FB_IMG_1698140700597

تاریخ اُمَّتِ مسلمہ تاریخ ماقبل از اسلام از تخلیق آدم علیه تا رفع عیسی علی

یہ دنیا کسی بنی(دنیا کی تخلیق)

دنیا کی حقیقت

یہ دنیا اتنی ہی عجیب ہے جتنی ہماری یہ زندگی اور جسم وجان ۔ ہم گوشت پوست کا ایک جسم ہیں جو سوچتا، ہوتا اور حرکت کرتا ہے، جس میں اک چھوٹا سا دل ہماری پیدائش سے لے کر آج تک کسی وقفے کے بغیر دھڑکتا چلا آرہا ہے، جس میں ہزاروں میل لمبی بال جیسی باریک شریا نہیں ایک ایک خلیے کو خون فراہم کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ ہمارے یہ وجود سو برس پہلے یقینا نہیں تھے اور سو برس بعد یقینا نہیں ہوں گے ۔ پس جس طرح ہم فانی ہیں ، اس طرح یہ دنیا بھی ایک عارضی مقام ہے جو ہمیشہ تھا، نہ رہے گا، مگر اس عارضی مقام کو بھی کس قدر بالغ حکمتوں، عجیب نزاکتوں اور بھر پور انتظامات کے ساتھ بنایا گیا ہے، جتنا سوچنے اور تحقیق کیجئے عقل دنگ ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ سوال پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اُبھرتارہتا ہے کہ آخر یہ دنیا کس نے بنائی اور اس کا مقصد کیا ہے؟

دنیا کس نے بنائی اور اس دنیا کا مقصد

جو لوگ ان سوالات کے جوابات کے لیے وحی کی رہنمائی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور غیب پر یقین کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ ہمیشہ اس بارے میں شکوک وشبہات ہی کا شکار رہے ہیں اور کوئی بھی تحقیق انہیں یہ معمہ حل کر کے نہیں دے سکتی۔ ہاں جو بندے خالق کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، رسولوں کی حیثیت تسلیم کرتے ہیں اور آسمانی تعلیم کی ضرورت کو مانتے ہیں، ان کے لیے یہ سوالات بھی معما نہیں رہے؟ کیوں کہ ہر نبی کی ابتدائی تعلیمات اِن سوالات کے جوابات دیتی ہیں۔ یہ دنیا ایک اللہ نے بنائی ہے، وہی خالق کا ئنات ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ، اس کو کسی نے پنہیں بنایا، اس کی کوئی اولاد نہیں۔ وہ سب کچھ جانتا ہے، ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے، اس نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے، اس دنیا کو آزمائش کی جگہ بنایا ہے، کامیاب لوگوں کے لیے انعام کے طور پر جنت تیار کی ہے اور نا کام لوگوں کو سزادینے کے لیے جہنم کو شعلہ زن کیا۔ یہ ہیں موت وحیات کے اسرار کے متعلق وہ حقائق جو گزشتہ کتب آسمانی میں بھی موجود تھے اور اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ چیزیں عقائد سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کو جانے بغیر انسان کی بے چین روح کبھی مطمئن نہیں ہوسکتی، اس لئے انہیں وحی الہی نے خود کھول کھول کر بیان کیا ہے

کچھ ایسے سوالات بھی ہیں جن کا محرک معلومات کا شوق اور آگہی کا ولولہ ہے۔ انسان کا ذوق تجسس اسے آمادہ کرتا ہے کہ وہ ان باتوں کا پتا چلائے کہ ان کے آباؤ اجداد کون تھے، کیسے تھے؟ ان سے پہلے کون لوگ آباد تھے، دنیا کب سے آباد چلی آرہی ہے، اس پر کون کون سی تو میں آئیں؟ ان کی تہند میں کیا تھیں؟ رہن سہن کیسا تھا؟ یہ سوالات تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سے بعض کے جوابات اللہ کی کتابوں اور رسولوں کے کلام میں مختصراًمل جاتے ہیں۔ ماضی کا شعور انسان کی نظریاتی ، روحانی علمی اور عملی تربیت کے لیے بہت مفید ہے، اس لیے وحی اور رسولوں کے کلام میں ہمیں ماضی کے متعلق بہت سے حقائق مل جاتے ہیں مگر وحی اور رسالت کا اصل مقصد انسانوں کی ہدایت ہے نہ کہ گزشتہ لوگوں کے حالات جمع کرنا۔ اس لیے ماضی کے تفصیلی حالات جانے کے لیے ہمیں اس علم کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جس میں ہر دور کے اہم حالات کو مرتب کیا جاتا ہے، یہی علم علم تاریخ کہلاتا ہے۔ علمائے تاریخ کے مطابق: ” تاریخ وہ علم ہے جس میں گزشتہ قوموں ،حکومتوں ہلکوں اور غیر معمولی شخصیتوں کے حالات کو زمانے کے لحاظ سے ترتیب وار جمع کیا جاتا ہے

دنیا کب بنی

یہ قضیہ شروع سے متنازعہ چلا آ رہا ہے کہ دنیا کب بنی اور نسل انسانی کا وجود کب سے کب سے ہوا؟ ۔ دور حاضر کے ماہرین ارضیات تو زمین کے وجود کو کروڑوں سال اور انسانی وجود کوئی کھوں سال پہلے قرار دیتے ہیں مگر یہ صرف ایک قیاس ہے جس کی کوئی تاریخی روایت تائید نہیں کرتی۔ بر صغیر کے نامور مورخ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ریاللہ نے دنیا کی ابتدائے متعلق اہل علم کے اختلاف کا نہ کر کرتے ہوئے اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ ابتدائے آفرینش چھ ہزار سال پہلےہوئی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ لکھتے ہیں:اس مسئلے کا آخری فیصلہ مشکل ہے، اس لیے کہ ہمارے پاس علم کے وسائل بہت کم ہیں اور اس حقیقت کےآخری فیصلے کے لیے ناکافی ۔ نیز آثار قدیمہ سے بھی اس کا کوئی یقینی فیصلہ نہیں ہو سکتا ۔ البتہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اقوام عالم میں چینی ، ہندی اور مصری سب سے قدیم قومیں ہیں اور مؤرخین فرنگی کا یہ دعوی ہے کہ سطح زمین پران اقوام کا وجود تقریبا چھ اور دس ہزار سال کے درمیان ثابت ہے۔ نیز یہ امر بھی مسلم (تسلیم شدہ) ہے کہ باوجودزبر دست تحقیقات کے کسی قوم کے حالات و واقعات کی تاریخ کا پتا سات ہزار سال سے پہلے نہیں ملتا ،حافظ ابن عساکر رہانے نے اس بارے میں متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ انہوں نے محمد بن الحق سے نقل کیا ہے کہ حضرت آدم علی نے کام سے حضرت نوح ملانے کا تک ایک ہزار دو سو برس، حضرت نوح عالے سے حضرت ابراہیم ملانے تکایک ہزار بیالیس برس حضرت ابراہیم علینے کا سے حضرت موسیٰ ایک کا تک پانچ سو پینسٹھ برس، حضرت موسی علیت ام سےحضرت داؤ د میرے کلام تک پانچ سو بہتر برس، حضرت داؤد میں کام سے حضرت عیسی علیے کام تک تیرہ سو چھپن برس اور حضرت عیسی علیہ السلام سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک چھ سو برس گزرے ہیں۔ اس طرح حضرت آدم علی) کی وفات سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پانچ ہزار سال بنتے ہیں۔ چونکہ حضرت آدم علیہ السلام نے دنیا میں نو سو ساٹھ سال گزارے ہیں، انہیں شمار کیا جائے تو حضرت آدم علینا کی دنیا میں آمد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت تک چھ ہزار دوسو پچانوے سال بنتے ہیں ۔

Alkhroof.com

share this post

islamic hostrey book ke leya es number par masg krey 00923170587219

Tags: No tags

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *