FB_IMG_1700453659934

علم تاریخ کی اہمیت قرآن مجید کی نظر میں:

تاریخ کی اہمیت قرآن مجید سے ثابت ہے۔ اللہ کے کلام نے گزشتہ پیغمبروں کی تاریخ کو بڑے موجز، بلیغ اور پر اثر انداز میں بیان کیا ہے تا کہ حق کے ماننے والوں کو حوصلہ ملے اور منکرین انجام سے خبر دار ہو جائیں۔ فرمایا: وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَانُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ اور پیغمبروں کے وہ سب حالات جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں، ان سے ہم تمہارے دل کو مضبوط رکھتے ہیں۔“

قرآن مجید میں تاریخ کی واقعات

قرآن مجید کی درجنوں سورتیں اہم ماضیہ کے قصوں کو بیان کرتی ہیں تاکہ ان کے انجام بد سے عبرت پکڑی جائے۔ لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ) ” بے شک ان لوگوں کے قصوں میں عقل والوں کے لیے عبرت کا سامان ہے۔“ قرآن مجید تاریخ کی کتاب نہیں، نوشتہ ہدایت ہے۔ قرآن پاک تاریخ سے اسی انداز میں بحث کرتا ہے جس سے لوگوں کو ہدایت ملے اور ان کا تعلق اپنے خالق سے جڑ جائے۔

تاریخ کی اہمیت احادیث کی روشنی میں

احادیث سے بھی تاریخ کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ حضور نبی اکرم علی ایم نے گزشتہ قوموں اور انبیائے سابقین کے کئی واقعات بیان کیے ہیں جو ذخیرہ احادیث میں موجود ہیں۔ ان کو بیان کرنے کا مقصد وہی ہے جو قرآن مجید کا ہے ۔ یعنی عبرت و نصیحت ۔ صحابہ کرام نے حضور اکرم نیا نہ نام کے اقوال و افعال کے علاوہ اس مبارک دور کے تاریخی واقعات، غزوات اور دیگر حالات کو اسی لیے روایت کیا تا کہ قیامت تک آنے والے لوگ ان سے نور ہدایت حاصل کریں۔ حضرات تابعین اور حدیث شریف کے رواۃ نے بھی سیرت النبی اور سیرت صحابہ کو اسی نیت سے محفوظ رکھا۔ سیرت اور صحابہ کرام کے دور کے حالات کا ایک بڑا ذخیرہ ہمیں حدیث کی کتب سے ملتا ہے۔ حدیث اگر چہ تاریخ کا مجموعہ نہیں ہے مگر اس میں ضمناً تاریخ کے بہت سے واقعات کو لیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ کا یہ حصہ جو کتب حدیث میں ہے صحت و ثقاہت کے لحاظ سے تمام مآخذ تاریخ پر فوقیت رکھتا ہے۔ حدیث کے ذخیرے میں تاریخی واقعات کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ علم تاریخ کی اہمیت حضورنبی اکرم علی علیم، صحابہ کرام اور خیر القرون کے اصحاب علم و دانش کے نزدیک مسلم تھی۔

تاریخ کا حکم فقہاء کے نزدیک

ہرفن اور علم کی طرح تاریخ کے بھی دو پہلو ہیں: ایک مفید، دوسرا مضر۔ پھر مفید پہلوؤں میں سے بعض بہت اہم اور بعض کم اہم ہیں۔ اسی طرح مضر پہلوؤں میں سے بعض کم مضر اور بعض زیادہ مضر بلکہ مہلک ہیں۔ اللہ تعالٰی فقہائے اسلام کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے جس طرح زندگی کے ہر ہر پہلو کا شرعی حکم قرآن وحدیث سے مستقبط تواعد کی رو سے واضح کیا ہے ، اسی طرح علوم کے بارے میں بھی انہوں نے جائز وناجائز کی تشریح کر دی۔ علم تاریخ کے بارے میں فقہائے اسلام کی رائے یہ ہے:تاریخ کے بعض ابواب کا علم حاصل کرنا فرض عین ہے، بعض کا فرض کفایہ ہے، بعض کا واجب ہے، بعض کا مندوب (بہتر ) ہے، بعض کا مباح (جائز) ہے بعض کا مکروہ ہے۔ بعض بعض کا حرام ہے۔سیرت نبویہ کا اس قدر علم کہ مسلمانوں کو اپنے پیغمبر ما این نام کا تعارف ہو جائے ، فرض عین ہے۔ایسے واقعات کا جاننا جن پر اعتقادی و فقہی مسائل اور مسلمانوں کے مصالح موقوف ہوں ، واجب ہے۔ اس لیے اُمت کے ایک طبقے پر اس قدر علم تاریخ سیکھنا فرض کفایہ ہے۔ اعتقادی اور عملی مسائل کا علم تاریخ پر منحصر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے اعتقادی و عملی مسائل احادیث سے ماخوذ ہیں جن کے رواۃ اور ناقلین کے احوال کا پتا اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک تاریخ سے واقفیت نہ ہو۔ اسی طرح کسی حدیث کا متصل السند ہونا، ناسخ و منسوخ کا علم ہونا، نیز نسب اور وراثت کے بہت سے مسئلے تاریخ پر موقوف ہیں۔ اس لیے تاریخ کے ایسے حصے کا علم فرض کفایہ ہوا ۔ علامہ قاری والے نے ابوالحسین فارس کا قول نقل کیا ہے کہ سیرت نبویہ کو یاد رکھنا علاء اور عارفین کے لیے واجب ہے۔صحابہ کرام، اولیاء اور اچھے لوگوں کے حالات کا علم حاصل کرنا جس سے نیکی کی طرف رغبت ہو، مندوب ہے۔بادشاہوں، وزیروں، شہزادوں، شاعروں، ادیبوں اور دوسرے لوگوں کے حالات و واقعات کا جاننا ( جن سےدین میں کوئی نقصان نہ ہو، دنیوی لحاظ سے فائدہ ہو ) مباح ہے۔ ایسے فضول واقعات کو پڑھنا جن میں کوئی دینی یاد نیوی نفع نہیں ہے، مکروہ ہے۔ عاشقی و معشوقی کے قصے، اخلاق سے گری ہوئی حکایات اور فاسق و فاجر لوگوں کے ایسے واقعات پڑھنا جن سے اعتقادی یا ملی خرابیوں میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو، یا جن سے برائیوں کو تحریک ملتی ہو، حرام ہے ۔ کسی خاص ضرورت کے بغیر صحابہ کرام کے مشاجرات کا مطالعہ یا مذاکرہ مکروہ ہے ؟ کیوں کہ اس میں کوئی دنیوی فائدہ ہے نہ اخروی بلکہ ان حضرات کے ادب و احترام میں کمی آنے کا امکان ہے۔ اگر عقیدے میں خلل کا خطرہ .ہو تو یہ حرام ہے۔ البتہ صحابہ کے خلاف اہل باطل کے پروپیگنڈے کا جواب جانے اور دوسروں کو حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے اس موضوع کا مطالعہ اور اس پر مباحثہ جائز بلکہ ضرورت کے وقت واجب ہو جاتا ہے۔ اہل علم کے نزدیک تاریخ کی اہمیت:علم تاریخ کا اہل علم کے ہاں کیا مقام رہا ہے؟ اور اس علم کے کیا کیا فوائد ہیں؟ ذیل میں ہم اس کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں: امام علی بن مدینی روانہ فرماتے ہیں: حدیث کا مطلب سمجھنا نصف علم ہے اور شخصیات کی پہچان نصف علم ہے۔ 0 ۱ حضرت مولانائس الحق افغانی روشن نے تحریر کیا ہے کہ دنیوی ترقی کے لیے چارا مور نہایت ضروری ہیں: ماضی سے ارتباط ، وحدت فکر و عمل، فراہمی اسباب قوت ، جہد مسلسل ۔ 0اگر آپ غور کریں تو ترقی کے لیے بنیاد بننے والے ان چاروں امور کے لیے تاریخ کا مطالعہ نہایت اہم ہے۔ یہ چاروں امور بالترتیب ایک دوسرے پر موقوف ہیں۔ تاریخ ان کی پہلی کڑی ہے، اس لیے اپنی تاریخ سے لاعلم رہ کر ان چاروں امور کو وجود میں لا ناکسی طرح ممکن نہیں۔

مطالعہ تاریخ کی فوائد

مطالعہ تاریخ کے بے شمار فوائد ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں : تاریخ ہمیں حالات کی بصیرت عطا کرتی ہے۔ کسی در پیش واقعے کا صحیح تجزیہ کرنے اور کسی تازہ صورتحال میں درست فیصلہ کرنے کے قابل بناتی ہے؛ کیوں کہ تاریخ پڑھنے والا ماضی میں بیتنے والے ایسے بہت سے حالات سے واقف ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی صورتحال کو کبھی ناممکن یا عجیب نہیں سمجھتا بلکہ ماضی میں اس کی کوئی مثال فورا اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر ایک تاریخ دان یہ کہاوت دہرا کر اپنا حوصلہ برقرار رکھتا ہے کہ: ما اشبه اللَّيل البارحة “لبی رات بھی گزشتہ شب جیسی ہے۔ اہلِ یورپ ایسے مواقع پر کہتے ہیں: ” تاریخ خود کو ہراتی ہے۔“ ا تاریخ انسان کو تجربہ کار بناتی ہے۔ ایک سالار ایک عام سپاہی سے اس لیے اعلیٰ نہیں کہ اس میں طاقت اور پھرتی زیادہ ہے۔ طاقت میں بہت سے عام سپاہی سالار سے فائق ہوتے ہیں۔ بنیادی فرق تجربے اور قوت فیصلہ کا ہوتا ہے۔ تاریخ ماضی کے تجربات سے آگاہ کر کے انسان کو چند گھنٹوں میں صدیوں کے تجربات سے روشناس کراتی

03170487219

تاریخ اسلام کتاب حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں شکریہ

Alkhroof.com

FB_IMG_1704255079843

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم خاندان نبوت

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کےشجرہ نسب، اب تین حصوں میں بیان ہوتا ہے، پہلا حصہ
رسول الله صلى الله عليه وسلم سے عدنان تک دوسرا عدنان سے حضرت اسماعیل علیہ السلام تک اور تیسرا
حضرت اسماعیل علیہ السلام سے حضرت آدم علیہ السلام تک ان میں پہلا حصہ یقینی ہے باقی دو
سے یقینی نہیں ہیں اس لئے یہاں صرف پہلے کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے

        

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے شجرہ نسب

عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرہ بن کعب بن
لوی بن غالب بن فهر بن مالك بن نظر بُن كنِاَنهَبن خزُيَمْهَبن مدُرْكِهَبن الياس بُن مطُرَبُن نزَاَر بن
معَدَُبن
عدنان ALKHROOF.COM