WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.56.26

کان کے درد کا مختلف اقسام اور اس کا علاج

کانوں کے ہمہ اقسام دردوں کے لئے ذیل کے اعمال شفا کا ملہ اور نجات درد کا بہترین علاج ہیں ان کے استعمال سے کانوں کے تمام حصوں سے بہت تیزی سے شفا حاصل ہوتی ہے

پہلا عمل

اگر کسی کے کان میں درد کی شکایت ہو تو باوضو حالت میں چینی کی پلیٹ میں سورہ یوسف لکھیں اور روغن گل سے دھو کر اس تیل کو نیم گرم حالت میں چند قطرے کان میں ڈالیں۔

دوسرا عمل

اس مقصد کے لئے بقدر ضرورت خالص سرسوں کا تیل ہلکا گرم کر کے اس پر :-لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبُحْنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ “ایک سو ایک مرتبہ پڑھ کر دم کریں اور متاثرہ کان میں چند قطرے ڈالیں۔ کان میں تیل ہمیشہ ہلکا گرم ڈالیں ۔انشاء اللہ تعالیٰ العزیزالحکیم شفاء ہوگی۔

کان بجنے ( یعنی اس میں گونج) کا علاج

اگر کسی کے کان ہر وقت بجتے رہتے ہوں یا ان میں اکثر گھنٹیاں بجتی ہوئی تو انکے علاج کے لئے ذیل کے اعمال اکسیر اعظم کا حکم رکھتے ہیں۔

پہلا عمل

سورہ الاعلی پڑھ کر اس پر دم کرنے سے انشاء اللہ تعالیٰ شفاء ہوگی۔

دوسرا عمل

ذیل کی آیت کریمہ پڑھ کر دم کریں یا روغن گل دم کر کے کان میں پکائیں۔انشاء اللہ تعالٰی العزیز کان کا بجنا بند ہو جائے گا۔

آیت کریمہ۔۔

مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكْعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضِوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثْرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرُعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُو وَ عَمِلُو الصَّلِحَتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وأَجْرًا عَظِيمًا

کان بہنے کا علاج

اگر کسی کے کان کسی بیماری یا چوٹ کی وجہ سے بہنے لگیں اور دوا کام نہ دے توتکلیف سے نجات کے لئے ذیل کے اعمال بے حد کارگر اور مفید ہیں۔

سورہ الاعلیٰ تین بار پڑھ کر کان میں آرام آنے تک دم کیا جائے۔

بہنے والے کان پر ہاتھ رکھ کر سورہ حشر کی ذیل کی آیات مبارکہ پڑھی جائیں۔انشاء اللہ تعالٰی العزیز کان بہنا بند ہو جائے گا۔

آیات مبارکہ:-

لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصِدَعًا مِنْ خَشِيَةِ اللهِ وَتِلْكَ الأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ۔۔ هو الله الذى لا إله إلا هو علم الغيب وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ۔۔ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ المُؤمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ المُتَكَبِّرُ سُبْحْنَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ۔۔ هُوَ اللهُ الخَالِقُ الْبَارِىءُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ، وَهُوَ الْعَزِيزُ الحكيم۔

بہرے پن کا علاج

جو کوئی کسی بیماری یا کسی اور وجہ سے بہرہ ہوگیا ہو یا اسے کم سنائی دیتا ہو اور علاج معالجہ کارگر نہ ہوتا ہو تو ایسے میں ذیل کا عمل اکسیر اعظم کا درجہ رکھتا ہے اس کے استعمال سےاس بیماری سے اللہ عز وجل بہت جلد شفائے کاملہ عاجلہ عطا کرتا ہے۔ذیل کی آیت مبارکہ سات بار پڑھ کر دم کیا جائے۔انشاء اللہ تعالی العزیز اقلیم شفاء ہوگی۔

آیت مبارکہ۔۔

وَإِذَا قُرِى ءَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَانْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.59.28

فتح مکه ( رمضان ۸ هجری) مکہ مکرمہ فتح ہونے کا مکمل واقعہ

صلح حدیبیہ کے خاتمے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سرعت سے جنگ کی تیاری شروع کردی اور پوری کوشش کہ یہ خبر مکہ والوں کو نہ ملے پائے۔ رازداری کی یہ انتہاء تھی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو سفر سامان تیارکرنے کا حکمم تود یا مگر یہ نہ بتایا یہ کہاں کا سفر ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ایک دم مکہ والوں کے سروں پر جا پہنچیں تا کہ وہ مقابلہ نہ کرسکیں اور یوں ملکہ کی مقدس سرزمین کسی خون ریزی کے بغیر اپنے اصل وارثوں کو واپس مل جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں خصوصی دعائییں کیں اور فرمایا یا اللہ قریش کا کوئی مجرا اپنا کام نہ کرپائے اور ہم اچانک ان تک پہنچ جائیں

اس موقع پر ایک مخلص مسلمان حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کے ذریعے قریش کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لشکر کا اطلاعی رقعہ روانہ کردیا۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی جو کسی اور سے سرزد ہوتی تو اس پر نفاق کا شبہ کیا جاتا مگر حضرت خاطب رضی اللہ عنہ مخلص اور پرانے صحابی تھے، اس اضطرابی حرکت کی وجہ صرف یہ تھی کہ مکہ میں ان کے اہل و عیال بے سہارا تھے، کوئی اور رشتہ دار وہاں ان کا حمایتی نہ تھا۔ انہیں خطرہ ہوا کہ کہیں قریش مسلمانوں کو حملہ کرتے دیکھ کر میرےبیوی بچوں کو یرغمال نہ بنائیں۔ اس لیے قریش سے یہ بھلائی کر کے وہ اپنے اہل و عیال کے حق میں ان کے نیک سلوک مستحق بنا چاہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے اس کی اطلاع دے دی ۔

آپ نے حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مقداد بن اسود رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس عورت کے پیچھے بھیجا۔ انہوں نے سرپٹ گھوڑے دوڑا کر مدینہ کے مضافاتی مقام روضہ خاخ میں اسے جالیا اور حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا رقعہ بر آمد کروالیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ سے پوچھ کچھ کی تو انہوں نے مکہ میں اپنے اہل وعیال کےبے آسرا ہونے کا عذر بیان کیا اور کہا ” مکہ میں میرے اہل وعیال کا کوئی قرابت دار نہیں ۔ میں نے چاہا کہ مکہ والوں پرکوئی احسان کر دوں تا کہ وہ میرے قرابت داروں کا لحاظ رکھیں۔“

مکہ کی سمت یلغار

آخر کار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار سرفروشوں کے لشکر جرار کےساتھ ، ارمضان المبارک سن ۸ ہجری کو مدینہ سے کوچ کیا۔ یہ سفرشدید گرمی کے موسم میں تھا۔ رمضان کے روزے بھی تھے۔ سفر کی رفتار بھی دوگنی رکھی کی تھی۔ چونکہ مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی شرعی رحصت ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ دو روزے نہ رکھے آپ نے فرمایا اپنے دشمن کے مقابلے میں قوی رہو۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود عزیمت پرعمل کرکے روزہ دار تھے ۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات :

لشکر کی نقل وحرکت اتنی خاموش اور تیز تھی کہ قریش کو آخرتک کچھ پتانہ چلا اورمسلمانوں نے دو ہفتوں کی مسافت صرف ایک ہفتے میں طے کرلی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی آپ کی روانگی سے بے خبر تھے اور اپنے اہل وعیال کولے کر ہجرت کے ارادے سے نکل پڑے تھے۔ مکہ سے ۸۲ میل دور جحفہ کے مقام پر مسلمانوں کا عظیم لشکر آبادکھائی دیا تو حیران رہ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور انہیں ہم رکاب فرمالیا

لشکر اسلام کا نظارہ

رمضان (۷ جنوری ۶۳۰ ء ) جب اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ و ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کولے کر کر کے راستے میں ایک پہاڑکی گھاٹی پرکھڑے ہو گئے تا کہ وہ انہیں پورے لشکر کا نظارہ کر سکیں

تھوڑی دیر بعد اسلامی لشکر کے مختلف دستے اپنے اپنے قبائل کے پرچموں کے ساتھ ان کے سامنے سے گزرنے لگے۔

مکہ میں فاتحانہ داخلہ:

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو گزشتہ زمانے کا ایک ایک منظر آپ کے سامنے تھا۔ یہی وہ سرزمین تھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، پلے بڑھے، عزت و احترام کے ساتھ جوانی گزاری، پھر منصب نبوت ملنے پر اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اٹھے اور پورے شہر کی دشمنی مول لی۔ قریش کا ایک ایک ظلم وستم آپ کو یاد تھا جس کی انتہا یہ ہوئی کہ آپ کو اپنے پیروکاروں کے ساتھ جلاوطنی پر مجبور ہونا پڑا۔ آج وہی شہر آپ کے سامنے سرنگوں تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بڑی فتح کے باوجود دنیا کے دوسرے کسی فاتح کی طرح سرشاری اور فخر کی کیفیت میں نہیں تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حضور میں عجز و نیاز کی تصویر بنے ہوئے تھے، احساس شکر سے آپ کا سر مبارک سواری کی زمین سے لگا جاتا تھا۔

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے حرم میں تشریف لائے اور سواری پر ہی اس کا طواف کیا۔ آپ کے ہاتھ مبارک میں ایک چھڑی تھی ، طواف کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے صحن میں نصب بتوں کی طرف چھڑی سے اشارہ کرتے گئے اور بت زمین بوس ہوتے چلے گئے۔

مختصر سے خطبے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سرداروں سے دریافت کیا بتاؤ، آج میں تم سے کیا سلوک کروں؟” سرداران قریش کو اپنا ایک ایک جرم یاد تھا مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم کی اُمید کر سکتے تھے، وہ التجا کے انداز میں بولے بھلائی کا سلوک فرمائیے ۔ آپ ایک مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے فرزند ہیں ۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی کشادہ دلی سے فرمایا: ” جاؤ تم سب آزاد ہو۔

جان لینے والے جان دینے والے بن گئے

قریش کے پر جوش جوانوں میں اب بھی کچھ ایسے تھے جنہیں اسلام لانے میں ترد تھا مگر حقیقت سے کب تک آنکھیں پرائی جاسکتی ہیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حد سے زیادہ فیاضانہ سلوک بھی ان کے سامنے تھا، اس لیے زیادہ دن نہیں گزرنے پائے تھے کہ تقریبا سب ہی ایمان لے آئے۔

جینا مرنا ساتھ ہے:

اللہ کا گھر شرک کی علامات سے پاک ہو چکا تھا، حرم کو توحید کا مرکز ہونے کا اعزاز واپس مل چکا تھا۔ قریش کے بڑے بڑے رئیس اور اسلام کی مخالفت میں پیش پیش رہنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوکر اسلام قبول کررہے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب اپنے اپنے وطن مکہ والوں کے بھی سردار تھے ایسے میں اگر یہ خیال کیا جاتا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اب مکہ مکرمہ میں ہی قیام فرمالیں گے اور اسکو اسلامی ریاست کا مرکز قرار دیں گے تو کوئی عجیب بات نہ تھی۔ انصار کے کچھ لوگ یہی باتیں کر رہے تھے ؛ کیوں کہ ان کو مسلسل یہ دھڑ کا لگا ہوا تھا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر دعاؤں میں مصروف تھےاور انصاری نگاہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جمی ہوئی تھیں کہ دیکھی آپ اس معاملے میں کیا فیصلہ فرماتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظلم کووحی کے ذریعے ان کے خدشات کی خبرمل گئی تھی، اس لیے دعا سے فارغ ہو کر ان سے دریافت فرمایا : ” تم کیا کہہ رہے تھے؟ وہ بولے : ” کچھ نہیں یا رسول اللہ

مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصرار کیا تو انہوں نے دھڑکتے دلوں کے ساتھ اپنی تشویش سے آپ کو آگاہ کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان جانثاروں کی حوصلہ شکنی کیسے کر سکتے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کی گرم جوشی کے ساتھ فرمایا اللہ کی پناہ ایسا نہیں ہو سکتا الْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالممَاتُ مُماتُكُمْ جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے ۔ فتح مکہ کے فورا بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گردو نواح کی تسخیر اور شرک کے قدیم مراکز کو منہدم کرانے پر توجہ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نحلہ کے مقام پر واقع غزنی کے بت کدے کو تہہ وبالا کر آئے

ہر قسم اسلامی تاریخ کے لیےAlkhroof.com .ویزٹ کریں شکریہ

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.59.28

معدہ اور پیٹ کے درد کا علاج قرآن مجید کی روشنی میں

اس مقصد کے لئے ذیل کی آیات مبارکہ کو تین پھلوں پر دم کر کے وہ پھل کھائے۔انشاء اللہ تعالی العزیز الحکیم درد معدہ سے شفاء حاصل ہوگی۔

آیت مبارکہ:-

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهّب

دوسرا عمل

اس مقصد کے لیے پانی یا شربت پر سات مرتبہ :-الله لا إله إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ پڑھ کر دم کریں اور پلا دیں۔انشاء اللہ تعالٰی العزیز پیٹ درد سے آرام آجائے گا۔

تیسرا عمل

پانی لے کر باوضو حالت میں قبلہ رخ بیٹھ کر ذیل کی آیات مبارکہ کو گیارہ مرتبہ پڑھ کر پانی دم کر کے پلائیں پیٹ درد کو بفضلہ تعالٰی فوری آرام آجائے گا مجرب ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لَقَدْ جَاءتكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ خريصٌ عَلَيْكُمُ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلهُ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

چھوتا عمل

روزانہ باوضو حالت میں تین عدد کالی مرچیں لے کر ان پر سورہ کافرون نہایت توجہ ویکسوئی کے ساتھ پڑھ کر دم کرے اور مریض کو کھلا دے سات یوم تک بلاناغہ یہ عمل کرے۔انشاء اللہ تعالٰی العزیز بہت جلد افاقہ ہوگا اور آرام آجائے گا۔

معدہ کی مریض کا علاج

معدہ کے درد کے مریض کو ذیل کی آیت لکھ کر گلے میں ڈالیں اور چینی کی رکابی پرلکھ کر دھو کر پلایا جائے۔ انشاء اللہ تعالی العزیز احکیم شفاء ہوگی۔

آیت مبارکہ

أَفَغَيْرَ دِينِ اللهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَ كَرُهَا وَ إِلَيْهِ يَرْجَعُونَ

download (21)

مرگی (صرع) کا علاج قرآن مجید کی روشنی میں

جو کوئی مرگی کے مرض میں مبتلا ہو اور اس سے عاجز آ گیا ہو اور بے ہوش ہو جاتا ہو تو اس کے لئے ذیل کے اعمال قرآنی بے حد فائدہ مند اور مفید ہیں روزانہ صبح کو بعد از نماز فجر اور شام کو بعد از نماز مغرب باوضو حالت میں سوره جن بمعہ بسم اللہ شریف پڑھ کر سات مرتبہ ایسے شخص پر مسلسل سات یوم تک مسلسل دم کیا جائے۔

انشاء اللہ تعالی اس عمل سے مرگی کے دورے پڑنا ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گےاور مرگی والا شخص یا بالکل صحت یاب ہو جائے گا۔د باوضو حالت میں ساتھ مرتبہ سورہ مریم پڑھ کر نمک پر دم کریں اور اسے اس طریقہ سے بیمار استعمال کر کہ ہر روز کھانے سے پہلے اور بعد سونے سے پیشتر اورجاگنے کے بعد گویا روزانہ چھ بار نمک چکھ لیا کرے۔اگر مرض میں افاقہ دکھائی دے تو بھی نمک کا استعمال تین ماہ تک جاری رکھا جائے اگر مریض اس عمل پر مداومت کرے تو انشاء اللہ تعالٰی العزیز اس مرض سے نجاتپا جائے گا۔

مرگی کے مریض کے سر میں ذیل کی آیت مبارکہ تین بار لکھ کر باندھنا مفید ہے۔

آیت مبارکہ:-

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّ الَّذِينَ فَتَن الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُو فَلَهُمُ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِة

سورہ الشمس مرگی کے مریض کے کان میں پڑھنا بے حد اکسیر، نافع اور فائدہ مندہے۔قرآن کریم کے یہ حروف مقطعات پڑھ کر مریض کے کان میں پھونک ماریں کان کے پاس منہ کر کے پڑھیں اور پھونک ایسے ماریں کہ کان کے اندر جائے۔

حروف مقطعات

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ المص طسم كهيعص يسَ ن والْقُرْآنَ الْحَكِيم ۔نَ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ.حمعسق

پہلی ہی بار دم کرنے سے آرام ہو جائے گا ورنہ دو چار دفعہ پڑھ کر دم کریں دورہ کے وقت خاص کر دم کریں۔انشاء اللہ تعالٰی العزیز پھر دورہ نہ پڑے گا۔

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.48.16

قوت حافظہ اور کند ذہنی و نسیان کا علاج قرآن مجید سے

قوت حافظہ اور کند ذہنی و نسیان کے علاج کے لئے ذیل کے اعمال بے حد مفید اور مجرب ہیں۔ جو کوئی طلباء و طالبات عورت یا مرد اپنی یادداشت کھو بیٹھے ہوں یا ان کی قوت حافظہ بے حد کمزور ہو گئی ہو اور ان کو کوئی بھی بات یاد نہ رہتی ہو دماغ کند ہو گیا ہو اور اس وجہ سے پریشانی میں جتلا ہوں ان کے لئے ذیل کے قرآنی اعمال بے حد مفید اور مجرب ہیں ۔

جس کسی مرد یا عورت کا دماغ کمزور ہو گیا ہو اور دن بدن دماغی کمزوری بڑھتی جائے تو اس کے لئے درج ذیل آیات مبارکہ کو چینی کی پلیٹ میں باوضو حالت میں قبلہ رخ بیٹھ کر زعفران و گلاب سے لکھے پھر اس کو شہد سے دھو کر نہار منہ روزانہ پئیں۔ انشاء اللہ تعالی العزیز چالیس یوم کے عمل میں مکمل صحت یابی حاصل ہوگی اورضعف دماغ مکمل ختم ہو جائے گا نافہ بالکل نہ کرے۔

آیات مبارکہ:

الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ۔ خَلَقَ الْإِنْسَانَ ، عَلَّمَهُ الْبَيَانَ إِنَّ عَلَيْنَاجَمْعَهُ ۚ وَقَرَانَهُ ۖ فَإِذَا قَرَأَنَهُ فَاتَّبِعُ قُرانَهُ ۔بَلْ هُوَ قُرَانٌ مُجِيدَة ۔ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ ۔

ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ چالیس یوم تک بلا ناغہ روزانہ نماز عشاء کے بعد سورۂ الرحمن کی مندرجہ ذیل آیات مبارکہ تین سو تینتالیس مرتبہ اس طرح پڑھے کہ اول و آخر تیره، تیرہ مرتبہ درود ابرا ہمی بھی پڑھے۔

انشاء اللہ تعالٰی العزیز چالیس دنوں کے اس عمل کے بعد کبھی حافظے کی کمزوری نہ رہے گی اور مدتوں کی بھولی ہوئی باتیں بھی یاد آ جائیں گی یادداشت انتہائی تیز ہو جا۔

آیت مبارکہ:-

الرَّحْمَنُ ، عَلْمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ .الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانِ .

تیسرا طریقہ

سورہ الم نشرح چینی کی پلیٹ پر عرق گلاب و زعفران سے لکھ کر اکتالیس روز تک پلانا ازالہ نسیان کے لئے مفید اور بے حد مجرب ہے۔ ہروزانہ بعد از نماز فجر ذیل کی آیت مبارکہ کا دس مرتبہ پڑھنا مفید اور نافع ہے۔

آیت مبارکہ

فَفَهُمُنهَا سُلَيْمَنَ وَكُلًّا إِلَيْنَا حُكْمًا وُعِلْمًا وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحُنَ وَالطَّيْرَ، وَكُنَّا فَعِلِينَ

FB_IMG_1699604242991

سر کی بیماریاں اور اس کا علاج

سر کی بیماریوں میں سردرد، درد شقیقہ دردعصابه، دردال ، ضعف دماغ نزله زکام سرسام ، نسیان، مرگی، جنون، القوه ، مالیخولیا اور فالج وغیرہ شامل ہیں جن بیماریاں کا علاج میرے ناقص علم کے مطابق بلاقیمت ممکن ہے وہ ذیل میں درج ہے۔

درد شقیقہ

یہ ایک قسم کا نوبتی سر درد ہے جو اکثر سر کے نصف حصہ طولانی میں ہوتا ہے۔ بعض افراد کو یہ مرض ورثہ میں ملتی ہے۔کبھی کبھار نہ لہروزکام سے بگڑکر بھی ہو جایاکرتا ہے۔ درد شقیقہ میں سر گھومتا ہے اور اس میں سےچنگاریاں سی نکالتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ کنپٹیوں کی رگیں زور نہ درد سے تڑپنے لگتی ہیں متلی محسوس ہوتی ہے اور اتناشدید سردرد ہوتا ہے کہ سر پھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور روشنی سے وحشت ہوجاتی ہے۔

درد شقیقہ کا علاج

جس کے ایک ہی دفعہ ناک میں ٹپکانے سے درد کو فاقہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ هو الشافی : نمک دیسی دو ماشہ، پانی دو تولہ ہر دو کو کھرل کریں اور تھوڑا عرصہ خوب کھرل کر کے دو چار منٹ بعد پانی نتھار کر شیشی میں سنبھال کر رکھ لیں اور بوقت ضرورت ناک میں ٹپکائیں درد موقوف ہوگا۔ مجرب ہے۔

دماغ کے کیڑے اور اُن کا اِخراج

دماغ انتہائی نازک عضو ہے اس کی خرابی پورے بدن انسانی کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ خصوصاً دماغی کپڑے تو بے حد تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ ان سے سر میں اس شدت کا درد ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ ۔ ذیل میں کیڑوں کو خارج کرنے کے لیے چند اعلیٰ قسم کے مگر مفت میں تیار ہونے والے نسخہ جات پیش خدمت ہیں۔

کسوندی کا پودا تلاش کرنے سے باغوں میں باآسانی دستیاب ہو جاتا ہے یہ پودا انعامات خداوندی میں سے ہے اس کے بیشمار فائدے ہیں۔جس میں سے ایک فائدہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔

ھو الشافی : کسو ندی کے پتوں کو مہندی کی طرح گھوٹ کر موٹے سفید کاغذ پر لیپ کریں۔ اور خشک کرنے کے بعد کاغذ کو لپیٹ کر سگریٹ جیسی صورت بنالیں اور ایک طرف آگ لگا کہ مریض کو کش لگانے کی ہدایت کریں ۔ اور اس سے کہیں کہ وہ دھواں بجائے منہ کے ناک کی راہ نکلا ہے ۔ اس طرح وہ سگریٹ ختم کردے دوسرے اور تیسرے روز یہی عمل کرنے کی تاکید کریں۔ ان شاء اللہ تین روز کے مسلسل استعمال سے تمام کپڑے مردہ ہو ہو کر ناک کی راہ جھڑ جائیں گے اور مریض کی جان جو کیڑوں کی وجہ سے ایک دردناک عذاب میں مبتلا تھی آرام اور صحت حاصل کرلے گی خدا بچائے یہ بہت موذی بیماری ہے۔ دماغ پھٹنے کو آجاتا ہے۔

بہت ہی پرانا جوتا جلا کر راکھ بنا لیں اور باریک پیس کر کام میں لائیں۔ تھوڑے تھوڑے روٹی کے ٹکرے مٹی کے تیل سے تر کریں۔ اور ان کو ناک کے نتھنوں میں رکھ دیں ۔ تین چار روزہ یہ عمل کرنے سے کرم مردہ ہو کہ نکل جائیں گے۔

هو الشانی : نیاز بو کا پانی لے کر مریض کے تھنوں میں ایک ایک بوند ڈال کہ اسے کہیں کہ وہ اوندھا لیٹ جائے۔ بفضلہ کپڑے مرکز ناک کی راہ نکل جائیں گے نخواہ کتنے ہی کرم دماغ میں ہوں نسوار کے سو جھتے ہی فورا کرم خارج ہو جاتے ہیں

FB_IMG_1699604689423

دل کی بیماریاں اور اس کا علاج

دل اعضائے انسانی کا بادشاہ ہے ۔ اس لیے اس کے متبلا کے رض ہونے پر قیمتی اور خوشبو دار دوائیں دینا پڑتی ہیں۔ مثال کستوری۔ مروارید – عنبر ۔سونا۔ چاندی وغیرہ جن کا حصول تو کجا غربا کو ان کا ایک نظر دیکھنا بھی محال ہے ۔ مگر یاد رہے۔ انسانوں کا خالق اللہ فقط امیروں کا ہی خدا نہیں وہ غریبوں کا بھی دالی ہے۔ اس لیے اول تو غریب لوگ دل کی بیماریوں میں بہت ہی کم مبتلا ہوتے ہیں۔ آئے دن بڑے بڑے امیروں کے دل فیل ہو کر مرنے کی خبریں سننے میں آتی ہیں۔ بڑے بڑے رئیسوں کو ہی دل کے دورے وپڑتے ہیں ۔ غریبوں کو رحیم وکریم مولی نے ایسی بماریوں ہے بہت تک بچا رکھا ہے غریبوں کو ان کی محنت اور مشقت کے نتیجہ میں جو سچی بھوک لگتی ہے ۔ اور انہیں معمولی روکھی سوکھی روٹی اور چینی وغیرہ میں جو مزہ آتا ہے وہ امیروں کو کہاں نصیب اور پھر اُن کو رات کے وقت جو گہری نیند آتی ہے اس کا عشر عشیر بھی امراء کو نصیب نہیں ہوتا ۔ لیکن اس کے باوجود اگر کبھی کبھار کسی غریب کو بھی دل کی کسی بیماری میں مبتلا پائیں تو اُن کے لیے اپنے تجربہ اور مشاہدے میں آنے والی چند بلاقیمت ادویات درج کرتے ہیں ان کے فوائد ملاحظہ فرمائیے۔ ان شاء اللہ قیمتی یاقوتیوں کا کام دیں گی۔

سنگترے کا چھلکا :

هو الشانی: طبیبوں کے باوا آدم جناب شیخ الرئیس بو علی سینا مرحوم نے دل کی بیماریوں کی جو قیمتی اکسیریں بیان کی ہیں ان میں سنگترہ کا چھل کا بھی شمارہ کیا ہے ۔ آپ لوگ موسم میں جمع کر کے اور سایہ میں خشک کر کے رکھ لیں اور بوقت ضرورت اس کا عرق کشید کر کے یا بطور سفوف دے کر اس کے فوائد کا مشاہدہ کریں۔ اور راقم السطور کو دعائیں دیں۔

گاجر

سیب ایک ایسا پھل ہے جس کے متعلق تقریباً تمام ڈاکٹر حکیم دل کی بیماریوں کے لیے اکسیر قرار دیتے ہیں۔ سیب کی قاشیں بناکر کھلانا سیب کا مربہ استعمال کرانا سیب کا شربت بنا کر پلانا یہ ہر طرح مفید ہی مفید ہے ۔ مگر غریبوں کو سیب کا حصول بھی محال ہے ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا سیب عطا کر رکھا ہے۔ میری مراد گاجر سے ہے۔ خصوصاً وہ گاجر جوندر و سرخی مائل ہوتی ہے ۔ وہ دل کے لیے ہے حد مفید ہے ، غریبوں سے ہمدردی رکھنے والے طبیب حضرات کو چاہئیے ۔ کہ وہ گاجر کو اس کے موسم میں لے کر سایہ میں خشک کر لیں ۔ اور سفوف بنا کر رکھ چھوڑیں اور پھر اس موسم میں جس میں گاجر دستیاب نہیں ہوتی اس کا عرق کشید کر کے استعمال کرائیں گلاب کے عرق کی طرح اگر اسے دو آتشہ اور سہ آشہ خالیا جائے تو سبحان اللہ اس کے سامنے سیب کے مرکبات پیچ ہو کر رہ جائیں گے۔

دھنیا

کوئی غریب سے غریب گھر بھی اس نعمت عظمی سے خالی نہیں ہوتا کسی اللہ کے دانا بندے نے مرچوں کے ضرر سے بچنے کے لیے اس کو شامل مصالحہ کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے مرچوں کے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ ننھے ننھے بیج بھی دل کی انجر بیماریوں کے لیے جو گرمی کی نہ یادتی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں مفید ہیں۔ شیخ الرئیس نے اپنی کتاب میں اسے بھی اکسیر قلب گردانا ہے۔ آپ اس کا عرق کشید کر کے یا مصفوف نا کر استعمال کرائیں۔ اس کا شربت بھی بنایا جاسکتا ہے۔ موسم گرما میں کوئی دوسرا مشروب پینے کی بجائے اسے پلایا جائے۔

دوائے دل : :

دل کی بیماری کا علاج کوئی دل والا ہی کہ اسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے بعض معمولی معمولی دواؤں میں خوب اثر رکھا ہے۔ چنانچہ بانی طلب مرحومہ کا ایک معمول پیش خدمت ھو الشافی مکئی کے بھٹے سے دانے نکال کر استعمال میں لائیں اور خالی خولی بٹھے کو جلا کر راکھ بنا لیں بس یہی دوائے دل ہے۔ سبحان اللہ۔

تی کی مقدار میں لے کر مکھن میں ملا کر چٹائیں اور موتیوں والا کام لیں۔

WhatsApp Image 2024-02-06 at 09.05.52

مسواک کے طبی فوائد اور کونسے بیماریوں کے علاج ہے

مسواک بظا ہر ایک معمولی چیز نظر آتی ہے۔ مگر فی الحقیقت اس میں اتنے فوائد پنہاں ہیں کہ قیمتی سے قیمتی یا قوتیوں میں بھی ممکن نہیں ۔ دانتوں کی صفائی سے انسان بیشما بیماریوں سے بچا رہتا ہے۔ حکیم اجمل خاں مرحوم کے متعلق مشہور ہے کہ کتنے ہی پاگلوں کا علاج وہ دانتوں کی صفائی سے کر دیا کرتے تھے۔ رات کو پڑے پڑے انسان کے دانتوں کے اندر بدبو پیدا ہو جاتی ہے جس کا اندازہ آپ صبح اٹھ کر اس طرح کہ ہیں کہ پہلے اپنی انگلی کو دانتوں اور مسوڑھوں پر کھیس اور پھر اس انگلی کو ناک کے پاس نے جا کر سونگھیں آپ کو معلوم ہوگا کہ اس میں سے ایسی گندی بو نہ ہی ہے کہ جین کا نام لینے سے ہمیں تھے آنے لگتی ہے ۔

اگر ہم مسواک کے ذریعہ اس بو کو دور نہ کریں تو پھر یقیناً یہی بو دماغ کو بھی خراب کر دیتی ہے۔ اور معدہ کا بھی ستیا ناس کر دیتی ہے۔ اس لیے مسواک لازم پکڑو اگر پانچوں وقت نماز میں مسواک کردو تو سبحان اللہ کیا کہنے ۔ فیار عشاء کی نماز پر تو لازمی طور پر مسواک کردو۔ پھر دیکھو کہ کتنی بیماریاں بغیر کسی دوا کے بھاگ جائیں گی بچی بھوک لگے گی ۔ کھانا ہضم ہوگا ۔ صالح خون پیدا ہو گا۔ قبض کشائی ہوگی پاخانہ وقت پر آئے گا۔ نظر کی حفاظت رہے گی۔ منہ کی بد بوزائل ہو کہ خوشبو پیدا ہو گی ۔ خدا اور اس کے پیارے نبی کی خوشنودی حاصل ہوگی۔

چند درختوں اور ان کی مسواک کے فوائد

پیلو کی مسواک :

حدیث پاک میں میں مسواک کا ذکر ملتا ہے اور جسے شرف سنت پوری طرح سے حاصل ہے یہی مسواک ہے۔ پیلو کے درخت کی جڑ کی مسواک سب مسواکوں سے افضل ہے اور بہت سی بیماریوں کے لیے مفید ہے۔ اس میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے ریشے نہایت عمدہ قسم کے ہوتے ہیں جو نہ بہت زم کہ دانتوں کی صفائی نہ کر سکیں اور نہ بہت سخت کہ وقت پر ملائم نہ ہو سکیں۔

کیکر کی مسواک :

مفید مسواک ہے مگر ہمیشہ تازہ تازہ کام دیتی ہے خشک ہونے کے بعد یہ کام نہیں دیتی اور جس کے چوسنے یا مسواک کرنے کے بعد اگر کلی کی جائے تو پانی کا مزہ میٹھا معلوم یہ مسواک ذیا بیطس کے مریضوں کے لیے بہت مفید ہے۔ نیز یاد رہے کہ کیکر کی کٹی قسمیں ہیں ان میں سے بہتر قسم وہ ہے جسں کا ذائقہ کڑوا ہو۔

پھلائی کی مسواک :

پھیلائی بھی کیکر کے درخت سے ملتا جلتا درخت ہے۔ لاہور میں اس کا زیادہ رواج ہے ۔

پیپل اور برگد کی مسواک :

دانتوں سے خون آنے اور جریان داحتلام کے مریضوں کے لیے مفید ہے ۔ پیل کی مسواک سل و دق کے مریض کو کرانی چاہئیے۔ باری کے بخار کے مریض کو اگر باری آنے سے ڈیڑھ گھنٹے یا دو گھنٹے بیشتر مسواک کرا دی جائے تو بفضلہ تعالی بخار نہیں آتا ۔

نیم کی مسواک :

نیم کی شاخ کی مسواک کا ذائقہ اگر چہ سخت کڑوا ہوتا ہے۔ مگر نتائج کے لحاظ سے بہت میٹھے اثرات رکھتا ہے۔ نوابی خون اور بادی بواسیر کے مریض کو نیم کی مسواک کی ہدایت کیجئے ۔ ان شاء اللہ چند دنوں میں فائدہ ہو گا۔

اندرائن کی مسواک :

تمتہ کی جڑ کی مسواک جو خشک ہو جانے کے باوجود ہمیشہ کام دیتی رہتی ہے۔ اپنے اندر لاتعداد فوائد رکھتی ہے ۔ قبض کشا ہے ۔ پیٹ میں ہوا بھرنے کو مفید ہے۔ دانتوں اور داڑھ کے کیڑوں کو ہلاک کر دیتی ہے۔

علاوہ ازیں آک کی جڑ کی مسواک، سوہانجنا کی مسواک بھی اپنے اندر خاص اثر رکھتی ہیں ۔ ٹوتھ برش اور بازاری منجن کے استعمال سے بہت سی مسوڑھوں اور دانتوں کی بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔ مگر سادہ مسواک ہر طرح دانتوں کے لیے مفید ہے۔

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.53.17

دجال کے باریں میں مکمل معلومات

دجال کا نام اور اس کا معنی

یہودی اپنے اس نجات دہندہ کا آخری معلوم نام مائل ریو بل یا کھمبل بتاتے ہیں جو ہماری اسلامی اصطلاح میں ” طاغوت اور بتوں کا نام ہے۔ اور اس کا لقب ان کے ہاں مسیحا یا مسیا ہے۔

دجال کا اصل نام معلوم نہیں … احادیث میں آیا جو نہیں … یہ اپنے لقب سے مشہور ہے۔ ہمارے ہاں اس کا لقب دجال مشہور ہے اور یہ لفظ اس کی پہچان اور علامت بن گیا ہے۔

دجال کا مادہ “،د،ج ،ل” ہے۔ دجال کا لفظ فعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ دجال کا معنی ہے ڈھانپ لینا، پیٹ لینا۔ دجال اس لیے کہا گیا کیونکہ اس نے حق کو باطل سے ڈھانپ دیا ہے یا اس لیے کہ اس نے اپنے جھوٹ ملمع سازی اور تیس کے ذریعے سے اپنے کفر کولوگوں سے چھپا لیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ چونکہ وہ اپنی فوجوں سے زمین کو ڈھانپ لے گا ، اس لیے اسے دجال کہا گیا ہے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہی دجال اکبر بہت بڑے بڑے فتنوں والا ہے جو ان فتنوں کے ذریعے سے اپنے کفر کو ملمع سازی کے ساتھ پیش کرے گا اور اللہ کے بندوں کو شکوک و شبہات میں ڈال دے گا۔

“دجال” عربی زبان میں جعلساز ملمع ساز اور فریب کار کو بھی کہتے ہیں۔ جل”کسی نقلی چیز پر سونے کا پانی چڑھانے کو کہتے ہیں۔ دجال کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جھوٹ اور فریب اس کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف ہوگا۔ وہ ظاہر کچھ کرے گا اندر کچھ ہوگا۔ اس کے تمام دعوے منصوبے، سرگرمیاں اور پروگرام ایک ہی محور کے گرد گردش کریں گے اور وہ ہے : دجل اور فریب۔ اس کے ہر فعل پر دھوکا دہی اور غلط بیانی کا سایہ ہو گا۔ اس کی کوئی چیز، کوئی عمل کوئی قول ، اس شیطانی عادت کے اثر سے خالی نہ ہوگا۔

دجال اکبر کا نام مسیح کیوں رکھا گیا؟ اس کے بارے میں بہت سارے اقوال ہیں مگر سب سے زیادہ واضح قول یہ ہے کہ دجال کو مسیح کہنے کی وجہ یہ ہے اس کی ایک آنکھ اور ابرو نہیں ہے۔ ابن فارس کہتے ہیں مسیح وہ ہے جس کے چہرے کے دوحصوں میں سے ایک حصہ مٹا ہوا ہو، اس میں نہ آنکھ ہو اور نہ ہی ابرو ۔ اس لیے دجال کو مسیح کہا گیا ہے۔ پھر انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے: “وَأَنَّ الدَّجَّالَ مَمْسُوحُ العَيْنِ، عَلَيْهَا ظَفَرَةٌ غَلِيظَةٌ ” ” بلاشبه دجال مٹی ہوئی آنکھ والا ہے جس پر ایک غلیظ بعد آسانا خونہ (پھلی ) ہے۔“

دجال کون ہے

(1) سامری جادوگر :

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کو گمراہ کر کے شرک میں مبتلا کرنے والا سامری در حقیقت دجال تھا۔ دجال کو عالم اشیاء میں تصرف کا جو بھر پور اختیار دیا گیا ہے اس کے تحت سونے سے بنائے گئے بچھڑے کو متحرک، جاندار اور آواز لگانے والا بنا دینا کچھ بھی بعید نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے اتنا ز بر دست جرم سرزد ہونے کے باوجود ا سے جانے دیا اور جو بنی اسرائیل اس کے ورغلانے پر شرک میں مبتلا ہوئے تھے، ان کی تو یہ یہ طے ہوئی کہ ان کو قتل کیا جائے۔ آپ نے سامری سے فرمایا: “وإن لك موعدا لن تخلفه ” بے شک تیرے لیے ایک وقت مقرر ہے جس سے تو آگے پیچھے نہ ہو سکے گا۔ یہ اس لیے کہ سامری کو اگر اس وقت قتل کیا جاتا تو وہ نہ مرتا دجال جو مسیح کا ذب ہے، کی موت تو حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھ لکھی ہوئی ہے جو مسیح صادق ہیں۔ جب سامری سے کہا گیا: “فاذهب ، فان لك في الحيوةان تقول لامساس ” ” چلا جاء تیری یہ سزا ہے کہ زندگی بھر کہے گا مجھے نہ چھوڑا تو دجال المسمی بہ سامری مجروح حالت میں وہاں سے غائب ہو گیا اور اب کہیں روپوش ہے۔

دجال کا شخصی خاکہ

(3) امریکا:

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ امریکا دجال ہے۔ کیونکہ دجال کی ایک آنکھ ہوگی اور امریکا کی بھی ایک آنکھ ہے۔ اس کی مادیت کی آنکھ کھلی جبکہ روحانیت کی آنکھ چوپٹ ہے۔ وہ مسلمانوں کو ایک آنکھ سے اور غیر مسلموں کو دوسری سے دیکھتا ہے۔ اس کو اپنے فائدے کی چیز نظر آتی ہے، دوسرے کے نقصان سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ اس کی کرنسی پر ایک آنکھ بنی ہوئی ہے. دجالی آنکھ جو شیطانی تکون کے اوپر پر اسرار علامات کے بیچ میں ہے۔ اس کی سرزمین پر دجالی تہذیب جنم لے چکی ہے۔ پروان چڑھ رہی ہے اور مادی طاقتوں پر غیر معمولی اقتدار کی بدولت وہ نیوورلڈ آرڈر کے ذریعے دنیا میں دجالی نظام بر پا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ایک صدر ( جو جوتا کھا کر رخصت ہوا) کا بیان ریکارڈ پر ہے: ” مجھے خدا کی طرف سے براہ راست ہدایات ملتی ہیں۔ یہ تو دعوائے نبوت کے مترادف ہے اور دجال پہلے ایسا ہی دھوئی کرے گا۔ صدر صاحب موصوف یہ بھی فرما چکے ہیں: “ہم تمہیں پھروں کے دور میں بھیج دیں گے۔ یہ فرعونی لہجہ تو دعوائے خدائی کے ہم معنی ہے اور دجال آخر میں خدائی کا دعوی کرے گا۔ دجالیت در اصل جھوٹی خدائی کا دوسرا نام ہے وغیرہ وغیرہ۔

FB_IMG_1699447004924

صلح حد بیبیه (ذوالقعده )کا مکمل واقعہ

مسلمانوں کو مکہ چھوڑے ہوئے 4 برس ہونے والے تھے۔ وہ مسجد الحرام اور بیت اللہ کی زیارت کو ترس گئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوشدید اشتیاق تھاکہ اللہ کے گھر کا طواف کیا جائے اور مناسک ادا کیے جائیں۔

انہی دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں خود کو صحابہ کے ہمراہ مسجد الحرام میں داخل ہوتے اور مناسک کی تعمیل کرتے دیکھا۔ یہ اشار تھا کہ دلی آرمان پورے ہونے کو ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ محسوس کر چکے تھے کہ قریش مسلسل جنگوں کی وجہ سے کمزور پڑ چکے تھے، اس لیے یہ امید تھی کہ وہ آپ کو عمرے کی اجازت دے دیں گے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یکم ذو القعدہ سن ۲ ہجری میں چودہ سو صحابہ کرام کے ساتھ احرام باندھ کر عمرے کے ارادے سے مکہ روانہ ہو گئے ۔ قربانی کے جانور بھی ساتھ تھے ۔ عرب کے لوگ کسی ایسے قافلے پر حملہ نہیں کرتے تھے جس کے ساتھ قربانی کے جانور ہوں۔ یہ مہینہ مدنی تقویم میں ذوالقعدہ اور مکی تقویم میں رجب تھا قریش سمیت تمام اہل عرب کے نزدیک ان دنوں جنگ حرام تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان تھا کہ جنگ کی نوبت نہیں آئے گی لیکن قریش کو آپ کے آنے کی اطلاع ہوئی تو وہ بھڑک اٹھے، انہوں نے آپ کو روکنے کے لیے خلاف دستور جنگ کی تیاری شروع کر دی اور راستے میں ایک سلح جتھہ تعینات کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا تو فرمایا: ” قریش پر افسوس ہے، انہیں جنگوں نے نگل لیا، ان کا کیا بگڑ جائے گا اگر وہمجھے میرے حال پر چھوڑ دیں اور باقی عربوں کو ان کے حال پر

قریش سے مذاکرات :

اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام شاہراہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے راستے سے آگے بڑھے اور مکہ کے مضافات میں حدیبیہ پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقامی باشندے بُدیل بن ورقاء کو یہ پیغام دے کر قریش کی طرف بھیجا کہ ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے، ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے

قریش نے اس پیغام پر ذرا بھی غور نہ کیا۔ انہوں نے ایک جہان دیدہ شخص غروہ بن مسعود ثقفی کو سفیر بنا کر بھیجا ۔ تا کہ ڈرا دھمکا کرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس بھیج کر دیا جائے۔ تقریباً چھ سال کی طویل مدت میں یہ پہلا موقع تھا کہ قریش نے تلوار کی جگہ سفارت اور گفت و شنید کی راہ اختیار کی تھی۔ یہ اس بات کا عملی اعلان تھا کہ اسلام اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ہے ۔”غروہ بن مسعود نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر قریش کی منشاء کے مطابق کئی سخت باتیں کہیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کامعقول موقف سننے، آپ کا عزم و استقلال محسوس کرنے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے مثال عقیدت دیکھنے کے بعد اس نے جان لیا کہ مسلمان دینے والے لوگ نہیں۔ چنانچہ واپس آکر کہا: میں نے قیصر و کسری جیسےاحبت بادشاہوں کی بھی ایسی عزت و توقیر ہوتے نہیں دیکھی جیسی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عزت ان کے ساتھی کرتے ہیں ۔ 20

بیعت رضوان

اس دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ کر کے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر قریش کی طرف بھیج دیا۔ انہوں نے آپ کام کا موقف دوبارہ بڑی وضاحت کے ساتھ قریش کے رئیسوں کے سامنے پیش کر دیا۔ واپسی کے موقع پر قریش نے انہیں پیش کش کی کہ آپ چاہیں تو طواف کر لیں ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بولا : ” جب تک رسول اللہ علیہ وسلم کو طواف کی اجازت نہ ملے گی میں بھی طواف نہیں کروں گا ۔ اس پر قریش کے سردار گڑ گئے اور انہیں نظر بند کر دیا۔ ادھر حضرت عثان رضی اللہ عنہ کی واپسی میں تاخیر ہوئی تو مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بہت غم زدہ ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب تک صلح و صفائی کی راہ تلاش کر رہے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خون اتنا قیمتی تھا کہ اسے معاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ایک بول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور صحابہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے بدلے موت کی بیعت لی۔ سب نے دل وجان سے آمادگی ظاہر کی کہ عثمان رضی اللہ عنہ خون کا بدلہ لینے کے لیے ہم آخری سانس تک لڑیں گے۔

ہر قسم اسلامی پوسٹ اور تاریخ کے لیےAlkhroof.com ویزٹ کریں شکریہ