نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کا واقعہ
اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا منفرد اعزاز عطا فرمایا جس سے کبھی کسی انسان کو نہیں نوازا گیا۔ یہ سفر معراج کا شرف تھا جس میں اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انعامات واکرامات کی بارش کر دی گئ
معراج کا پہلا مرحلہ مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ تک
حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں سورہے تھے کہ فرشتوں کے سردار جبرئیل علیہ السلام کا آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ان کے ساتھ گھوڑے سے ملتا جلتا ایک پردار جانور تھا جسے “براق“ کہا جاتا تھا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر سوار کرایا اور ہم رکاب ہو کر آپ کو مسجد الحرام سے شام کی طرف لے چلے۔ براق کی رفتارکا یہ عالم تھا کہ جہاں نگاہ پہنچتی وہیں قدم جا پڑتا۔ سفر کا یہ پہلا مرحلہ جسے “اسراء” کہا جاتا ہے، بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ پر ختم ہوا جہاں حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسی علیہ السلام تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ان سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کی اور یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امام الانبیا ہو نے کا عملی مظاہرہ ہوا۔ یہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا، جسے “معراج کہا جاتا ہے۔
سفر معراج کا دوسرا مرحلہ مسجد اقصیٰ سے آسمان تک
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جیرائیل علیہ السلام کے ساتھ آسمان کی بلندیوں پر پہنچے۔ یکے بعد دیگرے آپ نے ساتوں آسمانوں کی سیر کی۔ ہر آسمان کے دروازے پر فرشتوں نے آپ کا خیر مقدم کیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت عیسی و حضرت یحییٰ علیہ اسلام، تیسرے پر حضرت یوسف ، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام ، چھٹے پر حضرت موسی علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقاتیں ہوئیں۔ حضرت ابراہیم علینہ بیت المعمور کے دروازے کے سامنے بیٹھے تھے جو کعبتہ اللہ کے عین اوپر واقع ہے، روزانہ ستر ہزار نئے فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ اور اس میں نافرمانوں کو دیے جانے والے مختلف عذابوں کا مشاہدہ کر لیا گیا ، اسی طرح جنت اور اس کی نعمتیں بھی دکھائی گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سدرة المنتہی تک پہنچے جو عرش الہی کے نیچے بیری کا ایک مقدس درخت ہے جس پر فرشتوں کا ہجوم رہتا ہے۔ آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی خاص بارگاہ میں پہنچے اوراللہ تعالی کا ویسا دیدار کیا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت مسلمہ کے لیے پچاس فرض نمازوں کا تحفہ دیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمی کی درخواست پیش کی ، آخر کم کرتے کرتے اللہ تعالیٰ نے فقط پانچ نمازیں فرض باقی رہنے دیں اور ثواب پوری پچاس نمازوں کے برابر عطا فرمانے کی خوش خبری دی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کے بعد پورے احترام کے ساتھ آپ کے بستر پر پہنچایا گیا۔ اس دنیا میں تب تک اتناتھوڑا سا وقت گزرا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ابھی تک گرم تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج کہ واقعہ کا ذکر اور مشرکین کے مزاق
صبح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعے کا ذکر کیا تو مشرکین نے حسب عادت مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ ابو جہلل نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو طعنہ دیتے ہوئے کہا: ” تمہارا ساتھی کہتا ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس اور آسمانوں کی سیر کر آیا ہے، کیا تم اسے بھی سچ مانتے ہو؟
سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بلا تامل کہا: ہاں ! میں ان کی بات کو بہر حال بی مانتا ہوں۔“ غرض مسلمانوں نے اس واقعے کی تصدیق کی اور اللہ پر ان کا ایمان مزید مضبوط ہو گیا۔ پانچ نمازوں کے اہتمام نے اللہ سے ان کے تعلق اور قرب میں اضافہ کر دیا۔ معراج کا یہ واقعہ حالت بیداری اور ہوش کا ہے خواب نہیں۔ اگر خواب ہوتا تو اسے ایک معجزہ اور عجیب واقعے کے طور پر بیان نہ کیا جاتا، نہ مشرکین اس کا مذاق اڑاتے ، کیوں کہ خواب میں تو آدمی کچھ بھی دیکھ سکتا ہے
معراج کی واقعہ کی حقیقت
ہر قسم اسلامی تاریخ کے لیےAlkhroof.com پر کلک کریں شکریہ