FB_IMG_1697388361663

بیت المقدس کی تاریخ

بیت المقدس یا القدس یا یروشلم یہ بہت پرانا شہر ہے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بیت المقدس اور مسجد اقصی دونوں ایک ہی عمارت کے دو نام ہیں، یہ غلام فہمی ان تصویروں کے ذریعے پھیلی ہے جن میں شہر اقبۃ الصخرۃ نظر آتا ہے اور جس کے برابر میں لکھا رہتا ہے بیت المقدس، حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس ایک قدیم شہر کا نام ہے جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے، اور جس کے صحن میں دل کش قربتہ الصخرہ موجود ہے، اور وہ بھی بہت محترم ہے، اس کے علاوہ بھی وہاں مسجدیں اور قبے ہیں، انبیاء کرام کی قبریں ہیں ، اور دوسری یادگاریں ہیں۔

بیت المقدس کی نام کا واقعہ

یروشلم جزیرۃ العرب کے اس خطہ کو کہا جاتا ہے جو موریہ میہون ، اکرا اور بزلیتہا نامی چار پہاڑیوں کے درمیان آباد ہے، اس کی بنیاد مملکت سالم کے بادشاہ ملک صدق نے رکھی تھی، جس ملک میں یہ شہر آباد ہے اسے اس زمانہ میں یہود یہ کنعان اور شام کہا جاتا تھا مکمل ایک صدی کے بعد جب اس شہر پر یہودی قابض ہوئے تو انھوں نے اس کا نام یا یوں رکھ دیا، پھر مرور زمانہ کے ساتھ یو سالم ہوا، اور اخیر میں یروشلم ہو گیا، اس شہر کو القدس یا بیت المقدس کہا جاتا ہے، یہ شہر اگر چہ مسلمان، عیسائی اور یہودی آسمانی مذاہب کی حامل تینوں بڑی قوموں کے یہاں مقدس ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ بیت المقدس اور مسجد اقصی تاریخ کے تمام ادوار میں اہل اسلام ہی کی ملکیت رہی، بیت المقدس کے تعلق سے عیسائیوں اور یہودیوں کا حق تسلیم کرنا سراسر غلط ہے، اس شہر کی ابتدائی تاریخ کا سرسری جائزہ اس حقیقت کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہودی القدس یا فلسطین کے اصل باشندے نہیں ہیں ، بیت المقدس کے اصل باشندے ہونے کا یہودی دعوی محض مغالطہ ہے، قدیم تاریخی مآخذ سے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے کے اصل باشندے کنعانی عرب تھے، طوفان نوح کے بعد جو قو میں سامی اقوام سے مشہور ہوئیں ان کا اولین مسکن جزیرۃ العرب تھا، جس کی سرحدیں مشرق میں خلیج عقبہ اور فلسطین تک اور شمال مشرق میں نہر فرات تک پھیلی ہوئی ہیں، علامہ سید سلیمان ندوی کے مطابق اکثر قابل لحاظ یورپی مورخین نے اس کی تائید کی ہے، یہود کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ القدس میں جس کی تعمیر کنعانیوں نے کی تھی، تقریباً ۱۳۰۰ برس قبل مسیح داخل ہوئے ، اور ۲۰۰ سال کی طویل کشمکش کے بعد اس پر قابض ہوئے ، اس لحاظ سے القدس یا یروشلم کے اصل باشندے یہودی نہیں کنعانی تھے، القدس یا فلسطین میں یہودیوں کی آمد قیقی باشندوں کے طور پر نہیں؛ بلکہ نامین کے طور پر ہوئی، اصل باشندوں کا قتل عام کر کے اس علاقہ پرر سیبودی قابض ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے ذریعہ بنی اسرائیل کو نبوت و بادشاہت عطا فرمائی تھی ان پیغمبروں کے ذریعہ ان کی متحدہ ریاست قائم ہوئی لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد یہودی نہ صرف آپسی خانہ جنگی کاشکار ہوئے ؛ بلکہ اپنے پیغمبروں کی تعلیم سے دوری اور خدا کی نافرمانی کے سبب وہ متعدد مرتبہ عذاب الہی سے دو چار ہوئے، یہودیو سلطنت کے پانچویں سال شاہ مصر سیق نے القدس پر چڑھائی کی تھی، چنانچہ کتاب سلاطین میں لکھا ہے: “رجیعام بادشاہ کے پانچویں سال شاہ مصر سیق نے یروشلم پر چڑھائی کردی، اور اس نے خداوند کے گھر کے خزانوں اور شاہی محل کے خزانوں کو لے لیا اس کے بعد تقریباً ۰ ۷۴ ق م میں آشوریوں نے میہود کو فلسطین سے بے دخل کر دیا، پھر بخت نصر کا حملہ ہوا جس میں توریت ضائع ہوگئی ، اور بہت سے یہودی مارے گئے، اور کچھ کو باہل لے جا کر قید کیا گیا، بخت نصر کے حملہ کے بعد پھر ایرانیوں کے ذریعہ کچھ عرصہ کے لیے فلسطین ہی میں انھیں آباد ہونے کا موقع ملا مگر زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یونانی اور رومی ان پر قبر ابی بن کر ٹوٹ پڑے، اور انھیں فلسطین سے بے دخل کر دیا المیلس رومی کے حملہ میں لاکھوں میں یہودی قتل کر دئے گئے، اور بیکل مقدس کو جلا دیا گیا ، اس حادثہ کے ۶۵ سال بعد قیصر کے عہد میں پانچویں مرتبہ یہودیوں نے بغاوت کی مگر انھیں شکست سے دو چار ہونا پڑا، قیصر نے نہ صرف یہودیوں پر بدترین ظلم کیا؛ بلکہ بیل کو تباہ کر کے اس پر ہل چلوا دیا، اور وہاں ایک مندر تعمیر کروایا، اسی زمانہ میں یروشلم کا نام ایلیاء رکھ دیا گیا، قیصر کے حملہ میں تقریبا پانچ لاکھ یہودی مارے گئے ، اس سے قبل بخت نصر کے حملہ میں ہیکل سلیمانی کو میں بو کر دیا گیا تھا، اور طویل عرصہ تک میبودی جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے، ایرانی دور اقتدار میں جب پھر سے یہودی جنوبی فلسطین میں آباد ہوئے تو دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی گئی ، اس مرتبہ یہودی ۴۰۰ سال سے زیادہ نہیں تک سکے، رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی پاداش میں جب انھیں دوبارہ جلا وطن کردیا گیا تو جنوبی فلسطین میں عرب قبائل اسی طرح آباد ہوئے جس طرح وہ ۸۰۰ سال پہلے شمالی فلسطین میں آباد تھے۔

اس پوری تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ یہودی فلسطین اور بیت المقدس کے اصل باشندے نہیں تھے، اور ارض فلسطین پر ان کا دعوی کسی طرح درست نہیں، شمالی فلسطین میں یہودیوں کی مدت اقامت ۴۰۰ سال اور جنوبی فلسطین میں ۸۰۰ سال سے زیادہ نہیں: جب کہ یہودیوں کے برخلاف عرب قبائل شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں ۲۰۰۰ سال سے آباد ہیں، پھر لاھ میں حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کرلیا، اور وہاں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا، اموی خلیفہ عبدالملک کے زمانہ میں یہاں مسجد اقصی اور قبۃ الصخرۃ کی عالی شان تعمیر ہوئی ، فتح بیت المقدس کے ۴۶۲ سال بعد ! میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر بیت المقدس پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا جس میں ستر ہزار مسلمان شہید کر دئے گئے لیکن ۸۸ سال بعد ے لاء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس پھر فتح ہو کر مسلمانوں کے زیر نگوں آ گیا ، ۱۲۲۸ء سے ۱۲۳۴ ء تک اس مقدس شہر کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھین لیا گیا ، اس طرح ایک سو سال کے علاوہ ے ا ء سے ۱۹۱۷ء تک یہ مبارک شہر مسلمانوں ہی کے قبضہ میں رہا، بالآخرے 191 ء میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے علاقے برطانیہ کے زیر قبضہ آ گئے ، اور یہیں سے فلسطین اور بیت المقدس کے خلاف سازشوں کا جال بنا جانے لگا، برطانیہ نے ۲ نومبر ۱۹۱۷ء میں یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے بالفور معاہدہ کہا جاتا ہے، اس معاہدہ میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے ایک یہودی نمائندہ کے نام اپنی ایک تحریر کے ذریعہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن بنانے کی اجازت دے دی، برطانیہ کا یہ معاہدہ بدترین خیانت تھی، ۱۹۳۵ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین میں یہودی حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ایک حصہ پر یہودیوں کو اپنی حکومت بنانے کی قانونی اجازت دے دی، ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کیا، بالآخر ۱۹۳۸ میں ارض فلسطین پر اسرائیل کی شکل میں ایک ناجائز مملکت وجود میں آگئی ، خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ عبدالحمید ثانی پر جب مغربی ملکوں نے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کے لیے دباؤ ڈالا توعثمانی خلیفہ نے صاف الفاظ میں کہا کہ سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا؛ کیوں کہ فلسطین میرا نہیں امت کا ہے، اور امت نے اس سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنا خون بہایا ہے1923ء سے ۱۹۲۷ء تک القدس شہر مسلمانوں کے ملک اُردن ہی کا ایک حصہ رہا ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطین دیگر علاقوں کے ساتھ القدس شہر پر بھی اسرائیل قابض ہوا؛ اگر چہ اسرائیل طاقت کے زور پر القدس پر قابض ہوا، لیکن اس سے القدس قانونی طور پر اسرائیل کا حصہ ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو سکتا ہے؛ اس لیے کہ جس وقت برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سر پرستی میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا، اس وقت یہ بات طے کر دی گئی تھی کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہوگا ,

FB_IMG_1697388361663

مسجد اقصیٰ کی موجودہ حالات

مسجد اقصی کی فضیلت

مسجد اقصی عام مساجد سے بہت بلند اور اونچی شان رکھتی ہے، اس کے دامن میں بےبہا برکتیں اور سعادتیں رکھ دی گئی ہیں، اہل ایمان کے دلوں میں اس مسجد کی بڑی وقعت اور محبت رچی بسی ہوئی ہے، قرآن وسنت میں اس مسجد کی اور اس علاقے کی جہاں یہ مسجد واقع ہے اس کی فضیلت پر کئی دلائل اور ارشادات موجود ہیں جنھیں پڑھ کر ایک مخلص مومن کے دل میں اس مسجد کی خاص عقیدت اور محبت دل میں اتر جاتی ہے۔

مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ ہے کہ یہ مسجد جس سرزمین پر واقع ہے اللہ تعالی نے اس سر زمین کو مبارک قرار دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد

سبحان الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام الى المسجد الاقصى الذي باركنا حوله.

ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کومسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی جس کے ارد گر دہم نے برکت رکھی: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کومسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی جس کے ارد گر دہم نے برکت رکھی ہے

بعض اہلِ علم کے قول

بعض اہل علم فرماتے ہیں: اگر اس مسجد کے لیے اس قرآنی فضیلت کے علاوہ اور کوئی فضیلت نہ ہوتی تب بھی یہی ایک فضیلت اس کی عظمت و بزرگی اور شان کے لیے کافی تھی

جس ملک میں مسجد اقصی واقع ہے وہاں حق تعالیٰ نے بہت کی ظاہری اور باطنی برکات رکھی ہیں ، مادی حیثیت سے چشمے، نہریں، غلے، پھل اور میووں کی افراط اور روحانی اعتبار سے دیکھا جائے تو کتنے انبیاء ورول علیہم السلام کا مسکن و مدفن اور ان کے فیوض وانوار کا سر چشمہ رہا ہے۔

مسجد اقصیٰ کی ایک اور بڑی فضیلت

مسجد اقصی کی ایک یہ فضیلت بھی قابل ذکر ہے کہ جس وقت اللہ تعالی نے خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم اعز از معراج کی صورت میں عطا فرمایا، جو ایک عظیم معجزہ بھی ہے، توسفر میں ایک اہم منزل وہ پڑاؤ تھا جو آپ نے مسجد اقصی میں فرمایا، پھر یہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ کو آسمان کی بلندیوں کی طرف لیجایا گیا۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں۔ نبی کریم صلی ہے کہ یہ فرماتے ہیں : “میرے پاس براق لایا گیا، یہ ایک سفید رنگت کی لمبی سواری تھی ، گدھے سے کچھ بڑی اور خچر سے کچھ چھوٹی ، اس کا ایک قدم انتہائے نظر کی مسافت پر پڑتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میں اُس پر سوار ہوا، یہاں تک کہ میں بیت المقدس پہنچ گیا ، وہاں پہنچ کر اس سواری کو اس حلقے سے باندھ دیا جس حلقے سے دیگر انبیاء کرام علیہم السلام (اپنی سواریاں ) باندھتے ہیں، پھر میں مسجد میں داخل ہوا، اس میں دورکعت اداء کیں ، پھر باہر نکل آیا ، حضرت جبرئیل علیہ السلام دودھ اور شراب کا ایک الگ الگ برتن میرے پاس لائے ، میں نے ان میں سے دودھ والا برتن لے کیا، اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے فطرت کے عین مطابق چیز کو پسند فرمایا ہے۔ اس کے بعد وہ ہمیں آسمان کیطرف لے کر چل پڑے ۔ (مسلم : ۱۶۲)

مسجد اقصیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے سفر پر وہاں تشریف لے گئے ساریے انبیاء کرام وہاں جمع تھے سب کی امامت فرمائی ، شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں لے جانے میں یہ بھی اشارہ ہوگا کہ جو کمالات انبیائے بنی اسرائل وغیرہ پر تقسیم ہوئے تھے، آپ کی ذات مقدسہ میں وہ سب جمع کر دیئے گئے، جونعمتیں بنی اسرائیل پر مبذول ہوئی تھیں، اُن پر اب بنی اسماعیل کو قبضہ دلایا جانے والا ہے، کعبہ اور بیت المقدس دونوں کے انوار و برکات کی حامل ایک ہی امت ہونے والی ہے۔ (تفسیر عثمانی )

مکہ اور مدینہ منورہ کے بعد یہ مقدس ترین مقام ہے، بیت المقدس کی سرزمین حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن رہی ہے، جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے اسی سرزمین کی طرف ہجرت فرمائی حضرت داؤد علیہ السلام نے اسی سرزمین کو جائے سکونت کے طور پر اپنایا، اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا، حضرت سلیمان علیہ السلام اسی جگہ سے ساری دنیا پر حکومت کرتے تھے ، حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے، اس شہر میں حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سرزمین کے تعلق سے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ تم اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ، يُقَومِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَلَا تَرتَدُّوا عَلى أدْبَارِكُم فَتَنْقَلِبُوا الخَسِرِينَ (المائدة: ٢١) اے میری قوم! تم اس پاک زمین میں داخل ہو، جس کو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، اور اپنی پیٹھیں نہ پھیرلو، ورنہ نقصان اٹھاؤ گے

قصۂ جالوت و طالوت کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے، بیت المقدس میں پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر ۵۰۰ گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے، یہ وہ مقام ہے جس کی زیارت کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تلقین فرمائی ہے، یہی وہ سرزمین ہے جہاں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے ، حضرت عیسی علیہ السلام کو جب ان کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تعالی نے اس شہر سے انھیں آسمان پر اٹھالیا۔ قیامت کے قریب حضرت عیسی علیہ السلام کا زمین پر نزول بھی اسی مقدس سرزمین پر ہوگا، اسی شہر کے مقام لد پر حضرت عیسی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے ، ینزل عیسی بن مریم ، عند المنارة البيضاء شرق دمشق فیدر که عند بابالد فيقتله (ابو داؤد: ۳۳۲۱)فلسطین ارض محشر ہے، جیسا کہ روایت میں ہے: الشام أرض المحشر والمنشر (صحيح الجامع الصغير : ٣٤٢٦) اسی زمین سے یا جوج و ماجوج کے فساد کا آغاز ہوگا۔

FB_IMG_1698140720290

سفر معراج کا واقعہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کا واقعہ

اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا منفرد اعزاز عطا فرمایا جس سے کبھی کسی انسان کو نہیں نوازا گیا۔ یہ سفر معراج کا شرف تھا جس میں اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انعامات واکرامات کی بارش کر دی گئ

معراج کا پہلا مرحلہ مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ تک

حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں سورہے تھے کہ فرشتوں کے سردار جبرئیل علیہ السلام کا آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ان کے ساتھ گھوڑے سے ملتا جلتا ایک پردار جانور تھا جسے “براق“ کہا جاتا تھا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر سوار کرایا اور ہم رکاب ہو کر آپ کو مسجد الحرام سے شام کی طرف لے چلے۔ براق کی رفتارکا یہ عالم تھا کہ جہاں نگاہ پہنچتی وہیں قدم جا پڑتا۔ سفر کا یہ پہلا مرحلہ جسے “اسراء” کہا جاتا ہے، بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ پر ختم ہوا جہاں حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسی علیہ السلام تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ان سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کی اور یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امام الانبیا ہو نے کا عملی مظاہرہ ہوا۔ یہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا، جسے “معراج کہا جاتا ہے۔

سفر معراج کا دوسرا مرحلہ مسجد اقصیٰ سے آسمان تک

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جیرائیل علیہ السلام کے ساتھ آسمان کی بلندیوں پر پہنچے۔ یکے بعد دیگرے آپ نے ساتوں آسمانوں کی سیر کی۔ ہر آسمان کے دروازے پر فرشتوں نے آپ کا خیر مقدم کیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت عیسی و حضرت یحییٰ علیہ اسلام، تیسرے پر حضرت یوسف ، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام ، چھٹے پر حضرت موسی علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقاتیں ہوئیں۔ حضرت ابراہیم علینہ بیت المعمور کے دروازے کے سامنے بیٹھے تھے جو کعبتہ اللہ کے عین اوپر واقع ہے، روزانہ ستر ہزار نئے فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ اور اس میں نافرمانوں کو دیے جانے والے مختلف عذابوں کا مشاہدہ کر لیا گیا ، اسی طرح جنت اور اس کی نعمتیں بھی دکھائی گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سدرة المنتہی تک پہنچے جو عرش الہی کے نیچے بیری کا ایک مقدس درخت ہے جس پر فرشتوں کا ہجوم رہتا ہے۔ آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی خاص بارگاہ میں پہنچے اوراللہ تعالی کا ویسا دیدار کیا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت مسلمہ کے لیے پچاس فرض نمازوں کا تحفہ دیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمی کی درخواست پیش کی ، آخر کم کرتے کرتے اللہ تعالیٰ نے فقط پانچ نمازیں فرض باقی رہنے دیں اور ثواب پوری پچاس نمازوں کے برابر عطا فرمانے کی خوش خبری دی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کے بعد پورے احترام کے ساتھ آپ کے بستر پر پہنچایا گیا۔ اس دنیا میں تب تک اتناتھوڑا سا وقت گزرا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ابھی تک گرم تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج کہ واقعہ کا ذکر اور مشرکین کے مزاق

صبح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعے کا ذکر کیا تو مشرکین نے حسب عادت مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ ابو جہلل نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو طعنہ دیتے ہوئے کہا: ” تمہارا ساتھی کہتا ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس اور آسمانوں کی سیر کر آیا ہے، کیا تم اسے بھی سچ مانتے ہو؟

سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بلا تامل کہا: ہاں ! میں ان کی بات کو بہر حال بی مانتا ہوں۔“ غرض مسلمانوں نے اس واقعے کی تصدیق کی اور اللہ پر ان کا ایمان مزید مضبوط ہو گیا۔ پانچ نمازوں کے اہتمام نے اللہ سے ان کے تعلق اور قرب میں اضافہ کر دیا۔ معراج کا یہ واقعہ حالت بیداری اور ہوش کا ہے خواب نہیں۔ اگر خواب ہوتا تو اسے ایک معجزہ اور عجیب واقعے کے طور پر بیان نہ کیا جاتا، نہ مشرکین اس کا مذاق اڑاتے ، کیوں کہ خواب میں تو آدمی کچھ بھی دیکھ سکتا ہے

معراج کی واقعہ کی حقیقت

ہر قسم اسلامی تاریخ کے لیےAlkhroof.com پر کلک کریں شکریہ

FB_IMG_1698465275103

سفر طائف کا دردناک واقعہ

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کا مکمل واقعہ

ابوطالب کے انتقال کے بعد کافروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر طرح کی ایذاء رسانیوں کا کھلا موقع مل گیا،چنانچہ ان کی مخالفت ، دشمنی اور سرکشی روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا مگر اسے بھی جھٹلا دیا۔ ایسے یں حضور اکرم نا لی یا قریش کے ہاں اسلام کی آبیاری کے آثار نہ پا کر یہ سوچنے پرمجبور ہو گئے کہ اسلام کی حفاظت اور اشاعت کے لیے کی اور شہر کو مرکز بنایا جائے ، جہاں کے لوگ اسلام کے نام لیوا اور اللہ کے پرستار ہوں۔

طائف کے سفر

مکہ سے ۷۵ میل ( ۱۲۰ کلومیٹر ) دور طائف میں قبیلہ ثقیف افرادی لحاظ سے بہت مضبوط تھا، یہاں اکثر خوشحال اور فارغ البال لوگ آباد تھے۔ قریش کے مال دار لوگوں نے بھی یہاں جائیدادیں خرید رکھی تھیں ۔ طائف کے باہر ان کے باغ تھے جہاں یہ لوگ گرمیوں میں آرام اور تفریح کے لیے ٹھہرتے تھے۔ طائف سے کچھ فاصلے پر قبیلہ بنوسعد آباد تھا، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رضاعی ماں حضرت حلیمہ کا دودھ پیا تھا اور بچپن گزارا تھا۔ اس لیے امید تھی کہ یہاں کے لوگ آپ کو رضاعی رشتہ دار مانتے ہوئے اکرام کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات دھیان سے سنیں گے۔ اگر یہ لوگ مشرف بہ اسلام ہو جاتے تو مسلمانوں کو بہت سے مصائب سے نجات مل جاتی اور دین کے پھیلنے کے لیے ایک مرکز میسر آجاتاہے۔ آخر کار اوار شوال 10نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امید میں لے کر طائف کی طرف روانہ ہوئے ،آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ساتھ تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف میں قیام

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں دس دن گزار کر لوگوں کو عمومی اور خصوصی دونوں طرح دعوت دی ۔ آپ طائف کے بازار میں کھڑے ہو کر قرآن کی آیات سناتے اور لوگوں کو اپنی نصرت و حمایت کی طرف متوجہ کرتے رہے۔عبدالرحمن بن خالد عدوانی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ وہ بتاتے تھے:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ثقیف کے شہر طائف کے ) مشرقی گوشے میں اپنی لاٹھی یا کمان پر سہارا لگائے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس اس لیے تشریف لائے تھے تاکہ ان سے مدد حاصل کریں۔ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ طارق کی تلاوت کرتے سنا۔ میں اس وقت مشرک تھا مگر میں نے یہ سورت یاد کر لی۔ بنو ثقیف کے سرداروں) نے مجھے بلوایا اور پوچھا تم نے اس شخص سے کیا سنا ہے؟ میں نے انہیں سورۂ طارق سنادی۔ بنو ثقیف (کے سرداروں) کے پاس قریشی لوگ بھی تھے جنہوں نے کہا: ”ہم اپنے اس آدمی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اگر ہم سمجھتے کہ وہ حق بات کہہ رہا ہے تو ہم اسے سب سے پہلے قبول کر لیتے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تین سرداروں سے ملاقات اور بات چھیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی دعوت کے ساتھ خصوصی ملاقاتیں بھی کیں۔ طائف میں بنو ثقیف کے بڑے سردار تین بھائی عہد یا لیل مسعود اور حبیب تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گفتگوکی اور انہں اللہ کے دین کی طرف بلایا اور اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی مدد نصرت کی ترغیب دی، مگر ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ دین کی دعوت کو قبول نہ کیا بلکہ عرب کی رواجی مہمان نوازی کے تقاضے بھی پس پشت ڈال دیے اور بہت تلخ جواب دیے، ان میں سے ایک نے کہا: ” تو ایک بے دین آدمی ہے جو کعبے کا غلاف اوڑھ کر آیا ہے۔“دوسرا بولا : اللہ کو تمہارے سوا اور کوئی نہ ملا جس کو رسول بنا کر بھیجتا۔“تیسرے نے کہا: میں تم سے بات ہی کرنا نہیں چاہتا؛ کیوں کہ اگرتم واقعی نبی ہو تو انکار کر دینا مصیبت سے خالی نہیں اور اگر جھوٹے ہو تو میں جھوٹے شخص سے بات کرنا نہیں چاہتا ۔“ سرداروں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ آپ وہاں قیام فرمالیں۔ نا امید ہو کر حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں سے بات چیت کرنے کا ارادہ فرمایا مگر کسی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دھیان نہ دیا بلکہ بڑی بد تمیزی سے کہا کہ ہمارے شہرسے فورا نکلو اور جہاں مرضی ہو چلے جاؤ۔

طائف سے واپسی اور ظلم کے انتہا

رسول اللہ صل اللہ جب جانے لگے تو ان بد بختوں نے شہر کے اوباش لڑکوں کو مذاق اُڑانے اور پتھر مارنے کے لیے آپ کے پیچھے دوڑا دیا۔ پتھروں کی بارش سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے ، تکلیف کی شدت سے آپ بار بار بیٹھ جاتے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بازوؤں سے پکڑ پکڑ کر اُٹھاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جونہی چلنے کے لیے قدم اٹھاتے ، وہ پھر سنگ باری کرتے ۔ طائف کی سرزمین پر کائنات کے مقدس ترین انسان کا خون اتنا بہا کہ دونوں جوتے خون سے رنگین ہو گئے۔حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو آپ کے ساتھ تھے ، انہیں اتنے پتھر لگے کہ ان کا سر پھٹ گیا۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح مار کھاتے شہر کی حدود سے نکل آئے ۔ ایک باغ نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں داخل ہو گئے ۔ تب ان لوگوں نے پیچھا چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کے سائے میں جا بیٹھے اور انتہائی بے بسی کے عالم میں دکھے ہوئے دل کے ساتھ اپنے مولا سے یہ دعا مانگی:الہی تجھی سے اپنی کمزوری اور بے کسی اور لوگوں میں ذلت اور رسوائی کی فریاد کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین تو ہی کمزوروں کا رب ہے، تو ہی میرا پروردگار ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے، کسی اجنبی پرائے کے جو مجھے دیکھ کر منہ بناتا اور تیوری چڑھاتا ہے یا کسی دشمن کے حوالے کرتا ہے جس کو تو نے مجھ پر مسلط کر دیا۔ اے اللہ ! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی چیز کی پروا نہیں۔ مجھے بس تیری حفاظت کافی ہے، میں تیرے چہرے کے اس نور کے طفیل جس سے تمام تاریکیاں روشن ہو جاتی ہیں اور جس سے دنیا اور آخرت کے سارے کام کیا سنور جاتے ہیں، اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ پر تیرا غصب نازل ہو یا تو مجھ سے ناراض ہو۔ تیری ناراضی اس وقت تک دور کرنا ضروری ہے جب تک تو راضی نہ ہو جائے ۔ نہ تیرے سوا کوئی طاقت ہے نہ قوت ۔

اللہ تعالیٰ کے شان جوش میں آنا

ایسی مضطرب دعا پر اللہ تعالی کی شان کریم کو جوش کیوں نہ آتا۔ فورا حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا گیا۔ انہوں نے کر عرض کیا: اللہ نے آپ کی قوم کی وہ گفتگو سنی ہے جو انہوں نے آپ سے کی ۔ اب وہ فرشتہ جو پہاڑوں کےانتظامات پر مامور ہے، حاضر خدمت ہے، آپ اسے جو چاہیں حکم دیں ۔اب پہاڑوں کے فرشتے نے سلام کر کے عرض کیا:ارشاد ہوتو دونوں جانب کے پہاڑوں کو ملا دوں؟ جس سے یہ قوم درمیان میں کچلی جائے۔

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے امت پر رحم

مگر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رحم وکرم کا پیکر تھے، جواب میں فرمایا: میں توقع رکھتا ہوں کہ اگر یہ لوگ مسلمان نہ ہوئے ان کی اولاد میں سے ایسے انسان پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے ۔“

صلی اللہ علیہ وسلم

ہر قسم اسلامی تاریخ کے لیےAlkhroof.com ویزٹ کریں شکریہ

FB_IMG_1696348668475

روم اور فارس کی جنگ اور فتح ہونے کا مکمل واقعہ

روم و فارس کی جنگ اور قرآن کی پیش گوئی:

روم اور فارس کے مابین گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں فارس نے رومیوں کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کیا۔ مشرکین جو مسلمانوں کو دبا کر پہلے ہی مغرور ہورہے تھے، مزید اترانے لگے کیوں کہ عقیدے کے لحاظ سے وہ خود کو فارس کے مشرکین سے اور مسلمانوں کو رومی اہل کتاب سے قریب تر سمجھتے تھے۔ چنانچہ وہ تکبر میں آکر کہنے لگے کہ جس طرح ہمارے فارسی بھائیوں نے رومی اہل کتاب کو کچل ڈالا ہے ، اسی طرح ہم تمہیں ختم کر دیں گے۔ مشرکین کی اس لن ترانی کے جواب میں سورہ روم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں خبر دی گئی کہ رومی شکست کھانے کے باوجود چند سالوں میں دوبارہ فتح یاب ہوں گے

مشرکین نے مذاق اڑایا کہ ایسی زبر دست شکست کے بعد رومی دوبارہ کیسے غالب آ سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے شرط لگالی کہ اگر پانچ سال کے اندر رومی فتح یاب نہ ہوئے تو تم جیتے ورنہ ہم ۔ ہارنے والے پر جیتنے والے کو دینے کے لیے ہرجانہ بھی طے کر لیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شرط کا پتا چلا تو قرآن مجید کے الفاظ بضع سنين ” کے پیش نظر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کوشرط میں پانچ سال کی جگہ نو سال کی ترمیم کرانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ سات سال بعد قرآن کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور رومیوں نے اہل فارس کو عبرت ناک شکست دے ڈالی

حضرت ابو بکر صدیق ہی کی حبشہ کی طرف ہجرت اور راستے سے واپسی (۹ نبوی ):

بنو ہاشم کے محصور ہونے کے بعد حالات سخت ترین ہو گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ مسلمانوں کا اب دنیا میں کوئی سہارا نہیں ہے۔ ان حالات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، جیسے کوہ استقامت بھی حبشہ کی طرف ہجرت پر مجبور ہو گئے ۔

صحیح بخاری کا قول

یہ واقعہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس طرح مروی ہے: جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین پر عمل پیرا دیکھا۔ کوئی دن ایسانہ گزرتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام ہمارے ہاں تشریف نہ لاتے ہوں۔ جب مسلمان تکالیف میں مبتلا کیے گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حبشہ ہجرت کا ارادہ کیا۔ وہ مکہ سے نکل کر حبشہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب برک عماد میں پہنچے ( جومکہ سے پانچ منازل سمندر کی سمت واقع ہے) تو انہیں قبیلہ قارہ کا سردار ابن دغنہ ملا

ابن دعنہ نے ان سے پوچھا: ابوبکر ! کہاں کا ارادہ ہے؟“ انہوں نے فرمایا: ” مجھے میری قوم نے نکال دیا ہے۔ میں نے سوچا کہ زمین میں سفر کر کے اپنے رب کی عبادت کروں۔“

ابن دعنہ نے کہا: ابوبکر تم جیسا آدمی نہ نکل سکتا ہے، نہ نکالا جاسکتا ہے۔ تم مفلسوں کے لیے کماتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، معاشرے کے نادار لوگوں کی کفالت کرتے ہو۔ مہمان کی خاطر مدارات کرتے ہو۔ سچائی کے کاموں میں مدد کرتے ہو۔ میں تمہیں پناہ دیتا ہوں ۔ واپس چلو اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کرو ۔“ پس ابن دعنہ روانہ ہوا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مکہ) آگیا۔ وہاں ابن رعنہ قریش کے سرداروں کے پاس گیا اور ان سے کہا: ” ابوبکر جیسا آدمی نہ نکل سکتا ہے، نہ نکالا جاسکتا ہے۔ کیا تم ایسے آدمی کو نکالتے ہو جو مفلسوں کے لیے کماتا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے، معاشرے کے نادار لوگوں کی کفالت کرتا ہے۔ مہمان کی خاطر مدارات کرتا ہے۔ سچائی کے کاموں میں مدد کرتا ہے ۔

قریش نے ابن دغنہ کی پناہ کو مان لیا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے امان قبول کی اور ابن دغنہ سے کہا : ” ابوبکر سے کہو کہ اپنے رب کی عبادت گھر میں کریں۔ اسی میں نماز ادا کر میں اور جو جی چاہے پڑھیں ۔ لیکن اپنی تلاوت سے ہمیں تنگ نہ کریں۔ آواز بلند نہ کریں کیوں کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہمارے بیوی بچے فتنے میں نہ پڑ جائیں۔ ابن دغنہ نے یہ باتیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہ دیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ کچھ عرصے تک ان شرائط پر قائم رہے۔ اپنے گھر ہی میں عبادت کرتے رہے۔ اپنی نماز میں بلند آواز سے قرات نہیں کرتے تھے۔ نہ ہی اپنے گھر کے سوا کہیں تلاوت کرتے تھے۔ پھر ایک دن ان کے جی میں آئی تو اپنے گھر کے باہر میدان میں ایک مسجد بنالی۔ اس میں نماز پڑھنے لگے۔ قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی۔مشرکین کی عورتیں اور بچے ان کے پاس جمع ہو جاتے تھے ۔ وہ ان کی قرآت کو پسند کرتے اور انہیں دیکھاکرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت رونے والے آدمی تھے۔ جب وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو اپنے آنسو نہ روک پاتے ۔ قریشی زعماء اس سے گھبرائے اور ابن دغنہ کو بلوایا۔ جب وہ ان کے پاس آیا تو بولے: ہم نے ابو بکر کواس شرط پر پناہ دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں کریں گے مگر وہ اس حد سے باہر نکل گئے ۔ گھر کے باہر مسجد بنالی۔ نماز اور قرآت علانیہ شروع کر دی ۔ ہمیں ڈر ہے کہ اس طرح ہمارے بیوی بچے فتنے میں پڑ جائیں گے۔ تم ان کے پاس جاؤ، اگر وہ مان جائیں کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کریں گے تو ٹھیک۔ اور اگر وہ اعلانیہ عبادت پر اصرار کریں تو انہیں کہو کہ وہ تمہاری پناہ لوٹا ہیں۔ کیوں کہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کی تو ہین کریں۔ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ علانیہ عبادت کو باقی نہیں رہنے دیں گے۔“ابن ردغنہ ابوبکر رضی اللہ عنہجکے پاس آیا اور کہنے لگا:تمہیں معلوم ہے کہ میں نے کس شرط پر تم سے معاہدہ کیا تھا۔ اگر تم اس پر کار بند رہتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ میری امان واپس کردو کہ میں نہیں چاہتا کہ عرب میں شہرت ہو کہ میں نے ایک شخص کو امان دی لیکن میری امان ضائع کر دی گئی ۔” حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ” میں تمہاری پناہ واپس کرتا ہوں اور اللہ کی امان پر راضی ہوں ۔

لا حول ولا قوۃ الا بالا

ہر قسم اسلامی پوسٹ کے لئےAlkhroof.com ویزٹ کریں شکریہ

FB_IMG_1695732057063

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہ اسلام کا واقعہ

جب حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے (ذوالحجہ ۵ نبوی):

حضور صلی اللہ علیہ وسلم قریش کی اس قدر دشمنی اور ایذارسانی کے باوجود ان کے ایسے افراد کی ہدایت کی خصوصیت سے آرزو رکھتے تھے جن میں حق شناسی صداقت کے لیے قربانی اور قیادت کی غیر معمولی صلاحیتیں نظر آتی تھیں، چاہے وہ ابھی اسلام کے کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہو اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی طور پر کتنی ہی تکلیف کیوں نہ پہنچ رہی ہو۔

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت ظرفی اور کشادہ دلی تھی کہ آپ ایسے افراد کی ہدایت کے لیے بھی اللہ تعالی سے دعائیں کیا کرتے تھے۔ قریش کے دو آدمیوں میں آپ کو غیر معمولی قائدانہ اوصاف نظر آتے تھے۔ ایک حد درجہ ضدی اور عیار شخص عمر و بن ہشام (ابو جہل) تھا، جو آئے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نت نئے منصوبے بناتا تھا۔ دوسری شخص انتائی بہادر اور جرارتھی۔ یہ اٹھائیس سالہ جیالے نو جوان عمر بن خطاب تھے۔ دلیری وسپہ گری میں بے مثال اور ہمت و بے باکی میں یکتا تھے۔ ایک دو واقعات ایسے پیش آچکے تھے جن سے ان کا دل کسی نہ کسی حد تک اسلام کی سچائی کو محسوس کر چکا تھا۔

سن کامیابی کی بات

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانیہ تبلیغ شروع کرنے سے چند دن پہلے وہ حرم کے صحن میں سورہے تھے کہ کسی شخص نے آکر ایک بت کے سامنے جانور قربان کیا۔ اتنے میں ایک نہایت زور دار آواز سنائی دی، کوئی کہ رہاتھا۔ ” يَا جَلِيحٍ أَمْرٌ نَجِيح . رَجُلٌ فَصِيحٍ ، يَقُولُ: لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ ” (اے جلیح سن کا میابی کی بات۔ ایک فصیح و بلیغ آدمی کہتا ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ) حضرت عمر کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ آواز لگانے والے کو تلاش کرتے رہے مگر ناکام رہے۔ اس کے چند ہی دنوں بعد مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا چرچا ہوا۔

حضرت عمر چھپ کر تلاوت نبوی سنتے ہیں

ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجدالحرام میں نماز اداکرتے ہوئے سورۃ الحاقہ کی تلاوت فرمارہے تھے حضرت عمر چھپ کر سنے لگے۔ قرآن مجید کے صوتی و معنوی حسن نے ان کے دل کو موہ لیا، دل میں کہنے لگے: یہ واقعی شاعر ہیں۔

اتنے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت تلاوت کی

وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيْلاً مَّا تُؤْمِنُون (یہ کسی شاعر کا کلام نہیں تم بہت کم ایمان لاتے ہو۔ ) حضرت عمر حیران ہوئے کہ میرے دل کی بات انہیں کیسے پتا چل گئی۔ سوچنے لگے : یہ تو جادو گر ہیں ۔ اتنے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی آیت تلاوت کی: وَمَا هُوَبِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُون . یہ کسی جادوگر کا کلام نہیں تم بہت ک نصیحت پکڑتے ہوں ) حضرت عمر کے دل میں اسلام کی صداقت کا بیج اسی دن پڑ گیا تھا۔جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو قریش میں بڑی بے چینی پھیل گئی ۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح اسلام کو ایک دم حرف غلط کی طرح مٹادیں۔ ادھر جمعرات کی شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا کر رہے تھے:

یا اللہ ! اسلام کو عمر و بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے قوت عطا فرما۔“

ادھر قریش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے پر آمادہ ہور ہے تھے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو مسلمان ہوئے ابھی تین دن ہوئے تھے کہ ابو جہل کے بھڑ کانے پر قریش کے جوش انتظام کو ٹھنڈا کرنے کا بیڑا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اٹھایا، انہوں نے تلوار سنبھالی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کے ارادے سے چل پڑے راستے میں ہیم بن عبداللہ الحمام والی مل گئے جو خفیہ طور پر مسلمان ہو چکے تھے، ان کے تیور دیکھ کر پوچھا: ” عمر ! کہاں کا ارادہ ہے؟”

بولے: “محمد کے پیچھے جارہا ہوں جو قریش کے دانش مندوں کو بے وقوف قرار دیتا ہے، ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اور ہماری جمعیت کی مخالفت کرتا ہے۔“ حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا: ” غمر بہت غلط کام کرنے جا رہے ہو اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرو گے تو بنو ہاشم اور بنوزہرہ کے لوگ تمہیں کہاں چھوڑیں گے !مگر حضرت عمر اپنے ارادے پر اڑے رہے۔ معاملہ زیادہ سنگین ہوتا دیکھ کر نعیم رضی اللہ عنہ نے ذہن بدلنے کے لیے ان کی غیرت پر چوٹ کی اور کہا: ” عمر پہلے اپنے گھر کی خبر لو تمہاری بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید مسلمان ہو چکے ہیں

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب بہن کے دروازے پر پہنچے تو اندر سے قرآن مجید پڑھنے پڑھانے کی آواز آرہی تھی۔ یہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ تھے جو گھر والوں کو قرآن مجید پڑھا رہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ زور سے دروازے پر دستک دی۔بہن نے پوچھا: ” کون؟ جواب دیا: “عمر”یہ سنتے ہی سب گھبرا گئے ۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو جلدی سے ایک کو ٹھری میں چھپا دیا۔ پھر فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا نے دروازہ کھولا۔ عمر نے اندر داخل ہوتے ہی بہن اور بہنوئی سے پوچھا: ” تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟“دونوں بولے: “ہم تو آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔“ عمر نے گرج کر کہا : ” مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ بے دین ہو چکے ہو۔“

سعید بن زید رضی اللہ عنہ بولے: ” عمر بتاؤ اگر حق تمہارے دین کی بجائے دوسرے دین میں ملے تو کیا کریں؟ یہ سنتے ہی عمر حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ پر پل پڑے، انہیں نیچے گرا کر بری طرح مارا، ان کی بہن فاطمہ بنت خطاب میں نہا نے انہیں اپنے شوہر سے ہٹانے کی کوشش کی تو انہیں اتنے زور کا طمانچہ مارا کہ ان کا منہ خون سے بھر گیا۔

فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا روتے ہوئے بولیں : ” خطاب کے بیٹے تم جو جی چاہے کر لومگر میں تو اسلام لا چکی ہوں، گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں ۔“ بہن کے یہ جملے سن کر اور اسے لہولہان دیکھ کر حضرت عمر کا دل پسیجنے لگا۔ غصّہ اتر گیا اور وہ وہیں چارپائی پڑ ڈھےکر پوچھنے لگے : لا ؤ، دکھاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے ؟“

بہن نے کہا: “تم ناپاک ہو، جبکہ اس کتاب کو صرف پاک صاف لوگ ہاتھ لگا سکتے ہیں، پہلے غسل کرو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے غسل کیا تو جسم کی کثافت کے ساتھ دل کا میل کچیل بھی بہہ گیا۔ اب بہن نے وحی کے اوراق سامنے لا کر رکھے۔ یہ ” سورۃ طہ” کی آیات تھیں جو انہی دنوں نازل ہوئی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ آیات پڑھتے گئے اور دل میں ایمان کی روشنی اترتی گئی ۔ آخر بے تاب ہو کر بولے : ‘مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو ” اُن کی آواز سن کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ جو اب تک کوٹھری میں چھپے تھے، باہر نکل آئے اور بولے:

عمر ا مبارک ہو، جمعرات کی شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی تھی کہ الہی عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام کے ذریعے اسلام کو عزت دے۔ لگتا ہے وہ دعا تمہارے حق میں قبول ہو گئی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ سیدھے صفا پہاڑ کے دامن میں حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لگ بگ ان چالیس صحابہ کرام کے ساتھ جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی ، ساری دنیا میں اللہ کے دین کو زمہ کرنے کی فکر میں مشغول تھے۔ ان میں حضرت ابوبکر ، حضرت علی اور حضرت حمزہ نمایاں تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہ دربار حضور میں حاضری اور اسلام

حضرت عمر رضی اللہ نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک صحابی نے جھانک کر دیکھا اور بتایا کہ عمر تلوار سمیت کھڑے ہیں۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ” آنے دو۔ اگر نیک ارادہ ہو تو بہتر ۔ ورنہ ہم اسے اس کی تلوار سے قتل کر دیں گے ۔“ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کھڑے ہو گئے اور انہیں جھنجھوڑ کر کہا: “اے عمر! کیا تم اللہ کی طرف سے ذلت اور عذاب آنے سے پہلے باز نہیں آؤ گے؟” پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ یہ عمر بن خطاب ہے۔ الہی ! اس کے ذریعے دین کو عزت دے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اب رہا نہ گیا، بولے : ”میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔“یہ سن کر سب مسلمانوں نے اتنی زور سے تکبیر کا نعرہ بلند کیا کہ مکہ کی ہر گلی میں آواز گونج گئی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہ کھلم کھلا اسلام کی تبلیغ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام لاتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اب کھلم کھلا اسلام کی تبلیغ کیجیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اگلی صبح مسجد الحرام میں جا کر کفار کے سامنے اپنے اسلام کا برملا اعلان کیا ۔ کفار ان پر جھپٹ پڑے۔ یہ اکیلے ان سے لڑتے رہے۔ دیر تک جھگڑا ہوتارہا۔ آخر کفار مایوس ہو کر پیچھے ہٹ گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہونے کے اسلام لانے کی خبر سے پورے مکہ میں کھلبلی مچ گئی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ” عمر بن خطاب کا اسلام لانا اسلام کی فتح تھی۔ ہم ان کے اسلام لانے سے پہلے کعبے کے پاس آزادانہ نماز تک نہیں پڑھ سکتے تھے۔ جب وہ اسلام لائے تو انہوں نے قریش سے لڑائی کی اور کعبہ کے پاس نماز ادا کی۔ ان کے ساتھ ہم نے بھی نماز ادا کی ۔

سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم

Alkhroof.com

FB_IMG_1696348644777

توحید کی دعوت

حج کی موقع پر دعوت سرگرمی

موسم حج قریب آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امیدیں بڑھ گئیں، کیوں کہ دور دراز کے لوگوں کو وحی کی دعوت دینے کا اس سے بہت موقع کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔ ادھر قریش کے سردار بڑے فکر مند تھے، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے اور آپ کی دعوت کو لوگوں کے نزدیک غیر مؤثر بنانے کے لیے طرح طرح کی باتیں پھیلائی ہوئی تھیں۔ آپ کو (نعوذ اللہ) بے دین، مجنون اور شاعر مشہور کر رکھا تھا مگران تمام حربوں کے باوجود اکاڈ کالوگ مسلمان ہوتے جارہے تھے ۔ یہ دیکھ کر قریش کے سردار با ہم مل بیٹھے، اُن کے نامور سردار ولید بن مغیرہ نے کہا:اج کا زمانہ آرہا ہے۔ عرب کے مختلف قبائل یہاں آئیں گے جن کے کانوں میں یہ بات پڑ چکی ہے، لہذا اس شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک ہی بات طے کر کے کہو۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری باتیں آپس میں ٹکرائیں ۔” خاصے غور و خوض کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی مضبوط الزام سمجھ نہ آیا تو ولید نے کہا: سب سے زیادہ معقول بات یہ ہے کہ تم کہہ دو کی جادوگر ہے، اس نے جادو کے زور سے بھائی کو بھائی سے ، شوہر کو بیوی سے اور خاندان والوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے۔”

چنانچہ لوگ یہ بات طے کر کے حاجیوں کے قافلوں کے مختلف راستوں میں بیٹھ گئے اور اس الزام کو مشہور کرنےگے۔ یہ نبوت کا چوتھا سال تھا

سوق عکاظ میں دعوتِ اسلام (شوال ۴ نبوی ):

عرب میں ماہ شوال سے ذوالحجہ کے آخر تک بڑی چہل پہل ، گرم جوشی اور ہل چل کے دن ہوتے تھے۔ قافلوں کے چلنے اور ٹہر نے ہر طرف عید کا سماں ہوتا۔ انہی دنوں میں عربوں کے مشہور میلے اور بازار لگا کرتے تھے۔ سب سے بڑا بازار عکاظ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ” کے مقام پر لگتا تھا۔ یہ مکہ سے تین دن کی پیدل مسافت تھی۔ عازمین حج اور تاجروں کے قافلے پورا ماہ شوال یہاں گزارتے ۔ ذوالقعدہ میں انسانوں کا یہ سیلاب مکہ کا رخ کرتا اور ذی مجنہ میں ذوالقعدہ کے بیںس دن اس طرح گزارتا کہ جنگل میں منگل ہو جاتا۔ یکم ذوالجہ کو یہ رونقیں مکہ سے پانچ میل ( ۸ کلومیٹر ) دور جلی کباب کے دامن ” ذی الحجاز میں منتقل ہو جاتیں جو عرفات سے تین میل ( پونے پانچ کلو میٹر دور ہے۔ آٹھ دن تک یہاں میلے کا سماں رہتا۔ 9 ذو الچے کو لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مناسک حج ادا کر نے عرفات روانہ ہو جاتے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے ان اجتماعات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے اور ان کے ذریعے تھوڑے وقت میں دور دراز کے قبائل تک اپنی بات پہنچانے کا فیصلہ کر لیا، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شوال سن4 ھجریی میں تین دن کا سفر کر کے مکہ سے سوق غکاظ تشریف لے گئے اور مختلف قبائل کے سامنے دین کی دعوت رکھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالمجاز کے بازار میں آئے اور یہاں بھی اسی کوشش میں دن رات مصروف رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ابو لہب بھی آپ کے تعاقب میں رہا۔ حضور ملی یا تم ان بازاروں اور میلوں کے مختلف حلقوں میں تشریف لے جاتے اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: لو گو کہو لا إله إلا الله (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ) تم کامیاب ہو جاؤ گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آپ کا چچا ابولہب پکتا آتا، اس کی بھیگی آنکھوں میں نفرت کی چنگاریاں ہوتیں اور اس کے سرخ گال غصے سے تمتمار ہے ہوتے ۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی پھینکا اور چلاتا ” ارے لوگو! دیکھنا کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے نہ ہٹادے۔ یہ چاہتا ہے کہ تم لات اور عزی کی عبادت چھوڑ دو۔” حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف توجہ دیے بغیر اپنا پیغام سناتے جاتے

ضیماد ازدی کا قبول اسلام

مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی سرگرمیاں جاری تھیں اور قریش کی عداوت بھی۔ اسی زمانے میں قبیلہ ازد کے ضماد نامی ایک صاحب مکہ پہنچے ۔ مشرکین نے اس خدشے سے کہ کہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر نہ ہو جائیں، انہیں باور کرایا کہ حضور ( نعوذ باللہ) مجنون ہیں۔ ضماء کو جھاڑ پھونک کا بڑا تجربہ تھا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور کہا: میرے ہاتھ پر اللہ نے بہت سے لوگوں کو شفا دی ہے۔ آپ کہیں تو آپ پر بھی دم کردوں۔”

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” إِنَّ الحَمدَ لِله نَحْمَدُهُ وَ نَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ ، وَاشْهَدُ أن لا إله إلا الله وحدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَآنُ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ

بلاشبہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ جسے اللہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندےاور رسول ہیں۔)

ضماد نے دم بخود ہوکر یہ کلمات سنے ، یقین نہ آیا کہ کوئی ایسے کام بھی سنا سکتا ہے۔ بے ساختہ کہا: ” پھر سنائیے۔” حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کلمات دوبارہ سہ بارہ دہرا دیے۔ ضماد نے کہا: میں نے کاہنوں، جادوگروں اور شاعروں کا کلام سنا ہے مگر اس جیسے جملے کبھی نہیں سنے ۔یہ تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں ۔

ضماد نے اسلام قبول کرلیا اور اپنی قوم کی طرف سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر کے واپس ہوئے

مشرکین کے قرآن کی تاثیر کا اعتراف

ہرطرح کی مخالفت کے باوجود قرآن کی تاثیر کا مشرکین کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ بلکہ الٹا ان کے بڑے بڑے سردار جو شعروسحن کا اچھا ذوق رکھتے تھے قرآن کے صوتی اثرات اور اس کی ادبی لطافت سے محفوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ ابو جہل، ابوسفیان اور اخنس بن شریق رات کو اس وقت چھپ چھپ کرآتے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تلاوت فرما رہے ہوتے۔صبح صادق تک وہ گم سم یہ آواز سنتے رہتے ۔ پو پھوٹتے ہی واپس ہوتے ۔ اگر کسی موڑ پر باہم مل جاتے تو ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہوئے کہتے : ” آئندہ ایسا مت کرنا۔ اگر قوم کے نادان لوگوں کو پتا چل گیا تو نامعلوم اس کا کیا اثر لیں گے ۔ مگر اگلی شب پھر ایسا ہوتا۔ جب کئی دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا تو ایک دن اخنس بن شریق لاٹھی اٹھا کر ابو جہل کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا: “بتا ہی دو کہ محمد سے جو تلاوت سنی اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟” ابو جہل کہنے لگا: “ہم اور بنو ہاشم عزت و شرف کی ہر چیز میں مقابلہ کرتے آئے ہیں۔ جب ہم ہر چیز میں برابر نکلے تو وہ کہنے لگے ہیں کہ ہمارے پاس نبی بھی ہے جس پر وحی آتی ہے۔ اللہ کی قسم ! ہم یہ بات کبھی نہیں مانیں گے ۔

قریش کے سردار ولید بن مغیرہ نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام اللہ سناتو اس پر رقت طاری ہوگئی۔ واپس آیا تو ابو جہل نے اس کی بدلی ہوئی حالت دیکھ کر اسے طعنے دیے اور اصرار کیا کہ وہ کوئی ایسی بات کہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ قرآن کا منکر ہے۔ ولید نے کہا: ” میں کیا کہوں؟ تم جانتے ہو کہ شعر، رزمیہ کلام اور قصائد کو مجھ سے زیادہ جانے والا کوئی نہیں۔اللہ کی قسم وہ کلام ان میں سے کسی سے بھی مشابہ نہیں۔ اس میں عجیب مٹھاس ہے۔ وہ ایسا کلام ہے جو سب پر غالب ہے، اس پر کوئی غالب نہیں ۔ وہ دوسرے کاموں کو زیروزبر کر دیتا ہے۔“

ابو جہل نے کہا: تمہیں ایسا کچھ تو کہناہی پڑے گا جس سے تمہاری قوم خوش ہو جائے ۔”ولید نے سوچ بچار کرکے کہا: اسے جادو کہنا چاہیے ۔ مگر نضر بن حارث نے جسے لوگ شیطان کہہ کر یاد کرتے تھے، اس حربے کو بھی فضول قرار دیا۔ وہ قرآن کی تاثیر کو عرب کے روایتی دین کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا۔ ایک دن اس نے برملا کہا: قریش کے لوگو! اللہ کی قسم تمہیں ایسے مسئلہ سے سابقہ پڑا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ۔ تم جانتے ہو کہ محمد تمہارے خاندان کا ایک لڑکا تھا جو پلا بڑھا۔ وہ تمہارا سب سے محبوب فرد اور سب سے زیادہ سچیبات کرنے والا اور سب سے زیادہ امانت دار تھا۔ اب جب وہ ادھیڑ عمر ہوگیا اور یہ نیا پیغام لایا تو تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہے اللہ کی قسم وہ جادو گر نہیں ، کیوں کہ ہم جادوگروں اور ان کی جھاڑ پھونک کو جانتے ہیں۔ کبھی تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہیں۔ اللہ کی قسم وہ کاہن نہیں، کاہنوں اور ان کی حالت کو بھی ہم خوب دیکھ چکے ہیں۔ کبھی تم کہتے ہو کہ وہ مجنون ہیں۔ اللہ کی قسم وہ مجنون نہیں۔ ہم جنون ، اس کی اقسام اور اس کے اثرات کو اچھی طرح جانتے ہیں قریش کے لوگو اپنا انجام اچھی طرح دیکھ لو ۔ واقعی تم پر ہی بڑی آفت آ پڑی ہے۔

عتبہ بن ربیعہ سے گفتگو

ایک دن قریش نے اپنے نہایت زیرک سردار عتبہ بن ربیعہ کو خوب سمجھا سمجھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس نے آتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ بہتر ہیں یا آپ کے آبا و اجداد؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاموش دیکھ کروہ کہنے لگا اگر وہ بہتر ہیں تو سوچو کہ وہ انہی معبودوں کو پوجتے تھے جنہیں تم غلط کہتے ہو۔ اگر تم بہتر ہو، تو ٹھیک ہے، اپنا موقف سناؤ۔ ہم سنیں گے ۔ ہمارے نزدیک تو تم سے زیادہ نقصان دہ آدمی ہماری قوم میں کوئی پیدا نہیں ہوا جس نے ہماری اجتماعیت کو منتشر کر دیا اور عربوں میں ہمیں بدنام کر دیا۔ مشہور ہوگیا ہے کہ قریش میں ایک جادو گر ہے۔ قریش میں ایک کا ہن ہے۔ اب تو بس اتنی ہی کسر رہ گی ہے کہ ہم تلوار میں لے کر ایک دوسرے پر پل پڑیں اور فنا ہو جائیں۔ بھائی ! اگر تمہیں کوئی عورت چاہیے تو ہم دس عورتوں سے تمہارا نکاح کرا دیتے ہیں۔ اگر دولت چاہے تو ہم تمہارے لیے اتنامال جمع کر دیں گے کہ سارے قریش سے زیادہ مال دار ہو جاؤ گے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے یہ سب سنتے رہے ۔ جب وہ چپ ہو گیا تو فرمایا ” تم نے جو کہنا تھا کہ چکے ؟ اس نے کہا: ہاں ۔ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرما ئیں: حم تنزيل مِنَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ كتب فصلت ایتہ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يُعْلَمُونَ بَشِيرًا ونَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ) یہ کلام رحمن ورحیم کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں صاف صاف بیان کی جاتی ہیں، ایسا قرآن ہے جو عربی میں ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ہے جو دانش مند ہیں۔ بشارت دینے والا ، ڈرانے والا ہے۔ پھر بھی اکثر لوگوں نے روگردانی کی ، پھر وہ سنتے ہی نہیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت کرتے جا رہے تھے اور عقبہ ہاتھوں پر سہارا لگائے زمین پر بیٹھے سنتا جارہا تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچے فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ انْذَرْتُكُمْ صَعِقَةٌ مِثْلَ صَعِقَةٍ عَادٍ وثَمُودَ * پھر بھی اگر یہ لوگ منہ موڑیں تو کہ دو میں نے تمہیں ایسی کڑک سے خبر دار کر دیا ہے جیسی کڑک عادو ثمود پر آئی تھی۔ “

عتبہ یہ آیت سن کر یک دم کھڑا ہوگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےمنہ پر ہاتھ رکھا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر مزید تلاوت سے روکا۔ کلام پاک کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ گھر میں محبوس ہوکر بیٹھ گیا۔ آخر دوسرے مشرکین نے آکر خیریت پوچھی۔ اس نے سارا واقعہ سنایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر ہاتھ رکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا : ” تم جانتے ہو محمد جوبھی کہتے ہیں وہ سچ ہی ثابت ہوتا ہے۔ مجھے تو اس وقت عاداور ثمود جیسی کڑک کے سوا کچھ سمجھ نہیں آیا۔مجھے لگا کہ کہیں تم پرواقعی عذاب نازل نہ ہو جائے۔“ پر کہنے لگا اللہ کی قسم محمد نے جو سنایا وہ نہ تو جادو تھا نہ شعراور نہ کوئی جنتر منتر تم میری ایک بات مان لو۔ پھر چاہے میری کوئی بات نہ مانا۔ اس شخص کو اسکے حال پر چھوڑ دو۔وہ جو کہ رہاہے اس کا چر چا ضرورہوگا اگر یوں نے اس پر قابو پالیا تو تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اور اگر وہ عربوں پر غالب آ گیا تو اس کی نفع تمہاری فتح شار ہوگی۔ اس کی عزت میں تمہاری عزت ہوگی ۔”عمائد قریش یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ محمد کی زبان کا جادو تم پر بھی چل گیا ہے۔

طفیل بن عمر ودوسی کا قبول اسلام:

یہی دور تھا جب یمینی قبیلے دوس کے ایک شریف اور عاقل مخص طفیل بن عمرو کی مکہ آمد ہوئی۔ مشرکین مکہ نے اپنے معمول کے مطابق انہیں خبر دار کیا کہ یہاں ایک شخص نیا دین لے کر اٹھا ہے جو باپ اور بیٹے، بھائی اور بھائی اور بیوی اور شوہر میں پھوٹ ڈال چکا ہے، ڈر ہے کہ کہیں تم بھی اس کے اسیر نہ ہو جاؤ، پس اس کی بات نہ سنتا۔

طفیل بن عمرو نے پریشان ہو کر کانوں میں روئی ٹھونس لی مگر ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے قریب نماز ادا کرتے دیکھا تو قریب چلے گئے ۔ تلاوت کی آواز کانوں میں پڑی گئی ۔ کلام اللہ کی حلاوت اور اعجاز نے انہیں دم بخور د کردیا۔ خود سے کہنے لگے: ” میں شاعر اور ذہین آدمی ہوں ۔ بات کی اچھائی برائی کو جانچ سکتا ہوں۔ اس آدمی کی بات سننے میں کیا حرج ہے۔ اگر اچھی ہوئی تو ٹھیک ورنہ مسترد کر دوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو طفیل بن عمرو نے ملاقات کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کا پیغام سنا اور وہیں مشرف بہ اسلام ہو گئے ۔ یمن واپس جا کر پہلے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ والد اور بیوی نے فوراً اسلام قبول کر لیا پھر قوم میں تبلیغ شروع کی مگر قوم آمادہ نہ ہوئی آخر کچھ مدت بعد دوبارہ مکہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ ا قبیلہ دوس سرکش ہے، اس نے( اسلام لانے سے انکار کر دیا ہے۔ آپ اس کے خلاف بد دعا کیجئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: یا اللہ قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور انہیں لے آ ۔

alkhroof.com

FB_IMG_1698465275103

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم وستم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دین میں تکلیفیں

ظلم و ستم کی ان تمام تر کاروائیوں کے باوجود اہل ایمان اپنے دین پر ثابت قدم رہے تو قریش کے سرداروں کا غصہ مزید بڑھ گیا۔ اب انہوں نے نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کو زبانی تکالیف کے ساتھ جسمانی طور پر اذیتیں دینے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا، انہوں نے شہر کے اوباشوں کے ذمے یہ کام لگا دیا کہ جہاں کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں ، آپ کو تنگ کریں، آپ پر آوازیں کہیں، آپ کو شاعر، جادو گر اور مجنون کہیں اور تکلیفیں پہنچا ئیں، چنانچہ یہ سلسلہ پورے زور وشور سے شروع ہوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان حرکتوں سے دل گیر ہوئے ، در دول حد سے بڑھ جاتا تو تسلی کے لیے وحی نازل ہو جاتی۔

غلاموں کہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین

ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو دن بھر ایسی ہی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اور تو اور مکہ کے غلاموں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلم کھلا تو ہین کی اور آپ کو جھٹلایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت رنجیدہ ہوکر گھر تشریف لائے اور چادر اوڑھ کر لیٹ گئے تب وحی نازل ہوئی اور یا ایھالمُدثر کہ کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا حوصلہ بڑھایا گیا۔ اور اکثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کی طعن و تشنیع کے جواب میں خاموش ہی ر ہتے مگر کبھی کبھی صبر کا پیمانہ جھلک جاتا تو آپ انہیں بتا دیتے کہ وہ اپنے لیے خود ہلاکت کا سامان تیار کر رہے ہیں۔

طواف کے دوران کفار کی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر تشدد

ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا طواف کر رہے تھے، اس وقت مکہ کے سردار کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے۔ آپ طواف کرتے کرتے جب بھی ان کے پاس سے گزرتے وہ آپ کا مذاق اڑاتے ۔ آخر تیسرے چکر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس رک گئے اور فرمایا: ” قریش کے لوگ اللہ کی قسم تم باز نہ آؤ گے جب تک کہ تم پر اللہ کا عذاب نازل نہ ہو۔سن لو میں تمہارے لیے ہلاکت کی خبر لے کر آیا ہوں۔یہ سن کر سب کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے اور انہیں سانپ سونگھ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمارہے تھے ” الہا اپنے دین کو یقین غالب کرےگا

مگر اگلے دن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم طواف کرنے آئے تو ان لوگوں نے آپ کو گھیر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے۔ عقبہ بن ابی معیط بد بخت نے آپ کی چادر آپ کے گلے میں ڈال کر اس طرح بل دے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دم گھٹنے لگا اور آپ گھٹنوں کے بل بیٹھے گئے۔ خوش قسمتی سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ موقع پر پہنچ گئے۔ انہوں نے عقبہ بن ابی معیط کو دھکا دے کر ہٹایا اور فرمایا اتقتلونَ رَجُلًا أَن يَقُولُ رَبِّي الله کیا تم ایک شخص کو صرف اتنی سی بات پر قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ؟)یہ سن کر مشرکین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تینوں پر پل پڑے، اتنا مارا کہ ان کا سر پھٹ گیا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اولاد نرینہ کی وفات اور مشرکین کے طعنے

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرایک اور بہت بڑی آزمائش آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے صاحبزادے قاسم جو آپ کی بعثت سے پہلے پیدا ہوئے تھے اور اب اتنے بڑے ہو چکے تھے کہ گھوڑے پر سوار ہو جاتے تھے، اللہ کو پیارے ہو گئے۔ کچھ دنوں بعد آپ کے دوسرے صاحبزادے عبداللہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولاو کوئی نہ رہی۔ اولادکی جدائی کا غم ہی کچھ کم جگر سوز نہ تھا کہ مشرکین نے اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزید دل آزاری کا ذریعہ بنا لیا اب وہ کہتے پھرتے تھے کہ محمد ” ابتر ہو گئے ہیں، یعنی ان کی اولا نرینہ ختم ہوچکی ہے، آئندہ ان کی نسل ہوگی نہ کوئی نام ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم علی یلم کوتسلی کے لیے سورۃ الکوثر نازل فرمائی اور یہ اعلان فرمایا: وان شائِكَ هُوَ الابتر” یقیناً آپ کے دشمن ہی بے نام ونشان ہو جا ئیں گے ۔

Alkroof.com

FB_IMG_1698140720290

صحابہ کرام پر ظلم وستم

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر جبر وستم

قریش کے سرداروں نے جب یہ دیکھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دین تبلیغ سے نہ رکتے ہیں، نہ ابو طالب ان کی سر پرستی چھوڑتے ہیں تو مزید طیش میں آگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بنو ہاشم میں ذاتی وجاہت اور پھر ابوطالب جیسے ہر دل عزیز اور قابل احترام بزرگ کو وہ نظر انداز نہیں کر سکتے تھے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہاتھ اٹھانا آسان نہ تھا مگر عام مسلمان جن میں زیادہ تر غریب لوگ تھے، اب ان کے طیش اور انتقام کا نشانہ بننے لگے۔ قریش کا ہر سردار اپنے اپنے قبیلے کے ان لوگوں کو تختہ مشق بنانے لگا جو اسلام لے آئے تھے۔ جو لوگ غریب تھے اور بے یارو مددگار بھی انہوں نے سب سے زیادہ دکھ سہے

حباب بن الارث اور حضرت بلال رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکلیفیں

خباب بن الارث رضی اللہ عنہ کو انگاروں پر لٹایا گیا، جس سے ان کی کمر با لکل جھلس گئی ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ امیہ بن خلف کے غلام تھے، وہ انہیں صحرا کی تپتی دھوپ میں لٹا کر سیے پر بھاری پتھر رکھ دیا۔ کہتا کہ محمدمد کا انکار کردو اور لات و عزی کی پرستش کرو ورنہ اسی حالت میں تمہارا دم نکل جائے گا۔ کبھی لوہے کی زرہ پہنا کر تیز دھوپ میں بٹھا دیتا۔ وہ اس تکلیف میں بھی کہتے: ” أحدًا أحدا (وہ ایک، وہ ایک ہے ) کبھی ان کے گلے میں رسی ڈال کر شریر لڑکوں کو حکم دیتا کہ پورے شہر میں گھسیٹتے پھریں

عمار بن یاسر اور اس کی خاندان کے تکلیفیں

عمار بن یاسر، ان کے والد یا سراور والدہ سمیہ کا مکہ میں کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ قریش کے سرداران تینوں کو پکڑ کر صحرا میں لاتے اور بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس حال میں دیکھتے تو فرماتے: یا سر کے گھرانے والو! صبر کرتے رہو۔ تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔

حضرت یاسر رضی اللہ عنہ جو معمر اور کمزور تھے، اس مسلسل تشدد کی تاب نہ لا کر ایک دن فوت ہو گئے۔ پھر ان کی اہلیہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل ملعون نے بدترین اذیت دیتے ہوئے برچھی کا وار کر کے شہید کر ڈالا ۔ یہ اسلام کی پہلی شہید خاتون کہلا ئیں ۔ اسی طرح حضرت صہیب رضی اللہ عنہ جو عبداللہ بن جرمان کے آزاد کردہ غلام اور نسلی لحاظ سےعجھی تھے، زدو کوب کا نشانہ بنتے رہے۔ انہیں اتنا مارا جاتا کہ بے ہوش ہو جاتے

قریش کے مظالم اتنے بڑھے کہ شریف، مال دار اور معزز مسلمان بھی ان کی زیادتیوں سے نہ بچ سکے ۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے کس کر باندھ دیا کہ جب تک اسلام نہ چھوڑو گے آزاد نہیں کردوں گا مگر وہ دین حق پر ڈٹے رہے۔

حضرت مصعب بن عمیر کا واقعہ

حضرت مصعب بن عمیر مکہ کے بڑے مال دار ہو نہار اور ناز و نعمت میں پلے ہوئے نو جوان تھے۔ انہیں گھر والوں نے ایک کوٹھری میں بند کر دیا اور ایک طویل مدت تک وہ قید ہی میں رہے

حضرت ابوبکرصدیق پر مظالم

سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ کے انتہائی معزز لوگوں میں سے تھے، اسی طرح حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بھی شرفاء میں شامل تھے مگر جب دونوں اسلام لائے تو قریش کے سردار نوفل بن خویلد نے دونوں کو پکڑ کرایک ہی رسی سے باندھ دیا اور بڑی ایذا رسانی کے بعد چھوڑا ۔ تب سے یہ دونوں قرینین ( دو پکے ساتھی ) کہلانے لگے

حضرت صدیق اکبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جان سے زیادہ عزیز:

ایک دن سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سر عام اسلام کی دعوت دینا شروع کی تو مشرکین آپے سے باہر ہو کر اُن پر جھپٹ پڑے اور مارمار کر بے ہوش کر دیا۔ عتبہ بن ربیعہ اپنے موٹے تلے والے پرانے جوتوں سے ان کے چہرے پر ٹھوکریں مارتا رہا۔ چہرہ اتنازخمی ہوگیا کہ پہچان مشکل ہوگئی۔ ان کے رشتے دار نیم مردہ حالت میں انہیں اٹھا کرنے لئے گئے ، سب کو یقین تھا کہ وہ زندہ نہیں بچیں گے مگر اللہ نے ان کی زندگی باقی رکھی تھی ۔ شام کے قریب انہیں ہوش آیا تو پہلا جملہ منہ سے یہ انکا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو خیریت سے ہیں ناں؟ جب بتایا گیا کہ بخیریت ہیں تو کہنے لگے:

میں جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھ نہیں لیتا، کچھ کھاؤں پیوں گا نہیں۔”

آخر کار ان کی والدہ ام الخیر اور ایک رشتہ دار خاتون ام جمیل رات کا اندھیرا پھیلنے کے بعد انہیں سہارا دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عزیز ترین دوست کی یہ حالت دیکھ کر اپنے آنسو نہ روک سکے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو بھی روتے رہے۔ اُن کی والدہ ابھی تک اسلام نہیں لائی تھیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی درخواست پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ہدایت کے لیے دعا کی۔ دعا کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ ام الخیر رضی اللہ عنہا اس وقت ایمان لے آئیں۔ یہ اس دن کی دعوت و تبلیغ اور ظلم وستم پر صبر کرنے کا نقد صلہ تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ساتھیوں کے خیال رکھنا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے بہت خیال رکھتے تھے اور ان کو ہمیشہ جنت کے باریں میں ذکر فرماتے اور صبر کے تلقین فرماتے

Alkhroof.com

FB_IMG_1698140688377

امانت نبوت سپرد ہوئ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت کا واقعہ

عمر کے چالیسویں سال کو پہنچ کرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سوچ اور فکر گہری ہوتی چلی گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے کہ تمام دنیا ہلاکت اور بر بادی کے راستے پر جارہی ہے اور اگر اس کی سمت درست کرنے کی کوئی موثر کوشش نہ کی گئی تو بنی نوع انسان کا انجام بہت ہی برا ہو گا۔ اس تشویش کے علاوہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک عجیب سی مہم بے چینی محسوس کیا کرتے تھے۔ گزشتہ سات برس سے آپ کو گاہے گاہے فرشتوں کی آواز میں سنائی دے رہی تھیں اور غیبی انوارات کا مشاہدہ ہورہاتھا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تصور تک نہ تھا کہ اللہ تعالی آپ کو آخری رسول کا منصب عطا کرنے والا ہے۔

اس کیفیت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی پسند بنادیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹیوں اور بیابانوں میں وقت گزارنے لگے۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر سچے خواب دکھائی دیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی وادیوں سے گزرتے ہوئے درختوں اور پتھروں سے آواز سنائی دیتی : السلام علیکم یار سول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ کر دیکھتے تو کوئی پکارنے والا نظر نہ آتا۔

جنات کی سیر آسمانی پر پابندی

سے پہلے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوتا ، وحی کی حفاظت کے انتظامات مکمل کر لیے گئے۔ پہلے جنات اور شیاطین آسمان کے قریب جا کر فرشتوں کو ملنے والے احکام اور خبروں کی کچھ سن گن لے لیا کرتے تھے۔ یہ خبریں وہ آکر اپنے کاہنوں اور جادو گروں کو سناتے تھے اور وہ ایک سچ میں دس جھوٹ ملا کر لوگوں پر اپنی فرضی غیب دانی کی دھاک بٹھایا کرتے تھے ۔ آخری کتاب قرآن مجید کے نزول سے پہلے جنات کے آسمان کے قریب آنے اور سن گن لینے پر پہرے لگا دیے گئے۔ اگر کوئی جن پہلے کی طرح اُدھر کا رخ کرتا تو شہاب ثاقب اس کا تعاقب کرتے

اس سے پہلے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوتا ، وحی کی حفاظت کے انتظامات مکمل کر لیے گئے۔ پہلے جنات اور شیاطین آسمان کے قریب جا کر فرشتوں کو ملنے والے احکام اور خبروں کی کچھ سن گن لے لیا کرتے تھے۔ یہ خبریں وہ آکر اپنے کاہنوں اور جادو گروں کو سناتے تھے اور وہ ایک سچ میں دس جھوٹ ملا کر لوگوں پر اپنی فرضی غیب دانی کی دھاک بٹھایا کرتے تھے ۔ آخری کتاب الہی کے نزول سے پہلے جنات کے آسمان کے قریب آنے اور سن گن لینے پر پہرے لگا دیے گئے۔ اگر کوئی جن پہلے کی طرح اُدھر کا رخ کرتا تو شہاب ثاقب اس کا تعاقب کرتے۔

اسی صورتحال سے جنات کو بھی اندازہ ہو گیا کہ عن قریب کوئی بہت بڑا واقعہ ہونے والا ہے۔ ایک کا ہن کا بیان ہے (جو بعد میں مشرف بہ اسلام ہوا ) کہ میرے پاس ایک چڑیل آیا کرتی تھی۔ ایک دن وہ گھبرائی ہوئی نمودار ہوئی اور کہنے گلی اَلَمْ تَرَ الجِنَّ وَإِبْلَاسَهَا. وَيَاسَهَا مِنْ بَعْدِ اِنْكَاسِهَا ، وَلْحُوْقَهَا بِالْقِلَاصِ وَأَحْلَاسِهَا کیا تو نے نہیں دیکھا جنات اور ان کی حیرانی کو، ان کی مایوسی اور افتادگی کو ان کے اونٹنیوں کی پشت سے چھٹے کو ۔ گویا ان تکوینی تغییرات نے جنات کو بھی احساس دلا دیا تھا کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور قریب ہے۔ جس طرح باران رحمت سے قبل ہوا تھم جاتی ہے، اسی طرح نزول وحی سے پہلے یوں لگتا تھا جیسے کائنات دم سادھے کھڑی ہو۔

پہلی وحی

نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے دور غار کو اپنی گوشہ نشینی کےلیے پسند کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرکا چالیسواں سال تھا جب ایک دین یکا یک ایک فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ظاہر ہوا۔ یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو اللہ کے حکم سے آخری رسالت اور ساری دنیا کی راہ نمائی کا فریضہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپنے آئے تھے۔ انہوں نے آتے ہی اپنا تعارف کرایا اور کہا: “اے محمد! میں جبرئیل ہوں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔“

پہلی وحی سورۃ العلق کی

پھر فرشتے نے آپ کے سامنے سورۃ العلق‘ کی ابتدائی آیات تلاوت کیں: إِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ إِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ، عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ

ترجمہ پڑھیے اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ بنایا ، جس نے انسان کو بنایا خون کے لوتھڑے سے، پڑھیے اور آپ کا پروردگار بڑا مہربان ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، اورانسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا

دنیا میں علم و قلم کا تصور :

غرض وہ یورپ جو صدیوں بعد علوم اور تحقیق کی امامت کا دعوے دار بنا اس وقت علم تحریر اور قلم سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتا تھا۔ ایسے میں عرب جیسے تاریک گوشے میں نور کی پہلی کرن کا و (اقرا)، (علم) کی اور بِالْقَلَم کے جیسے تصورات لے کر ابھرنا تاریخ عالم کا ایک عجوبہ ہی تو تھا۔ بلاشبہ یہ ایک ایسے انقلاب کی تمہید تھا جو انسانی معاشرےکی اصلاح کے لیے پڑھنے تعلیم دینے اور قلم کی طاقت سے کام لینے کا پوری طرح قائل تھا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دانشمندی

جب فرشتے ہے یہ پیغام سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہنچے تو خوف و ہیبت اور ایک بے حد گراں ذمہ داری کے اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک کانپ رہا تھا۔ آپ کو لگتا تھا کہ کہیں اس کام کی فکر اور بوجھ سے جان ہی نہ نکل جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہنچتے ہی اپنی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے کہا:مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو! مجھے اپنی جان جاتی محسوس ہو رہی ہے۔” اہلیہ کے دریافت کرنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا ماجرا سنایا ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک تجربہ کار اور دانش مند خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر نام دار کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے آپ کو تسلی دی اور کہا: اللہ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ آپ رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں ، امانت دار ہیں، دوسروں کے کام آتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں، سچائی کے راستے میں آنے والی مصیبتوں میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔“ پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو گزشتہ آسمانی کتب کا مطالعہ کرتےرہتے تھے تا کہ ان سے اس سلسلے میں مشورہ اور راہ نمائی کی جائے۔

ورقہ ابن نوفل کہ پیشگوئی

انہوں نے یہ واقعہ سنتے ہی کہا: اللہ کی قسم تم اس امت کے نبی ہو ۔ یہ وہی فرشتہ تھا جو حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔ دیکھنا ایک وقت آئے گا کہ تمہاری قوم تمہیں جھٹلا کر تنگ کر کے اس شہر سے نکال دے گی ۔“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بڑے حیران ہوئے کہ قریش جو مجھے صادق و امین کہتے ہیں، میرے ساتھ یہ سلوک بھی کر سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے پوچھا: یہ لوگ مجھے نکالیں گے ؟ ورقہ نے کہا: ” ہاں جب بھی کوئی نبی ایسا پیغام لے کر آیا ہے، اس کی قوم نے اس سے دشمنی کی ، اگر میری زندگی میں وہ وقت آیا تو میں آپ کی ضرور مدد کروں گا۔

وحی میں وقفہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اضطراب:

اس واقعے کے بعد ایک مدت تک فرشتہ دوبارہ وحی لے کر نہیں آیا۔ اس دوران حضور صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم پریشانی اور اضطراب کے عالم میں مکہ کی وادیوں اور پہاڑیوں میں گھومتے رہتے کسی پل چین نہ آتا۔ خدا آپ سے کیا چاہتا ہے؟ یہ عظیم ذمہ داری کس طرح نبھانی ہے؟ کچھ معلوم نہ تھا۔ اس حیرت تشویش کی حالت میں کبھی کبھی ایک غیبی آواز آئی: ”بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ تب آپ کو کچھ تسلی ملتی۔ آخر کار یہ آیات نازل ہوئیں: يَأَيُّهَا الْمُدَّثرُه قُمْ فَانْذِرُه وَرَبَّكَ فَكَبِّرُه

اے چادر اوڑھنے والے ! اٹھو اور خبر دار کرو اور اپنے رب

کی بڑائی بیان کرو ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خفیہ دعوت

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دین کی دعوت دینے کا واضح حکم تھا۔ اب آپ کو کام کا لائحہ عمل مل گیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلا تاخیر دعوت کا عظیم فریضہ انجام دینے کا آغاز کردیا اور ابتداء اپنے گھر اور اپنی اہلیہ سے کی۔ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سب سے پہلے اس سچے دین کو قبول کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس وقت دس سال کے تھے، فورا اسلام لے آئے ۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی بلاترد مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ یہ تینوں تو گھر کے افراد تھے۔

باہر ملنے جلنے والوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست سید نا ابو بکر بن ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہا۔ بالغ مردوں میں وہ پہلےمسلمان تھے۔ وہ خود بھی ایک معزز حیثیت کے مالک تھے، اس لیے انہوں نے اپنے واقف کاروں کو اسلام کی دعوت دینا شروع کردی۔

دعوت اسلام کیا تھی

اسلام کی یہ ابتدائی دعوت صرف لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کے اقرار پرمشتمل تھی۔ توحید ورسالت وہ بنیادی پیغام تھا جس سے اس عظیم دعوت کی ابتدا ہوئی۔ لا الہ الا الہ کا مطلب تھا: ” کا ئنات کی تمام چیزوں کا خالق اللہ ہے، تمام امور کا مالک اللہ ہے، کامیابی اور ناکامی، بیماری اور شفاء، زندگی اور موت ہر چیز اس کے قبضے میں ہے۔ سب کچھ اس کے حکم سے ہوتا ہے۔ اس کے حکم اور اجازت کے بغیر مخلوق کچھ نہیں کر سکتی۔ بتوں اور ان سے منسوب دیوی، دیوتاؤں کے پاس کوئی اختیار نہیں ۔ سب کچھ کرنے والی با اختیا ر ذات صرف اللہ کی ہے، اس لیے عبادت بھی اسی کی ہونی چاہیے۔“

محمد رسول اللّٰہ کے مطلب

محمد رسول اللہ کا مطلب تھا: محمد اللہ کے آخری رسول ہیں، ان کی بتائی ہوئی تمام باتوں پر اعتماد کرنا ضروری ہے۔ انہی کی پیروی میں دنیاو آخرت کی کامیابی ہے اور ان کی تعلیمات کی مخالفت میں دونوں جہانوں کا خسارہ ہے ۔“

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دعوت

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت سے عثمان بن عفان، زبیر بن العوام، عبدالرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص اور طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہماجیسے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد ایمان لائے ۔ دعوت میں کسی قبیلے یا خاندان کی تخصیص نہیں تھی بلکہ ہر اس شخص کو دعوت دی جارہی تھی جس میں حق کو قبول کرنے کے آثار نظر آتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں ابو عبیدہ بن جراح، ارقم بن ابی الارقم عبيدة بن الحارث ، عثمان بن مظعون اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما جیسے قریشی جوان اسلام لائے وہاں اس خفیہ پیغام کی آواز مکہ کے کمز ور اور مفلس لوگوں اور غلاموں تک بھی جا پہنچی۔

امیہ بن خلف کے حبشی غلام بلال بن رباح رضی اللہ عنہ انہوں نے کلمہ پڑھ لیا۔ خباب بن الا رث رضی اللہ عنہ جو ایک مال دار عورت کے غلام تھے اور لو ہا کا کام کرتے تھے، اسلام لے آئے۔ صہیب رومی رضی اللہ عنہ جو غیرملکی نو جوان تھے، حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ یاسر کا گھرانہ جو انتہائی تنگ دست تھا ، شروع میں ہی مسلمان ہو گیا، اس میں حضرت یا سر، ان کی اہلیہ سمیہ اور ان کے بیٹے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لڑکے تھے اور عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتے تھے، ایک بار جنگل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آمنا سامنا ہو گیا اور دعوت توحید سنتے ہی کلمہ پڑھ لیا۔

قرآن مجید کا مسلسل نزول کلک

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی یہ تھی کہ متشدداور متعصب لوگ چاہے قریبی رشتہ دارہی کیوں نہ ہوں، انہیں دعوت کی سن گن بھی نہ ملنے پائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل علم اور مشرف بہ اسلام ہونے والے تمام لوگ اس احتیاط کو پوری طری ملحوظ رکھتے تھے، چونکہ ابو لہب چچاہونے کے باوجود متعصب اور متشدد مزاج مشرک تھا، اس لیے اسے بھی لاعلم رکھا گیا۔ اس سے . حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تدبر، دانش اور منصوبہ بندی کی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ابو طالب کا واقعہ

بنو ہاشم کے بڑوں میں سے صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب ، اس دعوت سے آگاہ تھے مگر انہیں بھی یہ علم یوں ہوا تھا کہ انہوں نے اتفاقیہ طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم م اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک گھاٹی میں چھپ کر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ ایمان نہ لانے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حامی، راز دار اور سر پرست تھے۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے پر کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ اپنے دوسرے بیٹے جعفر کو بھی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دس سال بڑے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ گوشوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ یوں جعفر بن ابی طالب السابقون الاولون ( ابتداء میں اسلام لانے والوں) میں شمار ہوئے۔

قریش کے سردار دعوت سے خبردار ہونا

آہستہ آہستہ قریش کے کئی سرداروں کوتو حید کے اس پیغام کا پتا چل گیا جوان کے بتوں کی مخالفت پرمشتمل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیکی کی دعوت یوں چپکے چپکے جاری تھی کہ کوئی اشتعال کا موقع پیدانہیں ہورہا تھا مسلم اور شرک کہیں بھی آمنے سامنے تن کر کھڑے نہ ہوتے تھے۔ سرداران قریش کے خاموش رہنے کا ایک سب بنو ہاشم کا احترام بھی تھا۔ اس کے علاوہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھانے کے باوجود وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ پیغام چند کمز ور لوگوں تک محدود رہے گا اور پھر خود بخو دمٹ جائے گا۔ غالباً انہوں نے اس دعوت کو زمانہ جاہلیت کے امیہ بن ابی ملت اور زید بن عمر و بن نفیل جیسے مشاہیر کی مذہبی سوچ پر محمول کیا تھا جو الہیات پر گفتگو کیا کرتے تھے اور ایک معبود کے قائل تھے۔ مگر اسلام کی دعوت ان سابقہ مصلحین کی خیال آرائیوں کی بہ نسبت بے پناہ طاقت رکھتی تھی۔

حق کا پہلا نعرہ حضرت ابوذر غفاری

مکہ کعبتہ اللہ کی وجہ سے مرجع خلائق تھا جہاں بیرونی زائرین کی آمد ورفت رہتی تھی ۔ ان مسافروں کو بھی حسب موقع دعوت دینے کا کام شروع کر دیا گیا۔ ان کے ذریعے اسلام کی خبر بہت جلد دور دراز کے علاقوں تک پہنچ گئی اور حق کی تلاش میں سرگرداں اکاڈ کا لوگ مکہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نام سے ملنے لگے ۔ سرداران مکہ پہلی بار چونکے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی نئے لوگوں سے ملنے میں بہت احتیاط کرنے لگے۔ انہی دنوں ڈاکوؤں کے قبیلے غفار کے ایک نوجوان ابوذر غفاری نے جو بت پرستی سے بے زار تھے، اپنے بھائی سے ایک نئے نبی اور نئے دین کی خبر سنی۔ وہ سیدھا مکہ پہنچے۔ انہیں معلوم تھا کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے جوان سے ملاقات کرنا مصیبت مول لینے کے مترادف ہے، لہذا وہ مسجد الحرام میں ٹھہر کر منتظر رہے کہ کسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو جائے۔ آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا حال احوال پوچھا اور انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملایا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ” کہاں کے ہو؟“بولے غفار کا ۔” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر حیرت و مسرت سے اپنی پیشانی تھام لی۔

ابوذر غفاری اسلام لے آئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کو خفیہ رکھنے کی تاکید کی مگر واپس جانے سے پہلے انہوں نے مسجد الحرام کا رخ کیا اور اہل مکہ کے بھرے مجمع میں کھل کر کلمہ توحید بلند کیا۔

یہ حق کا پہلا والہانہ نعرہ تھاجسے قریش بالکل برداشت نہ کر سکے اور اس درویش بے نوا پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت عباس یہ دیکھ کر تیزی سے لپکے اور یہ کہہ کر لوگوں کو پیچھے ہٹایا

تین سال تک دعوت کا خفیہ سلسلہ جاری رہا۔ حضرت ارقم بن ابی الا رقم بیا رضی اللہ عنہ کا مکان جو صفا پہاڑی کے دامن میں واقع تھا، اس عظیم جدو جہد کا پہلا مرکز تھا۔

Alkhroof.com

islamic history ke leya ye wabsite visit krey shukreya