincerely working to diversify. This is demonstrated by the Saudi Vision 2030 initiative, which seeks to change the economic environment of the nation. Part of this vision is NEOM, the smart city where The Line is located. Its purpose is to lead Saudi Arabia into a post-oil future.

The Concepts and Design:

The Line is more than just a city; it’s a straight marvel between two incredibly tall skyscrapers that are covered in outside mirrors. This architectural approach, which is evocative of the Arcology concept of the 1960s, aims to create an efficient and low-impact city. The fundamental idea is known as “Zero Gravity Urbanism,” which encourages three-dimensional mobility and a pedestrian-focused way of life. The city’s appeal is increased by the promise of 100% renewable energy, cutting-edge transit, and smooth artificial intelligence integration.

The attainable Advantages:

Given that The Line is close to the Red Sea and the Suez Canal, which handle 13% of world trade, supporters emphasise the hub’s potential as a trading hub. In addition, the developers guarantee a tiny, self-sufficient city with green areas, climate control, and convenient access to everyday needs. Furthermore, the possible economic diversification fits in with Saudi Arabia’s overarching objectives.

Technical challenges:

The vision is impressive, but there are questions about its technological viability. With speeds over 500 km/h, the proposed high-speed transport system pushes the boundaries of existing technology. Likewise, uncertainties are introduced by the building of 500-meter-tall mirrors and other unprecedented features. The viability of these ideas and whether current technologies can actually support such aspirations are questioned by sceptics.

Environmental Concerns:

Despite The Line’s claims of having little environmental effect, some contend that the construction of two 500-meter glass-covered towers is essentially carbon-intensive. The construction process alone could release 1.8 billion tonnes of carbon dioxide, or the equivalent of the UK’s emissions over four years, making the claim of sustainability incongruous with the massive resources needed for the project. Environmentalists are worried about how it will affect wildlife, particularly migratory birds.

Economic Viability and Foreign Investment:

The project’s enormous cost is one of its main obstacles. The project is financed by the Public Investment Fund of Saudi Arabia and is financially risky due to its reliance on oil revenues for economic stability. There are estimates that the initial $500 billion allocation may not be sufficient, resulting in an astounding $1 trillion cost. It is becoming more and more important to draw in foreign investment, but reports indicate that finding international business partners can be difficult.

Conclusion:

In conclusion, The Line is stunning in its utopian vision, but it is still unclear how realistically achievable it will be. The fate of this ambitious project lies in its intersection with financial stability, technological feasibility, environmental responsibility, and public acceptance. Only then can it either become a shining example of progress or fade into the realm of unfulfilled dreams. The world is waiting to see if The Line turns into a game-changing reality or a mirage in the vast Saudi landscape as we watch this futuristic endeavour unfold.