نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت کا واقعہ
عمر کے چالیسویں سال کو پہنچ کرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سوچ اور فکر گہری ہوتی چلی گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے کہ تمام دنیا ہلاکت اور بر بادی کے راستے پر جارہی ہے اور اگر اس کی سمت درست کرنے کی کوئی موثر کوشش نہ کی گئی تو بنی نوع انسان کا انجام بہت ہی برا ہو گا۔ اس تشویش کے علاوہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک عجیب سی مہم بے چینی محسوس کیا کرتے تھے۔ گزشتہ سات برس سے آپ کو گاہے گاہے فرشتوں کی آواز میں سنائی دے رہی تھیں اور غیبی انوارات کا مشاہدہ ہورہاتھا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تصور تک نہ تھا کہ اللہ تعالی آپ کو آخری رسول کا منصب عطا کرنے والا ہے۔
اس کیفیت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی پسند بنادیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹیوں اور بیابانوں میں وقت گزارنے لگے۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر سچے خواب دکھائی دیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی وادیوں سے گزرتے ہوئے درختوں اور پتھروں سے آواز سنائی دیتی : السلام علیکم یار سول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ کر دیکھتے تو کوئی پکارنے والا نظر نہ آتا۔
جنات کی سیر آسمانی پر پابندی
سے پہلے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوتا ، وحی کی حفاظت کے انتظامات مکمل کر لیے گئے۔ پہلے جنات اور شیاطین آسمان کے قریب جا کر فرشتوں کو ملنے والے احکام اور خبروں کی کچھ سن گن لے لیا کرتے تھے۔ یہ خبریں وہ آکر اپنے کاہنوں اور جادو گروں کو سناتے تھے اور وہ ایک سچ میں دس جھوٹ ملا کر لوگوں پر اپنی فرضی غیب دانی کی دھاک بٹھایا کرتے تھے ۔ آخری کتاب قرآن مجید کے نزول سے پہلے جنات کے آسمان کے قریب آنے اور سن گن لینے پر پہرے لگا دیے گئے۔ اگر کوئی جن پہلے کی طرح اُدھر کا رخ کرتا تو شہاب ثاقب اس کا تعاقب کرتے
اس سے پہلے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوتا ، وحی کی حفاظت کے انتظامات مکمل کر لیے گئے۔ پہلے جنات اور شیاطین آسمان کے قریب جا کر فرشتوں کو ملنے والے احکام اور خبروں کی کچھ سن گن لے لیا کرتے تھے۔ یہ خبریں وہ آکر اپنے کاہنوں اور جادو گروں کو سناتے تھے اور وہ ایک سچ میں دس جھوٹ ملا کر لوگوں پر اپنی فرضی غیب دانی کی دھاک بٹھایا کرتے تھے ۔ آخری کتاب الہی کے نزول سے پہلے جنات کے آسمان کے قریب آنے اور سن گن لینے پر پہرے لگا دیے گئے۔ اگر کوئی جن پہلے کی طرح اُدھر کا رخ کرتا تو شہاب ثاقب اس کا تعاقب کرتے۔
اسی صورتحال سے جنات کو بھی اندازہ ہو گیا کہ عن قریب کوئی بہت بڑا واقعہ ہونے والا ہے۔ ایک کا ہن کا بیان ہے (جو بعد میں مشرف بہ اسلام ہوا ) کہ میرے پاس ایک چڑیل آیا کرتی تھی۔ ایک دن وہ گھبرائی ہوئی نمودار ہوئی اور کہنے گلی اَلَمْ تَرَ الجِنَّ وَإِبْلَاسَهَا. وَيَاسَهَا مِنْ بَعْدِ اِنْكَاسِهَا ، وَلْحُوْقَهَا بِالْقِلَاصِ وَأَحْلَاسِهَا کیا تو نے نہیں دیکھا جنات اور ان کی حیرانی کو، ان کی مایوسی اور افتادگی کو ان کے اونٹنیوں کی پشت سے چھٹے کو ۔ گویا ان تکوینی تغییرات نے جنات کو بھی احساس دلا دیا تھا کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور قریب ہے۔ جس طرح باران رحمت سے قبل ہوا تھم جاتی ہے، اسی طرح نزول وحی سے پہلے یوں لگتا تھا جیسے کائنات دم سادھے کھڑی ہو۔
پہلی وحی
نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے دور غار کو اپنی گوشہ نشینی کےلیے پسند کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرکا چالیسواں سال تھا جب ایک دین یکا یک ایک فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ظاہر ہوا۔ یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو اللہ کے حکم سے آخری رسالت اور ساری دنیا کی راہ نمائی کا فریضہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپنے آئے تھے۔ انہوں نے آتے ہی اپنا تعارف کرایا اور کہا: “اے محمد! میں جبرئیل ہوں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔“
پہلی وحی سورۃ العلق کی
پھر فرشتے نے آپ کے سامنے سورۃ العلق‘ کی ابتدائی آیات تلاوت کیں: إِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ إِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ، عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ
ترجمہ پڑھیے اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ بنایا ، جس نے انسان کو بنایا خون کے لوتھڑے سے، پڑھیے اور آپ کا پروردگار بڑا مہربان ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، اورانسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا
دنیا میں علم و قلم کا تصور :
غرض وہ یورپ جو صدیوں بعد علوم اور تحقیق کی امامت کا دعوے دار بنا اس وقت علم تحریر اور قلم سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتا تھا۔ ایسے میں عرب جیسے تاریک گوشے میں نور کی پہلی کرن کا و (اقرا)، (علم) کی اور بِالْقَلَم کے جیسے تصورات لے کر ابھرنا تاریخ عالم کا ایک عجوبہ ہی تو تھا۔ بلاشبہ یہ ایک ایسے انقلاب کی تمہید تھا جو انسانی معاشرےکی اصلاح کے لیے پڑھنے تعلیم دینے اور قلم کی طاقت سے کام لینے کا پوری طرح قائل تھا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دانشمندی
جب فرشتے ہے یہ پیغام سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہنچے تو خوف و ہیبت اور ایک بے حد گراں ذمہ داری کے اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک کانپ رہا تھا۔ آپ کو لگتا تھا کہ کہیں اس کام کی فکر اور بوجھ سے جان ہی نہ نکل جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہنچتے ہی اپنی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے کہا:مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو! مجھے اپنی جان جاتی محسوس ہو رہی ہے۔” اہلیہ کے دریافت کرنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا ماجرا سنایا ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک تجربہ کار اور دانش مند خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر نام دار کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے آپ کو تسلی دی اور کہا: اللہ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ آپ رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں ، امانت دار ہیں، دوسروں کے کام آتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں، سچائی کے راستے میں آنے والی مصیبتوں میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔“ پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو گزشتہ آسمانی کتب کا مطالعہ کرتےرہتے تھے تا کہ ان سے اس سلسلے میں مشورہ اور راہ نمائی کی جائے۔
ورقہ ابن نوفل کہ پیشگوئی
انہوں نے یہ واقعہ سنتے ہی کہا: اللہ کی قسم تم اس امت کے نبی ہو ۔ یہ وہی فرشتہ تھا جو حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔ دیکھنا ایک وقت آئے گا کہ تمہاری قوم تمہیں جھٹلا کر تنگ کر کے اس شہر سے نکال دے گی ۔“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بڑے حیران ہوئے کہ قریش جو مجھے صادق و امین کہتے ہیں، میرے ساتھ یہ سلوک بھی کر سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے پوچھا: یہ لوگ مجھے نکالیں گے ؟ ورقہ نے کہا: ” ہاں جب بھی کوئی نبی ایسا پیغام لے کر آیا ہے، اس کی قوم نے اس سے دشمنی کی ، اگر میری زندگی میں وہ وقت آیا تو میں آپ کی ضرور مدد کروں گا۔
وحی میں وقفہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اضطراب:
اس واقعے کے بعد ایک مدت تک فرشتہ دوبارہ وحی لے کر نہیں آیا۔ اس دوران حضور صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم پریشانی اور اضطراب کے عالم میں مکہ کی وادیوں اور پہاڑیوں میں گھومتے رہتے کسی پل چین نہ آتا۔ خدا آپ سے کیا چاہتا ہے؟ یہ عظیم ذمہ داری کس طرح نبھانی ہے؟ کچھ معلوم نہ تھا۔ اس حیرت تشویش کی حالت میں کبھی کبھی ایک غیبی آواز آئی: ”بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ تب آپ کو کچھ تسلی ملتی۔ آخر کار یہ آیات نازل ہوئیں: يَأَيُّهَا الْمُدَّثرُه قُمْ فَانْذِرُه وَرَبَّكَ فَكَبِّرُه
اے چادر اوڑھنے والے ! اٹھو اور خبر دار کرو اور اپنے رب
کی بڑائی بیان کرو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خفیہ دعوت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دین کی دعوت دینے کا واضح حکم تھا۔ اب آپ کو کام کا لائحہ عمل مل گیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلا تاخیر دعوت کا عظیم فریضہ انجام دینے کا آغاز کردیا اور ابتداء اپنے گھر اور اپنی اہلیہ سے کی۔ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سب سے پہلے اس سچے دین کو قبول کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس وقت دس سال کے تھے، فورا اسلام لے آئے ۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی بلاترد مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ یہ تینوں تو گھر کے افراد تھے۔
باہر ملنے جلنے والوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست سید نا ابو بکر بن ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہا۔ بالغ مردوں میں وہ پہلےمسلمان تھے۔ وہ خود بھی ایک معزز حیثیت کے مالک تھے، اس لیے انہوں نے اپنے واقف کاروں کو اسلام کی دعوت دینا شروع کردی۔
دعوت اسلام کیا تھی
اسلام کی یہ ابتدائی دعوت صرف لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کے اقرار پرمشتمل تھی۔ توحید ورسالت وہ بنیادی پیغام تھا جس سے اس عظیم دعوت کی ابتدا ہوئی۔ لا الہ الا الہ کا مطلب تھا: ” کا ئنات کی تمام چیزوں کا خالق اللہ ہے، تمام امور کا مالک اللہ ہے، کامیابی اور ناکامی، بیماری اور شفاء، زندگی اور موت ہر چیز اس کے قبضے میں ہے۔ سب کچھ اس کے حکم سے ہوتا ہے۔ اس کے حکم اور اجازت کے بغیر مخلوق کچھ نہیں کر سکتی۔ بتوں اور ان سے منسوب دیوی، دیوتاؤں کے پاس کوئی اختیار نہیں ۔ سب کچھ کرنے والی با اختیا ر ذات صرف اللہ کی ہے، اس لیے عبادت بھی اسی کی ہونی چاہیے۔“
محمد رسول اللّٰہ کے مطلب
محمد رسول اللہ کا مطلب تھا: محمد اللہ کے آخری رسول ہیں، ان کی بتائی ہوئی تمام باتوں پر اعتماد کرنا ضروری ہے۔ انہی کی پیروی میں دنیاو آخرت کی کامیابی ہے اور ان کی تعلیمات کی مخالفت میں دونوں جہانوں کا خسارہ ہے ۔“
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دعوت
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت سے عثمان بن عفان، زبیر بن العوام، عبدالرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص اور طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہماجیسے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد ایمان لائے ۔ دعوت میں کسی قبیلے یا خاندان کی تخصیص نہیں تھی بلکہ ہر اس شخص کو دعوت دی جارہی تھی جس میں حق کو قبول کرنے کے آثار نظر آتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں ابو عبیدہ بن جراح، ارقم بن ابی الارقم عبيدة بن الحارث ، عثمان بن مظعون اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما جیسے قریشی جوان اسلام لائے وہاں اس خفیہ پیغام کی آواز مکہ کے کمز ور اور مفلس لوگوں اور غلاموں تک بھی جا پہنچی۔
امیہ بن خلف کے حبشی غلام بلال بن رباح رضی اللہ عنہ انہوں نے کلمہ پڑھ لیا۔ خباب بن الا رث رضی اللہ عنہ جو ایک مال دار عورت کے غلام تھے اور لو ہا کا کام کرتے تھے، اسلام لے آئے۔ صہیب رومی رضی اللہ عنہ جو غیرملکی نو جوان تھے، حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ یاسر کا گھرانہ جو انتہائی تنگ دست تھا ، شروع میں ہی مسلمان ہو گیا، اس میں حضرت یا سر، ان کی اہلیہ سمیہ اور ان کے بیٹے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لڑکے تھے اور عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتے تھے، ایک بار جنگل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آمنا سامنا ہو گیا اور دعوت توحید سنتے ہی کلمہ پڑھ لیا۔
قرآن مجید کا مسلسل نزول کلک
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی یہ تھی کہ متشدداور متعصب لوگ چاہے قریبی رشتہ دارہی کیوں نہ ہوں، انہیں دعوت کی سن گن بھی نہ ملنے پائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل علم اور مشرف بہ اسلام ہونے والے تمام لوگ اس احتیاط کو پوری طری ملحوظ رکھتے تھے، چونکہ ابو لہب چچاہونے کے باوجود متعصب اور متشدد مزاج مشرک تھا، اس لیے اسے بھی لاعلم رکھا گیا۔ اس سے . حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تدبر، دانش اور منصوبہ بندی کی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ابو طالب کا واقعہ
بنو ہاشم کے بڑوں میں سے صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب ، اس دعوت سے آگاہ تھے مگر انہیں بھی یہ علم یوں ہوا تھا کہ انہوں نے اتفاقیہ طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم م اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک گھاٹی میں چھپ کر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ ایمان نہ لانے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حامی، راز دار اور سر پرست تھے۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے پر کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ اپنے دوسرے بیٹے جعفر کو بھی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دس سال بڑے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ گوشوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ یوں جعفر بن ابی طالب السابقون الاولون ( ابتداء میں اسلام لانے والوں) میں شمار ہوئے۔
قریش کے سردار دعوت سے خبردار ہونا
آہستہ آہستہ قریش کے کئی سرداروں کوتو حید کے اس پیغام کا پتا چل گیا جوان کے بتوں کی مخالفت پرمشتمل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیکی کی دعوت یوں چپکے چپکے جاری تھی کہ کوئی اشتعال کا موقع پیدانہیں ہورہا تھا مسلم اور شرک کہیں بھی آمنے سامنے تن کر کھڑے نہ ہوتے تھے۔ سرداران قریش کے خاموش رہنے کا ایک سب بنو ہاشم کا احترام بھی تھا۔ اس کے علاوہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھانے کے باوجود وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ پیغام چند کمز ور لوگوں تک محدود رہے گا اور پھر خود بخو دمٹ جائے گا۔ غالباً انہوں نے اس دعوت کو زمانہ جاہلیت کے امیہ بن ابی ملت اور زید بن عمر و بن نفیل جیسے مشاہیر کی مذہبی سوچ پر محمول کیا تھا جو الہیات پر گفتگو کیا کرتے تھے اور ایک معبود کے قائل تھے۔ مگر اسلام کی دعوت ان سابقہ مصلحین کی خیال آرائیوں کی بہ نسبت بے پناہ طاقت رکھتی تھی۔
حق کا پہلا نعرہ حضرت ابوذر غفاری
مکہ کعبتہ اللہ کی وجہ سے مرجع خلائق تھا جہاں بیرونی زائرین کی آمد ورفت رہتی تھی ۔ ان مسافروں کو بھی حسب موقع دعوت دینے کا کام شروع کر دیا گیا۔ ان کے ذریعے اسلام کی خبر بہت جلد دور دراز کے علاقوں تک پہنچ گئی اور حق کی تلاش میں سرگرداں اکاڈ کا لوگ مکہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نام سے ملنے لگے ۔ سرداران مکہ پہلی بار چونکے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی نئے لوگوں سے ملنے میں بہت احتیاط کرنے لگے۔ انہی دنوں ڈاکوؤں کے قبیلے غفار کے ایک نوجوان ابوذر غفاری نے جو بت پرستی سے بے زار تھے، اپنے بھائی سے ایک نئے نبی اور نئے دین کی خبر سنی۔ وہ سیدھا مکہ پہنچے۔ انہیں معلوم تھا کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے جوان سے ملاقات کرنا مصیبت مول لینے کے مترادف ہے، لہذا وہ مسجد الحرام میں ٹھہر کر منتظر رہے کہ کسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو جائے۔ آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا حال احوال پوچھا اور انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ” کہاں کے ہو؟“بولے غفار کا ۔” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر حیرت و مسرت سے اپنی پیشانی تھام لی۔
ابوذر غفاری اسلام لے آئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کو خفیہ رکھنے کی تاکید کی مگر واپس جانے سے پہلے انہوں نے مسجد الحرام کا رخ کیا اور اہل مکہ کے بھرے مجمع میں کھل کر کلمہ توحید بلند کیا۔
یہ حق کا پہلا والہانہ نعرہ تھاجسے قریش بالکل برداشت نہ کر سکے اور اس درویش بے نوا پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت عباس یہ دیکھ کر تیزی سے لپکے اور یہ کہہ کر لوگوں کو پیچھے ہٹایا
تین سال تک دعوت کا خفیہ سلسلہ جاری رہا۔ حضرت ارقم بن ابی الا رقم بیا رضی اللہ عنہ کا مکان جو صفا پہاڑی کے دامن میں واقع تھا، اس عظیم جدو جہد کا پہلا مرکز تھا۔
Alkhroof.com
islamic history ke leya ye wabsite visit krey shukreya