FB_IMG_1696348668475

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ پیدائش

کائنات کی صبح صادق

آخر وہ گھڑی بالکل قریب آگئی جس کا کائنات کے ذرے ذرے کو انتظار تھا۔ ایک دن قریش کے سردار عبد المطلب بن ہاشم کو صبح سویرے اطلاع ملی کہ اللہ نے انہیں ایک ہونے سے نوازا ہے۔ یہ ربیع الاول کا مہینہ تھا جبکہ خالص قمری تقویم کے لحاظ سے یہ ماہ رمضان تھا۔ تاریخ کے بارے میں اختلاف ہے۔8.9.10 اور 12 کے اقوال مشہور ہیں

عبد المطلب وہ دوڑے ہوئے آئے ۔ اپنی بہو آمنہ بنت وہب کے پہلو میں ایک چاند سا حسین بچہ دیکھا تو ان کا دل شفقت و محبت سے لبریز ہو گیا۔ چھ ماہ پہلے ان کے سب سے چھوٹے بیٹے عبد اللہ کا انتقال ہو گیا تھا، یہ بچہ اسی عبداللہ کی نشانی تھا۔ عبد المطلب بچے کو گود میں لے کر کعبہ میں داخل ہوئے۔ اللہ کی حمد وثنا بیان کی ، اس بچے کا نام سوچنے لگے تو ان کے ذہن میں ایک بالکل نیا نام “محمد” آپا جواس سے پہلے عربوں میں کسی نے نہیں رکھا تھا۔ اللہ تعالی نے یہ منفرد نام اپنے آخری رسول کے لیے محفوظ کیا ہوا تھا جو عین وقت پر عبد المطلب کے دل میں ڈال دیا گیا

آخری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرہ نسب

اس آخری نبی کا شجرہ نسب یوں ہوا: محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن کریمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ سلسلہ نسب حضرت اسماعیل علیہ السلام تک

عدنان کے بعد کئی واسطوں سے حضور نبی کریم علی ای نیم کاسلسلہ نسب حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جاملتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے اور برگزیدہ نبی تھے ۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن

پاکیزہ بچپن: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو شروع شروع میں چند دن ان کے چا چا ابولہب کی باندی تویہ نے دودھ پلایا۔ اس دوران عبد المطلب اپنے یتیم پوتے کے لیے کسی دودھ پلانے والی کو تلاش کر رہے تھے۔ عربوں میں یہ رواج تھا کہ شیر خوار بچوں کو پرورش کے لیے دیہات کی دائیوں کے حوالے کر دیتے تھے تا کہ انہیں کھلی اور صاف آب و ہوا میسر آئے اور اُن کے جسم و جان کی اچھی نشو نما ہو۔ اس کے علاوہ دیہاتیوں کی زبان بھی فصیح اور خاص ہوتی تھی، جسے سیکھ کر بچے بھی ابتدا ہی سے خوش گفتار بن جاتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ رضاعی ماں کے ساتھ پرورش

طائف کے قریب آباد : وسعد اپنی فصاحت و بلاغت کے باعث مشہور تھے۔ اس لیے مکہ کے شرفاء ان کی دایوں کی خدمات حاصل کرنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ انہی دنوں اس قبیلے کی چند دریاں بچے گود لینے کے لیے مکہ آئیں مگر کسی دائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گو نہ لیا تھا ؟ کیوں کہ یہ خشک سالی کا زمانہ تھا اوران لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ٹھیک ٹھاک معاوضہ چاہیے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ایام میں یتیم دیکھ کرکسی دائی کو اس گھر سے معقول معاوضہ ملنے کی توقع نہ ہوئی۔ دالوں کے اس قافلے میں حلیمہ سعدیہ نامی ایک نیک خاتون بھی تھیں۔ انہیں کسی گھرسے کوئی بچہ نہ ملا۔ آخر وہ حضرت آمنہ کے گھر میں داخل ہوئیں، اس یتیم بچے کو دیکھتے ہی اس کی محبت ان کے دل میں پیوست ہوگئی، وہ زیادہ اجرت کا خیال کیے بغیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے سے لگائے اپنے ساتھ لے آئیں۔ ان کو گود لیتے ہی حلیمہ سعدیہ کو ہر طرف برکت ہی برکت نظر آنے لگی۔ لاغر جانور توانا ہو گئے ، بد حالی خوشحالی میں بدل گئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نشود نما عام بچوں سے مختلف ہوئی، جب عمر مبارک دو برس ہوئی تو حلیمہ سعدیہ نے دودھ چھڑا دیا۔ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے رضاعی بہن بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے جنگل میں جانے لگے۔ اس دوران ایک دن اچانک دوفرشتے نازل ہوئے جنہوں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک چیرا اور آپ کے دل سے سیاہ لوتھڑے جیسی کوئی چیز نکال کر پھینک دی اور دل کو ایمان و حکمت سے بھر کر واپس رکھ دیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر سینہ چیرے جانے کا کوئی نشان تک نہ رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چار سال کی عمر تک بنوسعد میں رہے۔ اس کے بعد حلیمہ سعدیہ نے آپ کو والدہ کے سپرد کر دیا۔ قبیلہ بنو سعد میں گزرے ان دنوں کی سادہ و جفا کش زندگی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت نشو ونما اور تربیت پر بہت عمدہ اثرات ڈالے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعدمیں کبھی کبھارصحابہ کرام سے فرماتے تھے: میں تم سب سے زیادہ خالص عرب ہوں اور میں نے بنو سعد کے قبیلے میں دودھ پیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کے ساتھ یثرب کا سفر

مکہ واپس آنے کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چھ سال ہوئی تو والدہ محترمہ آپ کو لے کر یثرب روانہ ہوئیں تا کہ اپنے شوہر کی قبر پر جائیں اور بچے کو اس کے والد کے ننھیالیوں سے ملائیں۔ ان کی حبشی باندی بر کہ (ام ایمن ) بھی اس سفر میں ہم راہ تھیں، جنہیں عبداللہ نے میراث میں چھوڑا تھا۔ یثرب میں حضرت آمنہ نے اپنے شوہر کے نھیال ہو یار میں کچھ دن گزارے۔ یہاں بن عدی بن نجار کا تالاب بھی تھا جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرا کی سکھی ۔

حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور عبد المطلب کے پرورش

واپسی کے سفر میں حضرت آمنہ ابواء کے مقام پر پہنچی تھیں کہ اچانک ان کا آخری وقت آگیا اور دیکھتے ہی دیکھتےدور دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ یہ ویران غیر آباد مقام مکہ اور یثرب دونوں کے بیچوں بیچ تھا۔ چاروں طرف پہاڑ تھے جن کے درمیان ایک ٹیلے پر حضرت آمنہ کی تدفین کی گئی عبداللہ کا یتیم، چھ سال کی عمر میں ماں کے سہارے سے بھی محروم ہو گیا اور وہ بھی اس کسمپری کے عالم میں کہ دور دور تک کوئی عزیز یارشتہ دارنہ تھا جس پر ہاتھ رکھا اورسینے سے لگا کر تسلی دیتا۔ یاللہ تعالی کی طرف سے غیر معمولی شخصیات کی تربیت کے وہ مراحل ہوتے ہیں جو بھٹی کا کام کر کے استعداد کے سونے کو کندن بناتے ہیں۔ حضور علیہ السلام علم کی باندی یہ کہ (اُم ایمن جو غالباً اس وقت خود سولہ سترہ برس سے زیادہ کی نہ تھیں) بڑی مشکل سے آپ علیہ سلم کو ساتھ مکہ لائیں۔ عبد المطلب نے اپنے ڈر یتیم کو پوری طرح اپنی آغوش شفقت میں لے لیا۔ وہ ایک آن پوتے کو اپنی نظروں سے دور نہ ہونے دیتے تھے۔ جب کہنے کے سایے میں اُن کے لیے وہ رئیسانہ قالین بچھایا جاتا جس پر کسی اور کو بیٹھنے کی اجازت نہ تھی تب بھی وہ اپنے ہونہار پوتے کو ساتھ بٹھاتے ۔حضور علیہ السلام سات سال کے تھے جب عبد المطلب کچھ دنوں کے لیے آپ کو چھوڑ کر یمن گئے تاکہ وہاں کے نئے حاکم سیف بن ذی ایوان کو مبارک باد دیں جس نے یمن سے حبشیوں کا اقتدار ختم کر کے عربوں کو دوبارہ عروج بخشا تھا۔ اس سفر کے سوا عبد المطلب نے ہمیشہ یتیم پوتے کو دل سے لگا کر رکھا۔

عبد المطلب کے وفات کے بعد

مگر والہانہ شفقت کے یہ دن باد صبا کی طرح گزر گئے اور ایک دن عبد المطلب بھی دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ اس وقت حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عمر ۸ سال دو ماہ دس دن تھی۔ جاتے جاتے عبدالمطلب اپنے بیٹے ابو طالب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھ بھال کی وصیت کر گئے اور وہی آپ کے سر پرست بنے۔۔اس سال عرب کے مشہور تھی اور قبیلہ بنی طے کے سردار حاتم طائی کا انتقال ہوا تھا اور یہی سال فارس کے سب سےنامور بادشاہ نوشیروان کی وفات کا ہے۔

اقبال مند لڑکپن :

عموماً لڑکپن کا زمانہ شوخی اور شرارت کے عروج کا ہوتا ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایام شروع سے نہایت شریف ، باوقار اور حیادار تھے۔ حضور عالم عرب کی معاشرتی برائیوں سے ذرا بھی متاثر نہ ہوئے۔ شرکیہ رسومات ، شراب نوشی اور گانے بجانے سے کوسوں دور رہے۔ سچائی ، امانت داری، ہمدردی، تواضع ، مروت اور رحم دلی کی صفات حضور نئی ہی ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ بے حدد ہیں، معاملہ فہم، بہادر اور چاق و چوبند بھی تھے۔

شام کی سفر اور راہب کے گاہی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بارہ سال تھی جب آپ اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ کے شام کے تجارتی سفر پر نکلے۔ اس قافلے نے شام کے سرحدی شہر بھرٹی میں شاہراہ کے کنارے پڑاؤ ڈالا جہاں بحیرا نامی ایک راہب کی خانقاہ تھی۔ 0 بحیرا راہب کبھی اپنی خانقاہ سے باہر نہیں نکلتا تھا، مگر اس دن وہ باہر آیا اور مجمعے کو چیرتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچا۔ پھران کا ہاتھ تھام کر کہنے لگا: یہ سیدالعالمین ہیں ۔ یہ رب العالمین کے رسول ہیں۔ یہ رحمتہ للعالمین ہیں ۔ قریش کے کچھ بوڑھوں نے کہا: “تمہیں کیسے معلوم؟ کہنے لگا: ” جب تم گھاٹی سے نیچے اتر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ کوئی درخت ا پھر ایسا نہیں جو تعظیما جھک نہ رہاہو۔ ایسا فقط نبی کے لیے ہوتا ہے۔ میں اسے مہر نبوت کی وجہ سے پہچانتا ہوں جو اس کے کندھوں کے درمیان ہے۔”

حضور نام کی عمر بارہ سال تھی جب آپ اپنے بچا ابو طالب کے ساتھ کے شام کے تجارتی سفر پر نکلے۔ اس قافلے نے شام کے سرحدی شہر بھرٹی میں شاہراہ کے کنارے پڑاؤ ڈالا جہاں بحیرا نامی ایک راہب کی خانقاہ تھی۔ 0 بحیرا کبھی اپنی خانقاہ سے باہر نہیں نکلتا تھا، مگر اس دن وہ باہر آیا اور مجھے کو چیرتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچا۔ پھران کا ہاتھ تھام کر کہنے لگا: یہ سیدالعالمین ہیں ۔ یہ رب العالمین کے رسول ہیں۔ یہ رحمتہ للعالمین ہیں ۔ قریش کے کچھ بوڑھوں نے کہا: “تمہیں کیسے معلوم؟ کہنے لگا: ” جب تم گھاٹی سے نیچے اتر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ کوئی درخت یا پھر ایسا نہیں جو تعظیما جھک نہ رہا

ہو۔ ایسا فقط نبی کے لیے ہوتا ہے۔ میں اسے مہر نبوت کی وجہ سے پہچانتا ہوں جو اس کے کندھوں کے درمیان ہے۔”راہب نے قافلے کی ضیافت کی اور ابو طالب کو قسم دی کہ اس لڑکے کو شام نہ لے جائیں؛ کیوں کہ اگر رومیوں نےاس مقام نبوت کی وجہ سے پہچان لیا تو قتل کردیں گے۔ آخر ابو طالب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے ساتھ واپس مکہ بھیجا

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے جنگ میں شرکت

حضور صلی اللہ علیہ وسلم دس سال کے تھے جب مکہ کے مضافات میں اڑائیوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جنہیں حروب فجارکہاجاتا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی لڑائی نجار اول بنو کنانہ اور ہوازن کے درمیان ہوئی۔ دوسری جنگ قریش اور ہوازن کے مابین لڑی گئی۔ تیسری میں ہوازن اور بنو نصر بن معاویہ آمنے سامنے آئے۔ چوتھی لڑائی جسے نجار رابع اور نجار یہ اض کہا جاتا ہے، گزشتہ تمام جنگوں سے زیادہ سخت تھی جوقریش اور قبیلہ بنو قیس کے درمیان بر پا ہوئی۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پندرہ سال کی تھی ۔ معرکے کے دن قریش کے تقریباً تمام ہوشیار مرد میدان میں صف بند تھے لڑکوں کو بھی مددگار کے طور پر طلب کیا گیا تھا۔ نبی اکرم منی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کے ہمراہ میدان جنگ میں پہنچ گئے جو تیر اندازی پر مقرر تھے۔ اس جنگ میں بنو ہاشم کے سردار زبیر بن عبد المطلب تھے۔ قریش کی قیادت بنو امیہ کا سردار حرب بن امیہ کر رہا تھا۔ لڑائی شروع ہوئی تو دشمنوں نے قریش پر پورا دباؤ ڈال دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اپنی کمانوں سے تیر چلا رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دشمن کے چلائے ہوئے تیر لال کر پکڑا رہے تھے تا کہ تیروں کی کمی نہ ہونے پائے۔ دن کے ابتدائی حصے میں بنوتیس کا پلہ بھاری تھا مگر سورج ڈھلنے کے بعد قریش نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا اور بنو قیس شکست کھا کر پسپا ہو گئے۔ یہ حضور علیہ السلام کے لیے کسی جنگ میں شرکت کا پہلا تجربہ تھا۔ 0

جنوبی عرب پر فارس کے تسلط

اس سال جنوبی عرب میں ایک انقلاب آیا۔ یمن کا محب وطن عرب حاکم سیف بن ذی یزن پندرہ سالہ حکومت کے بعد فوت ہو گیا، چونکہ یہ حکومت کسری کی عسکری مدد کے طفیل تھی ، اس لیے سیف کے مرتے ہی کسرئی نے یمن کو براہ راست اپنے قبضے میں لے لیا اور وہاں اپنے فارسی النسل گورنروں اور افسروں کا تقرر کر دیا ۔ اس طرح جزیرۃ العرب کا جنوب ایک بار پھر بری طرح غیر ملکی استبداد میں جکڑ اگیا۔ 0

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رزق حلال کے لیے محنت

جوان ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہِ و سلم نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے روزگار تلاش کرنے کی فکر کی۔ بنو ہاشم تا جر پیشہ تھے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سرمایہ نہیں تھا، اس لیے آپ نے اجرت کے بدلے لوگوں کی بکریاں چرانے کا کام شروع کیا۔ بنو سعد میں بچپن گزارنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے اس کام کا تجربہ تھا۔بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچاز بیر کے ساتھ تجارت کا تجربہ حاصل کیا اوران کے ساتھ یمن کا ایک سفر بھی کیا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل رشک جوانی اور شادی

سرمایہ نہ ہونے کے باعث حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کا سرمایہ تجارت میں لگا کر نفع میں شریک ہونے لگے۔ عمر مبارک پچیس سال کی تھی جب اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مال و دولت کے لحاظ سے غنی کر دینے کا انتظام فرمایا۔ قریش کی ایک مال دار اور شریف بیوہ خدیجہ بنت خویلد قابل اعتماد افراد کو سرمایہ دے کر تجارت میں لگوائیں اور حاصل ہونے والے نفع سے انہیں معقول معاوضہ دیتیں ۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شرافت ، دیانت اور دوسری خوبیوں کا علم ہوا تو بڑے اصرار سے آپ کو اپنا سرمایہ دے کر تجارت کے لیے شام بھیج دیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت داری اور خوش اسلوبی کی وجہ سے اس تجارت میں بے حد نفع ہوا۔ساتھ ہی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مزید خوبیوں کا علم بھی ہوا وہ آپ کے کردار سے اتی متاثر ہوئیں کہ آپ کونکاح کا پیغام بھیج دیا۔ اس سے پہلے وہ بڑے بڑے شریف اور رئیس لوگوں کی طرف سے رشتے کے پیغام مسترد کر چکی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب نے نکاح پڑھایا۔ اس وقت آپ کی عمر پچیس برس کی تھی ، جبکہ حضرت خدیجہ چالیس سال کی تھیں۔

Alkhroof.com

islamic book ke leya es whatsapp number pe masg krskte hai. 00923170487219

FB_IMG_1698465275103

حضرت آدم علیہ السلام کے پیدائش

حضرت آدم علیہ السلام کے تخلیق

حضرت آدم علی سلام:حضرت آدم علی کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا۔ یہ پہلے انسان کی تخلیق تھی، اس کی بناوٹ میں خالق کائنات نے ان جدتوں اور صناعیوں سے کام لیا جو اس سے پہلے کسی مخلوق کی پیدائش میں استعمال نہیں کی گئی تھیں۔ اس نئے وجود میں سوچنے، سمجھنے ، جذبات کا اظہار کرنے ، مسائل کو مجھنے اور گردو پیش کے وسائل کو کام میں لانے کی صلاحیتیں باقی تمام مخلوقات سے زیادہ تھیں۔ یہ قمی اور تخریب دونوں میں غیر معمولی نتائج اور اثرات دکھا سکتا تھا۔ اللہ . تعالی نے اسے نہ فرشتوں کی طرح اطاعت پر مجبو بنایا تھا، نہ جنات کی طرح شر سے مغلوب، بلکہ اسے خیر اور شر دونوں کی قوت دی تھی۔ فرشتوں نے انسان کی ساخت سے اس کی کارکردگی کی صلاحیتوں کا اندازہ لگالیا، انہیں یہ بھی یاد تھا کہ اس سے قبل زمین پر آباد جنات کتنا فساد چاچکے ہیں، اس لیے انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں نیاز مندانہ عرض کیا کہ اس کی جگہ حمد وثنا اور عبادت کے لیے ہم حاضر ہیں۔ اللہ نے فرمایا: إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ.میں جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ۔انسان کو نیکی اور بدی دونوں کی قو تیں اس لیے دی جارہی تھیں کہ اللہ دنیا کی تجربہ گاہ میں اسے آزمانا چاہتا تھا۔ اگر وہ بدی کی طاقت رکھتے ہوئے اللہ سے ڈر کے بدی سے باز رہے گا اور نیکی کی صلاحیت کو استعمال کرے گا تو کامیاب رہے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ کو بھلا کر بدی کی صلاحیت استعمال کرے گا، نیکی کی قوت کو ترک کرے گا تو نا کام رہے گا۔ یہ راز اس وقت فرشتوں کو سمجھ نہیں آسکتا تھا۔

آدم علیہ السلام کے پیدائش اور فرشتوں کی سجدہ

حضرت آدم علیم کو پیدا کر کے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے انہیں تعظیمی سجدہ کرایا تا کہ ساری دنیا پر انسان کی عظمت کا سکہ بیٹھ جائے ۔ حضرت آدم علینے کی رفاقت کے لیے انسان کی صنف نازک کو بھی پیدا کیا گیا، اس کی ابتدا حضرت حوالہ علیہا سے ہوئی ۔ دونوں کو مہمانی کے لیے جنت میں بھیج دیا گیا۔ دنیا کے پہلے مرد اور عورت نے جنت میں تھوڑا ہی عرصہ گزارا مگر اس مختصری زندگی کا آرام وسکون انسانی روح کی گہرائیوں میں ایسا جذب ہوا کہ بعد میں آنے والا ہر انسان اپنے اندر جنت جیسی کسی جگہ میں جاننے کی زبر دست خواہش محسوس کرتارہا ہے، جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں، رنج و غم اور تکلیف کا نام ونشان نہ ہو، جہاں ہر خواہش پوری ہو اور ہر نعمت میسر ہو۔ اللہ پر ایمان رکھنے والوں نے رسولوں کی معرفت یہ جان لیا کہ اُن کی اصل منزل جنت ہے، اس لیے وہ نیک اعمال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے تا کہ اپنی منزل کی طرف لوٹ سکیں۔ اللہ اور رسولوں پر ایمان نہ رکھنے والوں نے جنت کو ایک خیالی چیز سمجھ کراس کا انکار کیا مگر وہ اپنی فطرت میں موجود جنت کی خواہش سے خود کو آزاد نہ کر سکے۔ اس لیے دنیا کے محدود وسائل کی چھین جھپٹ میں منہمک ہو گئے تا کہ اس فانی زندگی میں جنت کے مزے لے سکیں۔ اس کش مکش سے دنیا فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن گئی۔

شیطان لوگوں کو گمراہ کرنا

تخلیق آدم علیہ السلام سے اب تک انسانوں کو گمراہ کرنے میں سب سے بڑا دخل شیطان کا رہا ہے۔ شیطانوں کا سردار ابلیس جنات کی نسل سے ہے۔ حضرت آدم عین سے پہلے یہ فرشتوں کا ہم نشین اور بارگاہ الہی کا مقرب رکن تھا۔ حضرت آدم علینے کا مرتبہ اپنے سے بلند ہوتے دیکھ کر وہ نفرت اور حسد کی آگ میں بُری طرح جلنے لگا۔ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا؛ کیوں کہ وہ خود کو حضرت آدم علیے اسے بہتر سمجھتا تھا، وہ بھی صرف اس لیے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کابدن مٹی کاہے۔ اس گستاخی پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی بارگاہ سے دھتکار دیا۔ شیطان ڈھیٹ تھا، معافی بھی نہ مانگی۔ ہاں اللہ تعالیٰ سے مہلت طلب کر لی کہ میں قیامت تک آدم اور اس کی اولاد کو گمراہ کر سکوں۔ اللہ نے اجازت دے دی۔ حضرت آدم علینے اور اُن کی اولاد کی آزمائش صحیح معنوں میں تو تب ہی ہو سکتی تھی جب وہ شیطان کے اثرات سے بچ کر دکھا ئیں اور خود کو اپنے خالق و مالک سے وابستہ کیسے رہیں، اس لیے شیطان کو انسان کے بہکاوے کی مہلت بھی دے دی گئی اور صلاحیت بھی۔

شیطان حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ پختہ دشمنی

شیطان کی حضرت آدم علی سے دشمنی پختہ تر ہوگئی۔ اب اس نے حضرت آدم علیے کام کو بھی اللہ کے ہاں مجرم بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی صلاحیت دی تھی کہ وہ دوسروں کے ذہن اور خیالات میں دخل اندازی کر سکتا تھا۔ اس نے اس صلاحیت سے کام لے کر پہلے حضرت حوا اور پھر حضرت آدم علینے کا کو ایک ایسے درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کر لیا جس کا استعمال حضرت آدم علینے کے لیے ممنوع تھا۔ جب آدم و حوا نے پھل استعمال کیا تو اللہ کی طرف سے جنت سے اخراج کا حکم آگیا۔ جنت کا لباس چھین لیا گیا۔ دونوں نے جنت کے درختوں کے چنوں سے ستر چھپا کر اپنی فطری شرم و حیا کی لاج رکھی۔ جلد ہی دونوں کو زمین پر اُتار دیا گیا۔ اس موقع پر انسان اور شیطان کافرق ظاہر ہوا۔ حضرت آدم و حوا نے گڑ گڑا کر اللہ سے اپنی لغزش کی معافی مانگی ، جبکہ شیطان اپنی سرکشی پر ڈٹا رہا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں متنبہ فرمایا کہ اب شیطان ہمیشہ تمہاری اولاد کا دشمن رہےگا، اس سے ہوشیار رہنا۔ یہ بھی بتایا کہ نسل انسانی کی رہنمائی اور اسے شیطان کے اثرات سے بچانے کے لیے آسمانیہدایت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ جو اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ آخرت میں بے خوف و خطر ہوگا۔ جو اسے ٹھکرائے گاوہ سخت عذاب کا حق دار ٹھہرے گا

حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے کا مقصد

چونکہ حضرت آدم علین) کی پیدائش اور دنیا میں اُن کی آمد کا قصہ انسان کو اس کی اصل منزل، مقصد اور حیثیت سے آگاہ کرتا ہے، اس لیے قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اس واقعے کو بہت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ 0 معلوم ہوا کہ دنیا میں انسان کی آمد کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول ، اس کی توحید تک رسائی ، اس کے در پر جھکنے، اس کے احکام ماننے اور شیطان کے جال سے بچنے کی آزمائشیں مقصود تھیں ۔ یہی راز تھا جس کے لیے حضرت آدم علی کو پیدا کیا گیا، دنیا میں بھیجا گیا اور اُن کی نسل کو چلایا گیا۔

حضرت آدم علیہ السلام کے وفات تک نسل کے تعداد

حضرت آدم علینے کا کی وفات تک ان کی نسل کے افراد کی تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ ہو چکی تھی ۔ 0 یہاں ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پیدائش آدم میے کا کا یہ قصہ جو قر آن مجید و احادیث مبارکہ میں بیان ہوا اور اس کی تائید تو رات اور انجیل اپنی موجودہ تحریف شدہ حالت میں بھی کرتی ہیں ) اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ تمام انسان حضرت آدم علی کی اولاد ہیں، سب ایک باپ کے بیٹے اور انسان ہونے کے ناطے بھائی بھائی ہیں۔ اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ڈارون کا نظریہ ارتقاء اور انسان کے بندر کی نسل سے ہونے کا مفروضہ نری گپ ہے جو تمام آسمانی مذاہب کے برعکس اور تاریخ سے متصادم ہونے کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی بالکل خلاف ہے۔ اگر قدیم زمانے کے بندر ارتقاء کرتے کرتے انسان بن سکتے تھے تو دور حاضر کے بندر، بندر ہی کیوں رہے، انسان کیوں نہیں بنے ؟ انسان ہزاروں برس میں کوئی اور مخلوق کیوں نہیں بن گیا؟ بنی شیر کیوں نہ بن پائی اور گدھا آج تک گھوڑے میں کیوں تبدیل نہ ہوا؟

حضرت آدم علیا دنیا میں آئے تو یہاں جنت جیسی نعمتیں اور آسائشیں نہ تھیں، پھر بھی یہ دنیا انسان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی تھی ۔ کھانے پینے بستر پوشی اور رہنے سہنے کے وسائل یہاں میسر تھے۔ خالق کا ئنات نے اس پہلے انسان کو اُن وسائل کے استعمال کی تربیت بھی دے دی۔ حضرت جبرئیل علی گندم کے دانے لے کر آئے اور حضرت آدم علی نے انہیں زمین میں کاشت کر کے اناج حاصل کیا ، اسے ہیں اور گوندھ کر روٹی تیار کی ۔ 0 جنت سے نکالے جاتے وقت حضرت آدم و حوا نے درخت کے چوں سے ستر پوشی کی تھی۔ دنیا میں اس کا مستقل انتظام اس طرح کیا کہ دنے کے بالوں سے اونی کپڑا بنا گیا، اس سے حضرت آدم علیے کام کا جسد اور حضرت حوا کا کرتا اوراوڑھنی تیار ہوئے ۔

حضرت آدم علیہ السلام اور حوا بی بی کہ اولاد میں نکاح کا سلسلہ

حضرت آدم علیہ السلام اور حوا کی اولاد ہوئی تو ان میں نکاح کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں اولاد آدم کی افزائش ہوئی۔دور حاضر میں مغربی محققین نے جہاں انسانی تہذیب و تمدن کو لاکھوں سال قدیم بتایا ہے اور وہاں یہ دعوی بھی کیاہے کہ شروع میں انسان جانوروں کی طرح بر ہنہ پھرتا تھا، کچا گوشت چیا تا تھا، نکاح کا کوئی تصور نہ تھا، مردوزن کسی رسماور قید کے بغیر شہوت پوری کیا کرتے تھے۔ ہزاروں برس بعد وہ کھانے پکانے ، پہنے اور نکاح کا عادی بنا۔ یہ دعوے محض قیاس کی پیداوار ہیں، تاریخ ان کی تردید کرتی ہے

Alkhroof.com

00923170487219

FB_IMG_1698140700597

تاریخ اُمَّتِ مسلمہ تاریخ ماقبل از اسلام از تخلیق آدم علیه تا رفع عیسی علی

یہ دنیا کسی بنی(دنیا کی تخلیق)

دنیا کی حقیقت

یہ دنیا اتنی ہی عجیب ہے جتنی ہماری یہ زندگی اور جسم وجان ۔ ہم گوشت پوست کا ایک جسم ہیں جو سوچتا، ہوتا اور حرکت کرتا ہے، جس میں اک چھوٹا سا دل ہماری پیدائش سے لے کر آج تک کسی وقفے کے بغیر دھڑکتا چلا آرہا ہے، جس میں ہزاروں میل لمبی بال جیسی باریک شریا نہیں ایک ایک خلیے کو خون فراہم کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ ہمارے یہ وجود سو برس پہلے یقینا نہیں تھے اور سو برس بعد یقینا نہیں ہوں گے ۔ پس جس طرح ہم فانی ہیں ، اس طرح یہ دنیا بھی ایک عارضی مقام ہے جو ہمیشہ تھا، نہ رہے گا، مگر اس عارضی مقام کو بھی کس قدر بالغ حکمتوں، عجیب نزاکتوں اور بھر پور انتظامات کے ساتھ بنایا گیا ہے، جتنا سوچنے اور تحقیق کیجئے عقل دنگ ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ سوال پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اُبھرتارہتا ہے کہ آخر یہ دنیا کس نے بنائی اور اس کا مقصد کیا ہے؟

دنیا کس نے بنائی اور اس دنیا کا مقصد

جو لوگ ان سوالات کے جوابات کے لیے وحی کی رہنمائی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور غیب پر یقین کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ ہمیشہ اس بارے میں شکوک وشبہات ہی کا شکار رہے ہیں اور کوئی بھی تحقیق انہیں یہ معمہ حل کر کے نہیں دے سکتی۔ ہاں جو بندے خالق کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، رسولوں کی حیثیت تسلیم کرتے ہیں اور آسمانی تعلیم کی ضرورت کو مانتے ہیں، ان کے لیے یہ سوالات بھی معما نہیں رہے؟ کیوں کہ ہر نبی کی ابتدائی تعلیمات اِن سوالات کے جوابات دیتی ہیں۔ یہ دنیا ایک اللہ نے بنائی ہے، وہی خالق کا ئنات ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ، اس کو کسی نے پنہیں بنایا، اس کی کوئی اولاد نہیں۔ وہ سب کچھ جانتا ہے، ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے، اس نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے، اس دنیا کو آزمائش کی جگہ بنایا ہے، کامیاب لوگوں کے لیے انعام کے طور پر جنت تیار کی ہے اور نا کام لوگوں کو سزادینے کے لیے جہنم کو شعلہ زن کیا۔ یہ ہیں موت وحیات کے اسرار کے متعلق وہ حقائق جو گزشتہ کتب آسمانی میں بھی موجود تھے اور اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ چیزیں عقائد سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کو جانے بغیر انسان کی بے چین روح کبھی مطمئن نہیں ہوسکتی، اس لئے انہیں وحی الہی نے خود کھول کھول کر بیان کیا ہے

کچھ ایسے سوالات بھی ہیں جن کا محرک معلومات کا شوق اور آگہی کا ولولہ ہے۔ انسان کا ذوق تجسس اسے آمادہ کرتا ہے کہ وہ ان باتوں کا پتا چلائے کہ ان کے آباؤ اجداد کون تھے، کیسے تھے؟ ان سے پہلے کون لوگ آباد تھے، دنیا کب سے آباد چلی آرہی ہے، اس پر کون کون سی تو میں آئیں؟ ان کی تہند میں کیا تھیں؟ رہن سہن کیسا تھا؟ یہ سوالات تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سے بعض کے جوابات اللہ کی کتابوں اور رسولوں کے کلام میں مختصراًمل جاتے ہیں۔ ماضی کا شعور انسان کی نظریاتی ، روحانی علمی اور عملی تربیت کے لیے بہت مفید ہے، اس لیے وحی اور رسولوں کے کلام میں ہمیں ماضی کے متعلق بہت سے حقائق مل جاتے ہیں مگر وحی اور رسالت کا اصل مقصد انسانوں کی ہدایت ہے نہ کہ گزشتہ لوگوں کے حالات جمع کرنا۔ اس لیے ماضی کے تفصیلی حالات جانے کے لیے ہمیں اس علم کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جس میں ہر دور کے اہم حالات کو مرتب کیا جاتا ہے، یہی علم علم تاریخ کہلاتا ہے۔ علمائے تاریخ کے مطابق: ” تاریخ وہ علم ہے جس میں گزشتہ قوموں ،حکومتوں ہلکوں اور غیر معمولی شخصیتوں کے حالات کو زمانے کے لحاظ سے ترتیب وار جمع کیا جاتا ہے

دنیا کب بنی

یہ قضیہ شروع سے متنازعہ چلا آ رہا ہے کہ دنیا کب بنی اور نسل انسانی کا وجود کب سے کب سے ہوا؟ ۔ دور حاضر کے ماہرین ارضیات تو زمین کے وجود کو کروڑوں سال اور انسانی وجود کوئی کھوں سال پہلے قرار دیتے ہیں مگر یہ صرف ایک قیاس ہے جس کی کوئی تاریخی روایت تائید نہیں کرتی۔ بر صغیر کے نامور مورخ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ریاللہ نے دنیا کی ابتدائے متعلق اہل علم کے اختلاف کا نہ کر کرتے ہوئے اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ ابتدائے آفرینش چھ ہزار سال پہلےہوئی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ لکھتے ہیں:اس مسئلے کا آخری فیصلہ مشکل ہے، اس لیے کہ ہمارے پاس علم کے وسائل بہت کم ہیں اور اس حقیقت کےآخری فیصلے کے لیے ناکافی ۔ نیز آثار قدیمہ سے بھی اس کا کوئی یقینی فیصلہ نہیں ہو سکتا ۔ البتہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اقوام عالم میں چینی ، ہندی اور مصری سب سے قدیم قومیں ہیں اور مؤرخین فرنگی کا یہ دعوی ہے کہ سطح زمین پران اقوام کا وجود تقریبا چھ اور دس ہزار سال کے درمیان ثابت ہے۔ نیز یہ امر بھی مسلم (تسلیم شدہ) ہے کہ باوجودزبر دست تحقیقات کے کسی قوم کے حالات و واقعات کی تاریخ کا پتا سات ہزار سال سے پہلے نہیں ملتا ،حافظ ابن عساکر رہانے نے اس بارے میں متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ انہوں نے محمد بن الحق سے نقل کیا ہے کہ حضرت آدم علی نے کام سے حضرت نوح ملانے کا تک ایک ہزار دو سو برس، حضرت نوح عالے سے حضرت ابراہیم ملانے تکایک ہزار بیالیس برس حضرت ابراہیم علینے کا سے حضرت موسیٰ ایک کا تک پانچ سو پینسٹھ برس، حضرت موسی علیت ام سےحضرت داؤ د میرے کلام تک پانچ سو بہتر برس، حضرت داؤد میں کام سے حضرت عیسی علیے کام تک تیرہ سو چھپن برس اور حضرت عیسی علیہ السلام سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک چھ سو برس گزرے ہیں۔ اس طرح حضرت آدم علی) کی وفات سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پانچ ہزار سال بنتے ہیں۔ چونکہ حضرت آدم علیہ السلام نے دنیا میں نو سو ساٹھ سال گزارے ہیں، انہیں شمار کیا جائے تو حضرت آدم علینا کی دنیا میں آمد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت تک چھ ہزار دوسو پچانوے سال بنتے ہیں ۔

Alkhroof.com

share this post

islamic hostrey book ke leya es number par masg krey 00923170587219

FB_IMG_1700453659934

علم تاریخ کی اہمیت قرآن مجید کی نظر میں:

تاریخ کی اہمیت قرآن مجید سے ثابت ہے۔ اللہ کے کلام نے گزشتہ پیغمبروں کی تاریخ کو بڑے موجز، بلیغ اور پر اثر انداز میں بیان کیا ہے تا کہ حق کے ماننے والوں کو حوصلہ ملے اور منکرین انجام سے خبر دار ہو جائیں۔ فرمایا: وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَانُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ اور پیغمبروں کے وہ سب حالات جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں، ان سے ہم تمہارے دل کو مضبوط رکھتے ہیں۔“

قرآن مجید میں تاریخ کی واقعات

قرآن مجید کی درجنوں سورتیں اہم ماضیہ کے قصوں کو بیان کرتی ہیں تاکہ ان کے انجام بد سے عبرت پکڑی جائے۔ لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ) ” بے شک ان لوگوں کے قصوں میں عقل والوں کے لیے عبرت کا سامان ہے۔“ قرآن مجید تاریخ کی کتاب نہیں، نوشتہ ہدایت ہے۔ قرآن پاک تاریخ سے اسی انداز میں بحث کرتا ہے جس سے لوگوں کو ہدایت ملے اور ان کا تعلق اپنے خالق سے جڑ جائے۔

تاریخ کی اہمیت احادیث کی روشنی میں

احادیث سے بھی تاریخ کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ حضور نبی اکرم علی ایم نے گزشتہ قوموں اور انبیائے سابقین کے کئی واقعات بیان کیے ہیں جو ذخیرہ احادیث میں موجود ہیں۔ ان کو بیان کرنے کا مقصد وہی ہے جو قرآن مجید کا ہے ۔ یعنی عبرت و نصیحت ۔ صحابہ کرام نے حضور اکرم نیا نہ نام کے اقوال و افعال کے علاوہ اس مبارک دور کے تاریخی واقعات، غزوات اور دیگر حالات کو اسی لیے روایت کیا تا کہ قیامت تک آنے والے لوگ ان سے نور ہدایت حاصل کریں۔ حضرات تابعین اور حدیث شریف کے رواۃ نے بھی سیرت النبی اور سیرت صحابہ کو اسی نیت سے محفوظ رکھا۔ سیرت اور صحابہ کرام کے دور کے حالات کا ایک بڑا ذخیرہ ہمیں حدیث کی کتب سے ملتا ہے۔ حدیث اگر چہ تاریخ کا مجموعہ نہیں ہے مگر اس میں ضمناً تاریخ کے بہت سے واقعات کو لیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ کا یہ حصہ جو کتب حدیث میں ہے صحت و ثقاہت کے لحاظ سے تمام مآخذ تاریخ پر فوقیت رکھتا ہے۔ حدیث کے ذخیرے میں تاریخی واقعات کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ علم تاریخ کی اہمیت حضورنبی اکرم علی علیم، صحابہ کرام اور خیر القرون کے اصحاب علم و دانش کے نزدیک مسلم تھی۔

تاریخ کا حکم فقہاء کے نزدیک

ہرفن اور علم کی طرح تاریخ کے بھی دو پہلو ہیں: ایک مفید، دوسرا مضر۔ پھر مفید پہلوؤں میں سے بعض بہت اہم اور بعض کم اہم ہیں۔ اسی طرح مضر پہلوؤں میں سے بعض کم مضر اور بعض زیادہ مضر بلکہ مہلک ہیں۔ اللہ تعالٰی فقہائے اسلام کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے جس طرح زندگی کے ہر ہر پہلو کا شرعی حکم قرآن وحدیث سے مستقبط تواعد کی رو سے واضح کیا ہے ، اسی طرح علوم کے بارے میں بھی انہوں نے جائز وناجائز کی تشریح کر دی۔ علم تاریخ کے بارے میں فقہائے اسلام کی رائے یہ ہے:تاریخ کے بعض ابواب کا علم حاصل کرنا فرض عین ہے، بعض کا فرض کفایہ ہے، بعض کا واجب ہے، بعض کا مندوب (بہتر ) ہے، بعض کا مباح (جائز) ہے بعض کا مکروہ ہے۔ بعض بعض کا حرام ہے۔سیرت نبویہ کا اس قدر علم کہ مسلمانوں کو اپنے پیغمبر ما این نام کا تعارف ہو جائے ، فرض عین ہے۔ایسے واقعات کا جاننا جن پر اعتقادی و فقہی مسائل اور مسلمانوں کے مصالح موقوف ہوں ، واجب ہے۔ اس لیے اُمت کے ایک طبقے پر اس قدر علم تاریخ سیکھنا فرض کفایہ ہے۔ اعتقادی اور عملی مسائل کا علم تاریخ پر منحصر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے اعتقادی و عملی مسائل احادیث سے ماخوذ ہیں جن کے رواۃ اور ناقلین کے احوال کا پتا اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک تاریخ سے واقفیت نہ ہو۔ اسی طرح کسی حدیث کا متصل السند ہونا، ناسخ و منسوخ کا علم ہونا، نیز نسب اور وراثت کے بہت سے مسئلے تاریخ پر موقوف ہیں۔ اس لیے تاریخ کے ایسے حصے کا علم فرض کفایہ ہوا ۔ علامہ قاری والے نے ابوالحسین فارس کا قول نقل کیا ہے کہ سیرت نبویہ کو یاد رکھنا علاء اور عارفین کے لیے واجب ہے۔صحابہ کرام، اولیاء اور اچھے لوگوں کے حالات کا علم حاصل کرنا جس سے نیکی کی طرف رغبت ہو، مندوب ہے۔بادشاہوں، وزیروں، شہزادوں، شاعروں، ادیبوں اور دوسرے لوگوں کے حالات و واقعات کا جاننا ( جن سےدین میں کوئی نقصان نہ ہو، دنیوی لحاظ سے فائدہ ہو ) مباح ہے۔ ایسے فضول واقعات کو پڑھنا جن میں کوئی دینی یاد نیوی نفع نہیں ہے، مکروہ ہے۔ عاشقی و معشوقی کے قصے، اخلاق سے گری ہوئی حکایات اور فاسق و فاجر لوگوں کے ایسے واقعات پڑھنا جن سے اعتقادی یا ملی خرابیوں میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو، یا جن سے برائیوں کو تحریک ملتی ہو، حرام ہے ۔ کسی خاص ضرورت کے بغیر صحابہ کرام کے مشاجرات کا مطالعہ یا مذاکرہ مکروہ ہے ؟ کیوں کہ اس میں کوئی دنیوی فائدہ ہے نہ اخروی بلکہ ان حضرات کے ادب و احترام میں کمی آنے کا امکان ہے۔ اگر عقیدے میں خلل کا خطرہ .ہو تو یہ حرام ہے۔ البتہ صحابہ کے خلاف اہل باطل کے پروپیگنڈے کا جواب جانے اور دوسروں کو حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے اس موضوع کا مطالعہ اور اس پر مباحثہ جائز بلکہ ضرورت کے وقت واجب ہو جاتا ہے۔ اہل علم کے نزدیک تاریخ کی اہمیت:علم تاریخ کا اہل علم کے ہاں کیا مقام رہا ہے؟ اور اس علم کے کیا کیا فوائد ہیں؟ ذیل میں ہم اس کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں: امام علی بن مدینی روانہ فرماتے ہیں: حدیث کا مطلب سمجھنا نصف علم ہے اور شخصیات کی پہچان نصف علم ہے۔ 0 ۱ حضرت مولانائس الحق افغانی روشن نے تحریر کیا ہے کہ دنیوی ترقی کے لیے چارا مور نہایت ضروری ہیں: ماضی سے ارتباط ، وحدت فکر و عمل، فراہمی اسباب قوت ، جہد مسلسل ۔ 0اگر آپ غور کریں تو ترقی کے لیے بنیاد بننے والے ان چاروں امور کے لیے تاریخ کا مطالعہ نہایت اہم ہے۔ یہ چاروں امور بالترتیب ایک دوسرے پر موقوف ہیں۔ تاریخ ان کی پہلی کڑی ہے، اس لیے اپنی تاریخ سے لاعلم رہ کر ان چاروں امور کو وجود میں لا ناکسی طرح ممکن نہیں۔

مطالعہ تاریخ کی فوائد

مطالعہ تاریخ کے بے شمار فوائد ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں : تاریخ ہمیں حالات کی بصیرت عطا کرتی ہے۔ کسی در پیش واقعے کا صحیح تجزیہ کرنے اور کسی تازہ صورتحال میں درست فیصلہ کرنے کے قابل بناتی ہے؛ کیوں کہ تاریخ پڑھنے والا ماضی میں بیتنے والے ایسے بہت سے حالات سے واقف ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی صورتحال کو کبھی ناممکن یا عجیب نہیں سمجھتا بلکہ ماضی میں اس کی کوئی مثال فورا اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر ایک تاریخ دان یہ کہاوت دہرا کر اپنا حوصلہ برقرار رکھتا ہے کہ: ما اشبه اللَّيل البارحة “لبی رات بھی گزشتہ شب جیسی ہے۔ اہلِ یورپ ایسے مواقع پر کہتے ہیں: ” تاریخ خود کو ہراتی ہے۔“ ا تاریخ انسان کو تجربہ کار بناتی ہے۔ ایک سالار ایک عام سپاہی سے اس لیے اعلیٰ نہیں کہ اس میں طاقت اور پھرتی زیادہ ہے۔ طاقت میں بہت سے عام سپاہی سالار سے فائق ہوتے ہیں۔ بنیادی فرق تجربے اور قوت فیصلہ کا ہوتا ہے۔ تاریخ ماضی کے تجربات سے آگاہ کر کے انسان کو چند گھنٹوں میں صدیوں کے تجربات سے روشناس کراتی

03170487219

تاریخ اسلام کتاب حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں شکریہ

Alkhroof.com

FB_IMG_1704255079843

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم خاندان نبوت

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کےشجرہ نسب، اب تین حصوں میں بیان ہوتا ہے، پہلا حصہ
رسول الله صلى الله عليه وسلم سے عدنان تک دوسرا عدنان سے حضرت اسماعیل علیہ السلام تک اور تیسرا
حضرت اسماعیل علیہ السلام سے حضرت آدم علیہ السلام تک ان میں پہلا حصہ یقینی ہے باقی دو
سے یقینی نہیں ہیں اس لئے یہاں صرف پہلے کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے

        

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے شجرہ نسب

عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرہ بن کعب بن
لوی بن غالب بن فهر بن مالك بن نظر بُن كنِاَنهَبن خزُيَمْهَبن مدُرْكِهَبن الياس بُن مطُرَبُن نزَاَر بن
معَدَُبن
عدنان ALKHROOF.COM