FB_IMG_1699604242991

سر کی بیماریاں اور اس کا علاج

سر کی بیماریوں میں سردرد، درد شقیقہ دردعصابه، دردال ، ضعف دماغ نزله زکام سرسام ، نسیان، مرگی، جنون، القوه ، مالیخولیا اور فالج وغیرہ شامل ہیں جن بیماریاں کا علاج میرے ناقص علم کے مطابق بلاقیمت ممکن ہے وہ ذیل میں درج ہے۔

درد شقیقہ

یہ ایک قسم کا نوبتی سر درد ہے جو اکثر سر کے نصف حصہ طولانی میں ہوتا ہے۔ بعض افراد کو یہ مرض ورثہ میں ملتی ہے۔کبھی کبھار نہ لہروزکام سے بگڑکر بھی ہو جایاکرتا ہے۔ درد شقیقہ میں سر گھومتا ہے اور اس میں سےچنگاریاں سی نکالتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ کنپٹیوں کی رگیں زور نہ درد سے تڑپنے لگتی ہیں متلی محسوس ہوتی ہے اور اتناشدید سردرد ہوتا ہے کہ سر پھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور روشنی سے وحشت ہوجاتی ہے۔

درد شقیقہ کا علاج

جس کے ایک ہی دفعہ ناک میں ٹپکانے سے درد کو فاقہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ هو الشافی : نمک دیسی دو ماشہ، پانی دو تولہ ہر دو کو کھرل کریں اور تھوڑا عرصہ خوب کھرل کر کے دو چار منٹ بعد پانی نتھار کر شیشی میں سنبھال کر رکھ لیں اور بوقت ضرورت ناک میں ٹپکائیں درد موقوف ہوگا۔ مجرب ہے۔

دماغ کے کیڑے اور اُن کا اِخراج

دماغ انتہائی نازک عضو ہے اس کی خرابی پورے بدن انسانی کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ خصوصاً دماغی کپڑے تو بے حد تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ ان سے سر میں اس شدت کا درد ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ ۔ ذیل میں کیڑوں کو خارج کرنے کے لیے چند اعلیٰ قسم کے مگر مفت میں تیار ہونے والے نسخہ جات پیش خدمت ہیں۔

کسوندی کا پودا تلاش کرنے سے باغوں میں باآسانی دستیاب ہو جاتا ہے یہ پودا انعامات خداوندی میں سے ہے اس کے بیشمار فائدے ہیں۔جس میں سے ایک فائدہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔

ھو الشافی : کسو ندی کے پتوں کو مہندی کی طرح گھوٹ کر موٹے سفید کاغذ پر لیپ کریں۔ اور خشک کرنے کے بعد کاغذ کو لپیٹ کر سگریٹ جیسی صورت بنالیں اور ایک طرف آگ لگا کہ مریض کو کش لگانے کی ہدایت کریں ۔ اور اس سے کہیں کہ وہ دھواں بجائے منہ کے ناک کی راہ نکلا ہے ۔ اس طرح وہ سگریٹ ختم کردے دوسرے اور تیسرے روز یہی عمل کرنے کی تاکید کریں۔ ان شاء اللہ تین روز کے مسلسل استعمال سے تمام کپڑے مردہ ہو ہو کر ناک کی راہ جھڑ جائیں گے اور مریض کی جان جو کیڑوں کی وجہ سے ایک دردناک عذاب میں مبتلا تھی آرام اور صحت حاصل کرلے گی خدا بچائے یہ بہت موذی بیماری ہے۔ دماغ پھٹنے کو آجاتا ہے۔

بہت ہی پرانا جوتا جلا کر راکھ بنا لیں اور باریک پیس کر کام میں لائیں۔ تھوڑے تھوڑے روٹی کے ٹکرے مٹی کے تیل سے تر کریں۔ اور ان کو ناک کے نتھنوں میں رکھ دیں ۔ تین چار روزہ یہ عمل کرنے سے کرم مردہ ہو کہ نکل جائیں گے۔

هو الشانی : نیاز بو کا پانی لے کر مریض کے تھنوں میں ایک ایک بوند ڈال کہ اسے کہیں کہ وہ اوندھا لیٹ جائے۔ بفضلہ کپڑے مرکز ناک کی راہ نکل جائیں گے نخواہ کتنے ہی کرم دماغ میں ہوں نسوار کے سو جھتے ہی فورا کرم خارج ہو جاتے ہیں

FB_IMG_1699604689423

دل کی بیماریاں اور اس کا علاج

دل اعضائے انسانی کا بادشاہ ہے ۔ اس لیے اس کے متبلا کے رض ہونے پر قیمتی اور خوشبو دار دوائیں دینا پڑتی ہیں۔ مثال کستوری۔ مروارید – عنبر ۔سونا۔ چاندی وغیرہ جن کا حصول تو کجا غربا کو ان کا ایک نظر دیکھنا بھی محال ہے ۔ مگر یاد رہے۔ انسانوں کا خالق اللہ فقط امیروں کا ہی خدا نہیں وہ غریبوں کا بھی دالی ہے۔ اس لیے اول تو غریب لوگ دل کی بیماریوں میں بہت ہی کم مبتلا ہوتے ہیں۔ آئے دن بڑے بڑے امیروں کے دل فیل ہو کر مرنے کی خبریں سننے میں آتی ہیں۔ بڑے بڑے رئیسوں کو ہی دل کے دورے وپڑتے ہیں ۔ غریبوں کو رحیم وکریم مولی نے ایسی بماریوں ہے بہت تک بچا رکھا ہے غریبوں کو ان کی محنت اور مشقت کے نتیجہ میں جو سچی بھوک لگتی ہے ۔ اور انہیں معمولی روکھی سوکھی روٹی اور چینی وغیرہ میں جو مزہ آتا ہے وہ امیروں کو کہاں نصیب اور پھر اُن کو رات کے وقت جو گہری نیند آتی ہے اس کا عشر عشیر بھی امراء کو نصیب نہیں ہوتا ۔ لیکن اس کے باوجود اگر کبھی کبھار کسی غریب کو بھی دل کی کسی بیماری میں مبتلا پائیں تو اُن کے لیے اپنے تجربہ اور مشاہدے میں آنے والی چند بلاقیمت ادویات درج کرتے ہیں ان کے فوائد ملاحظہ فرمائیے۔ ان شاء اللہ قیمتی یاقوتیوں کا کام دیں گی۔

سنگترے کا چھلکا :

هو الشانی: طبیبوں کے باوا آدم جناب شیخ الرئیس بو علی سینا مرحوم نے دل کی بیماریوں کی جو قیمتی اکسیریں بیان کی ہیں ان میں سنگترہ کا چھل کا بھی شمارہ کیا ہے ۔ آپ لوگ موسم میں جمع کر کے اور سایہ میں خشک کر کے رکھ لیں اور بوقت ضرورت اس کا عرق کشید کر کے یا بطور سفوف دے کر اس کے فوائد کا مشاہدہ کریں۔ اور راقم السطور کو دعائیں دیں۔

گاجر

سیب ایک ایسا پھل ہے جس کے متعلق تقریباً تمام ڈاکٹر حکیم دل کی بیماریوں کے لیے اکسیر قرار دیتے ہیں۔ سیب کی قاشیں بناکر کھلانا سیب کا مربہ استعمال کرانا سیب کا شربت بنا کر پلانا یہ ہر طرح مفید ہی مفید ہے ۔ مگر غریبوں کو سیب کا حصول بھی محال ہے ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا سیب عطا کر رکھا ہے۔ میری مراد گاجر سے ہے۔ خصوصاً وہ گاجر جوندر و سرخی مائل ہوتی ہے ۔ وہ دل کے لیے ہے حد مفید ہے ، غریبوں سے ہمدردی رکھنے والے طبیب حضرات کو چاہئیے ۔ کہ وہ گاجر کو اس کے موسم میں لے کر سایہ میں خشک کر لیں ۔ اور سفوف بنا کر رکھ چھوڑیں اور پھر اس موسم میں جس میں گاجر دستیاب نہیں ہوتی اس کا عرق کشید کر کے استعمال کرائیں گلاب کے عرق کی طرح اگر اسے دو آتشہ اور سہ آشہ خالیا جائے تو سبحان اللہ اس کے سامنے سیب کے مرکبات پیچ ہو کر رہ جائیں گے۔

دھنیا

کوئی غریب سے غریب گھر بھی اس نعمت عظمی سے خالی نہیں ہوتا کسی اللہ کے دانا بندے نے مرچوں کے ضرر سے بچنے کے لیے اس کو شامل مصالحہ کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے مرچوں کے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ ننھے ننھے بیج بھی دل کی انجر بیماریوں کے لیے جو گرمی کی نہ یادتی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں مفید ہیں۔ شیخ الرئیس نے اپنی کتاب میں اسے بھی اکسیر قلب گردانا ہے۔ آپ اس کا عرق کشید کر کے یا مصفوف نا کر استعمال کرائیں۔ اس کا شربت بھی بنایا جاسکتا ہے۔ موسم گرما میں کوئی دوسرا مشروب پینے کی بجائے اسے پلایا جائے۔

دوائے دل : :

دل کی بیماری کا علاج کوئی دل والا ہی کہ اسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے بعض معمولی معمولی دواؤں میں خوب اثر رکھا ہے۔ چنانچہ بانی طلب مرحومہ کا ایک معمول پیش خدمت ھو الشافی مکئی کے بھٹے سے دانے نکال کر استعمال میں لائیں اور خالی خولی بٹھے کو جلا کر راکھ بنا لیں بس یہی دوائے دل ہے۔ سبحان اللہ۔

تی کی مقدار میں لے کر مکھن میں ملا کر چٹائیں اور موتیوں والا کام لیں۔

FB_IMG_1698140720290

سفر معراج کا واقعہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کا واقعہ

اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا منفرد اعزاز عطا فرمایا جس سے کبھی کسی انسان کو نہیں نوازا گیا۔ یہ سفر معراج کا شرف تھا جس میں اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انعامات واکرامات کی بارش کر دی گئ

معراج کا پہلا مرحلہ مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ تک

حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں سورہے تھے کہ فرشتوں کے سردار جبرئیل علیہ السلام کا آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ان کے ساتھ گھوڑے سے ملتا جلتا ایک پردار جانور تھا جسے “براق“ کہا جاتا تھا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر سوار کرایا اور ہم رکاب ہو کر آپ کو مسجد الحرام سے شام کی طرف لے چلے۔ براق کی رفتارکا یہ عالم تھا کہ جہاں نگاہ پہنچتی وہیں قدم جا پڑتا۔ سفر کا یہ پہلا مرحلہ جسے “اسراء” کہا جاتا ہے، بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ پر ختم ہوا جہاں حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسی علیہ السلام تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ان سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کی اور یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امام الانبیا ہو نے کا عملی مظاہرہ ہوا۔ یہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا، جسے “معراج کہا جاتا ہے۔

سفر معراج کا دوسرا مرحلہ مسجد اقصیٰ سے آسمان تک

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جیرائیل علیہ السلام کے ساتھ آسمان کی بلندیوں پر پہنچے۔ یکے بعد دیگرے آپ نے ساتوں آسمانوں کی سیر کی۔ ہر آسمان کے دروازے پر فرشتوں نے آپ کا خیر مقدم کیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت عیسی و حضرت یحییٰ علیہ اسلام، تیسرے پر حضرت یوسف ، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام ، چھٹے پر حضرت موسی علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقاتیں ہوئیں۔ حضرت ابراہیم علینہ بیت المعمور کے دروازے کے سامنے بیٹھے تھے جو کعبتہ اللہ کے عین اوپر واقع ہے، روزانہ ستر ہزار نئے فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ اور اس میں نافرمانوں کو دیے جانے والے مختلف عذابوں کا مشاہدہ کر لیا گیا ، اسی طرح جنت اور اس کی نعمتیں بھی دکھائی گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سدرة المنتہی تک پہنچے جو عرش الہی کے نیچے بیری کا ایک مقدس درخت ہے جس پر فرشتوں کا ہجوم رہتا ہے۔ آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی خاص بارگاہ میں پہنچے اوراللہ تعالی کا ویسا دیدار کیا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت مسلمہ کے لیے پچاس فرض نمازوں کا تحفہ دیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمی کی درخواست پیش کی ، آخر کم کرتے کرتے اللہ تعالیٰ نے فقط پانچ نمازیں فرض باقی رہنے دیں اور ثواب پوری پچاس نمازوں کے برابر عطا فرمانے کی خوش خبری دی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کے بعد پورے احترام کے ساتھ آپ کے بستر پر پہنچایا گیا۔ اس دنیا میں تب تک اتناتھوڑا سا وقت گزرا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ابھی تک گرم تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج کہ واقعہ کا ذکر اور مشرکین کے مزاق

صبح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعے کا ذکر کیا تو مشرکین نے حسب عادت مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ ابو جہلل نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو طعنہ دیتے ہوئے کہا: ” تمہارا ساتھی کہتا ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس اور آسمانوں کی سیر کر آیا ہے، کیا تم اسے بھی سچ مانتے ہو؟

سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بلا تامل کہا: ہاں ! میں ان کی بات کو بہر حال بی مانتا ہوں۔“ غرض مسلمانوں نے اس واقعے کی تصدیق کی اور اللہ پر ان کا ایمان مزید مضبوط ہو گیا۔ پانچ نمازوں کے اہتمام نے اللہ سے ان کے تعلق اور قرب میں اضافہ کر دیا۔ معراج کا یہ واقعہ حالت بیداری اور ہوش کا ہے خواب نہیں۔ اگر خواب ہوتا تو اسے ایک معجزہ اور عجیب واقعے کے طور پر بیان نہ کیا جاتا، نہ مشرکین اس کا مذاق اڑاتے ، کیوں کہ خواب میں تو آدمی کچھ بھی دیکھ سکتا ہے

معراج کی واقعہ کی حقیقت

ہر قسم اسلامی تاریخ کے لیےAlkhroof.com پر کلک کریں شکریہ

FB_IMG_1698140700597

تاریخ اُمَّتِ مسلمہ تاریخ ماقبل از اسلام از تخلیق آدم علیه تا رفع عیسی علی

یہ دنیا کسی بنی(دنیا کی تخلیق)

دنیا کی حقیقت

یہ دنیا اتنی ہی عجیب ہے جتنی ہماری یہ زندگی اور جسم وجان ۔ ہم گوشت پوست کا ایک جسم ہیں جو سوچتا، ہوتا اور حرکت کرتا ہے، جس میں اک چھوٹا سا دل ہماری پیدائش سے لے کر آج تک کسی وقفے کے بغیر دھڑکتا چلا آرہا ہے، جس میں ہزاروں میل لمبی بال جیسی باریک شریا نہیں ایک ایک خلیے کو خون فراہم کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ ہمارے یہ وجود سو برس پہلے یقینا نہیں تھے اور سو برس بعد یقینا نہیں ہوں گے ۔ پس جس طرح ہم فانی ہیں ، اس طرح یہ دنیا بھی ایک عارضی مقام ہے جو ہمیشہ تھا، نہ رہے گا، مگر اس عارضی مقام کو بھی کس قدر بالغ حکمتوں، عجیب نزاکتوں اور بھر پور انتظامات کے ساتھ بنایا گیا ہے، جتنا سوچنے اور تحقیق کیجئے عقل دنگ ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ سوال پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اُبھرتارہتا ہے کہ آخر یہ دنیا کس نے بنائی اور اس کا مقصد کیا ہے؟

دنیا کس نے بنائی اور اس دنیا کا مقصد

جو لوگ ان سوالات کے جوابات کے لیے وحی کی رہنمائی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور غیب پر یقین کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ ہمیشہ اس بارے میں شکوک وشبہات ہی کا شکار رہے ہیں اور کوئی بھی تحقیق انہیں یہ معمہ حل کر کے نہیں دے سکتی۔ ہاں جو بندے خالق کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، رسولوں کی حیثیت تسلیم کرتے ہیں اور آسمانی تعلیم کی ضرورت کو مانتے ہیں، ان کے لیے یہ سوالات بھی معما نہیں رہے؟ کیوں کہ ہر نبی کی ابتدائی تعلیمات اِن سوالات کے جوابات دیتی ہیں۔ یہ دنیا ایک اللہ نے بنائی ہے، وہی خالق کا ئنات ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ، اس کو کسی نے پنہیں بنایا، اس کی کوئی اولاد نہیں۔ وہ سب کچھ جانتا ہے، ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے، اس نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے، اس دنیا کو آزمائش کی جگہ بنایا ہے، کامیاب لوگوں کے لیے انعام کے طور پر جنت تیار کی ہے اور نا کام لوگوں کو سزادینے کے لیے جہنم کو شعلہ زن کیا۔ یہ ہیں موت وحیات کے اسرار کے متعلق وہ حقائق جو گزشتہ کتب آسمانی میں بھی موجود تھے اور اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ چیزیں عقائد سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کو جانے بغیر انسان کی بے چین روح کبھی مطمئن نہیں ہوسکتی، اس لئے انہیں وحی الہی نے خود کھول کھول کر بیان کیا ہے

کچھ ایسے سوالات بھی ہیں جن کا محرک معلومات کا شوق اور آگہی کا ولولہ ہے۔ انسان کا ذوق تجسس اسے آمادہ کرتا ہے کہ وہ ان باتوں کا پتا چلائے کہ ان کے آباؤ اجداد کون تھے، کیسے تھے؟ ان سے پہلے کون لوگ آباد تھے، دنیا کب سے آباد چلی آرہی ہے، اس پر کون کون سی تو میں آئیں؟ ان کی تہند میں کیا تھیں؟ رہن سہن کیسا تھا؟ یہ سوالات تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سے بعض کے جوابات اللہ کی کتابوں اور رسولوں کے کلام میں مختصراًمل جاتے ہیں۔ ماضی کا شعور انسان کی نظریاتی ، روحانی علمی اور عملی تربیت کے لیے بہت مفید ہے، اس لیے وحی اور رسولوں کے کلام میں ہمیں ماضی کے متعلق بہت سے حقائق مل جاتے ہیں مگر وحی اور رسالت کا اصل مقصد انسانوں کی ہدایت ہے نہ کہ گزشتہ لوگوں کے حالات جمع کرنا۔ اس لیے ماضی کے تفصیلی حالات جانے کے لیے ہمیں اس علم کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جس میں ہر دور کے اہم حالات کو مرتب کیا جاتا ہے، یہی علم علم تاریخ کہلاتا ہے۔ علمائے تاریخ کے مطابق: ” تاریخ وہ علم ہے جس میں گزشتہ قوموں ،حکومتوں ہلکوں اور غیر معمولی شخصیتوں کے حالات کو زمانے کے لحاظ سے ترتیب وار جمع کیا جاتا ہے

دنیا کب بنی

یہ قضیہ شروع سے متنازعہ چلا آ رہا ہے کہ دنیا کب بنی اور نسل انسانی کا وجود کب سے کب سے ہوا؟ ۔ دور حاضر کے ماہرین ارضیات تو زمین کے وجود کو کروڑوں سال اور انسانی وجود کوئی کھوں سال پہلے قرار دیتے ہیں مگر یہ صرف ایک قیاس ہے جس کی کوئی تاریخی روایت تائید نہیں کرتی۔ بر صغیر کے نامور مورخ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ریاللہ نے دنیا کی ابتدائے متعلق اہل علم کے اختلاف کا نہ کر کرتے ہوئے اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ ابتدائے آفرینش چھ ہزار سال پہلےہوئی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ لکھتے ہیں:اس مسئلے کا آخری فیصلہ مشکل ہے، اس لیے کہ ہمارے پاس علم کے وسائل بہت کم ہیں اور اس حقیقت کےآخری فیصلے کے لیے ناکافی ۔ نیز آثار قدیمہ سے بھی اس کا کوئی یقینی فیصلہ نہیں ہو سکتا ۔ البتہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اقوام عالم میں چینی ، ہندی اور مصری سب سے قدیم قومیں ہیں اور مؤرخین فرنگی کا یہ دعوی ہے کہ سطح زمین پران اقوام کا وجود تقریبا چھ اور دس ہزار سال کے درمیان ثابت ہے۔ نیز یہ امر بھی مسلم (تسلیم شدہ) ہے کہ باوجودزبر دست تحقیقات کے کسی قوم کے حالات و واقعات کی تاریخ کا پتا سات ہزار سال سے پہلے نہیں ملتا ،حافظ ابن عساکر رہانے نے اس بارے میں متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ انہوں نے محمد بن الحق سے نقل کیا ہے کہ حضرت آدم علی نے کام سے حضرت نوح ملانے کا تک ایک ہزار دو سو برس، حضرت نوح عالے سے حضرت ابراہیم ملانے تکایک ہزار بیالیس برس حضرت ابراہیم علینے کا سے حضرت موسیٰ ایک کا تک پانچ سو پینسٹھ برس، حضرت موسی علیت ام سےحضرت داؤ د میرے کلام تک پانچ سو بہتر برس، حضرت داؤد میں کام سے حضرت عیسی علیے کام تک تیرہ سو چھپن برس اور حضرت عیسی علیہ السلام سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک چھ سو برس گزرے ہیں۔ اس طرح حضرت آدم علی) کی وفات سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پانچ ہزار سال بنتے ہیں۔ چونکہ حضرت آدم علیہ السلام نے دنیا میں نو سو ساٹھ سال گزارے ہیں، انہیں شمار کیا جائے تو حضرت آدم علینا کی دنیا میں آمد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت تک چھ ہزار دوسو پچانوے سال بنتے ہیں ۔

Alkhroof.com

share this post

islamic hostrey book ke leya es number par masg krey 00923170587219