حضرت آدم علیہ السلام کے تخلیق
حضرت آدم علی سلام:حضرت آدم علی کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا۔ یہ پہلے انسان کی تخلیق تھی، اس کی بناوٹ میں خالق کائنات نے ان جدتوں اور صناعیوں سے کام لیا جو اس سے پہلے کسی مخلوق کی پیدائش میں استعمال نہیں کی گئی تھیں۔ اس نئے وجود میں سوچنے، سمجھنے ، جذبات کا اظہار کرنے ، مسائل کو مجھنے اور گردو پیش کے وسائل کو کام میں لانے کی صلاحیتیں باقی تمام مخلوقات سے زیادہ تھیں۔ یہ قمی اور تخریب دونوں میں غیر معمولی نتائج اور اثرات دکھا سکتا تھا۔ اللہ . تعالی نے اسے نہ فرشتوں کی طرح اطاعت پر مجبو بنایا تھا، نہ جنات کی طرح شر سے مغلوب، بلکہ اسے خیر اور شر دونوں کی قوت دی تھی۔ فرشتوں نے انسان کی ساخت سے اس کی کارکردگی کی صلاحیتوں کا اندازہ لگالیا، انہیں یہ بھی یاد تھا کہ اس سے قبل زمین پر آباد جنات کتنا فساد چاچکے ہیں، اس لیے انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں نیاز مندانہ عرض کیا کہ اس کی جگہ حمد وثنا اور عبادت کے لیے ہم حاضر ہیں۔ اللہ نے فرمایا: إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ.میں جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ۔انسان کو نیکی اور بدی دونوں کی قو تیں اس لیے دی جارہی تھیں کہ اللہ دنیا کی تجربہ گاہ میں اسے آزمانا چاہتا تھا۔ اگر وہ بدی کی طاقت رکھتے ہوئے اللہ سے ڈر کے بدی سے باز رہے گا اور نیکی کی صلاحیت کو استعمال کرے گا تو کامیاب رہے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ کو بھلا کر بدی کی صلاحیت استعمال کرے گا، نیکی کی قوت کو ترک کرے گا تو نا کام رہے گا۔ یہ راز اس وقت فرشتوں کو سمجھ نہیں آسکتا تھا۔
آدم علیہ السلام کے پیدائش اور فرشتوں کی سجدہ
حضرت آدم علیم کو پیدا کر کے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے انہیں تعظیمی سجدہ کرایا تا کہ ساری دنیا پر انسان کی عظمت کا سکہ بیٹھ جائے ۔ حضرت آدم علینے کی رفاقت کے لیے انسان کی صنف نازک کو بھی پیدا کیا گیا، اس کی ابتدا حضرت حوالہ علیہا سے ہوئی ۔ دونوں کو مہمانی کے لیے جنت میں بھیج دیا گیا۔ دنیا کے پہلے مرد اور عورت نے جنت میں تھوڑا ہی عرصہ گزارا مگر اس مختصری زندگی کا آرام وسکون انسانی روح کی گہرائیوں میں ایسا جذب ہوا کہ بعد میں آنے والا ہر انسان اپنے اندر جنت جیسی کسی جگہ میں جاننے کی زبر دست خواہش محسوس کرتارہا ہے، جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں، رنج و غم اور تکلیف کا نام ونشان نہ ہو، جہاں ہر خواہش پوری ہو اور ہر نعمت میسر ہو۔ اللہ پر ایمان رکھنے والوں نے رسولوں کی معرفت یہ جان لیا کہ اُن کی اصل منزل جنت ہے، اس لیے وہ نیک اعمال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے تا کہ اپنی منزل کی طرف لوٹ سکیں۔ اللہ اور رسولوں پر ایمان نہ رکھنے والوں نے جنت کو ایک خیالی چیز سمجھ کراس کا انکار کیا مگر وہ اپنی فطرت میں موجود جنت کی خواہش سے خود کو آزاد نہ کر سکے۔ اس لیے دنیا کے محدود وسائل کی چھین جھپٹ میں منہمک ہو گئے تا کہ اس فانی زندگی میں جنت کے مزے لے سکیں۔ اس کش مکش سے دنیا فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن گئی۔
شیطان لوگوں کو گمراہ کرنا
تخلیق آدم علیہ السلام سے اب تک انسانوں کو گمراہ کرنے میں سب سے بڑا دخل شیطان کا رہا ہے۔ شیطانوں کا سردار ابلیس جنات کی نسل سے ہے۔ حضرت آدم عین سے پہلے یہ فرشتوں کا ہم نشین اور بارگاہ الہی کا مقرب رکن تھا۔ حضرت آدم علینے کا مرتبہ اپنے سے بلند ہوتے دیکھ کر وہ نفرت اور حسد کی آگ میں بُری طرح جلنے لگا۔ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا؛ کیوں کہ وہ خود کو حضرت آدم علیے اسے بہتر سمجھتا تھا، وہ بھی صرف اس لیے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کابدن مٹی کاہے۔ اس گستاخی پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی بارگاہ سے دھتکار دیا۔ شیطان ڈھیٹ تھا، معافی بھی نہ مانگی۔ ہاں اللہ تعالیٰ سے مہلت طلب کر لی کہ میں قیامت تک آدم اور اس کی اولاد کو گمراہ کر سکوں۔ اللہ نے اجازت دے دی۔ حضرت آدم علینے اور اُن کی اولاد کی آزمائش صحیح معنوں میں تو تب ہی ہو سکتی تھی جب وہ شیطان کے اثرات سے بچ کر دکھا ئیں اور خود کو اپنے خالق و مالک سے وابستہ کیسے رہیں، اس لیے شیطان کو انسان کے بہکاوے کی مہلت بھی دے دی گئی اور صلاحیت بھی۔
شیطان حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ پختہ دشمنی
شیطان کی حضرت آدم علی سے دشمنی پختہ تر ہوگئی۔ اب اس نے حضرت آدم علیے کام کو بھی اللہ کے ہاں مجرم بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی صلاحیت دی تھی کہ وہ دوسروں کے ذہن اور خیالات میں دخل اندازی کر سکتا تھا۔ اس نے اس صلاحیت سے کام لے کر پہلے حضرت حوا اور پھر حضرت آدم علینے کا کو ایک ایسے درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کر لیا جس کا استعمال حضرت آدم علینے کے لیے ممنوع تھا۔ جب آدم و حوا نے پھل استعمال کیا تو اللہ کی طرف سے جنت سے اخراج کا حکم آگیا۔ جنت کا لباس چھین لیا گیا۔ دونوں نے جنت کے درختوں کے چنوں سے ستر چھپا کر اپنی فطری شرم و حیا کی لاج رکھی۔ جلد ہی دونوں کو زمین پر اُتار دیا گیا۔ اس موقع پر انسان اور شیطان کافرق ظاہر ہوا۔ حضرت آدم و حوا نے گڑ گڑا کر اللہ سے اپنی لغزش کی معافی مانگی ، جبکہ شیطان اپنی سرکشی پر ڈٹا رہا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں متنبہ فرمایا کہ اب شیطان ہمیشہ تمہاری اولاد کا دشمن رہےگا، اس سے ہوشیار رہنا۔ یہ بھی بتایا کہ نسل انسانی کی رہنمائی اور اسے شیطان کے اثرات سے بچانے کے لیے آسمانیہدایت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ جو اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ آخرت میں بے خوف و خطر ہوگا۔ جو اسے ٹھکرائے گاوہ سخت عذاب کا حق دار ٹھہرے گا
حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے کا مقصد
چونکہ حضرت آدم علین) کی پیدائش اور دنیا میں اُن کی آمد کا قصہ انسان کو اس کی اصل منزل، مقصد اور حیثیت سے آگاہ کرتا ہے، اس لیے قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اس واقعے کو بہت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ 0 معلوم ہوا کہ دنیا میں انسان کی آمد کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول ، اس کی توحید تک رسائی ، اس کے در پر جھکنے، اس کے احکام ماننے اور شیطان کے جال سے بچنے کی آزمائشیں مقصود تھیں ۔ یہی راز تھا جس کے لیے حضرت آدم علی کو پیدا کیا گیا، دنیا میں بھیجا گیا اور اُن کی نسل کو چلایا گیا۔
حضرت آدم علیہ السلام کے وفات تک نسل کے تعداد
حضرت آدم علینے کا کی وفات تک ان کی نسل کے افراد کی تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ ہو چکی تھی ۔ 0 یہاں ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پیدائش آدم میے کا کا یہ قصہ جو قر آن مجید و احادیث مبارکہ میں بیان ہوا اور اس کی تائید تو رات اور انجیل اپنی موجودہ تحریف شدہ حالت میں بھی کرتی ہیں ) اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ تمام انسان حضرت آدم علی کی اولاد ہیں، سب ایک باپ کے بیٹے اور انسان ہونے کے ناطے بھائی بھائی ہیں۔ اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ڈارون کا نظریہ ارتقاء اور انسان کے بندر کی نسل سے ہونے کا مفروضہ نری گپ ہے جو تمام آسمانی مذاہب کے برعکس اور تاریخ سے متصادم ہونے کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی بالکل خلاف ہے۔ اگر قدیم زمانے کے بندر ارتقاء کرتے کرتے انسان بن سکتے تھے تو دور حاضر کے بندر، بندر ہی کیوں رہے، انسان کیوں نہیں بنے ؟ انسان ہزاروں برس میں کوئی اور مخلوق کیوں نہیں بن گیا؟ بنی شیر کیوں نہ بن پائی اور گدھا آج تک گھوڑے میں کیوں تبدیل نہ ہوا؟
حضرت آدم علیا دنیا میں آئے تو یہاں جنت جیسی نعمتیں اور آسائشیں نہ تھیں، پھر بھی یہ دنیا انسان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی تھی ۔ کھانے پینے بستر پوشی اور رہنے سہنے کے وسائل یہاں میسر تھے۔ خالق کا ئنات نے اس پہلے انسان کو اُن وسائل کے استعمال کی تربیت بھی دے دی۔ حضرت جبرئیل علی گندم کے دانے لے کر آئے اور حضرت آدم علی نے انہیں زمین میں کاشت کر کے اناج حاصل کیا ، اسے ہیں اور گوندھ کر روٹی تیار کی ۔ 0 جنت سے نکالے جاتے وقت حضرت آدم و حوا نے درخت کے چوں سے ستر پوشی کی تھی۔ دنیا میں اس کا مستقل انتظام اس طرح کیا کہ دنے کے بالوں سے اونی کپڑا بنا گیا، اس سے حضرت آدم علیے کام کا جسد اور حضرت حوا کا کرتا اوراوڑھنی تیار ہوئے ۔
حضرت آدم علیہ السلام اور حوا بی بی کہ اولاد میں نکاح کا سلسلہ
حضرت آدم علیہ السلام اور حوا کی اولاد ہوئی تو ان میں نکاح کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں اولاد آدم کی افزائش ہوئی۔دور حاضر میں مغربی محققین نے جہاں انسانی تہذیب و تمدن کو لاکھوں سال قدیم بتایا ہے اور وہاں یہ دعوی بھی کیاہے کہ شروع میں انسان جانوروں کی طرح بر ہنہ پھرتا تھا، کچا گوشت چیا تا تھا، نکاح کا کوئی تصور نہ تھا، مردوزن کسی رسماور قید کے بغیر شہوت پوری کیا کرتے تھے۔ ہزاروں برس بعد وہ کھانے پکانے ، پہنے اور نکاح کا عادی بنا۔ یہ دعوے محض قیاس کی پیداوار ہیں، تاریخ ان کی تردید کرتی ہے
Alkhroof.com
00923170487219