FB_IMG_1700459514989

صحت کے لیے سبزیوں کی اہمیت

برصغیر میں عام طور پر سبز تر کاری غذا کے طور پر کھائی جاتی ہے۔ سبزیاں قدرتی نمکیات، معدنیات اور وٹامنز کا خزانہ ہیں۔ سبز تر کاریوں میں چونکہ نمکیات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لئے ان کا استعمال جگر، گردے، مثانے کی پتھری اور پرانے قبض میں بہت مفید ہے۔ سبزیاں عام طور پر زود ہضم اور قبض کشا ہوتی ہیں۔ انتڑیوں کو صاف کر کے انہیں طاقت بخشتی ہیں اسلئے سبزیوں کا استعمال صحت اور زندگی کے لیے نہایت مفید اور بہت ضروری ہے

آلو، شلغم، گاجر، چقندر اور شکرندی وغیرہ میں نشاستہ اور شکر وغیرہ کافی مقدار میں ہوتی ہے۔ عام سبزیوں میں نائٹروجنی اجزاء کی مقدار کم اور وٹامنز اور نمکیات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، سبزیوں کے نمکیات سے خون معتدل اور صاف رہتا ہے،خون اور جلد کے امراض لاحق نہیں ہوتے، قبض کی شکایت بھی نہیں ہوتی

گاجر، مولی، ٹماٹر ، گوبھی، شلغم، پالک، میتھی، ٹینڈے، کدو اور مٹر وغیرہ مفید اورصحت بخش سبزیاں ہیں۔ سبزیوں کو پکانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں پانی کے بغیرپکایا جائے اس طرح پکی ہوئی سبزی زیادہ نفع بخش ہوتی ہے۔

معمولی گھی میں پکی ہوئی سبزیاں زود ہضم و طاقت بخش اور گھی میں تلی ہوئی اور بھنی ہوئی سبزیاں دیر ہضم اور تیل ہوتی ہیں اور ان کے وٹامنز اور غذائیت ضائع ۔ہو جاتی ہے۔

سبزیوں کو ہمیشہ نرم آنچ پر پکانا چاہیے، کچی سبزی کھانا بہت مفید ہے۔ گاجر، مولی شلغم، ٹماٹر، کھیرا، سلاد اور پیاز وغیرہ کچے کھائے جاسکتے ہیں۔

ساگ کی غذائی اہمیت

اکثر لوگ ساگ کو ادنی درجے کی غذا سمجھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی بنیاد انہیں ساگوں اور سبزیوں پر قائم ہے، انہیں کے ذریعے سے قدرت زندگی کی تعمیر کے لیے گارا اور مسالہ تیار کرتی ہے اور ان کے بغیر زندگی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی۔ دودھ جسے ہم ایک اعلیٰ درجے کی غذا سمجھتے ہیں انہیں ساگوں اور سبزیوں کا دوسرا روپ ہے۔

ساگ میں کیلشیم (چونا)، سوڈیم (نمک)، کلورین، فاسفورس، فولاد، پروٹین جسم کو بڑھانے والے اجزائ ) اور وٹامنز اے بی سی ای کافی مقدار میں موجود ہوتے ہیں ۔ ساگ کے سلسلے میں یہ بات ہر شخص کے یاد رکھنے کی ہے کہ ساگ اور دودھ بڑی حد تک ایک دوسرے کا بدل ہو سکتے ہیں اور جہاں دودھ کی کمی ہووہاں ساگ کے استعمال سے اس کی تلافی ہو سکتی ہے۔

بچوں کی نشوونما میں ساگ سے بہت مدد ملتی ہے اور اگر ان میں بچپن ہی سے ساگ اور سبزی کی رغبت پیدا کی جائے تو یہ عادت زندگی بھر ان کی صحت کیحفاظت کرتی ہے۔بچے جب دودھ سے ٹھوس غذا کی طرف آنے لگتے ہیں اسی وقت سے انہیںساگ نرم اور اچھی طرح سے پکا کر کھلایا جا سکتا ہے۔

FB_IMG_1700459514989

مختلف سبزیوں کے غذائی اجزاء سائنس کی روشنی میں

پالک

یہ سبزی برصغیر میں عام طور پر استعمال کی جاتی ہے، بظاہر بہت معمولی غذا ہے لیکن قدرت نے اس میں فولاد کے اجزاء میں شامل کر کے اس کی قدرو قیمت بڑھادی ہے۔ مقوی، زود ہضم اور قبض کشا ہے جن لوگوں کو قبض کی شکایت اکثر رہتی ہو انہیں پالک کا باقاعدہ استعمال کرنا چاہیے ۔ پتھری ، یرقان ، مالیخولیا اور گرمی کے بخاروں میں بھی فائدہ بخش ہے۔ ماہرین تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پالک میں فولاد اور کیلشیم (چونا) کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ فولاد خون بڑھاتا اور جگر کو تقویت دیتا ہے، چونا ہڈیوں کی ساخت کو مضبوط سخت اور پائدار بناتا ہے جن لوگوں کے جسم میں خون کی کمی ہو وہ اسے استعمال کریں کسی بھی خوراک یا دوائی سے جسم میں فولاد اتنا نہیں بڑھ سکتا جتنا پالک کھانے سے بڑھتا ہے۔

میتھی

گرم خشک اور قدرے قبض کشا سبزی ہے۔ سردی کے بخار کو دور کرتی اور بادی و بلغم کو مٹاتی ہے۔ بھوک لگاتی اور بالوں کو سیاہ کرتی ہے ۔ بدہضمی، جگر ، تلی اور حیض و پیشاب کی رکاوٹ میں مفید ہے میتھی کے بیج بادی کے جملہ امراض میں فائدہ مند ہیں حیض آور اور گوشت بڑھاتے ہیں۔

بتھوا ( باتھو کا ساگ )

ایک خودرو اور عام سبزی ہے لیکن فوائد کے اعتبار سے بے نظیر ہے معتدل، قبض کشا اور پیشاب آور ہے۔ پیشاب کی کوئی بیماری نہیں ہونے دیتا، معدے اور آنتوں کو طاقت بخشا ہے۔ گرمی کی وجہ سے بڑھے ہوئے جگر اور تلی کے لیے مفید ہے۔ پیاس کو تسکین دیتا ہے اور پتھری کے لیے سودمند ہے۔

سوئے کا ساگ

گرم خشک ہے، بادی کو خارج کرتا ہے، بد ہضمی، بادی بلغم تلی کے درد اور گردہ و مثانہ کی پتھری کو خارج کرتا ہے، گرم طبیعت والوں کے لیے مضر ہے۔

کرم کلہ کا ساگ

گرم خشک ہے، ہاضمے کو تیز کرتا ہے، مصفی خون، قبض کشا اور نیند کی کمی، پتھری ، پیشاب کی رکاوٹ وغیرہ میں مفید ہے۔ خشکی اور مرگی کے مریضوں کو اس کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، اس کے کھانے کے بعد تھوڑا سا گڑ کھا لینا مفید ہے۔

خرفہ ( قلفا ) کا ساگ

سردتر ہے، گرمی اور جوش خون کو دور کرتا ہے۔ تلی، جگر اور معدے کی گرمی کو ختم کرتا ہے، پیشاب آور اور قبض کشا ہے، خونی بواسیر، پتھری، کھانسی اور سوزاک میں مفید ہے۔

مکو کا ساگ

سر دخشک ہوتا ہے۔ بادی کی جملہ بیماریوں، ہر قسم کے دردوں اور جلندھر میں مفید ہے۔ قبض کشا اور پیشاب آور ہے، بچکی اور قے کو روکتا ہے اور اندرونی اور بیرونی سوجن کو دور کرتا ہے۔ امراض جگر، درد گردہ اور ورم گردہ میں خصوصیت سےمفید ہے ۔

سرسوں کا ساگ

گرم خشک قبض کشا اور پیشاب آور ہے۔ اس کے استعمال سے پیٹ کے کیڑے ہلاک ہو جاتے ہیں اور بھوک بڑھاتا ہے۔ سرسوں کا ساگ کھانے والوں کی جلد ہمیشہ نرم و ملائم اور اس میں ایک خاص چمک اور تازگی رہتی ہے ۔ سرسوں کے ساگ میں پالک بیتھی اور بتھوا ملا کر پکانے سے اس کی افادیت اور بڑھجاتی ہے۔

FB_IMG_1700459514989

مختلف غذا ئیں اور اُن کے غذائی اجزا

گیہوں

نباتاتی غذاؤں میں جو چیز انسان کے استعمال میں سب سے زیادہ ہے وہ گیہوں ہے۔ اس میں جسم انسانی کی پرورش کے تمام اجزاء موجود ہیں، جدید تحقیق کے مطابق گیہوں میں اجزائے لحمہ اجزائے نشاستہ ، وٹامنز اور فاسفورس کی کافی مقدار پائی جاتی ہے۔ البتہ اجزائے شمسہ اور نمک کم ہوتے ہیں۔ گیہوں کے چھلکے مفید اجزاء پر مشتمل ہوتے ہیں لہذا ان چھنے آٹے کی روٹی مفید ہے اور دافع قبض بھی ہے خون بھی عمدہ پیدا کرتی ہے جبکہ مشین کا باریک پسا آنا قبض پیدا کرتا ہےاور آنتوں کے بہت سے امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔

ان چھنے آٹے کی روٹی کھانا اسلئے بھی مفید ہے کہ اس سے معدے اور آنتوں کو لذا کی کافی مقدار بہم پہنچ جاتی ہے جس کے باعث ان کے اندر تخمیر پیدا کرنے کی قوت اور غذا کے ہضم کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ہے۔ گیہوں کی روٹی جسم کو مضبوط بناتی ہے۔ دل، دماغ اور آنکھوں کو طاقت بخشتی ہے۔ خون گوشت اور مادہ تولید پیدا کرتی ہے۔ گیہوں کے آٹے سے سوجی اور میدہ حاصل کیا جاتا ہے۔

چاول

چاول ایک چوتھائی بنی نوع انسان کی خوراک ہے۔ اس میں نشاستہ کےاجزاء سب سے زیادہ اور نائیٹروجن اجزائی نمکوں کی مقدار اور روغنی اجزاء بہت کم پائے جاتے ہیں۔ چاول میں کیلشیم بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ چاول ہلکی اور زود ہضم غذا ہے، عام طور پر یہ چاول ابال کر بنائے جاتے ہیں اور ان کا پانی بیکارسمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے جس سے چاولوں کا ضروری جزو وٹامن بی پانی میں حل ہو کر ضائع ہو جاتا ہے۔ کوشش کریں کہ چاولوں کے پانی کو چاولوں میں ہی جذب کر دیں۔ اطباء کے نزدیک چاولوں کی پیچ زود ہضم ملین ، بھوک لگانےوالی اور دافع صفرا ہے۔

چونکہ چاول دوسرے اناجوں سے کم طاقت بخش میں اسلئے چاولوں میں گھی یا مکھن ملا کر انھیں دودھ کے ساتھ کھانا زیادہ مفید ہے ۔ اس سے ان کی غذائیت بڑھ کر وٹامنز کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔ چاول بطور غذا مسلسل کھانا صحت کے لیے مفید نہیں کیونکہ اس سے معدہ اور آنتیں پھیل جاتی ہیں۔ قبض لاحق ہو جاتا ہے، آنتوں میں خمیر کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے پیٹ بڑھ جاتا ہے اور جسم بھیدا ہو جاتا ہے۔ چاول بہت زود ہضم مگر قابض غذا ہے ۔ تاثیر کے لحاظ سے سر دخشک میں، گرمی کو مٹاتے ہیں، آپ دق اور سنگرینی میں پرانے چاول عمدہ غذا ہیں۔ دست اور پیچش میں دی چاول مفید ہیں۔

باجره

باجر ہ مشہور غلہ ہے۔ عام طور پر اسے گرم خشک سمجھا جاتا ہے مگر حقی یا سرد خشک، قدرے قابض اور دیر ہضم ہے لیکن طاقت بخشا اور خون بڑھاتا ہے منتقلی کے باحث رطوبت کو جذب کرتا اور گرمی کے اسہال کو روکتا ہے۔ پیشاب آور ہے، باجرے کی رونی کھا کر تھوڑا سا گڑ کھانے سے جلد ہضم ہو جاتا ہے۔

جو

سر دختک ۔ اور پیشاب آور ہے، گرمی کے دردسر، پیاس اور جوش خون کو رفع کرتا ہے۔ معدے کو طاقت دیتا اور بادی و بلغم کو رفع کرتا ہے۔ کھانسی ، دمہ، پہلی کے دردہ بیل و دق میں فائدہ مند ہے۔ جو پانی میں بھگو کر، چھلکا اتار کر دودھ میں کھیر تیار کی جائے تو وہ بدن کو موٹا کرتی ہے، جو کے ستو گرمی اور پیاس کی زیادتی کو دور کرتے ہیں۔ طبیعت کو ٹھنڈک پہنچتی اور بدن کو طاقت حاصل ہوتی ہے۔ جو کی روٹی بنائی ہوتو کچھ گیہوں کا آٹا ملانا پڑتا ہے مگر جو کی روٹی گیہوں کی روٹی کےبرابر غذائیت بخش اور زودہضم نہیں ۔

جوار

سردخشک غلہ ہے۔ پیاس بڑھاتی اور پیشاب کی زیادتی کو دور کرتی ہے چونکہ دیر سے ہضم ہوتی ہے اور اپھارا پیدا کرتی ہے، اس لیے گھی اور میٹھے کے ساتھ استعمال کرنی چاہیے، اس طرح جلد ہضم اور طاقت بخشتی ہے۔

مکئ

سردخشک اور طاقت بخش غلہ ہے۔ خون اور گوشت پیدا کرتی ، طاقت بڑھاتی اور پھولے ہوئے جسم کو اعتدال پر لاتی ہے۔ اس کی روٹی تھی لگا کر کھانے سے نکلی پیدا نہیں ہوتی مکئی کا تازہ بھٹا بھون کر کھانا معدے کو طاقت دیتا اور خون پیدا کرتا ہے۔ مکئی بہت مغوی غذا ہے، اس میں روغنی اجزاء بہت زیادہ پائے جاتے ہیں، قدرے قبض پیدا کرتی ہے۔

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.40.38

بکری کا دودھ گائے بھینس کے دودھ سے کیوں زیادہ مفید ہے؟

بکری کا دودھ گائے اور بھینس کے دودھ کی نسبت زیادہ مفید، جسم کو پرورش کرنے والا اور محافظ صحت ہے۔ امریکہ کے مشہور ماہر غذائیات ڈاکٹر ڈوکس تھامس نے تجربات کی بنا پر ثابت کیا ہے “بکری کا دودھ دوسری تمام پینے والی چیزوں کے مقابلے میں افضل اور فائدہ مند ہے “ اس کی برتری کے دو خاص سبب یہ ہیں کہ ایک تو بکریوں میں سل کا مرض نہیں ہوتا جو گایوں میں عام ہے دوسرے یہ نسبتا زود ہضم ہوتا ہے۔ اگر بکری اور گائے کے دودھ کا مقابلہ کریں تو بہت سے دلچسپ فکر معلوم ہوتے ہیں ۔ گائے کے دودھ کی کیفیت تیزابی ہوتی ہے، کمزور معدہ والے مریضوں کے لیے یہ فرق موت اور زندگی کا سوال بن سکتا ہے۔

گائے کے دودھ کو ہضم کرنے کے لیے دو گھنٹے درکار ہوتے ہیں اور بکری کا دودھ صرف نصف گھنٹے میں ہضم ہو جاتا ہے ۔ گائے، بکری اور انسان کے دودھ میں جو نمکیات ملتے ہیں وہ بارہ مختلف اقسام کے ہیں ۔ ان میں سے نو قسم کے بکری کے دودھ میں، چھ قسم کے گائے کے اور باقی پانچ قسم کے انسانی دودھ میں ہوتے ہیں۔ گائے کے دودھ میں فولاد کا جزو تو گویا ہوتا ہی نہیں، بکری کے دودھ میں سات سے لے کر دس گنا تک ہوتا ہے۔

بکری کے دودھ میں فلورین بکثرت ہوتا ہے، یہ ہڈیوں کی نشوونما، دانتوں کی مضبوطی اور آنکھوں کی پرورش کے لیے بہت ضروری ہے، ہماری صحت کی عمدگی کا دارو مدار ریڑھ کی ہڈی کی مضبوطی پر ہوتا ہے، میگنیشیر ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط کرتا ہے اور یہ جزو بھی بکری کے دودھ میں کافی ہوتا ہے جسم کے زہریلے مواد کو تحلیل کر کے گردہ اور مثانے کے راستے خارج کرنے کے لیے نمک سوڈیئم ناص چیز ہے۔ اگر سوڈیئم یہ کام نہ کرے تو لائم اور میگنیشیئم سخت ہو کر گردے اور مثانے کی پتھری کی پیدا کرتے ہیں، بکری کے دودھ میں سوڈیم کی کثیر مقدار ہوتی ہے ان اجزاء کے علاوہ اس میں وٹامنز بھی ہوتے ہیں۔ بکری کا دودھ سرد تر اور لطیف ہوتا ہے، جنگلوں میں چرنے والی بکریوں کا دودھ فوائد کے اعتبار سے بہترین خیال کیا جاتا ہے۔ یہ کھانسی بنگر ہنی ، پیچش، تپ دق، ہل، تلی ، جگر ، پرانا بخار، یرقان، بواسیر، دماغ اور خون کی بیماریوں میں مفید ہے۔ بکری کے دودھ میں املتاس اور رکتھا ملا کر غرارے کرنے سے منہ کے چھالے دور ہو جاتے ہیں

فائدے

یہ غذائی اجزاء کو حل کرنے اور انہیں جسم کے تمام حصوں تک پہنچانے کا واحد ذریعہ ہے۔(۲) عمل حلول سے بننے والے مرکبات پانی کی عمدہ حل پذیری کی وجہ سے اپنااپنا کام کرتے ہیں۔(۳) جسم کے فاضل مرکبات پانی میں حل ہو کر پیشاب وغیرہ کے ذریعے خارج ہوتے ہیں۔(۴) یہ جوڑوں اور پٹھوں کو نرم رکھتا ہے۔(۵) یہ خون کے پتلے پن کو برقرار رکھتا ہے، نیز یہ جسم کی بافتوں ہڈیوں وغیرہ کے لیے ضروری ہے۔(4) پانی میں چونکہ کئی قسم کے نمک ہوتے ہیں اس لئے یہ غیر نامیاتی مرکباتکی جسمانی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

FB_IMG_1699604242991

تندرست رہنے کے لیے انسانی جسم کو کن چیزوں کی ضرورت ہے

کلورین

یہ جسم کا دھوبی ہے جسم کی صفائی کرتا ہے خاص کر پیٹ اور انٹریوں کی۔ ڈاکٹر ز ٹائیفائیڈ میں کلورین مکسچر دیتے ہیں یہ جسم کی چربی کو گھٹاتا ہے اور زہریلے مادے بلاک کر دیتا ہے۔کلورین جسم سے غلاظت کو باہر نکال پھینکتا ہے۔ ہاضمے کی قوت بڑھاتا ہے اور قبض کو دور کرتا ہے، اس کی کمی سے زکام ہو جاتا ہے ۔ پیٹ پھول سباتا ہے، طبیعیت افسردہ رہتی ہے، مزاج چڑ چڑا ہو جاتا ہے، گردے کی بیماریاں اور دانتوں سے خون آنا کلورین کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل چیزوں میں کلورین زیادہ پایا جاتا ہے ۔مولی، بند گو بھی ، پیاز ، پالک، گاجر، ٹماٹر، بیکری کا دودھ۔

میگنیشیم

یہ قدرت کی قبض کشا دوا ہے۔ پٹھوں کو طاقت دیتا ہے، دماغ اور اعصاب کی پرورش کرتا ہے، فاسفورس اور چونے کے ساتھ ملکر یہ ہڈیوں اور دانتوں اور کھوپڑی کو مضبوط کرتا ہے۔ معمولی میگنیشیم کی ایک چٹکی پانی میں گھول کر پینا درد دل اور پیٹ کے مروڑ کو دور کر دیتا ہے۔ یہ دردوں کی خاص دوا ہے ۔ جس آدمی کے مزاج میں ترشی ہو اسے میگنیشیم کی ضرورت ہے۔ مندرجہ ذیل اشیاء میں اس کی کافی مقدار پائی جاتی ہے۔

انجیر، پالک، انگور، آلو بخارا سنگترہ، رس بھری ،کھٹا، سیب، ٹماٹر ۔

گندھک

یہ بدن میں چستی لاتی ہے جگر سے صفرا کا اخراج بڑھاتی ہے۔ اندرونی حرارت اور طاقت پیدا کرتی ہے، خون کو صاف کر کے جلد کو حسین اور شاداب بناتی ہے، بالوں کو بڑھاتی ہے، چھوت کی بیماریوں کے حملے سے بچاتی ہے، جسم سے گندے مادے نکالتی ہے اور گنڈیا اور جلدی و خونی امراض کے زہروں کو خارج کرتی ہے۔ گندھک جسم میں فاسفورس کا اثر قائم رکھتی ہے اور زیادہ دماغی اکساہٹ سے بچاتی ہے، موٹے آدمیوں کے لیے بندهک والی غذا ضروری ہے۔ اس کی کمی سے جلد کی بیماریاں اور کینٹھے کا درد پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ بات حال ہی میں دریافت ہوئی ہے کہ جلدی بیماریاں تپ دق کا پیش خیمہ ہے۔ مندرجہ ذیل اشیاءمیں گندھک پائی جاتی ہے۔مولی لہسن، پیاز، بند گوبھی، پھول گوبھی وغیرہ۔

فولاد

فولاد خون کا بڑا جزو ہے یہ بدن کو گرمی دیتا ہے، مقناطیسی طاقت پیدا کرتا ہے، خون کو سرخ اور دماغ کو چست بناتا ہے ۔ ہاتھ پاؤں کا سرد رہنا، چہرے کی زردرنگت ، چور چرا بین یہ علامات ظاہر کرتی ہیں کہ جسم میں فولاد کی کمی ہے۔ جس طرح عمارت میں لوہے کے شہیتر، سلائیں وغیر ہ مکان کو مستحکم کرتی ہیں اسی طرح فولاد والی غذا ئیں ہمارے جسم کو مضبوط بناتی ہیں اور بیماریوں کے حملے سے محفوظ رکھتی ہیں ۔فولاد قوت ارادی کو مضبوط اور دل میں دلیری اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا کرتا ہے۔مندرجہ ذیل اشیاء میں فولاد کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔مختلف دالیں، لال مولی، ساگ، ہری سبزیاں، پالک، مٹر کی پھلیاں سیم،سویابین، گاجر، کدو، بند گو بھی ، انڈے کی زردی، گوشت، کیجی، اسٹابری، خوبانی ، کیلا،انجیر ، بادام کھجور اور اکثر موسمی پھلوں سے جسم کو فولاد ملتا ہے۔

چونا یعنی کیلشیم

چونا ہڈیوں اور دانتوں کو بہت سنا اور خون کی نالیوں کی دیواریں مضبوط کرتا ہے۔ قوت برداشت، اچھی یاد داشت، کام کرنے کی ہمت اور طاقت کا دارو مدار خون میں چونے کی کافی مقدار پر ہے۔ چونا ہی فولاد کو سرخ خون بنانے میں مدد دیتا ہے، اس کی کمی سے ہڈیاں کمزور اور دانت خراب ہو جاتے ہیں۔ ہڈیوں اور پھیپھڑوں کی بیماریاں اس کی موجودگی سے نہیں ہو پاتیں۔ بچپن میں اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے جو بچے دیر سے چلنا سیکھتے ہیں اور جن بچوں کے دانتدیر سے نکلتے ہیں تو سمجھیں کہ ان کے جسم میں چونے کی کمی ہے۔ مندرجہ ذیل اشیاء میں چونا وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ پالک شلجم، کا جبر، مٹر، لال چولائی ، باتھو، سلاد، بند گوبھی، دودھ، بالائی، دہی، مکھن، چھاچھ لسی، پنیر، انڈا، بادام، پسته، اخروٹ وغیره

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.43.46

وٹامن ڈی اور ای کی فوائد

وٹامن ڈی

وٹامن ڈی 1932 میں ڈالان نامی محقق نے خالص قلمی صورت میں حاصل کی۔ یہ وٹامن بھی چکنائی میں حل پذیر ہے اور بہت سی چکنائی والی چیزوں خاص طور پر مچھلی کے جگر کے تیل میں وٹامن اے کے ساتھ ساتھ پائی جاتی ہے۔ انسان کو یہ } وٹامن حاصل کرنے کے لیے صرف غذا پر انحصار نہیں کرنا پڑتا کیونکہ یہ وٹامن انسانی جسم میں سورج کی روشنی سے بھی بن جاتی ہے، جو لوگ زیادہ تر گھر سے باہر رہتے ہیں اور گرم ملکوں میں رہنے والے لوگوں میں اس کی کمی عام طور پر نہیں ہوتی۔

قدرتی ذرائع

یہ وٹامن کاڈ مچھلی، نبیلی بٹ اور شارک مچھلی کے تیل، دودھ مکھن، بالائی اور انڈے کی زردی میں پائی جاتی ہے۔ دھوپ بھی ہمارے جسم میں لگنے کے بعد کیمیائی عمل سے وٹامن ڈی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

فائدے

یہ وٹا من جسم کی نشوونما میں بہت اہم کام سر انجام دیتی ہے۔ (۲) یہ جسم میں کیلشیم اور فاسفورس کی کیمیائی ترکیب تخلیل میں مدد دیتی ہے۔ ہڈیوں اور دانتوں کی مضبوطی انہی دو معدنی نمکیات پر منحصر ہے۔

وٹامن ای

اس وٹامن کا کیمیائی نام ٹوکو فیرول Tocopherol ہے عام غذا سے انسان کی روزانہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے، اس لئے اس کی کمی واقع نہیں ہوتی۔ وٹامن ای کا استعمال افزائش نسل کے لیے ضروری ہے اور مرد اورعورت دونوں کے لیے فائدہ مند ہے ۔ اس کی غیر موجودگی نامردی اور بانجھ پن پیدا کرتی ہے۔ وٹامن ای کی مقدار اگر مناسب اور متواتر لذا میں مہیا ہو تو جسم میں فولاد اور چونے کے اجزا جذب کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔

قدرتی ذرائع

یہ وٹامن مکئی کے تیل ، سرسوں کے تیل میں پایا جاتا ہے جبکہ اس کا بہترین ذریعہ تخمک گندم Wheat germ oil ہے ۔ اس کے علاوہ انڈے کی زردی ، زرد پتوں والی سبزیاں، چاکلیٹ اور خمیر وغیرہ میں پائی جاتی ہے۔

فائدے

اس کا جسم میں سب سے اہم کام عضلات کے عمل تحول میں ہائیڈ روجن مہیا کرنا ہے۔(۲) اس کی موجودگی میں وٹامن اے سی میں عمل تکسید Oxidation نہیں ہوتا اور جسم کی نشو و نما کے لیے فائدہ مند ہے۔(۳) اگر وٹامن ای حمل کے پہلے ایک یا دو ماہ کے دوران استعمال کرلی جائے تو اسقاط حمل کا خدشہ نہیں رہتا۔(۴) اس سے جسم مضبوط اور وزن بڑھتا ہے۔

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.43.46

وٹامن بی اور سی کے فوائد

وٹامن بی

وٹامن بی کا بھی تندرستی سے گہرا تعلق ہے۔ یہ سب سے پہلے دریافت کی جانیوالی وٹامن ہے۔ جسم کے اعصاب، نروس سسٹم اور دل دماغ کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ اعضاء کو مضبوط کرتی ہے، قوت ہاضمہ کو تقویت پہنچاتی اور بھوک لگاتی ہے۔ اوائل عمر میں جسمانی نشوونما کی بہترین مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ چہرے پر تازگی، بشاشت اور جلد پر چکنائی اور ملائمت اس کی موجودگی کے باعث ہی رہتی ہے۔ جسم میں اس کی کمی اور عدم فراہمی سے قلب اور اعصاب بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔

قدرتی ذرائع

وٹامن بی کے حصول کے لیے غذا میں اس کی سب سے زیادہ مقدار گیہوں،جو ، دالوں اور دوسرے اناجوں میں پائی جاتی ہے۔

مشین کے بغیر صاف کئے گئے چاولوں میں اس کی مقدار بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ سبز ترکاریوں، دودھ، دہی، چھاچھ، پنیر، بادام، پستہ کی گوشت اور انڈے کی زردی میں وٹامن ہی بکثرت ہوتی ہے۔ خصوصاً انڈے کی زردی وٹامن کا “مخزن” ہے۔ وٹامن بی پھلوں، ساگ اور سبزیوں میں بھی کافی مقدار میں پائی جاتی ہے۔

وٹامن سی

طبی نقطہ نظر سے غذا میں وٹامن سی کی موجودگی آنکھوں اور دانتوں اور مسوڑھوں کے امراض سے محفوظ رکھتی ہے ۔ خون کی کمزوری اور جسم کی لاغری کو دفع کرتی ہے ۔ جلدی بیماریاں، فساد خون وغیرہ سے محفوظ رکھتی ہے۔ ہڈیوں کی مضبوطی نشوونما کی معاون اور بینائی کی محافظ ہے۔ غذا میں اس کی کمی یا غیر موجودگی بہت سے امراض کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔

ذرائع

یہ ہمیں ترش پھلوں مثلاً نارنگی، مالٹے، لیموں اور سب سے زیادہ امرود، اس کے علاوہ آلو شکر قندی شلجم، گاجر، ٹماٹر، ہری مرچ اور گوشت میں پائی جاتی ہے۔ یہ پانی میں حل پذیر وٹامن ہے ۔ یہ وٹامن جسم میں نہیں بنتا، اس لئے غذا میں اس کا ہونا ضروری ہے۔ یہ وٹامن جسم کے کئی اہم افعال میں حصہ لیتا ہے۔ مثلاً امینو ایسڈز کا تحول، خلیوں میں لوہے کے نمک کی تحلیل، دانت اور ہڈیوں کی ساخت میں استعمال ہوتا ہے۔

دوسرے وٹامنز کے برعکس یہ اناج میں نہیں ملتا اور دودھ اور گوشت میں بھی کم مقدار میں پایا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر پھلوں اور سبزیوں میں ہوتا ہے۔ اس لئے اگر غذا میں پھل اور سبزیاں کم ہوں تو جسم کو اس وٹامن کی مناسب مقدار مہیا کرنے کا انتظام کرنا چاہیے۔ مثلاً درمیانی قسم کے دو کینو یا ٹماٹر ، آدھا گریپ فروٹ، ایک چھٹانک لیموں کا رس، آدھا خربوزہ اور چوتھائی حصہ تربوز ایک بالغ کی یومیہ ضرورت کو پورا کردیتا ہے۔

فائدے

دانتوں اور مسوڑھوں کی تندرستی کا ضامن ہے۔

یہ زخم کے مندمل ہونے میں مدد دیتی ہے کیونکہ اس کی موجودگی سے کولاجن پروٹین (Collageen Protein) بنتی ہے، جو زخم ٹھیک کرنے کے لیے ضروری ہے۔

ہیموگلوبن بنانے میں اہمیت رکھتی ہے۔(۴) یہ جسم میں قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔(۵) وٹامن سی بدن میں لچک پیدا کرتا ہے اور رگوں کو قوت بخشتا ہے۔

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.48.16

وٹامن اے کے اہم فوائد

وٹامن اے

وٹامن اے غذا کا جزواعظم ہے ۔ روزانہ غذا میں اس کی مناسب و متوازن مقدار میں موجودگی صحت انسانی پر غیر معمولی اثرات پیدا کرتی ہے۔ جسم تندرست و توانا اور چہرہ تروتازہ اور بارونق رہتا ہے۔ جلد چکنی، آنکھیں روشن اور چمکیلی رہتی ہیں بچوں کی غذا میں وٹامن اے کا بےحد دخل ہے۔ پھیپھڑے پر آنتوں کے امراض سے انسان کو محفوظ رکھتی ہے اور جلدی بیماریوں کو روکتی ہے ۔ بالخصوص مدافعت امراض کی قوت بڑھاتی ہے، غذا میں اس کی کمی صحت پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔

ذرائع

وٹامن اے حاصل کرنے کے دو بڑے ذرائع حیوانی اور نباتاتی ہیں۔ حیوانی ذرائع میں دودھ، دہی، انڈا، مچھلی، گوشت گھی مکھن اور کلیجی میں پایا جاتا ہے اور نباتاتی ذرائع میں زرد رنگ کی سبزیوں مثال گاجر، زرد شلجم، میٹھے کدو، زرد آڑو اور مکئی میں ملتا ہے، اس کے علاوہ تمام سبز پتوں والی سبزیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔

یہ وٹامن بڑی مقدار میں کاڈ مچھلیی کے جگر کے تیل میں پایا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کاڈ مچھلی چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے۔ ان چھوٹی مچھلیوں کی خوراک چونکہ سمندری کائی اور سمندری گھاس ہوتی ہے۔ چنانچہ وٹامن اے کا اصلی ذخیرہ ہری گھاس اور نباتات میں ہوتا ہے۔ وٹامن اے چکنائی میں حل پذیر ہے آئندہ استعمال کے لیے جسم میں زیادہ تر جگر میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ بچپن میں اس کی مقدار جسم میں کم ہوتی ہے لیکن عمر کے اضافے کے ساتھ ساتھ اس کا ذخیرہ زیادہ ہو جاتا ہے ۔ اگر مہینہ بھر وٹامن اے انسان کو نہ ملے تو جسم کی ضرورت جگر سے پوری ہوتی رہتی ہے۔

فائدے

اس سے جسم سڈول اور خوبصورت بنتا ہے، انسان صحت مند اور طاقت وررہتا ہے۔

آنکھوں کی بینائی اور صحت کے لیے ضروری ہے وٹامن اے سے شکستہ عضو کے اجزاء کو جوڑنے میں مدد ملتی ہے۔

اس وٹامن کی موجودگی ہمارے جسم کی اس قوت کے استحکام کا باعث ہوتی ہے جس سے ہم قدرتی طور پر بیماریوں سے اپنا تحفظ کر لیتےہیں۔

WhatsApp Image 2024-02-06 at 08.50.49

“انسانی جسم کی تعمیر میں کن اجزاء کی ضرورت ہے….؟

انسانی جسم کی نشو نما ایک مکان کی تعمیر سے مشابہت رکھتی ہے۔ جب ہم کوئ مکان بنانا چاہتے ہیں تو مختلف تعمیری اشیاء کومنتخب کرتے ہیں تو بنیادی طور پر عمارت کی اچھی یا بری تعمیر کا انحصار تعمیری اشیاء کی اچھائی یا برائی پر ہوتا ہے۔ بالکل یہی حال جسمانی عمارت کی نشود نما کا ہے۔ اگر تعمیر خراب ہوگی تو اسے ہمیشہ مرمت کی ضرورت درپیش رہے گی اور ہم آئے دن نئی نئی بیماریوں کا شکار رہیں گے۔

جسم کا سب سے بڑا معمار ہماری قوت حیات ہے جس کے کئی مددگار ہیں ان مددگاروں میں سے نہایت اہم مدد گار وٹامنز“ کہلاتے ہیں۔ یہ جسم کے بنانے اور ان کی مرمت میں وہی کام انجام دیتے ہیں جو کسی کام کے بنانے میں سنگ تراش، معمار اور بڑھی۔ ان کا ریگروں کے ناموں کی طرح وٹامنز کے بھی الگ الگ نام میں اور وہ وٹامنز اے ۔ بی ۔سی۔ ڈی اور ای کہلاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جسم کی تعمیر میں ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے۔

وٹامنز کی کمی کا نقصانات

وٹامنز کی کمی سے جسمانی نشوونما رک جاتی ہے اور رفتہ رفتہ جسم کمزور ہو کر اس میں سے بیماریوں کے مقابلے کی قوت زائل ہو جاتی ہے اور انسانی صحت بگرد جاتی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہماری صحت بگڑ سے بطور حفظ ما تقدم ہمیں ان امور کا خیال رکھنا چاہیے۔ بجائے سینکڑوں روپے ادویات پر خرچ کرنے کے لذا اور صحت کے زریں اصولوں پر کار بند ہو کر امراض سے محفوظ رہنے کی کوشش کی جائے لہذا ہمیں ایسی غذائیں استعمال کرنی ہیں جن میں ہر قسم کے وٹامنز موجود ہوں خصوصاًوٹامن اے کافی مقدار میں ہو۔

تندرستی کے حصول میں غذا کو بڑی قدرت حاصل ہے امراض کا مقابلہ کرنےمیں غذا کا %80 حصہ ہوتا ہے۔

دن رات محنت و مشقت کرنے سے ہمارے جسم کے بعض اجزا تحلیل ہوتے رہتے ہیں ان اجزاء کی کمی پوری کرنے کے لیے صحت بخش غذا کا استعمال ضروری ہے۔ ہماری جسمانی عمارت کی جنگی کا انحصار غذا پر ہے چنانچہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے که اگر کسی انسان کو متواتر کھانے کو نہ دیا جائے تو وہ کمزور اور لاغر ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ کمزوری اور لاغری اس درجے تک پہنچ جاتی ہے کہ موت واقع ہو سکتی ہے۔بر صغیر میں نوے فیصد امراض ناقص غذا کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ غذا جسم انسانی کے لیے ایندھن کے مترادف ہے کیونکہ ہماری روز مرہ کی غذا میں بعض طبیعی اجزا معدنی عناصر، تیزابی مادے اور کئی قسم کے وٹامنز قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں اور جسم کے لیے ڈاکٹری اصطلاح میں قوت مہیا کرتے ہیں ۔

غذا اور غذایت لازم وملزوم

غذا اور غذائیت لازم و ملزوم ہیں۔ غذائیت کے بغیر غذا بالکل بے کار شے ہے اسی طرح زندگی اور صحت کے ساتھ غذا کے عناصر حیات کا گہرا تعلق ہے، اس لئے ان کی کمی یا غیرموجودگی کے باعث انسان متعدد امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ اکثر امراض غذا میں وٹامنز کی کمی کے باعث رونما ہوتے ہیں، اس کے علاوہ بعض خاص خاص وٹامنز کی غیر موجودگی بعض اوقات شدید نقصانات پیدا کر دیتی ہے اور اس طرح امرانس کے مقابلے میں انسانی جسم سے قوت مدافعت مفقود ہو جاتی ہے۔ امراض کے مقابلے کی قوت کو برقرار رکھنے اور صحیح جسمانی تعمیر کے لیے ہماری غذا میں وٹامنز کے علاوہ ایک خاص کیمیائی عنصر بھی پایا جاتا ہے جسے ڈاکٹری اصطلاح میں ” پروٹین کہتے ہیں۔ انسانی جسم کی تعمیر میں پروٹین کا وہی درجہ ہے جو ایک مکان بنانے میں اینٹوں کا گوشت اور خون ہماری خوراک کے پروٹین سے بنتے ہیں۔

وٹامنز کس چیز میں زیادہ ہوتی ہے

ساگ، سبزی اور پھل میں پروٹین بہت کم ہوتی ہے، بدن کو پروٹینی غذائیں مہیا کر نیوالی غذائیں جن میں دودھ بلائی ،گوشت، مکھن، مچھلی، انڈا، جو کا دلیہ، بے چھنے آئے کی روٹی ، آلو۔ سویابیں، مٹر، دالیں اور پھلیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ دودھ، دہی، چھاچھ۔ گہیوں، چنا، مٹر اور دالوں میں پروٹین زیادہ ہوتی ہے۔مگر گوشت، انڈے، مچھلی ، ماش کی دال اور سویابین میں بہت زیادہ۔

FB_IMG_1699604689423

دل کی بیماریاں اور اس کا علاج

دل اعضائے انسانی کا بادشاہ ہے ۔ اس لیے اس کے متبلا کے رض ہونے پر قیمتی اور خوشبو دار دوائیں دینا پڑتی ہیں۔ مثال کستوری۔ مروارید – عنبر ۔سونا۔ چاندی وغیرہ جن کا حصول تو کجا غربا کو ان کا ایک نظر دیکھنا بھی محال ہے ۔ مگر یاد رہے۔ انسانوں کا خالق اللہ فقط امیروں کا ہی خدا نہیں وہ غریبوں کا بھی دالی ہے۔ اس لیے اول تو غریب لوگ دل کی بیماریوں میں بہت ہی کم مبتلا ہوتے ہیں۔ آئے دن بڑے بڑے امیروں کے دل فیل ہو کر مرنے کی خبریں سننے میں آتی ہیں۔ بڑے بڑے رئیسوں کو ہی دل کے دورے وپڑتے ہیں ۔ غریبوں کو رحیم وکریم مولی نے ایسی بماریوں ہے بہت تک بچا رکھا ہے غریبوں کو ان کی محنت اور مشقت کے نتیجہ میں جو سچی بھوک لگتی ہے ۔ اور انہیں معمولی روکھی سوکھی روٹی اور چینی وغیرہ میں جو مزہ آتا ہے وہ امیروں کو کہاں نصیب اور پھر اُن کو رات کے وقت جو گہری نیند آتی ہے اس کا عشر عشیر بھی امراء کو نصیب نہیں ہوتا ۔ لیکن اس کے باوجود اگر کبھی کبھار کسی غریب کو بھی دل کی کسی بیماری میں مبتلا پائیں تو اُن کے لیے اپنے تجربہ اور مشاہدے میں آنے والی چند بلاقیمت ادویات درج کرتے ہیں ان کے فوائد ملاحظہ فرمائیے۔ ان شاء اللہ قیمتی یاقوتیوں کا کام دیں گی۔

سنگترے کا چھلکا :

هو الشانی: طبیبوں کے باوا آدم جناب شیخ الرئیس بو علی سینا مرحوم نے دل کی بیماریوں کی جو قیمتی اکسیریں بیان کی ہیں ان میں سنگترہ کا چھل کا بھی شمارہ کیا ہے ۔ آپ لوگ موسم میں جمع کر کے اور سایہ میں خشک کر کے رکھ لیں اور بوقت ضرورت اس کا عرق کشید کر کے یا بطور سفوف دے کر اس کے فوائد کا مشاہدہ کریں۔ اور راقم السطور کو دعائیں دیں۔

گاجر

سیب ایک ایسا پھل ہے جس کے متعلق تقریباً تمام ڈاکٹر حکیم دل کی بیماریوں کے لیے اکسیر قرار دیتے ہیں۔ سیب کی قاشیں بناکر کھلانا سیب کا مربہ استعمال کرانا سیب کا شربت بنا کر پلانا یہ ہر طرح مفید ہی مفید ہے ۔ مگر غریبوں کو سیب کا حصول بھی محال ہے ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا سیب عطا کر رکھا ہے۔ میری مراد گاجر سے ہے۔ خصوصاً وہ گاجر جوندر و سرخی مائل ہوتی ہے ۔ وہ دل کے لیے ہے حد مفید ہے ، غریبوں سے ہمدردی رکھنے والے طبیب حضرات کو چاہئیے ۔ کہ وہ گاجر کو اس کے موسم میں لے کر سایہ میں خشک کر لیں ۔ اور سفوف بنا کر رکھ چھوڑیں اور پھر اس موسم میں جس میں گاجر دستیاب نہیں ہوتی اس کا عرق کشید کر کے استعمال کرائیں گلاب کے عرق کی طرح اگر اسے دو آتشہ اور سہ آشہ خالیا جائے تو سبحان اللہ اس کے سامنے سیب کے مرکبات پیچ ہو کر رہ جائیں گے۔

دھنیا

کوئی غریب سے غریب گھر بھی اس نعمت عظمی سے خالی نہیں ہوتا کسی اللہ کے دانا بندے نے مرچوں کے ضرر سے بچنے کے لیے اس کو شامل مصالحہ کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے مرچوں کے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ ننھے ننھے بیج بھی دل کی انجر بیماریوں کے لیے جو گرمی کی نہ یادتی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں مفید ہیں۔ شیخ الرئیس نے اپنی کتاب میں اسے بھی اکسیر قلب گردانا ہے۔ آپ اس کا عرق کشید کر کے یا مصفوف نا کر استعمال کرائیں۔ اس کا شربت بھی بنایا جاسکتا ہے۔ موسم گرما میں کوئی دوسرا مشروب پینے کی بجائے اسے پلایا جائے۔

دوائے دل : :

دل کی بیماری کا علاج کوئی دل والا ہی کہ اسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے بعض معمولی معمولی دواؤں میں خوب اثر رکھا ہے۔ چنانچہ بانی طلب مرحومہ کا ایک معمول پیش خدمت ھو الشافی مکئی کے بھٹے سے دانے نکال کر استعمال میں لائیں اور خالی خولی بٹھے کو جلا کر راکھ بنا لیں بس یہی دوائے دل ہے۔ سبحان اللہ۔

تی کی مقدار میں لے کر مکھن میں ملا کر چٹائیں اور موتیوں والا کام لیں۔